عادل فراز
اسرائیل اپنی تخریبی کاروائیوں کے لیے عالمی شہرت کا حامل ہے۔ آج پوری دنیا میں جو افراتفری مچی ہوئی ہے اس کی ذمہ داری بھی اسرائیلی استعماری پالیسیوں پر عائد ہوتی ہے۔ استعمار نے جس طرح منظم سازش کے تحت اسرائیل کو مشرق وسطیٰ میں استحکام بخشا اور اس کو بہ حیثیت ریاست تسلیم کروانے کے لیے جو خونی کھیل کھیلاگیا، اس کی مثال نہیں ملتی۔ آج مشرق وسطیٰ کی عدم استحکامیت، مختلف ممالک پر تھوپی ہوئی جنگیں اور بدتر ہوتی ہوئی معاشی صورتحال، اور نہ جانے کتنے ایسے مسائل ہیں جو دنیا کے سامنےچیلینج بن کر کھڑے ہوئے ہیں، ان سب کی ذمہ داری اسرائیلی استعماری پالیسیوں پر عائد ہوتی ہے۔ اسرائیلی ایجنسیاں اپنی تخریب کاری اور جاسوسی کے لیے دنیا بھر میں بدنام ہیں۔ اس وقت دنیا کے اہم اور طاقتورترین ممالک اسرائیلی جاسوسی نظام کی زد میں ہیں۔ پیگاسیس جاسوسی کا انکشاف مختلف ملکوں میں ہواہے جس کے بعداس جاسوسی نظام کی تباہ کاریوں اور اس کے نقصانات کے اندازے کے لیے تحقیقات کی جارہی ہیں۔ فرانس کے صدر میکرون نے تو جاسوسی کے خوف سے اپنا اور اپنے اہل خانہ کے موبائل تک تبدیل کردیے۔ مگر کیا موبائل کی تبدیلی جاسوسی سے محفوظ رہنے کی دلیل ہے؟ ہرگز نہیں! جس جاسوسی نظام نے پہلے ان کے موبائل کی نگرانی کی تھی، آگے بھی مختلف شکلوں میں نگرانی کرتا رہے گا۔ اسی طرح فرانس،روس اور کئی دیگر ممالک میں جاسوسی کے معاملات سامنے آئے ہیں جن کی تحقیقات کی جارہی ہے۔ ہندوستان میں بھی مختلف شخصیات کی جاسوسی کرائی گئی جو انتہائی نازک معاملہ ہے مگر حکومت جو اس جاسوسی کی مرتکب تسلیم کی جارہی ہے، تحقیقات سے فرار کررہی ہے۔
واضح رہے کہ جن اداروں نے پیگاسیس جاسوسی کی رپورٹ جاری کی ہے انہوں نے یہ بھی واضح کیاہے کہ جن لوگوں کے نام فہرست میں شامل ہیں ضروری نہیں ہے کہ ان سبھی کی جاسوسی کرائی گئی ہو۔ یہ حقیقت تو فورنسیک جانچ کے بعد ہی سامنے آسکتی ہے۔ یعنی ان اداروں نے بھی یہ واضح کردیاکہ اس معاملے کی جانچ ضروری ہے اور بغیر جانچ کے حقیقت سامنے نہیں آسکے گی۔ پوری دنیا میں 50 ہزار سے زیادہ موبائل فونز پیگاسیس سافٹ وئیر کے ذریعہ جاسوسی کا شکار ہوئے ہیں جن میں 14 اہم ملکوں کے سربراہان اور رہنما شامل ہیں۔ ہندوستان میں اس سافٹ وئیر کا استعمال۳۰۰ سے زائد سرکاری اہلکاروں، سرکاری و حزب اختلاف کے رہنمائوں، میڈیا اداروں اور دیگر افراد کے خلاف استعمال کیا گیاہے۔
المیہ یہ ہے کہ سرکارپر اپنے ہی نئے وزیر اطلاعات اشونی ویشنو کے فون کی نگرانی کا بھی الزام ہے لیکن پارلیمنٹ میں نئے وزیر اطلاعات اشونی ویشنو پیگاسیس جاسوسی معاملے پر سرکار کی صفائی دیتے نظر آئے۔ انہوں نے اپنے بیان میں یہ واضح نہیں کیاکہ آیا سرکار نے پیگاسیس سافٹ وئیر کی خریداری کی ہے یا نہیں۔ اب تک سرکار اس سوال کا جواب دینے سے کتراتی رہی ہے کیونکہ اگر سرکار اس بات کا اعتراف کرلیتی ہے کہ اس نے اسرائیلی کمپنی سے پیگاسیس سافٹ وئیر کی خریداری کی ہے تو پھر وہ جاسوسی کے الزمات سے کیسے بچ سکتی ہے۔ ابھی تک تو یہ بھی پوری طرح صاف نہیں ہے کہ اس سافٹ وئیر کے ذریعہ مزید کن کن افراد کی جاسوسی کرائی گئی۔ یہ حقیقت تو جانچ کے بعد ہی سامنے آسکتی ہے مگر جانچ کے لیے سرکار رضامند نہیں ہے۔ جانچ ضروری ہے تاکہ یہ معلوم ہوسکے ہندوستان میں اسرائیلی جاسوسی نظام کی زد میں اور کون کونسی شخصیات ہیں۔ اس کے ممکنہ نقصانات کیا ہوسکتے ہیں یا اب تک کیا نقصانات ہوچکے ہیں۔
حزب اختلاف کا الزام ہے کہ حکومت نے پیگاسیس سافٹ وئیر کی خریداری کی ہے اور اس کے لیے بڑا بجٹ خرچ کیا گیاہے۔ حزب اختلاف کے مطابق 4.8 کروڑ ڈالر پیگاسیس سافٹ وئیر کی خرید پر خرچ کیے گئے ہیں۔ حکومت اس الزام کی تردید میں کوئی معقول جواز پیش کرنے سے قاصر رہی ہے کیونکہ پیگاسیس سافٹ وئیر کی خرید سے ٹھیک پہلے آئی ٹی بجٹ میں بے تحاشہ اضافہ کرنا حکومت کی نیت کو زیر سوال لارہاہے۔ راہل گاندھی نے حکومت پر الزام عائد کرتے ہوئے کہاہے کہ حکومت پیگاسیس سافٹ وئیر کو اپنے مخالفین کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کررہی ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جاسوسی کی زد میں سرکار کے اپنے لوگ بھی شامل ہیں۔ اس لیےاس کی حساسیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ ملک کی سرکردہ سائنس دان اور وبائی امرض کی ماہر ڈاکٹر گگن دیپ کانگ کا نام بھی اس فہرست میں شامل ہے۔ قابل غور ہے کہ آخر ان کی جاسوسی کراکر سرکار کو کیا فائدہ پہونچ سکتاہے؟۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی جنہوں نے بابری مسجد کا متنازع فیصلہ سنایا تھا، ان پر عصمت دری کا الزام عائد کرنے والی خاتون کے موبائل فون کی جاسوسی بھی کرائی گئی، یہ تشویش ناک عمل ہے۔ اسی طرح میڈیا اداروں کی جاسوسی اپنے آپ میں بہت حساس مسئلہ ہے۔ میڈیا کو جمہوریت کا اہم ستون تسلیم کیا جاتاہے جبکہ ہندوستان کا موجودہ میڈیا سرکا ر کا زرخرید غلام ہے، مگر کچھ میڈیا ادارے ایسے بھی ہیں جو اپنے فرائض کی انجام دہی کے لیے جی جان سے محنت کرتے ہیں، ان کی جاسوسی کے مسئلے کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔
اگر ہم سافٹ وئیر بنانے والی کمپنی این ایس او کے دعویٰ کو سچ مان لیں تو اس سافٹ وئیر کے تخریبی نتائج کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔ این ایس اوکے مطابق اس سافٹ وئیر کو دہشت گردو انتہا پسند تنظیموں، منشیات اور انسانی اعضاء کی اسمگلنگ،بچوں کے جنسی استحصال کرنے والے مختلف گروہوں اور تنظیموں کی نگرانی کے لیے استعمال کیاجاتارہاہے۔ مگر فی الوقت اس کا استعمال مختلف ملکوں میں سرکاری اور غیر سرکاری بااثر افراد کی جاسوسی کے لیے کیا جارہاہے۔ جمہوری اور سیکولر ممالک میں اس سافٹ وئیر کا استعمال جمہوریت اور سیکولر ازم کے لیے انتہائی خطرناک عمل ہے۔ اگر آپ جمہوریت میں یقین رکھتے ہیں تو پھر اپنے دوستوں، اقرباء، حزب اختلاف کے رہنمائوں اور میڈیا کے اداروں کی جاسوسی کی ضرورت کیاہے ؟۔ سرکارکو جاسوسی کی ضرورت اس وقت ہوتی ہے جب جمہوریت سے اس کا اعتبار ختم ہوچکاہوتاہے۔ جمہوریت پر بے یقینی کی کیفیت جاسوسی اور آمریت پر مائل کرتی ہے۔ ہندوستان میں یہ صورتحال زیادہ بھیانک شکل اختیار کررہی ہے۔ ایسے حالات میں کہ جب سرکار کی مقبولیت دن بہ دن کم ہوتی جارہی ہے، مختلف تنظیمیں اور ادارے سرکار کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کررہے ہیں، مختلف ریاستوں میں الیکشن کا زمانہ نزدیک ہے یا عنقریب الیکشن ختم ہوئے ہیں، جاسوسی کے معاملات کا سامنے آنا ہماری جمہوری اقدار کے لیے مہلک ہے۔ سپریم کورٹ کو اس جاسوسی پر نوٹس لینا چاہیے اور معاملے کی غیر جانبدارانہ جانچ کرانی چاہیے۔ جانچ کے بعد ہی یہ معلوم ہوگا کہ آخر اس سافٹ وئیر کا استعمال کہاں اور کن شخصیات کے خلاف اور کیوں ہواہے۔ سرکار نے مختلف ریاستوں کے انتخابات کو متاثر کرنے کے لیے اس سافٹ وئیر کا استعمال کیاہے یا نہیں ؟۔ سرکار جانچ سے بچنا چاہتی ہے مگر اس معاملے کی جانچ جمہوری اقدار کے تحفظ کے لیے نہایت اہم ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے تعاون سے جو تحقیق سامنے آئی ہے اس میں سماجی کارکنان،سیاسی رہنما،صحافی اور آئینی عہدوں پر فائز شخصیات کی جاسوسی کا انکشاف ہواہے۔ چونکہ حکومت پیگاسیس جاسوسی معاملے کی جانچ نہیں چاہتی ہے اس لیے سی پی ایم کے راجیہ سبھا کےرکن جان بریٹاس نےعدالت عظمیٰ میں اس معاملے کی جانچ کے لیے عرضی داخل کی ہے۔ عدالت عظمیٰ بذات خود اس معاملے کی حساسیت اور منفی نتائج سے واقف ہے، اس لیے امید کرتے ہیں کہ جلد از جلد اس معاملے کی عدالتی جانچ شروع ہوگی۔ جانچ کے بغیر پیگاسیس جاسوسی معاملے کی حقیقت کا سامنے آنا ممکن نہیں، یہ بات عدالت عظمیٰ بھی بخوبی جانتی ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔