ابراہیم رئیسی: رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

ڈاکٹر سلیم خان

ارشادِ ربانی ہے :’’(اللہ) وہ ہے جس نے موت وحیات کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے عمل کے اعتبار سے بہترین کون ہے ‘‘۔ انسان کا مقصدِ وجود آزمائش ہے اور اس کے لیے زندگی  اور موت  کی یکساں اہمیت ہے ۔  امتحان کا اختتام لازم ہے تاکہ نتائج کا اعلان ہو  اور کامیاب و کامران ہونے والوں کو انعام و اکرام سے نوازہ جائے۔  موت و حیات کے سلسلے کا آغاز  یوں ہوا کہ:’’اور اے نبی، لوگوں کو یاد دلاؤ وہ وقت جبکہ تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور انہیں خود ان کے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا "کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟” انہوں نے کہا "ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں، ہم اس پر گواہی دیتے ہیں‘‘۔  ابتدائے آفرینش میں اس مشاہدہ اور شہادت  کی ضرورت یہ بتائی گئی کہ :’’یہ ہم نے اس لیے کیا کہ کہیں تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ دو کہ "ہم تو اس بات سے بے خبر تھے۔‘‘ اس کے بعدہرانسان پرایک  وقت خاص  تک  معدومیت کا دور گزرا ۔ ارشادِ قرآنی ہے :’’ بے شک انسان پر ایک ایسا وقت آچکا ہے کہ کہیں اس کا نام ونشان نہ تھا‘‘اور پھر ہر فرد بشر کو وقت مقررہ پر دنیوی  زندگی کی مہلتِ عمل  عطاکی گئی ۔ فرمانِ خداوندی ہے:’’تم اللہ کا انکار کیونکر کرتے ہو ‘حالانکہ تم مردہ تھے تو اُس نے تمہیں زندہ کیا ‘ پھر تمہیں مار ڈالے گا‘ پھر تمہیں زندہ کرے گا‘ پھر تم اُسی کی طرف لوٹائے جائو گے‘‘۔ کائناتِ ہستی میں انسانی زندگی  بظاہر موت پر اختتام پذیرہوتی ہے جو  عارضی  عرصۂ حیات کا خاتمہ تو ہے مگر دائمی زندگی  کی شروعات بھی ہے۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں؎

موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی 

ہے یہ شامِ زندگی‘ صبحِ دوامِ زندگی

ایران کے صدر ابراہیم رئیسی اپنی مدت کار مکمل کرکے خالق کائنات کی طرف لوٹ گئے۔اللہ تبارک و تعالیٰ ان کو جنت الفردوس میں  بلند درجات پر فائز فرمائے ۔    اسلامی جمہوریہ ایران کی  صدارت کے عہدے پر فائز ہونے والے مرحوم رئیسی  14 دسمبر 1960 کو ایران کے شہر مشہد کےاندر ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوے ۔ پانچ سال کی عمر میں یتیم ہوجانے والا بچہ آگے چل کر   نہ صرف ایک کامیاب  سیاستدان بلکہ ماہر قانون اور مصنف بن گیا۔ قُم کے مدرسے تعلیم پانےکے وہ  20 سال کی عمر میں وہ  سرکاری وکیل بن گئے اور ترقی کرکے جوڈیشل اتھارٹی کے نائب سربراہ سے ہوتے  ہوئے 2014 میں ایران کے پراسیکیوٹڑ جنرل مقرر ہوئے۔2021 میں وہ  62.9 فیصد ووٹ حاصل کرکے صدر منتخب ہوئے۔ انہوں نے ایسے وقت میں ملک کی باگ ڈور سنبھالی جب ایران میں سماجی بحران امریکی پابندیوں کے سبب شدید معاشی دباؤ  تھا۔اس پر قابو پانے کے لیے رئیسی نے  2023میں  چین کا دورہ کیااور صدر شی جن پنگ کے ساتھ  20 معاہدوں پر دستخط  کرکے ملک کو معاشی استحکام دیا۔

 ابراہیم رئیسی علاقائی خود مختاری کے قائل تھے ۔ انہوں نے مارچ 2023 میں علاقائی حریف سمجھے جانے سعودی عرب سے ۷؍ سالہ منقطع  سفارتی تعلقات بحال کر کے دیگر عرب ممالک سے رشتے استوارکرلیے۔  ابراہیم رئیسی نےنئے تعلقات تو بنائے مگر پرانے رشتوں کو برقرار رکھا ۔ یمن میں سعودی ناکہ بندی کی شدید مخالفت کے ساتھ انہوں نے  یوکرین جنگ میں  کھل کر روس کی حمایت کا اعلان کیا۔ انہیں کے دورِ اقتدار میں ہمسایہ  افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء توانہوں نے محدود فقہی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کرافغانستان میں استحکام کی  بھر پور حمایت کرکے طالبان کو  ہمنوا بنالیا۔ پچھلے مہینے پاکستان کا 3 روزہ دورہ کرکے باہمی تجارت 10 ارب ڈالر تک بڑھانے کا عہد کیا۔اس ماہ امریکی پابندیوں کے سبب تعطل کا شکار چابہار بندرگاہ کی تعمیر کی خاطرہندوستان  کےساتھ  معاہدے پر دستخط کیےاور نئی دہلی کو 10 سال تک کی سہولت و رسائی دی ۔ اس طرح امریکی تسلط کےعلی الرغم  علاقائی تعاون کو فروغ دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ سارا عالم ان کی رحلت سے سوگوار ہے؎

موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس

یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لیے

 ڈاکٹر رئیسی کا دور اقتدار اپریل 2024 میں اسرائیل پر براہ راست سیکڑوں میزائل اور راکٹ حملے کے لیے بھی یاد کیا جائے گا۔  یہ جرأتمندانہ فیصلہ اسرائیل اور مغربی طاقتوں کے تصور خیال سے پرے تھا۔   ابراہیم رئیسی  نے 7؍ اکتوبر کو اسرائیل پر ہونے والے حملے کی حمایت اور  اسرائیلی جارحیت کی  مذمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی  اور وہ آخر دم تک  امریکہ کی مدد سے اسرائیل کی  غزہ میں فلسطینی نسل کشی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ر ہے۔ آذربائیجان کےاپنے آخری دورے میں  ڈیم کا افتتاح کرنے کے بعد اپنی  تقریر میں ابراہیم رئیسی نے فلسطینیوں کے لیے ایران کی غیرمشروط حمایت کا اعادہ کیا تھا۔ ایرانی صدر نے کہا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ فلسطین مسلم دنیا کا سرفہرست مسئلہ ہے اور ہمیں یقین ہے کہ ایران اور آذربائیجان کے عوام فلسطین اور غزہ کے عوام کی حمایت اور صہیونی حکومت سے نفرت کرتے ہیں۔

 ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی نماز جنازہ میں شرکت کے موقع پر حماس رہنماء اسماعیل ہنیہ نے کہا کہ فلسطینی اور غزہ کے عوام کی جانب سے تہران آیا ہوں تاکہ ایرانی عوام کو تعزیت پیش کرسکوں۔ان کا کہنا تھا کہ ماہ رمضان میں شہید صدر کے ساتھ تہران میں ملاقات ہوئی تھی جس میں انہوں نے فلسطین کے لئے ایران کی ہمہ جہت حمایت کا اعادہ کیا تھا۔ صدر ابراہیم رئیسی نے ملاقات کے دوران کہا تھا کہ فلسطین عالم اسلام کا مسئلہ ہے اور امت مسلمہ کو اس کے حوالے اپنی ذمہ داری ادا کرنا چاہئے تاکہ فلسطینی عوام اور مقدس سرزمین  آزاد ہوسکے۔مرحوم ابراہیم رئیسی کو ایک سخت گیر رہنما کے لقب سے پکارا جاتا ہے مگر انہوں نے بلا مصالحت مزاحمت کی حمایت کرتے ہوئے پرانے رابطوں کو بگاڑے بغیر  جس طرح نئے رشتے استوار کیے اسے دیکھ کر قرآن مجید کی یہ آیت یاد آتی ہے:’’ محمدؐ اللہ کے رسول ہیں، اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں تم جب دیکھو گے اُنہیں رکوع و سجود، اور اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کی طلب میں مشغول پاؤ گے سجود کے اثرات ان کے چہروں پر موجود ہیں جن سے وہ الگ پہچانے جاتے ہیں ‘‘۔ علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے؎

ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم

رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

تبصرے بند ہیں۔