اسوۂ نبوی ﷺ اور ہمارا طرز عمل

مولانا عبدالرشید طلحہ نعمانی

مستند ومعتبر تاریخ اسلام کا زریں آغاز اگر کسی مقدس ہستی کے بابرکت تذکرہ سے ہوسکتا ہے تو بلاشبہ سرورکا ئنات ، فخر موجودات ، امام الانبیاء سرکاردوعالم ﷺ کی انقلاب آفریں اور عہد ساز شخصیت ہی بجا طور پر اس بات کی اولین حقدار ہے جن کے دم سے انسانیت کے خزاں رسیدہ چمن میں بہار نو آئی، جس ماہتاب کی ایک ہی کرن نے ظلمت کدہ گیتی کو مطلع انوا ر بنادیا اور 23 ؍ سالہ اس قلیل عرصہ میں حق وصداقت ،ر شد وہدایت اور تہذیب وثقافت کی ایسی قندیلیں روشن کی کہ قیامت تک آنے والی انسانیت اس سے رہنمائی وروشنی حاصل کرتی رہے گی ۔
9؍ ربیع الاول ،مطابق 22؍ اپریل ۵۷۰؁ء بروز دوشنبہ صبح صادق کے سہانے وقت اس شمع فروزاں مہر درخشاں اور نیر تاباں کا ظہور مسعود ہوا جس نے نظامہائے حیات کے مختلف گوشوں میں ایسے قابل قدر اور لائق تقلید ان مٹ نقوش چھوڑے کہ تاریخ اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز وقاصر ہے ،راقم ِ آثم حیراں وسرگرداں ہے کہ اس ذات اقدس کی کتاب ِ زندگی کا کونسا ورق کھولے، چمنستان سیرت کے کس گلدستہ کو پیش کرے، گلشن حیات کے کس خیاباں کا تذکرہ کرے، اخلاق واعمال کا باب کھولاجائے، یا سیاست واقتدارکا، شجاعت وبہادری کی سرگذشت بیان کی جائے یا طہارت وپاکیزگی کی ، عدل وکرم گستری کے حالات بیان کئے جائیں یا سخاوت وغرباء پروری کے ، الغرض آپ کی سیرت وشخصیت اتنی جامع، ہمہ گیر اور ہمہ جہت ہے کہ جذبہ ٔ عشق سے سرشار ایک عاشق ِ رسول نے اس کی یوں نقشہ کشی کی ہے:

’’سلاطین کہتے ہیں شاہی دربار تھا کہ فوج تھی، علم تھا ،پولس تھی، جلاد تھے ، محتسب تھے، گورنر تھے، کلکٹر تھے، منصف تھے، ضبط تھا، قانون تھا،
مولوی کہتے ہیں :مدرسہ تھا کہ درس تھا ،وعظ تھا ، قضاء تھا تصنیف تھی، تالیف تھی ، محراب تھی ، منبر تھا ۔
صوفی کہتے ہیں خانقاہ تھی کہ دعا تھی ، جھاڑ تھا ، پھونک تھی ، ورد تھا ،و ظیفہ تھا ذکر تھا شغل تھا ، تخت (چلہ )تھا،گریہ تھا، بکاء تھی، وجد تھا ، حال تھا، کشف تھا، کرامت تھی ، فقر تھا ، فاقہ تھا، زہد تھا ، قناعت تھی ۔
مگر سچ تو یہ ہے کہ وہ سب کچھ تھا اس لئے کہ وہ سب کے لئے آیا تھا آئندہ جس کسی کو چلنا تھا جہاں کہیں چلنا تھا ، جس زمانہ میں چلنا تھا اسی روشنی میں چلنا تھا (النبی الخاتم :مولانا مناظر احسن گیلانی )

بے شمار قلم کاروں ، سیرت نگاروں اور تاریخ نویسوں نے آپ ﷺ کی حیات طیبہ کے مختلف گوشوں کو اجاگر کیا اور نہایت لطیف ، انوکھے اور اچھوتے پیرایہ ٔ بیان میں ان کو اس طرح رقم کیا کہ آپ کی سیرت مبارکہ کا ایک ایک جز بلا کم وکاست صفحات ِ تاریخ میں ہمیشہ کے لئے محفوظ ہوگیا مگر چونکہ عبادات وطاعات سے متعلق آپ کی سیرت طیبہ اورعادات ِ شریفہ پر برابر لکھا جاتا رہا ہے اور لکھا جاتار ہے گا اس لئے زیر نظر اس مختصر سی تحریر میں سیرت النبی ا کے ان چند خاص گوشوں کو موضوع بنا گیا ہے جن کو عادتاً کم ہی بیان کیا جاتا ہے :
اخلا ق نبوی کی جامعیت : انسانی فطرت کی رنگا رنگی، طبائع کا تنوع، مزاجوں کا تلون اور کسی بھی واقعہ یا حادثہ سے مثبت ومنفی اثر لینے کی کیفیات میں جو اختلاف وتعدد پایا جاتا ہے اس کا اقتضا ء یہی ہے کہ ہمارا اخلاقی نظام ایسا متوازن ومعتدل ہو کہ اس میں نرم وگرم اور جلال وجمال دونوں قسم کی قوتوں کا حسین امتزاج پایا جاتا ہو، نہ شروع سے آخر تک مسیحیت کی انفعالیت اور عاجزی ہو نہ شریعت موسوی کی قانونیت اور سختی ،اسلامی اخلاق کی سب سے بڑی خوبی ۔۔۔۔۔۔جو اس کو دوسرے مکاتب اخلاق پر فوقیت دیتی ہے۔۔۔۔۔اس کے معلم کا وہ عظیم الشان اسلوب تعلیم ہے جس کی مثال تاریخ کو لاکھ کھنگالنے پر بھی کہیںنہیں ملتی کیونکہ آپ نے قول کے ساتھ عمل اور گفتار کے ساتھ کردار کو ایسا ہم آہنگ اور مربوط فرمایا کہ خود آپ کی ذات ِ اقدس قرآن مجید کی جیتی جاگتی ، زندہ اور تابندہ تصویر بن گئی ،کیونکہ آپ ﷺ کردار کے اعلیٰ ترین معیار پر فائز ، مکارم اخلاق کے متمم اور تحریک ِ رحمت کے وہ عظیم الشان محرک ہیں کہ آپ ہی کی حسین وپرکشش شخصیت (جو ایمان کی جوہری توانائی سے موفور اور سوز محبت ِ انسانی سے معمور ہے) کے اثر ونفوذ سے رفقائے تحریک (صحابہ ؓ)کے دل میں بے مثال جوش وولولہ ، شخصیت میں جاذبیت ، عز م میں پختگی ، حوصلوں میں جوانی اور دعوت میں اثر انگیزی پیدا ہوئی ، مختصر الفاظ میں اگر آپﷺکی بے مثل شخصیت کا نقشہ کھینچا جائے تو بلا مبالغہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ محبت جس کی بنیاد، ذکر جس کا انیس، غم جس کا رفیق، علم جس کا ہتھیار ، صبر جس کا لباس، عجز جس کا فخر، زہد جس کا پیشہ، یقین جس کی قوت، صدق جس کی طاقت، شوق جس کی سواری، اور عقل جس کی اساس ہے وہی نبی اکرم شفیع اعظم حضور ا کی ذاتِ والا صفات ہے ۔
نبوی قیادت وسیادت: کسی بھی انقلاب کی کامیابی کا دارومدار اس کے قائد ورہنما کی فطری صلاحیتوں ، انتھک محنتوں اور لازوال قربانیوں پر ہے، نبی اکرم ﷺ نے حق کی بلندی اور اس کی اشاعت وحفاظت کے لئے ہر قسم کی جدوجہد ، قربانی ، ایثار اور درگذر سے کام لیا اور ہر قسم کی فتنہ انگیزی اور شرپسندی کا قلع قمع کرتے ہوئے ، امن وآشتی ، اخوت وہمدردی اور محبت وبھائی چارگی کا ایسا نمونہ پیش کیا کہ اپنے تو اپنے اغیار بھی آپ کی رحمت ورافت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئے، آپ کی سیرت مبارکہ میں کوئی بھی واقعہ ایسانہیں ملتا جو دین کی جبراً اشاعت کی نظیر بن سکتا ہو ، ہاں اس کے برخلاف لطف وکرم ، ہمدردی وغم گساری اور عفو وچشم پوشی کے لاتعداد واقعات آپ کی صحیفہ حیات کے ورق ورق پر بکھرے پڑے ہیں جو پتھردلوں کو موم کردیتے ہیں ۔
ہجرت نبوی :جب مکہ کی سرزمین آپ ﷺ اور آپ کے صحابہ ؓ پر تنگ کردی گئی تو بحکم الٰہی آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی جس سے یہ بات ثابت کرنی تھی کہ دعوت وعقیدہ کی خاطر ہر عزیز وقریب اور ہر مانوس ومرغوب چیز کو ترک کردینا ضروری ہے کیونکہ یہی دونوں چیزیں دنیا وآخرت کا گراں قدر سرمایہ اور کامیابی وکامرانی کا حقیقی سرچشمہ ہے ، اکثر مغربی مصنفین نے ہجرت کے لئے فرار کا لفظ استعمال کیا ہے جس سے آپ کے میدان چھوڑ کر بھاگ نکلنے کا غلط تصور قائم ہوسکتا ہے جب کہ یہ بات قطعی طور پر غلط اور بے بنیاد ہے کیونکہ مکۃ المکرمہ سے مسلمانوں کا ہٹ جانا ایک دفاعی اقدام تھا تاکہ مدینہ جاکر اپنی منتشر قوت کو مجتمع کیا جاسکے ، اور باقاعدہ کوئی مضبوط ومستحکم پلیٹ فارم تیار کیا جاسکے جس سے دعوت وتبلیغ کے زمزمے بلند کئے جائیں اور احقاق حق وابطال ِ باطل کا فریضہ بحسن وخوبی انجام دیا جائے ، ورنہ غور کیجئے ایک اولو العزم پیغمبر جس کی پشت پر تائیدِ الٰہی ہو ، جو خود دعوت ِ حق پر مامور کیا گیا ہو ، کیا وہ دشمن کے خوف سے راہ فرار اختیار کرسکتا ہے؟؟؟ معاذ اللہ ۔
عہد نبوی میں تعلیمی نظام : ہجرت سے قبل مکۃ المکرمہ میں تو کوئی مستقل تعلیمی مرکز نہیں تھا خو د سرکار دوعالم ﷺ کی ذات اقدس ہی ایک متحرک دینی درسگا ہ تھی ہر تشنہ لب اسی میخانہ سے اپنی تشنگی دور کرتا اور ہر پیاسا اسی چشمہ صافی سے سیرابی حاصل کرتا مگر مدینہ طیبہ میں تعلیمی نظام کو منظم کیا گیا اور مسجد ہی کے ایک گوشہ کو اس کے کئے مختص کردیا گیا اس طرح صحابہ ؓ کی ایک ایک جماعت مستقل وہاں مقیم ہوگئی جن کی غرض صرف ’’اقرأ‘‘ کے قرآنی پیغام پر عمل کرنا اور اس کو دوسروں تک پہونچانا تھا اس کے علاوہ بھی دور دراز مقامات سے مختلف قافلے بغرض تعلیم آپ ا کی خدمت میں حاضر ہوتے اور دین کا ضـروری علم حاصل کرتے ۔
امت مرحومہ کی حالت ِ زار : آج ہماری زبانیں کہتی ہیں کہ رسول ِ خدا کا طریقہ بر حق ہے ، ان کی زندگی بے مثال ہے ان کا حکم واجب الاطاعت ہے اور ساری دنیا کی فوز وفلاح ان ہی کی اتباع میں مضمر ہے مگر ہمارا عمل کہتا ہے کہ ان کا بتا یا ہوا کوئی طریقہ ہمیں پسند نہیں ، ان کے کسی بھی حکم پر ہم رضامند نہیں ، نہ ہمیں ان کی تعلیم محبوب ہے نہ تبلیغ، نہ ان کے مشن سے دلچسپی ہے نہ زندگی سے ، بلکہ ہم دنیا کی نیرنگیوں میں مست اور کائنات کے بھول بھلیوں میںمحو ہوچکے ہیں اس لئے آج کے اس دور میں دردر کی ٹھوکریں کھائی ہوئی امت مرحومہ کے لئے اس محسن انسانیت کا اگر کچھ پیغام ہوسکتا ہے تو وہ صرف یہ کہ اپنے معمولات اور طرز حیات میں انہی کے طریقوں اور سنتوں کو زندہ کیا جائے ، اس جیسے اخلاق وکردار کو اپنا یا جائے اور اس کی متعین کردہ شاہ ِ راہ علم وعمل کو اختیار کیا جائے جس سے ایک با ر پھر ہم زندگی کے مرجھائے ہوئے نقوش میں رنگ بھر سکتے ہیں ، دل کے تاریک گوشوں کو روشن کرسکتے ہیں اور مادیت سے متاثر مغرب زدہ انسانیت کو حیات نو بخش سکتے ہیں ۔
نفش قدم نبی کے ہیں جنت کے راستے
اللہ سے ملاتے ہیں سنت کے راستے

تبصرے بند ہیں۔