اور مسجد شہید ہوگئی

 عزیر احمد
ہوشیار، خبر دار، بادشاہ سلامت کے وزیر میر باقی ایودھیا سے گزرنے والے ہیں، نقاروں پہ چوٹ پڑیں، گلیاروں میں آوازیں گونجنے لگیں، لوگ سرگوشیاں کرنے لگے، فاتح باشادہ کے سپہ سالار آنے والے ہیں، عورتیں دیدار کے شوق میں چھتوں پہ چڑھ گئیں، مرد حضرات سڑکوں پہ دست بستہ پہ کھڑے ہوگئے، دور سے قافلہ آتا دکھائی دے رہا تھا، لوگوں کے دل دھڑک رہے تھے، فاتح فوج کا امیر ہے، نجانے کیا سلوک کرے.
قافلہ قریب آیا،پھر لوگوں نے وہ منظر بھی دیکھا، جس کی انہیں امید نہ تھی، نیاموں میں تلواریں، خاموشی، وقار اور رزانت و رصانت کا مظھر، گردنیں جھکی ہوئیں، اور دلوں میں تسبیح و تہلیل کا ورد، نظروں میں مفتوح قوم کو لوٹنے اور ان کی عورتوں کو باندی بنانے کا شائبہ تک نہیں، امیر نے قافلہ رکنے کا حکم دیا.
ایک دن گزرا، دو دن گزرا، ہے بھگوان، یہ کس دنیا کے باسی ہیں، کہاں سے آئیں ہیں یہ، انہوں نے تو ہمارے گھروں پہ دھاوا نہیں بولا، ہماری عورتوں کو اٹھا کے نہیں لے گئے، کیسے ہیں یہ لوگ، ضرور کچھ تو بات ہے، قافلہ کے پاس پتہ کرنے پہونچے، پتہ چلا ان کے پاس ایک دولت ہے، اسلام کی دولت جو انہیں دیگر دنیاوی دولتوں سے بے نیاز رکھتی ہے، اور لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیتی ہے.
بہت سارے لوگ مسلمان ہوگئے، امیر نے منادی کرادی، ہم یہاں ایک مسجد کی تعمیر کریں گے، تاکہ ہمارے بعد نو مسلموں کو نماز پڑھنے میں پریشانی نہ ہو.
ایک مناسب جگہ دیکھ کر مسجد کی بنیاد ڈال دی، مقامی لوگ بھی جوش و خروش سے بھرے ہوئے تھے، مسلمانوں کے شانہ بشانہ بڑھ چڑھ کے حصہ لیا، مسجد بن کے تیار ہوئی، مسجد کیا تھی، فن تعمیر کا ایک نمونہ، پتھر سے تعمیر کیا گیا تھا، چھت پہ تین گنبد تاج کی طرح بنائے گئے، درمیانی گنبد بڑا اور اردگرد دو اس سے چھوٹے تھے، گنبد چھوٹی اینٹوں کا بنا کر اس پہ چونے سے پلستر کیا گیا، صحن میں ایک کنوان بھی کھودا گیا،  مسجد کو ٹھنڈا رکھنے کی غرض سے اس کی چھت کو بلند بنایا گیا، مسجد بن کے تیار ہوئی تو اس کی نسبت بادشاہ سلامت "بابر” کی طرف کی گئی.
لوگوں نے بڑی محبتوں، عنایتوں اور شفقتوں سے مسجد کی تعمیر کی، اس کے ذریعہ گنگا جمنی تہذیب پروان چڑھی، اذان ہوتی تو ناقوس اور سنکھ خاموش ہوجاتے، لوگ اپنا پوجا پاٹھ چھوڑ کے مسجد کے باہر جمع ہو جاتے، نماز پڑھ کے نکلنے والے نمازیوں سے پانیوں میں دم کرواتے، مریضوں پہ دعا پڑھ کے پھونکواتے.
اسی طرح وقت رفتار کا پر لگا کر اڑتا رہا، لوگ بدلے، حالات بدلے، خیالات کے رخ بدلے، 1525 کا زمانہ کب کا پیچھے چھوٹ چکا تھا، مغلیہ سلطنت کا خاتمہ ہو چکا تھا، اب ہوا کا رخ بدل رہا تھا، ہندوستان کے سیاہ و سفید کے مالک انگریز بن چکے تھے، مگر وہ بھی ہندوستانیوں کا دل جیتنے میں ناکام ہوگئے، بغاوت کی آواز اٹھنے لگی تھی، تو انہوں نے "لڑاؤ اور حکومت کرو” کی پالیسی پہ عمل کرنا شروع کردیا، ملک کی فضا نفرت آلود ہو گئی، انسان انسان سے نفرت کرنے لگا، مذہب کا نام لیکر انسانوں کا خون بہایا جانے لگا، 1853 میں ایودھیا میں پہلا فساد ہوا، کل تک جہاں امن کی آشائیں جلتیں تھیں، وہاں لوگوں کے خون بہنے لگے، نفرت عروج پہ پہونچ گئی، ندی کے دو دھاروں کا ایک ساتھ چلنا مشکل ہوگیا، 1859 میں برطانوی حکومت نے عبادت کی جگہ کو دو حصوں میں تقسیم کردیا.
ایودھیا میں انسان دشمنی مزید گہری ہوتی چلی گئی، آزادی کے دو سال بعد ہی کسی نے مسجد میں رات کے اندھیروں میں، جب ساری دنیا چین کی نیند سو رہی تھی، رام کی مورتی رکھ دی، حکومت نے اس کو متنازع مقام قرار دیکر مسجد پہ تالا لگوا دیا، اس طرح آزاد بھارت کی اتہاس میں جمہوریت کا پہلا قتل ہوا.
پھر 1984 کا زمانہ آیا، وشو ہندو پریشد نے مندر بنوانے کے لئے ملک گیر تحریک چلانے کا اعلان کیا، لال کرشن اڈوانی اس کے سپہ سالار مقرر ہوئے، انہوں نے رام مندر کی تعمیر کے راستے کو آسان بنانے کے لئے رتھ یاترا نکالی، پھر چشم فلک نے وہ منظر بھی دیکھا جو اس نے کبھی نہیں دیکھا تھا، اڈوانی کا رتھ جہاں سے بھی گزرا، وہاں سے خون کی ایک یاترا نکلی، پورے ملک میں عجیب سی فضا چھا گئی، ہر طرف پکڑو، مارو، کاٹو کی آوازیں سنائیں دینے لگیں، رتھ یاترا کے نتیجے میں لاکھوں کارسیوک خود ساختہ رام کو اس کے دستانوی گھر میں براجمان کرنے کے لئے جمع ہو گئے، دلوں میں نفرت کا اتنا سخت آلاؤ جلائے ہوئے تھے کہ اس کی لپٹیں ان کی آنکھوں میں دکھائی دے رہی تھیں، ان کا بس نہیں چل رہا تھا ورنہ وہ چاہتے تھے کہ ملک سے ہر داڑھی والے کا خاتمہ کردیا جائے، ہر مسجد کو مٹا دیا جائے.
پھر 6 دسمبر 1992 کا دن آیا، سورج صبح ہی سے غمگین دکھائی دے رہا تھا، ہوائیں بوجھل، اور سرد سی تھیں، فضاؤں میں بھیانک سناٹا چھایہ ہوا تھا، عجیب سی بے حسی طاری تھی، اچانک بھارت ماتا کی جے کی آواز کے ساتھ گھن گرج کی آوازیں سنائی دینے لگیں، ایسا لگا جیسے کسی نے بم مار دیا ہو، پورا ملک سہم سا گیا، لوگ اپنے گھروں میں دبک کے بیٹھ گئے، یہ آواز بابری مسجد کے گنبد پہ پڑنے والے ضربوں کی آواز تھی، شام تک ہوتے ہوتے مسجد شہید کر دی گئی.
اور اس طرح آزاد بھارت کی جمہوریت اور سیکولرزم کو مسجد کے ڈھانچوں کے نیچے دفنا گیا.
مسجد کی شہادت کے معا بعد پورے ملک میں فسادات کی لہر دوڑ گئی، ہزاروں جانیں ضائع ہوگئیں، اور کروڑوں کے املاک تباہ ہو گئے.
پھر مسلمانوں نے اس دن سے بابری مسجد کی برسی منانی شروع کردی. اور "یوم سیاہ” کا نام دیا جب کہ ہندؤوں نے اس کو وجئے دیوس کا نام دیا.
یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔