دستورِ مدینہ کے تحت عدلیہ

ترتیب: عبدالعزیز
(چوتھی قسط)
عدالتی نظام: دستورِ مدینہ کے اجراء کے بعد دستوری حکومت تسلی بخش طور پر کام کرتی رہی۔ اس کی تمام وحدتیں جنھوں نے بخوشی دستور کی اطاعت قبول کی تھی۔ ریاست کی فلاح اور ترقی کیلئے مل کر کام کرتی رہیں۔ ہر وحدت اپنے دستوری فرائض ادا کرتی رہی اور اس کی کسی شق سے انحراف کی صورت میں دستور کی مدد طلب کی جاتی رہی۔ تاریخ میں بہت سے واقعات محفوظ ہیں۔ جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہود نے اپنے تنازعے ار پیچیدہ قانونی مسائل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ریاست مدینہ کا چیف جسٹس مانتے ہوئے آپؐ کی خدمت میں پیش کئے۔
ابن اسحاق نے ایک مقدمہ کی تفصیل دی ہے جو یہود نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تصفیہ کیلئے پیش کیا، اور آپؐ نے اس پر جو فیصلہ دیا اسے بھی درج کیا ہے۔
چند مقدمات: ایک شادی شدہ یہودی مرد نے ایک شادی شدہ یہودی عورت سے زنا کیا۔ یہودی علماء بیت المِدراس (ایک یہودی مذہبی دارالعلوم) میں جمع ہوئے۔ بحث و تمحیص اور غور و فکر کے بعد انھوں نے فیصلہ کیا کہ دستوری دفعات (دفعہ 24 اور 44) کے تحت مقدمہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں پیش کیا جائے، اس سے یہودی علماء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا امتحان بھی کرنا چاہتے تھے۔
’’اگر وہ تجبیہ (کھجور کی چھال سے کوڑے لگانا، منہ کالاکرنا، گدھوں پر دم کی طرف منہ کرکے سوار کرنا) تجویز کرتے ہیں تو ان کی پیروی کرو اور ان کی اطاعت کرو کیونکہ وہ ایک بادشاہ ہیں۔ اگر وہ ان کیلئے رِجم تجویز کریں تو وہ پیغمبر ہیں، اس صورت میں ان سے ہوشیار ہو کہیں وہ تمہیں اس حیثیت سے محروم نہ کر دیں جو تمہاری ہے‘‘۔
اس کے بعد یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں پیش ہوئے اور اپنا مقدمہ پیش کیا:
’’اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ! اس شادی شدہ آدمی نے ایک شادی شدہ عورت سے زنا کیا ہے۔ ان کے مقدمہ میں اپنا فیصلہ دیجئے۔ ہم ان کا مقدمہ آپؐ کو جج مانتے ہوئے آپؐ کی عدالت میں پیش کرتے ہیں‘‘۔
مقدمہ کی روداد
ربّیون (علماء) کے ساتھ ملاقات: دستورِ مدینہ نے یہودیوں کو مذہبی آزادی کی ضمانت دی تھی: ’’یہود کیلئے اپنا دین ہوگا‘‘ (دفعہ 26)۔
دستور کی اس دفعہ کے تحت آپؐ نے ان کی مذہبی کتاب توراۃ سے شہادت ریکارڈ کرنے کا فیصلہ کیا۔ آپؐ ربیوں سے ملنے بیت المدراس تشریف لے گئے اور یہودی ماہرینِ تورات کو طلب کیا۔ عبداللہ بن صوریا، ابو یاسر اور وہب بن یہوذا پیش ہوئے۔ آپؐ کو بتایا گیا کہ یہ تینوں مستند ترین یہودی عالم ہیں۔ عبداللہ بن صوریا یہودی معاصرین میں توراۃ کے سب سے بڑے عالم تھے۔
جرح اور حلف: یہودی ماہرین تورات کا بیان سننے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جرح میں ان سے سوالات کئے۔ انھیں مقدمہ کی اہمیت جتاتے ہوئے آپؐ نے ابن صوریا کو مخاطب کیا: ’’خدا کے نام پر اور اسرائیل کے سنہری دور کے نام پر بیان کرو، کیا تم جانتے ہوئے کہ خدا نے توراۃ میں شادی شدہ افراد کے زنا کی سزا رجم مقرر کی ہے؟‘‘
اس نے جواب دیا: ’’ہاں!‘‘ اور اس نے مزید کہا: ’’ابو القاسم! وہ خوب جانتے ہیں کہ تم (خدا کے) بھیجے ہوئے رسول ہو، مگر وہ تم سے حسد کرتے ہیں‘‘۔
متن پیش کرنا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو توراۃ پیش کرنے کیلئے کہا۔ سب سے بڑا عالم ربی وہاں موجود تھا جس نے توراۃ کا متن پڑھنا شروع کیا۔ اس نے رجم والی آیت پر ہاتھ رکھ دیا۔ حضرت عبداللہؓ بن سلام (یہود میں سے ایک نومسلم) نے ربی کے ہاتھ پر مارا اور کہا:
’’اے خدا کے رسولؐ! یہ رجم کی آیت ہے جو یہ آپؐ کو پڑھ کر سنانے سے انکار کر رہا ہے‘‘۔ اس کے بعد یہود نے اقرار کیا کہ توراۃ میں ایسی آیت موجود ہے۔
اپنا فیصلہ سنانے سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زیر سماعت مقدمہ کے مختلف پہلوؤں کی مزید چھان بین کی۔
قانون کو پوشیدہ رکھنے کے اسباب: مقدمہ کی کارروائی کے دوران جب یہودیوں نے حقیقت کو چھپانے کی کوشش کی جو بالآخر ظاہر ہوگئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے توراۃ کے قانون کو دبانے کے اسباب دریافت کئے:
’’تم پر افسوس ہے اے یہودیو! تمہیں کس چیز نے خدا کا وہ قانون چھوڑنے کی ترغیب دی جو تمہارے پاس ہے‘‘۔
انھوں نے انکشاف کیا: ’’سزا کا اطلاق توراۃ کے مطابق ہوتا رہا، حتیٰ کہ شاہی خاندان اور اعلیٰ نسب کے ایک فرد نے زنا کا ارتکاب کیا اور بادشاہ نے اسے رجم کرنے سے انکار کردیا۔ اس کے بعد ایک اور شخص نے زنا کیا، بادشاہ اسے رجم کرنا چاہتا تھا مگر انھوں نے کہا: ’’نہیں! اس وقت تک ایسا نہیں ہوسکتا جب تک فلاں کو بھی رجم نہ کیا جائے‘‘۔
جب انھوں نے اس پر اصرار کیا تو وہ بالآخر سب تجبیۃ پر رضامند ہوگئے اور انھوں نے رجم کا ذکر اور اس پر عمل ترک کردیا‘‘۔
تورات کے قانون کے اخفاء کا پس منظر سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں خدا کے قانون، اس کی کتاب اور اس پر عمل کو دوبارہ زندہ کرنے والا پہلا آدمی ہوں‘‘۔
فیصلہ: ربیون کے ساتھ بحث کے دوران جمع کی گئی شہادتوں، ان پر جرح، حلف لینے، تورات کے اصل قانون کے متن کے ملاحظہ اور خدا کے قانون کو چھپانے کے پس منظر کا علم ہونے کے بعد آپؐ نے اپنا فیصلہ سنایا کہ زنا کا ارتکاب کرنے والوں کو رجم کیا جائے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ اس مقدمہ کے راوی روایت کرتے ہیں کہ وہ ’’وہ رجم کردیئے گئے اور میں ان میں شامل تھا جنھوں نے انھیں رجم کیا‘‘۔
قانون میں امتیاز: قانون میں یہودیوں کے مختلف گروہوں کے ساتھ مدینہ میں یکساں سلوک نہیں ہوتا تھا۔ بنو نضیر کے یہودی اپنے سماجی بلند رتبہ کے باعث بنو قریظہ سے فائق متصور ہوتے تھے۔ اگر بنو نضیر میں سے کوئی شخص قتل ہوجاتا تو پورا خوں بہا ادا کیا جاتا، لیکن بنو قریظہ کے معاملہ میں خوں بہا کا صرف نصف ادا کیا جاتا۔ یہودیوں نے مدینہ کے چیف جسٹس کی عدالت میں ایک مقدمہ دائر کیا اور اس بہت اہم سماجی اور قانونی مسئلہ پر آپؐ سے فیصلہ چاہا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کے مذہبی، نسبی اور سماجی حالات کی سماعت کے بعد اپنا فیصلہ سنایا کہ قانون میں سب یہودی برابر ہیں اور ان میں امتیاز کا کوئی جواز نہیں۔ اس فیصلے کے ذریعے آپؐ نے بنو نضیر اور بنو قریظہ کے خون بہا کو برابر قرار دے دیا‘‘۔
ایک مسلم اور یہودی کے درمیان جھگڑا
ایک مرتبہ ایک یہودی اور انصاری (مسلمان) پیغمبروں میں افضلیت پر بحث کر رہے تھے۔ دورانِ بحث یہودی نے موسیٰ علیہ السلام کو اس انداز سے پیش کیا جیسے وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل ہوں۔ انصاری یہ برداشت نہ کرسکے اور اسے تھپڑ رسید کیا۔ یہودی نے اس کے خلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں شکایت پیش کی۔ فریقین کو سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقدمہ کا فیصلہ سنایا اور نصیحت کے طور پر کہا: ’’دوسرے پیغمبروں پر میری فوقیت میں مبالغہ نہ کرو۔ روزِ قیامت سب لوگ بے ہوش ہوجائیں گے۔ میں جاگنے والوں میں سب سے پہلا ہوں گا اور دیکھوں گا کہ موسیٰ علیہ السلام خدا تعالیٰ کے تخت کے برابر کھڑے ہیں۔
غداری: قریش مکہ مسلمانوں کے ساتھ پُر امن بقائے باہمی کے اصول کو ماننے کیلئے تیار نہ تھے۔ پہلے انھوں نے عبداللہ ابن اُبَی سے راہ و رسم پیدا کی جسے ہجرت سے پہلے اوس او رخزرج کا سردار بننے کی توقع تھی اور جو بعد میں مدینہ کے منافقین کا سرغنہ بنا۔ قریش نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ سے نکال دینے کیلئے کہا یا اس کے سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکی دی:
’’تم نے ہمارے آدمی کو پناہ دی ہے، بخدا تم اسے قتل کروگے یا وہاں سے نکال دوگے یا ہم اپنی پوری قوت سے تم پر حملہ کریں گے اور تمہیں تباہ کر دیں گے اور تمہاری عورتوں کی بے حرمتی کریں گے‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فراست، دانشمندی اور تدبر نے قریش کی پہلی کوشش کو ناکام بنا دیا جو انھوں نے آپؐ کے اصحابؓ کے درمیان افتراق پیدا کرنے کیلئے کی تھی اور نہ ہی عبداللہ بن ابی مسلمانوں کے بڑھتے ہوئے اثرات کے سامنے قریش کیلئے کچھ کرسکا۔ یہ غزوۂ بدر سے پہلے کی بات ہے۔
غزوۂ بدر کے بعد قریش نے دستور کی دوسری وحدت یہود سے راہ و رسم پیدا کی اور انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے یا سنگین نتائج بھگتنے کیلئے تیار رہنے کو کہا:
’’تم اسلحہ سے لیس ہو اور تمہارے پاس قلعے ہیں۔ تمہیں ہمارے آدمی سے لڑنا چاہئے یا ہم تمہارے ساتھ ایسا اور ایسا کریں گے اور ہمیں کوئی چیز تمہاری مستورات کے ذیوروں سے نہ روک سکے گی‘‘۔
یہودیوں کو دستور مدینہ میں پوری خود مختاری حاصل تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قانونی مقدموں کا فیصلہ انصاف اور مساوات کے ساتھ کرتے تھے اور انھیں شکایت کا کوئی موقع نہیں دیتے تھے، مگر یہودی فطرتاً فتنہ پرداز تھے۔ انھوں نے قریش کی آواز کا مثبت جواب دے دیا۔ دستور کے مطابق ریاست مدینہ کے دشمنوں کے ساتھ اس طرح کی ساز باز شدید غداری تھی، مگر اس کے باوجود بحیثیت سربراہِ ریاست، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو قریش کو قریش کا حشر یاد دلایا اور انھیں سنگین عواقب سے متنبہ کیا۔ اس کے باوجود یہودی نہ سمجھے اور انھوں نے شدید رد عمل کا اظہار کیا اور کہا:
’’اے محمدؐ! تم اس دھوکہ میں نہ رہنا، تمہاری جنگ ان لوگوں سے تھی جنھیں جنگ کا کوئی تجربہ نہ تھا اور تم نے یہ جنگ جیت لی۔ بخدا! جب ہم لڑیں گے تو تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ ہم اور طرح کے لوگ ہیں‘‘۔
یوں انھوں نے دستور کو پامال کیا اور مسلمانوں سے جنگ کی۔ بنو قینقاع یہودیوں کا سب سے بہادر قبیلہ تھا۔ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور یہودیوں کے درمیان دستوری معاہدے کو سب سے پہلے پامال کیا۔ انھوں نے اعلانِ جنگ کر دیا اور غزوۂ بدر اور غزوۂ احد کے درمیان مسلمانوں کے خلاف لڑے۔
فیصلہ: یہ انتہائی غداری سزائے موت کی متقاضی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چیف جسٹس کی حیثیت سے انھیں صفائی کا موقع دیا تاکہ عدل و قانون کے تمام تقاضے پورے ہوسکیں۔ بنو قینقاع کے حلیف عبداللہ بن ابی نے انھیں جلا وطن کرنے کی سفارش کی۔ بطور سربراہِ ریاست آپؐ اس سزا پر رضا مند ہوگئے۔ اس کے نتیجے میں بنو قینقاع مدینہ سے جلا وطن کر دیئے گئے۔ دورِ جدید کے ہر دستور میں انتہائی غداری کی سزا موت ہے جسے ہر ملک و قوم نے آئین و قانون اور عدل و انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق قرار دیا ہے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دستور میں غداری کی سزا موت کے باوجود بنو قینقاع کو صرف جلا وطن کیا، یہ بین ثبوت ہے کہ اسلام دین رحمت ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ للعالمین ہیں۔
(جاری)

تبصرے بند ہیں۔