اشاعت حدیث میں علمائے اہل حدیث بہار(ہند ) کا کردار

محمد صادق جمیل تیمی

 علم حدیث وہ مبارک و مہتم بالشان اور رفیع القدر علم ہے جو فجر اسلام سے حاملین کتاب وسنت اور ورثاء علوم نبوت کی خصوصی توجہ کا مرکز و محور رہا ہے، اس لئے کہ یہ دین اسلام کا بنیادی ماخذ اور سرچشمہ وحی الہٰی ہے،بلکہ اللہ کی اکمل ترین کتاب قرآن کریم کی تفسیر بھی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا "ثم إن علينا بيانه”(القیامۃ: 19)علامہ شوکانی نے "بیانہ "سے مراد حدیث لیا ہے. بعینہ ایسی بات علامہ شاطبی نے بھی کہا ہے "فکانت السنة بمنزلة التفسير والشرح لمعاني الكتاب "(الموافقات 10/6)-حدیث کی انہیں اہمیتوں، ضرورتوں اور تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے قرون مفضلہ کے نفوس قدسیہ نے حفظ حدیث، روایت حدیث اور کتابت حدیث کی جانب اپنی خصوصی توجہ مرکوز کی -"أُكتبوا لأَبي شاهٍ”اور "فليبلغ الشاهد الغائب "جسیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی روشنی میں صحابہ کرام، تابعین عظام اور تبع تابعین نے سینہ بہ سینہ روایت حدیث اور اس کی کتابت کے ذریعہ خدمت حدیث اور اس کی اشاعت میں کارہائے نمایاں انجام دیا —

 پھر یہ سلسلہ دراز ہوتا گیا حتی کہ تیسری صدی ہجری میں بخارا کی سرزمین نے ایک عظیم جیالہ امیر المومنین فی الحدیث محمد بن اسماعیل کو جنم دیا -جنہوں نے روایت حدیث کا ایک اعلی معیار اور ٹھوس اصول و ضوابط کے ساتھ صحیح و ضعیف احادیث کے مابین تمیز پیدا کیا اور امت مسلمہ کو "صحیح بخاری "جیسا ایک بیش قیمت حدیثی خزانہ فراہم کیا -ان کے علاوہ کتب خمسہ کے محدثین نے ان کے نقش قدم پر چل کر حفاظت حدیث کا ایک نیا باب رقم کیا -پھر ان کی شعائیں روشن ہوتے ہوئے سمندر پار سندھ (بر صغیر ہند وپاک، سری لنکا و بنگلادیش )کی زرخیز سر زمین پر آپڑیں –

 برصغیر ہند وپاک کے علمائے اہل حدیث نے علوم نبوت کی ترویج و اشاعت اور حفظ و صیانت کے لئے جو خدمات انجام دی ہے وہ تاریخ کا ایک سنہری باب ہے -13ویں و 14 ویں صدی میں جب علم کی لہر اٹھی، مدارس و مکاتب وسیع تعداد میں قائم کئے گئے اور تصنیف وتالیف کے لئے فضا ہموار ہوئی تو جہاں پر ہندوستان کی دیگر ریاستوں کی اہم شخصیات مولانا حافظ عبداللہ غازی پوری، نواب صدیق حسن خاں بھوپالی، عبد الرحمان مبارک پوری، عطاء اللہ حنیف بھوجیانی اور عبد المنان وزیر آبادی جیسی اہم شخصیات نے اپنی تگ و تاز اور محنت و مشقت سے حدیث کی ترویج میں حصہ لیا وہیں پر ریاست بہار جو ایک مردم خیز اور علمی و تاریخی ریاست ہے کے علمائے اہل حدیث نے حفاظت حدیث کی ایک علمی جوت جگائی -مولانا محمد علی مونگیری، ظہور الحق، شمس الحق عظیم آبادی اور ابراہیم آروی جیسے چوٹی کے محدثین نے حدیث کے فروغ میں اہم رول ادا کیا -حدیث کی ترویج و اشاعت میں علماے اہل حدیث بہار (ہند )کی تدریسی، تصنیفی و تالیفی اور مدارس و مکاتب کی تاسیس الغرض اس کے لئے کئے جانے تمام وسائل و ذرایع کا حتی المقدور ذیل کے سطور میں لب لباب پیش کیا جارہا ہے –

تصنیف وتالیف:

عرب سے سندھ کی سر زمین میں حفاظت حدیث کی جو شعائیں و کرنیں نمودار ہوئی تھیں ان کرنوں کی پرچھائیاں مجدد الف ثانی کے بعد براہ راست شاہ ولی اللہ محدث دہلوی پر پڑیں -آپ نے اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے امام دارالھجرۃ معروف بہ امام مالک رحمہ اللہ علیہ کی شہرہ آفاق کتاب "مؤطا’جسے بخاری سے قبل "اصح الکتاب بعد کتاب اللہ "کی حیثیت حاصل تھی، کی دوشروحات "المصفی "(فارسی شرح )’المصوی "(عربی شرح )لکھ کر صیانت حدیث میں ایک اہم و ممتاز کام کیا -آپ کے شانہ بہ شانہ چلتے ہوئے میاں نذیر حسین کے شاگرد خاص، عظیم جیالہ، محدث کبیر شمس الحق عظیم آبادی اپنی بے لاگ دینی تحریر کے ساتھ میدان تحدیث میں اترے اور "غایۃ المقصود فی حل سنن ابی داؤد، عون المعبود علی سنن ابی داؤد، التعلیق المفتی علی علی سنن الدار القطنی اور رفع الالتباس عن بعض الناس "جیسی اہم و بین الاقوامی شہرت کے حامل کتابوں کو لکھ کر خدمت حدیث میں ناقابل فراموش کارنامے انجام دئیے-

 آپ کا زمانہ وہ زمانہ تھا جس میں تعلیم و تعلم سے دوری، کثرت ناخواندگی اور احادیث رسول سے عدم شناسائی کی بناء پر انکار حدیث کی ایک لہر چل پڑی تھی -ڈاکٹر عمر کریم پٹنوی اور سید عبد الغفور عظیم آبادی نے حدیث رسول اور امام بخاری کے خلاف طعن و تشنیع اور زبان درازی کی تو ایسی نازک حالت میں باد مخالف کو دندان شکن جواب دینے کے لئے اپنے لائق شاگرد نامور عالم دین ابوالقاسم سیف بنارسی کو میدان میں اتارا -انہیں ہر طرح کی تعلیمی و تصنیفی سہولیات فراہم کیں -چنانچہ انہوں نے "حل مشكلات البخاري، ماء حميم للمولوي عمر كريم، صراط مستقيم لهداية عمر كريم اورالریح العقیم لحسم بناء عمر کریم "جیسی پرشکوہ کتابیں دفاع حدیث میں تصنیف کرکے اشاعت حدیث میں ایک نئی سمت فراہم کی -(دبستان حدیث: 121)

الغرض شمس الحق عظیم آبادی نے حدیث کی ترویج و اشاعت، حفظ و صیانت میں اپنی  شبانہ روز کی قیمتی ساعتوں کو تج دی، جس کی ضیا باری سے ایک عالم مستفیض ہوتے آرہا ہے اور تاقیامت ہاتا رہے گا –    آپ کے بعد آپ کے معاصر، عظیم اسلامی اسکالر مولانا عبد العزیز رحیم آبادی عمل بالحدیث کے میدان میں آئے -آپ کا زمانہ وہ زمانہ تھا، جس میں شبلی نعمانی ‘جو ایک بڑے اردو کے ناقد و مورخ تھے ‘کی کتاب "سیرت نعمان "منظر عام پر آئی تھی جس میں ان کا اشہب قلم صحت و انصاف کے دائرہ سے نکل گیا تھا اور امام بخاری پر بیجا نقد و اعتراضات کئے تھے -چنانچہ شمس الحق عظیم آبادی کے کہنے کی وجہ سے عبد العزیز رحیم آبادی نے اس کا ایک شاہکار جواب بنام "حسن البیان فیما فی سیرۃ النعمان "لکھ کر دفاع سنت میں ایک تاریخی کام کیا -اس میں شبلی سے سرزد تمام تاریخی و تحقیقی لغزشوں کی نشاندہی کی -اس کے علاوہ مشکوۃ میں موجود صحیح بخاری و مسلم کی تمام احادیث کو چار جلد پر مشتمل کتاب "سواء الطریق "میں جمع کیا -اسی طرح ظہیر احسن شوقی (مولف آثار السنن )عبد الغفار مہدانوی(مترجم ادب المفرد بنام بنام "سلیقہ ")مولانا فیاض علی جعفری (مصنف فیض الفیوض)سید نذیر حسین محدث دہلوی (معیار الحق)مولانا شہود الحق عظیم آبادی (مصنف البحر الزنار جو مولانا ارشاد حسین راجنپوری کی کتاب” انتصار الحق بہ جواب معیار الحق” کے جواب میں ہے ) ابراہیم آروی (صاحب طریق النجاۃ )جیسے بہاری علمائے اہل حدیث نے حفاظت حدیث میں اپنی موقر تصنیفات کو منصہ شہود پر لاکر ریاست بہار کی خدمات حدیث کے گراف کو بلند کیا –

یہ سلسلہ دراز ہوتے ہوئے بیسویں و اکیسویں صدی کو پہنچا -اس صدی میں سر زمین بہار کا عظیم سپوت، عرب و عجم کے استاد عزیر شمس نے "رفع الالتباس عن بعض الناس، غایۃ المقصود شرح سنن ابی داؤد اور جزء فی استدراک ام المومنین” جیسی اہم کتابوں کی تعلیقات و تحقیقات نمایاں انداز میں پیش کی-آپ کے بعد آپ ہی کے ایک اور معاصر و ہم وطن ممتاز عربی ادیب و اریب، مفسر قرآن ڈاکٹر لقمان سلفی نے "مشکوۃ المصابیح کی تعلیق و تشریح اور صحیح احادیث کی جمع و ترتیب کا ایک حسین مجموعہ بنام "ھدی الثقلین "ساتھ ساتھ بلوغ المرام کے مشکل الفاظ و کلمات اور مستفاد احادیث کا خوبصورت گلدستہ بنام "تحفۃ الکرام بشرح بلوغ المرام "اور "اھتمام المحدثین بنقد الحدیث سندا و متنا "جیسی اہم تصنیفات و تالیفات اپنے اشہب قلم سے لا کر حفاظت حدیث کو ایک نئی سمت فراہم کی -ان کے علاوہ اس میدان میں علمائے اہل حدیث بہار (ہند )کی مساعی جمیلہ تاہنوز جاری و ساری ہے –

درس و تدریس: 

دہلی کی مسند تحدیث میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا سلسلہ ذھبیہ شاہ عبد العزیز اور شاہ اسماعیل شہیدؒ سے ہوتے ہوئے آخری شاہی محدث محمد اسحاق تک پہنچا، جنہوں نے بیس سالوں تک درس و تدریس کا فریضہ نبھاتے رہے -آپ کے انتقال کے بعد آپ کے شاگرد خاص، سرزمین بہار کے عظیم خوشہ چیں اور ملک و بیرون ملک میں لاکھوں ارشد تلامذہ پیدا کرنے والے شیخ الکل فی الکل میاں نذیر حسین محدث دہلوی ثم بہاری 1258ھ میں دہلی کی مسند تحدیث پر متمکن ہوئے -یہاں پر ایک نقطہ کی بات بتائے دیتا ہوں کہ "میاں صاحب "کا لقب شاہ ولی اللہ کے خاندان کے مخصوص لوگوں کو ہی دیا جاتا تھا -لیکن سید نذیر حسین کی علمی و عملی، تدریسی خدمات اور خانوادہ شاہ ولی اللہ کی علمی وارث ہونے کی بنا پر آپ کو بھی "میاں صاحب "کا لقب دیا گیا -(بستان المحدثین: 404)

سید نذیر حسین دہلی کی مسند تحدیث میں بیٹھ کر عرب و عجم میں علوم حدیث کی شمع فروزاں کرنے کے لئے تلامذہ کا ایک قومی و بین الاقوامی جال بچھا دیا -اس صدی کے پورے عالم اسلام آپ کی ذات سے اپنی علمی تشنگی بجھاتا رہا -عبد اللہ غزنوی، عبد المنان وزیرآبادی، مولانا شمس الحق عظیم آبادی، عبد الرحمان مبارکپوری، عبد السلام مبارک پوری، شیر پنجاب ثناء اللہ امرتسری اور مولانا اسماعیل سلفی جیسے چوٹی کے علماء کرام آپ کے آگے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کے بعد اپنی ساری زندگی حدیث کے درس و تدریس تصنیف وتالیف میں تج دی -الغرض میاں صاحب حدیث کے فروغ و اشاعت کے سارے مجالات کے لئے افراد سازی کا کام کئے -آپ کی تعریف میں شیخ احمد تونسی رقمطراز ہیں کہ "لا یوجد مثلہ فی الارض "(علمائے اہل حدیث کی خدمات: 54) خدمات حدیث کے لئے آپ کی شام وسحر جگر کاوی و جگر کاہی کا اعتراف کرتے ہوئے 22/جون 1897ء کو حکومت انگلستان نے آپ کو "شمس العلماء "کا خطاب سے نوازا -(دبستان حدیث: 50)

میاں صاحب کے شاگرد خاص ہم نوا و ہم وطن شمس الحق عظیم آبادی کی تصنیفی و تالیفی خدمات کے ساتھ ساتھ درس وتدریس میں بھی نمایاں خدمات رہیں -آپ میاں صاحب سے 1303ھ میں واپس آ کر اپنے گاؤں "ڈیانہ "میں مسند تحدیث پر فائز ہوئے جہاں عرب و ایران اور افغانستان کے متلاشیان علوم حدیث تشریف لا کر آپ کے آگے اپنی شاگردی کا نیاز خم کیا -آپ کے بعد اس سلسلے کو دراز کرتے ہوئے سید نذیر حسین کا ایک اور ارشد تلامذہ میں سے عبد العزیز رحیم آبادی پورے علمی جوش و جذبے کے ساتھ میدان عمل میں آئے اور مسلسل آٹھ سالوں کی ایک لمبی مدت تک خطابت کے ساتھ تدریس حدیث کا فریضہ بھی انجام دیتے رہے -آپ کے بعد آپ ہی کا ایک عظیم معاصر، جماعت اہل حدیث کا سرخیل، درجنوں کتاب کے مصنف و مولف مولانا ابرہیم آروی جنہوں نے اپنی پوری زندگی کتاب و سنت خصوصاً حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی صیانت و حفاظت میں صرف کی -مورخ اہل حدیث مولانا اسحاق بھٹی اپنی معروف کتاب "دبستان حدیث "میں آروی صاحب کے سلسلے میں ایک منفرد بات لکھی ہے کہ ضلع آرہ میں مولانا وہ پہلے شخص تھے جنہوں رمضان المبارک کے آخری عشرے میں شب قدر کے لئے شب بیداری کا آغاز کیا ورنہ لوگ اس سے قبل شب برات میں بیدار ہوا کرتے تھے، گویا کہ مولانا آروی صاحب ایک سنت کو زندہ کیا -(دبستان حدیث: 240)

جامعہ دارالسلام عمراباد جس کا سن تاسیس 1924ء ہے اس میں جن شخصیتوں نے حدیث کی تدریس دی ان میں پہلا محدث بہار ہی کے  مولانا صدیق حسن بہاری تھے -(بر صغیر میں اہل حدیث کی سرگزشت: 312) یہ کڑی آگے بڑھتے ہوئے اکیسوی صدی تک پہنچی جس میں بہار کے بیشتر اہل حدیث علماء اس میدان میں کارہائے نمایاں انجام دیئے -مولانا خلیل الرحمن سلفی (ارریہ )جنہوں نے شیر شاہ آبادی قوم کو ان کی نچلی سطح سے تعلیمی بیداری کے ذریعہ دنیا کی متمدن قوم کی فہرست میں لاکھڑ کیا ‘سلفی صاحب نے ایک عرصہ تک دارالعلوم احمدیہ سلفیہ کے استاد حدیث رہے -اسی طرح عزیر شمس کے والد شمس الحق سلفی (مدھوبنی )تقریباً پچاس سالوں تک بہار، بنگال اور یوپی کے مدارس میں بحثیت شیخ الحدیث فریضہ انجام دیا -اسی طرح آپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عبد الستار سلفی (پورنیہ)احمدیہ سلفیہ سے فارغ ہونے کے بعد جامعہ دارالسلام ڈنگراگھاٹ، سیماپور، کٹیہار، مدرسہ مظہر العلوم بٹں ہ (بنگال )اور احمدیہ سلفیہ دربھنگہ جیسے اہم بہار و بنگال کے مدارس میں بخاری کا درس دیتے رہے -آپ احمدیہ سلفیہ میں شیخ الحدیث کے عہدے پر فائز تھے اسی حالت میں مدرسہ ہی میں انتقال فرمایا -اسی طرح ممتاز عالم دین شیخ امان الله فیضی (سیتامڑھی )جامعہ ریاض العلوم میں 7 اور جامعہ ابن تیمیہ میں 9سالوں تک بخاری کا درس دیتے رہے -ان سے جڑے ایک انہی کے ہم عصر شیخ العرب و العجم عبد الرحمن سلفی (کشن گنج )جو فی الوقت سپول ضلع کے پھلکا ٹولہ میں اپنی عمر کی آخری ساعتوں کو بسر کر رہے ہیں -یاد داشت اور لوگوں کی شناسایی میں قدر کمی آئی ہے لیکن ابھی بھی بفضلہ تعالی عالمانہ چال ڈھال اور اسلافانہ طرز زندگی گزار رہے ہیں -انہوں نے  بخاری کا درس 35/سے زائد مرتبہ دے چکے ہیں -اس طرح بہار کے علماء اہل حدیث نے اشاعت حدیث اور اس کے فروغ میں درس و تدریس وذریعہ اہم خدمات انجام دیا –

اشاعت حدیث کے لئے مدارس کا قیام:

  احادیث رسولؐ کی بقا و تحفظ کے لئے مدارس و مکاتب کے قیام میں بھی بہار پیچھے نہیں رہا،بلکہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا -ابرہیم آروی نے سر زمین آرہ میں علم حدیث کا ترجمان و علمی آرگن بنام "جامعہ سلفیہ "کی بنیاد ڈالی -بعد میں یہ ادارہ دربھنگہ سلفیہ منتقل ہوگیا -دربھنگہ سلفیہ عبد العزیز رحیم آبادی نے قائم کیا تھا تاکہ یہاں کی مٹی سے ایسے افراد تیار کیے جائیں جو حفاظت حدیث میں منفرد کام کرے اور اللہ کے فضل سے گزشتہ ساٹھ سالوں سے تا ہنوز یہ ادارہ اپنے مقصد اساسی پر رواں ہے -دہلی کا "دار الحدیث رحمانیہ "آپ ہی کے کہنے کی وجہ سے قائم کیا گیا تھا جو 1947ء کی خونریزی میں دم توڑ گیا لیکن اپنے 26/سال کی عمر ہی میں جلیل القدر ائمہ اور فقید المثال محدثین کی ایک ٹیم تیار کر دی -(مستفاد: دبستان حدیث /اسحاق بھٹی )اسی طرح ڈاکٹر لقمان نے (جامعہ ابن تیمیہ )عبد المتین سلفی (جامعۃ البخاری )اختر عالم سلفی (جامعہ اسلامیہ ریاض العلوم )نظام مدنی (جامعہ مفتاح العلوم )مدرس مسجد نبوی ڈاکٹر امان اللہ (جامعۃ البنات )جیسے اہم منابع علوم حدیث نبوت کی بنیاد ڈال کر خدمات حدیث کا عملی ثبوت فراہم کیا –

اس طرح علماء اہل حدیث بہار درس وتدریس، تصنیف وتالیف اور مدارس کی تاسیس الغرض ہر حربہ و وسیلہ کو استعمال کر کے ترویج حدیث اور اس کے فروغ میں ناقابل فراموش کارنامے انجام دیئے جو تاریخ کے صفحات پر زریں حروف سے کندہ ہیں –

تبصرے بند ہیں۔