چارہ گھوٹالہ سے چوہا گھوٹالہ تک

ڈاکٹر سلیم خان

یکم اپریل کی اہمیت سے تو سبھی واقف ہیں لیکن کم لوگ جانتے ہیں کہ چہارم اپریل کو چوہوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔  چوہوں کے عالمی دن پر دیگر ممالک  کے لوگوں کو حیرت ہوسکتی ہے لیکن ہندوستانیوں کو نہیں اس لیے کہ ہندو عقائد کے مطابق  گنیش دیوتا کی سواری چوہا ہے۔ یہ ایک دلچسپ مماثلت ہے کہ جس دیوتا کے دھڑ پر ہاتھی کا سر ہے اس کے نقل و حمل کی ذمہ داری چوہے کو سونپ دی گئی لیکن یہ اس ست یگ کی بات ہے جب بھارت ورش میں پلاسٹک سرجری سے ایک آدمی کی گردن  پر ہاتھی کا سر لگاکر اسے چوہے پر  سوار کردیا جاتا  تھا۔ پلاسٹک سرجری  کے شعبے میں ہندوستانی جراہوں کی مہارت  کا برملا اعتراف وزیراعظم نریندر مودی تین سال قبل ممبئی شہر میں کرچکے ہیں ۔  فی الحال اسی عروس البلاد میں چوہا گھوٹالہ سامنے آیا ہے۔ اس کا انکشاف برسرِ اقتداربی جے پی  کے سابق وزیر ایکناتھ کھڑسے نے کیا ہے ۔یہ الزام چونکہ بی جے پی وزیراعلیٰ کے خلاف لگا ہے اس لیے رام راجیہ میں  نہ اس کی  تفتیش ہوگی اور نہ کسی کو  سزا سنائی جائے گی ۔ آج کل ساری بدعنوانیوں کی  سزا کا ٹھیکہ لالو یادو کے پاس ہے۔ لالو یادو کے علاوہ کسی اور گھپلے باز  سیاستداں کے  خلاف ثبوت ہی نہیں ملتے چاہے ان کا نام ِ نامی  چارہ گھوٹالہ میں کیوں نہ  شامل ہو؟

سی بی آئی کے مطابق متحدہ بہار میں چارہ گھوٹالہ کے تحت  سرکاری خزانے سے ۹۰۰ کروڑ روپے غلط طریقے سے نکالے گئے۔ محکمہ مویشی پروری سے منسلک اس گھوٹالہ میں افسران اور ٹھیکیداروں  پر سابق وزیر اعلیٰ لالو پرساد یادو کے ساتھ ملی بھگت کا الزام لگا۔ سی بی آئی جانچ میں پتہ چلا کہ مویشیوں کے چارے، ادویات وغیر کی سپلائی کے نام پر افسران نے برسوں تک سرکاری خزانے  سے کروڑوں روپے فرضی بلوں سے ادائیگی کی۔ سی بی آئی نے اس معاملے میں ۱۵ مئی ؁۱۹۹۶ کو ایف آئی آر درج کرائی اور ۸ سال بعد  چارج شیٹ دائر کی مزید ایک سال بعد الزامات  طے کئے گئے ۔اس کے ۱۲ سال بعد دھڑا دھڑ لالو یادو کو سزا ہونے لگی۔ حال میں چارہ گھوٹالے کے تحت قصور وار قرار دیئے گئے لالو یادو سمیت ۱۶ ملزمین  کوسی بی آئی کی خصوصی عدالت نے سزا سنائی  لیکن  بہار کے سابق وزیر اعلیٰ جگن ناتھ مشرا  سمیت ۷ کو بری کر دیا گیا ہے۔ کاش کے لالو یادو کا نام لالو مودی ہوتا تو وہ بھی نیرو مودی، للت مودی اور سشیل مودی کی طرح بے فکری سے عیش کررہا ہوتا۔

بہار میں جیسے جیسے بی جے پی کی حالت خراب ہوتی  جارہی ہے  لالو کی سزا میں شدت آتی جاتی ہے لیکن ارریہ میں ثابت ہوگیا کہ عوام کو نہ بدعنوانی میں دلچسپی ہے اور نہ ہی حکومت پر اعتماد ہے۔ ایک زمانے میں ۹۰۰ کروڈ کی رقم بہت بڑی لگاکرتی تھی لیکن آج کل تو اکیلا نیرو مودی ۱۴ ہزار کروڈ کا گھپلہ کرکے چمپت ہو جاتا ہے اور اس کا بال بیکا نہیں ہوتا ۔ گائے کے نام پرملک بھر میں گئو   شالائیں کھلی ہوئی ہیں ۔ ان کو چارے کی خاطر  ملنے والی کثیر رقوم پر گئورکشک عیش کررہے ہیں اور قابل رحم حالت میں لاشوں کی تصاویر اخبارات کی زینت بن رہی ہیں لیکن کسی کو سزا نہیں ہوتی ۔لالو یادو بھی اگر نتیش کمار کی مانند بی جے پی کے شرن میں آجاتے تو نتیش اور سشیل  مودیکی طرح انہیں بھی  کلین چٹ مل چکی ہوتی لیکن لالو یادو کوسیاسی مجبوری اجازت نہیں دیتی۔ نتیش کے بی جے پی کے ساتھ چلے جانے کے بعد لالو اور کانگریس پر چوہوں کا یہ شعر صادق آتا ہے؎

دو چوہے پھر مل کر بیٹھے،دونوں ہی تھے نیک

ایک چوہے کو کھا گئی بلی،باقی رہ گیا ایک

پچھلے سالریاست بہار میں سیلاب کے حوالے سے  آبی وسائل کے وزیر نے کہا تھا کہ بہار میں پشتوں پر رہنے والے وہیں مچان بناکر اناج رکھ دیتے ہیں ، پھر چوہے بل کر پشتے کمزور کردیتے ہیں اور پانی کا دباؤ برداشت نہیں کرپاتے گویا سیلاب کی ذمہ داری بنیادی طورسے چوہوں پر ہے۔ اس پر  لالو پرساد یادو نے طنز کرتے ہوئے کہا تھا کہ پہلے ہزاروں لیٹر شراب غائب ہوئی توچوہوں کو ذمہ دار ٹھہرایاگیا۔ اب سیلاب میں ہزاروں کی لوگوں کی موت کا الزام چوہوں کے سر دیا جارہا ہے۔ یعنی یہ چوہے نہ ہوئے نتیش سرکار کے قربانی کا بکرا ہوگئے۔وزیر اعلی نتیش کمار کو یہ بتانا چاہیے کہ سیلاب چار پیر والے چوہوں کی وجہ سےآیا یادو پیر والے چوہوں کی وجہ سے  جو پشتوں کی تعمیر کا ہزاروں کروڑ کھا گئے۔مودی یگ  میں  ہندوستانی  سائنسدانوں  نےدو پیر والے چوہے ایجاد کرکے ست یگ کے ویگیانکوں کو بھی پچھاڑ دیا ہے لیکن لالو اب بھی  سینہ ٹھونک کر کہتے ہیں ؎

اپنے منہ سے جو شیر بنتے ہیں    

ان کو چوہا بنا کے چھوڑیں گے

مہاراشٹر میں دو پیر والے چوہوں  نے چار پیر والے چوہوں کا جو قتل عام کیا اس نے مہابھارت کی قتل و غارتگری کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ ایک آرٹی آئی کے مطابق ۳ مئی ؁۲۰۱۶ سے ۱۰ مئی ؁۲۰۱۶ کے درمیان منترالیہ (سکریٹریٹ) میں ۳ لاکھ ۱۹ ہزار ۴۰۰ چوہے مارے گئے۔اس کا مطلب ہوا کہ ہر روز ۴۵ ہزار ۶۲۸ اور ہر منٹ میں ۶۳ چوہے ۔ اس کام کے جس تکنیک کو استعمال  کیا گیا اس پر ہندوستانی سائنسدا نوں کو نوبل انعام ملنا چاہیے۔ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے اس دوران ہر روز ۹ ٹن چوہوں کی لاشوں  کا انتم سنسکار کہاں اور کیسے کیا گیا ؟ اس کے لیے ساری ویدک رسومات ادا کی  گئی یا نہیں اس لیے کہ ایک ہندوتواوادی سرکار کو اپنے دیوتا کی سواری کے ساتھ جیتے جی نہ سہی تو مرنے کے بعد اچھا سلوک کرنا ہی  چاہیے۔

حکومت نے ٹھیکیدارکو اس کام کے لیے ۶ ماہ کا وقت دیا جو آرڈر دینے دو ماہ کی تاخیر کے سبب ۴ ماہ کا ہوگیا۔ لیکن اس  کمپنی نے یہ کارنامہ ۷ دن کے اندر انجام دے دیا۔ اس سے  کمپنی کی  مہارت  اوربرق رفتاری  کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔  ممبئی میونسپل کارپوریشن کو ۲ لاکھ چوہے مارنے میں ۶ ماہ کا وقفہ درکار ہوتا ہے اس لیے کہ وہ چن چن کر چوہوں کو مارتی ہے  لیکن منترالیہ کے اندر بے دریغ بمباری میں چوہوں  کی   ہلاکت نے ہیرو شیما اور ناگا ساکی کا ریکارڈ توڑ دیا ۔  ویسےگینس بک والوں کو یہ پتہ لگانا چاہیے  کہ ایٹمی بم سے انسانوں کے علاوہ کتنے چوہے ہلاک ہوئے تھے ؟ ممکن چوہوں کی اس قدر آبادی جاپان میں موجود ہی نہ ہو لیکن مہاراشٹر کامنترالیہ جاپان سے زیادہ وسیع و عریض ہے  جہاں ۳ لاکھ سے زیادہ چوہے قیام فرماتے ہیں ۔  یہی وجہ ہے کہ وزراء وہاں کم ہی نظر آتے ہیں ۔  ہاں دھرما پاٹل جیسے مقروض کسان ضرور پہنچ جاتے ہیں جو وزیر کی غیر موجودگی  سے بددل ہوکر  چوہوں کا زہر مار کر لیتے  ہیں ۔ بقول شاعر؎

جو آکر بیٹھ جائیں پاس کچھ نادان چوہے

   تو ان کو کاٹ کھاتے ہیں سیاستدان چوہے

ممبئی شہر میں ہر سال چار لاکھ چوہوں کی ہلاکت پر رنجیدہ ہوکر میں نے گوگل بابا سے پوچھا دنیا کے دیگر شہروں کا کیا حال ہے؟ انہوں نے بتایا کہ ؁۲۰۱۴ میں  ایک اندازکے مطابق نیو یارک شہر میں ۸۰ لاکھ  چوہے تھےلیکن بعد میں پتہ چلا کہ  یہ تعداد تقریباً بیس لاکھ ہی بنی۔ممکن ہے وہاں بھی کسی ٹھیکیدار کو چار گنا زیادہ رقم ادا کرنے کی خاطر چوہوں کو  بلی کابکرا بنایا گیا ہو۔ممبئی اور نیویارک جیسے ترقی یافتہ شہروں میں چوہوں سے نجات حاصل کرنے کی خاطر خطیر رقم مختص کی جاتی ہے جس  کو چوہوں کے بجائے گھوس خور سیاستداں کھاپی لیتے ہیں ۔ پشاور شہر میں اس  سوچھتا  ابھیان  کو عوامی مہم میں تبدیل کردیا گیا  ہے۔ وہاں  ہر چوہے مار کو فی چوہا ۲۵ روپئے کا انعام دیا جاتا ہے ۔ یہ اچھا ہے کام کا کام اور انعام کا انعام ۔

  پشاور کے چوہے ماروں کو شکایت ہےکہ یہ معاوضہ فوجی چھاونی میں دی جانے والی انعامی رقم ۳۰۰ سے بہت کم ہے مگر شہر میں چوہوں کی کثیر تعداد نے نقصان بھرپائی کردی ہے۔ ۸ سالوں کے اندر  پشاور کے ایک شہری نصیر احمد نے اپنے اہل خانہ کے ہمراہ ایک لاکھ سے زائد چوہے تلف کرکے ’رَیٹ کِلر یا رَیٹ کِلنگ اسپیشلسٹ‘ کا خطاب حاصل کیا ہے۔ ویسے ۸ سال میں ۲۵ لاکھ یعنی ہر سال چوہے مار کر۳ لاکھ سے زیادہ کمالینا برانہیں  ہے۔ عصر حاضر میں شیر کے شکار پر پابندی ہے اس  نسلی شکاری  چوہے مار کر اپنے آبا و اجداد کی عظیم روایات کو زندہ رکھے ہوئے ہیں ۔  چوہے مارنے پر کسی کے خلاف قانونی چارہ جوئی بھی نہیں ہوتی اور سلمان خان کی طرح بار بار عدالت کے چکر  بھی نہیں کاٹنے پڑتے ۔ کورٹ کو سمجھنا چاہیے کہ ٹائیگر  سبزی خور نہیں ہوسکتا زندہ رہنے کے لیے  ہرن کا شکار کرنا اس کی مجبوری ہے ورنہ  سلمان خان کی اگلی بلاک بسٹر کا نام ہوگا چوہے کھاتے کھاتے’ ٹائیگر مر گیا ‘۔

دنیا بھر کے لوگوں  کو بلاوجہ چوہوں سے گھن آتی ہے حالانکہ  دوسال قبل برطانوی شہزادے ہیری کی امریکیمنگیتر میگن میرکل نے  اپنی ہونے والی  ساس ملکہ الزبتھ کو تحفے میں  ایک گانے والا ہیمسٹر (چْوہا) کھلونا پیش کیا جس پر ملکہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گئیں ۔ملکہ الزبتھ نے ۳۶  سالہ سانولی سلونی میگن کے تحفے کو سراہتے ہوئے  کہا کہ میرے خیال میں  یہ میرے کتوں کے لیے ایک اچھا ساتھی ثابت ہو گا۔ شاہی خاندان کی مجبوری  یہ ہے کہ ان کے پاس دنیا بھر کی قیمتی اشیاء موجود ہیں اس لیے سال گرہ کے موقع پر وہ  عادتاً ایک دوسرے کو ظریفانہ تحائف دیتے ہیں  ۔  چین میں  چوہا ظرافت کے بجائے عقیدت کا حامل  ہے۔ چینی لوگ اسے تصوراتی تحریک، تجسس اور وسائل کی بھرمار سے تعبیر کرتے ہیں ۔ چوہا چینی کلینڈر کا پہلا اور نمایاں جانور ہے۔ چین میں ؁۲۰۲۰کے اندرچوہوں کے اعزاز میں زبردست تقریبات کا انعقاد کیا جائے گا۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتا کہ چوہوں سے ندی کے پشتے کھدوانے یا ان کا قتل عام کرنے کے بجائے انہیں ملک چین برآمد کردیا جائے۔ وہ کے لوگ  اول توان سے تفریح حاصل کریں گے اور جب بور ہوجائیں گے تو اپنی بھوک مٹا لیں گے ۔ ویسے چین کی  اشتراکی شریعت حرام و حلال کی بندشوں سے آزادہے اسی لیے مسلمان ملک چین میں  کھانے پینے سے قبل خاصے محتاط ہوجاتے ہیں  ۔  اس طرح معلوم ہوا کہ برطانیہ سے لے کر چین  تک ہر جگہ چوہے پر چرچا جاری ہے اور وطن عزیز میں تو اس کے نام پر سیاستداں اپنا خرچا بھی نکال رہے ہیں ۔  ایسے میں بڑے فخر کے ساتھ ہندوستانی سیاستداں  ساری دنیا کو چیلنج کر سکتے ہیں ؎

تیرے چوہے کو کھا گئی بلی ،  میری بلی کو کھا گیا چوہا

کل لڑائی ہوئی تھی دونوں میں ، مر گئی بلی بچ گیا چوہا

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔