خواجہ غریب نواز اور تصوف

منور علی مصباحی رام پوری

حضرت  خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ   کا اصل نام حسن، لقب  معین الدین، خواجہ غریب اور  نسبت سنجری ہے۔ آپ ۹ جمادی  الاخری   ۵۳۷ھ  اور بروایت دیگر ۱۴ رجب  ۵۳۵ ھ  کو پیدا ہو۔ ایران کے شہر سنجر کو آپ کی جائے ولادت ہونے کا شرف حاصل ہے۔ آپ کے والد کانام  غیاث الدین،  ماں کا نام  بی  بی ملکہ تھا۔ آپ  نجیب الطرفین سید تھے۔ آپ کا سلسلہ  ٔ  نسب  حضرت علی سے جا ملتاہے۔ آپ حافظ قرآن، عالم شریعت اور جامع  طریقت تھے۔آپ نے قرآن و حدیث  کی تعلیم  سمرقند و بخاری میں حاصل کی۔اور  سلوک و تصوف  کی تکمیل خواجہ عثمان ہارونی کی بارگاہ میں کی۔ غرض یہ کہ  آپ علم و عرفان  کا سنگم تھے۔آپ رجب ۶۳۵ ھ  اوربروایت دیگر رجب ۶۳۳ ھ کی ۶  تاریخ کولاکھوں  مریدین   و محبین کو داغ مفارقت دے کر اپنے محبوب حقیقی سے جاملے۔ ہر سال ۶ رجب کو  آپ کا یوم وصال بطور یادگار منایا جاتاہے۔ اس  تاریخ کو دنیا کے گوشے گوشے سے  مسلم اور غیر مسلم  یکساں طور پر  مختلف طریقوں سے آپ کی بارگاہ میں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں ۔

حضرت خواجہ غریب نواز  ۵۶۰ھ میں باشارۂ نبوی   دعوت وتبلیغ کے لیے  ہندوستان تشریف  لائے۔ آپ نے  بغیر کسی  تشدد، تعصب  اور انتہا پسندیکے محبت اور بھائی چارہ کے  ساتھ  مکمل امن و سلامتی کے  عالم میں اسلام کی نشرو اشاعت کی۔ آپ علیہ  الرحمہ  نے   سر زمین ہند  پر ایسے  عالم  میں  اسلام کی تبلیغ شروع  کی کہ جب  سرزمین  ہند پر  آپ کے مرید صادق خواجہ  قطب الدین  بختیار کاکی  علیہ الرحمہ  کے  علاوہ   بظاہر  آپ کا  کوئی یارو   مددگار نہیں تھا، مگر   آپ  توکل کا   ایسا پیکر  مجسم اور محبت کا ایسا    آفتاب ہدایت  بن  کر  منظر  عام  پرآئے کہ    تمام تر بے سروسامانیوں کے  باوجود بھی  قلیل سی مدت  میں  لاکھوں  ہنود کو  جام  شریعت سے سرشار فرماگیے۔آپ  کا  حقیقی مشن  اسلام  کی تبلیغ   و اشاعت  تھا، اس کے فروغ کے لیے  آپ نے   ہر ممکنہ کوشش کی ؛آپ نے بنیادی طور پر  اس کے لیے جس  طریقۂ کار کو  اپنایا  وہ؛ وادع الی سبیل ربک بالحمکۃ و الموعظۃ الحسنۃ کی عملی  تفسیر  تھا۔

خواجہ  صاحب کا  یہ طریقۂ تبلیغ  علم وعمل، حسن معاشرت اور خدمت خلق، انسانیت   نوازی، بےتکلف  اور سادہ  طرز زندگی جیسے   بنیادی اسلامی   اور سماجی  اصولوں  پر  مشتمل تھا۔ اسی طریقۂ تبلیغ  اور اسی طرز معاشرت  کو  بعض اہل علم کے نزدیک  تصوف کے نام  سے جانا جاتا ہے، جو درحقیقت اسلام کی حقیقی  روح اور  سچی تصویر ہے۔کہا جاتا ہے کہ اس  طریقۂ تبلیغ  اور طریقۂ معاشرت  کو  تصوف کے ساتھ موسوم کرنے کی یہ  وجہ    ہے کہ  اس  طریقے کے سالکین  کاسلسلہ ،  اہل صفہ  سے  جاملتاہے؛اہل  صفہ دراصل  پیغمبر اسلام کے ان  صحابۂ کرام  کو  کہا جاتا ہے  جنہوں نے  اپنی  زندگی   تعلیم اسلام  اور تبلیغ اسلام کے لیے وقف کردی تھی اور وہ اونی  لباس پہناکرتے تھے اور عربی  زبان میں  اون کے لیے صوف کا  لفظ  استعمال کیاجاتاہے جس سے تصوف کا لفظ بناہے، اس اعتبار سے   تصوف کا مطلب ہوگا ؛اہل صفہ کے اخلاق و عادت اختیار کرنا۔ یا تصوف کے ساتھ موسوم کرنے کی یہ وجہ رہی کہ  تصوف کا لفظ بناہے  صفو سے، صفو کامعنی  عربی زبان میں  منتخب  اور چیدہ چیز  کا  آتاہے اورصوفی بھی ان  نفوس قدسیہ  میں سے  ہوتاہے جن کو اللہ نے  اپنے بندوں  میں سے منتخب فرمالیاہے۔

بہر حال اصل تصوف وہ ہےجو قرآٓن و حدیث کے   قائم کردہ  معیار  کے مطابق ہو  اور صوفیہ کے اخلاقوعادات کا آئینہ دار ہو۔عارف صادق  شیخ قطب الدین  دمشقی نے   جو اخلاق صوفیہ   تحریر فرمائیں ہیں ان میں سے اہم  یہ ہیں : بردباری  و دوراندیشی، تواضع  و انکساری، نصیحت و خیر خواہی، شفقت و مہربانی، ضبط و تحمل، حسن سلوک و  حسن معاشرت، دل جوئی و نرم روی، ایثار و قربانی، خدمت خلق، الفت و محبت، خندہ  پیشانی و خندہ روی، جود وسخا،۔ ۔۔عفو و درگزر، صلح و  آشتی، وفاداری، شرم وحیا، سنجیدگی و وقار، دوستوں کا احترام، بزرگوں کی تعظیم۔ حضرت  غریب نواز علیہ الرحمہ کی ذات میں  مذکورہ اخلاق بدرجہ اتم موجود تھے، بلکہ آپ کی صحبت  کی برکت سے لوگوں  میں یہ   اخلاق خود بخود  پیدا ہوجاتے تھے۔

آپ علیہ الرحمہ فرماتے تھے:سخاوت  دریا جیسی، شفقت آفتاب جیسی، تواضع و فروتنی زمین جیسی چاہیے۔آپ کا فرمان ہے: نیکوں کی صحبت  کار نیک سے بہتر ہے، اور بروں کی صحبت   کار بد سے بدتر ہے۔نیز آپ کا فرمان  ہے : بغیر پیروی  شریعت نبی کریم طریقت و معرفت  حاصل نہیں ہوسکتی۔، غرض یہ کہ تصوف   محض جبہ ودستار   زیب  تن کرنے، سماع کے نام پر رقص وسرود کی محفلیں  منعقد کرنے اور نفسانی  خواہشات کی  تکمیل   کا نام نہیں ۔ بلکہ اصل   تصوف  وہ ہے جس تصوف کو خواجہ  غریب نواز علیہ الرحمہ نے  عملی  اور نظریاتی  شکل میں  پیش کیا ناکہ وہ تصوف  جس کو دور حاضر کے بعض  مغرب زدہ متصوفین پیش کرنے کی  کوشش کررہے ہیں ۔ زمانۂ قدیم کے صوفیوں کے نزدیک   شریعت   تصوف کا پہلا زینہ تھی، جبکہ دور حاضر  کے  متصوفین،  شریعت کے ریاضت و مجاہدہ  کی مشقتوں سے  آزادی حاصل کرنے کے لیے؛طریقت  کو شریعت سے  جد ا قرار دیتے ہیں  اور   شریعت میں  ناقص ہونے کے باوجود  ؛طریقت  میں کامل ہونے کی بات کرتے ہیں ؛حالانکہ یہ بات   نقلا و عقلا باطل ہے۔

یہ تصوف خواجہ اجمیری کی  عملی  اور نظریاتی تعلیم سے  متصادم ہے، اگر ایسا ہوتا   تو  غریب نواز علیہ الرحمہ    جو حفظ قرآن کے  بعد  سلسلۂ تعلیم منقطع  کرچکے  تھے، مالی  بحران  کے  عالم میں ، دوبارہ  تحصیل علم  کے لیے  رخت سفر نہ باندھتے۔ چنانچہ بعض صوفیہ سے منقول ہے   کہ علم  تصوف کا  پہلا زینہ ہے، عمل  درمیانی اور  موہبت  (ذات خوداوندی میں  پورے طور پر خود کو  فنا کردینا)آخری درجہ ہے۔اسی  طرح   دور حاضر   کے  بعض  متصوفین  اپنی خرافات   اور بد عملیوں پر  پردہ پوشی کی خاطر   یہ کہتے نظر آتے ہیں  کہ  اللہ والوں کی باتیں  ہر  ایک کی  عقل میں آنے والی نہیں ۔ان   کوران علم و  دانش کو ابھی اتنا بھی نہیں  معلوم کہ  شریعت کا حکم  ظاہر حال پر ہوتاہے، باطن  پر نہیں۔

غرض یہ  کہ ان متصوفین  کی خلوت شاہانہ اور  جلوت   صوفیانہ ہے، جبکہ حق یہ ہے  کہ اہل تصوف کے نزدیک اعلی درجہ کا  صوفی وہی ہوتاہے جس کی خلوت اور  جلوت یکساں ہو۔ اس سلسلے  میں  ہمیں  خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ کی زندگی سے سبق حاصل کرنا  چاہیے۔آپ  علیہ الرحمہ  کی   زندگی نہایت  سادہ  اور  آپ کی خلوت و جلوت کی یکساں  تھی۔ اس سلسلے میں صوفی  باصفاشیخ قطب الدین دمشقی نے علم تصوف  پر مشتمل  اپنی  کتاب رسالہ مکیہ میں   بڑی اہم بات تحریر کی  ہے  جس کو ہم مضمون  کے اختتامیہ کے  طور پر پیش کررہے ہیں :منتہی درجہ کے سالک (صوفی)کا  مقام  و مرتبہ  یہ  ہے : اس کا حال  تنگ حالی  اور  کشادہ حالی، عطاکرنے اور نہ کرنے، وفا اور جفا  کی  صورت میں یکساں ہوتاہے،۔ ۔۔اس کی لذتیں فنا ہوجاتی ہیں  اور حقوق باقی رہتے ہیں ، اس کا  ظاہر مخلوق کے ساتھ اور باطن  حق کے ساتھ ہوتاہے۔

تبصرے بند ہیں۔