تعلیم نسواں: شرعی نصوص کی روشنی میں

مفتی محمد عارف باللہ القاسمیؔ

عورتوں کے معاملہ میں افراط و تفریط کا یہ عالم ہے کہ ایک طبقہ کا تو یہ خیال ہے کہ عورت کا بالکل مرد کے شانہ بشانہ چلنا ہی اس صنف کی اصل آزادی ہے اور عوتوں اور مردوں کے مابین میل جول کو روکنا یا دونوں کا میدان کار علاحدہ کرنا، عورتوں پر صریح ظلم اور حقوق انسانیت کے بالکل ہی خلاف ہے، ان لوگوں نے مساوات کا مطلب یہ سمجھا کہ عمل میں مساوات ہو حالانکہ مردو عورت کے درمیان عمل میں مساوات نہیں بلکہ حیثیت میں مساوات ہے، کہ دونوں یکساں عزت و احترام اور اخلاقی سلوک کے لائق ہیں ان میں  مردوزن کا کوئی امتیاز نہیں۔

دوسرے طبقہ کا یہ زعم ہے کہ اس کی حیثیت صرف یہ ہے کہ اسے گھر کی چہار دیواری میں اس طرح محصور کردیا جائے کہ ان کا تعلق خانہ داری امور کے علاوہ کسی اور چیز سے نہ ہو، حتی کے انہیں تعلیم دینا، مردوں کی طرح انہیں علم سے آراستہ کرنا بھی مناسب نہیں ، بلکہ ان کے خیال میں وہ عورت بہتر ہے جو تعلیم یافتہ نہ ہو، ان کے خیال میں عورتوں کو یہ حق ہی حاصل نہیں کہ وہ پڑھیں لکھیں اور اپنی تعلیم کی روشنی میں اپنے روشن مستقبل کی تعمیر کریں گویا مردوزن کے درمیان صنفی اختلاف کا مطلب ان لوگوں نے یہ نکالا کہ مرد کو امتیازی مرتبہ حاصل ہے تو وہ سارے امتیازی کاموں کا حقدار ہے اور عورتوں کے نصیبہ میں یہ امتیاز نہیں ہے اس لئے وہ امتیازی اوصاف کو حاصل نہیں کرسکتی، حالانکہ صنفی امتیاز کا مقصد یہ ہرگز نہیں ہے۔

شرعی نصوص میں غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام ان دونوں کے بیچ اعتدال کی تعلیم دیتا ہے، وہ نہ تو عورتوں کو بالکل بے محابہ میدان عمل میں آنے کی اجازت دیتا ہے اور نہ ہی ان کو ہر قسم کے معاملات سے روکتا ہے بلکہ ان کی صنفی نزاکت کا لحاظ رکھتے ہوئے قیود و شرائط کے ساتھ انہیں ان تمام کاموں کی اجازت دیتا ہے ج ن کی انہیں دنیوی یا اخروی اعتبار سے ضرورت ہے۔

تعلیم کی ضرورت ایک مسلمہ ضرورت ہے، کیونکہ جہالت تمام برائیوں کی جڑ ہے اور علم تمام کمالات کا سرچشمہ ہے، انسان بغیر علم کے نہ تو اپنی زندگی کو صحیح طے کرسکتا ہے اور نہ اپنی آخرت کی تیاری کرسکتا ہے، کیونکہ نجات کے لئے عمل ضروری ہے اور عمل کا پہلا زینہ علم ہے، اور شریعت کے احکامات، عبادات و معاملات میں مردو عورت کی کوئی تخصیص نہیں ، بلکہ دونوں ہی اپنے کردہ اور ناکردہ کے جوابدہ ہیں ، تو اس کا لازمی مطلب یہ ہے کہ عمل کے لئے جس طرح مردوں کے لئے علم ناگزیر ہے اسی طرح عورتوں کے لئے بھی ضروری ہے، اسی لئے قرآن کریم میں اللہ عزوجل نے امہات المومنین کو حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:

واذکرن مایتلی فی بیوتکن من آیات اللہ و الحکمۃ (احزاب: ۳۴)

’’تم ان آیات الہیہ (قرآن) اور اس علم (احکام) کو یادرکھو جس کا تمہارے گھر میں چرچا رہتا ہے‘‘ صاحب تفسیر طبری آیت میں مذکور لفظ ’’حکمت‘‘ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

ویعنی بالحکمۃ مااوحی الی رسول اللہ ﷺ من احکام دین اللہ ولم ینزل بہ قرآن وذلک السنۃ

’’حکمت سے مراد وہ باتیں ہیں جن کی رسول ﷺ کو وحی کی گئی لیکن اسے قرآن میں نازل نہیں کیا گیا اور وہ سنت ہے‘‘ (تفسیر طبری: ۲۲؍۹ وکذا: تفسیر مظہری: ۷؍۳۴۲)

علامہ عبدالرحمن بن ناصر السعدی (۱۳۰۷۔ ۱۳۷۶) اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

ولما أمرہن بالعمل الذی ھوفعل و ترک أمرھن بالعلم وبین لہن طریقہ فقال { واذکرن مایتلی فی بیوتکن من آیات اللہ والحکمۃ} والمراد بآیات اللہ القرآن، والحکمۃ: اسرارہ وسنۃ رسولہ، وأمرھن بذکرہ یشمل ذکر لفظہ بتلاوتہ وذکر معناہ بتدبرہ والتفکرفیہ واستخراج احکامہ (تیسیر الکریم الرحمن فی تفسیر کلام المنان ص : ۶۱۲)

’’جب اللہ نے ازواج مطہرات کو عمل کا حکم دیا جو کہ چند چیزوں کے کرنے اور چند چیزوں کے نہ کرنے کا نام ہے تو اللہ نے انہیں علم کا حکم دیا اور انہیں علم کے حصول کا طریقہ بتاتے ہوئے فرمایا کہ ’’تم ان آیات الہیہ (قرآن) اور اس علم (احکام) کو یاد رکھو جس کا تمہارے گھر میں چرچا رہتا ہے‘‘ آیات اللہ سے مراد قرآن ہے اور حکمت سے قرآنی اسرار اور رسول اللہ کی سنت مراد ہے، اور انہیں ذکر کا حکم، تلاوت کے ذریعہ الفاظ کو یاد رکھنے، اور اس میں غور و فکر اور احکامات کی تخریج کے ذریعہ اس کے معانی کو یاد رکھنے پر مشتمل ہے‘‘

مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’اذکرن کے دو مفہوم ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ ان چیزوں کو خود یاد رکھنا جس کا نتیجہ ان پر عمل کرنا ہے، دوسرے یہ کہ جو کچھ قرآن ان کے گھروں میں ان کے سامنے نازل ہوا یا جو تعلیمات رسول ﷺ نے ان کو کو دی اس کا ذکر امت کے دوسرے لوگوں سے کریں اور ان کو پہونچائیں ‘‘ (معارف القرآن: ۷؍۱۴۱)

ان تفسیری اقتباسات سے یہ بات اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ نے ازواج مطہرات کو قرآن و حدیث میں بیان کردہ علوم و معارف کے حصول اور حاصل شدہ علوم کی حفاظت و اشاعت کا حکم دیا، ساتھ ہی یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ انہیں یہ حکم، احکامات اسلامیہ پر عمل پیرا ہونے کے لئے دیا گیا تھا، کیونکہ علم کے بغیر صحیح عمل کا تصور ناممکن ہے، اور یہ ظاہر ہے کہ احکامات شرعیہ کی بجا آوری جس طرح امہات المومنین پر لازم تھی اسی طرح امت کی تمام عورتوں پر بھی لازم ہے، تو اس ’’علت مشترکہ‘‘ کی بنیاد پر اس حکم قرآنی کا تعلق جس طرح امہات امومنین سے تھا ایسے ہی امت کی تمام عورتوں سے بھی ہوگا۔

اسی لئے دور نبوت میں بھی عورتوں کی تعلیم کا اہتمام کیا گیا اور رسول اللہ ﷺ کی تعداد ازدواج کی متعدد حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ بھی تھی کہ عورتیں بھی مسائل سیکھ سکیں اور ازدواج مطہرات کے واسطے سے تعلیم نبوت عام عورتوں تک بھی پہونچ سکے۔ نبی اکرم ﷺ مردوں کی طرح عورتوں سے بھی وعظ و نصیحت کرتے اور پیغام خداوندی سناتے۔ چناں چہ کتب حدیث میں عورتوں کی تعلیم اور ان سے وعظ کے متعدد واقعات مذکور ہیں ، حضرت عبداللہ بن عباس ایک واقعہ نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

أن رسول اللہ ﷺ خرج و معہ بلال فظن انہ لم یسمع فوعظہن وأمرہن بالصدقۃ فجعلت المرأہ تلقی القرط والخاتم و بلال یاخذ فی طرح ثوبہ (بخاری: کتاب العلم، باب عظۃ الامام النساء و تعلیمہن)

’’رسول اللہ ﷺ نکلے اور آپؐ کے ہمراہ بلالؓ تھے آپ نے یہ خیال کیا کہ (مردوں سے وعظ کے دوران) عورتیں آپ کی آواز نہ سن سکیں چناں چہ آپ نے ان سے وعظ کیا اور انہیں صدقہ کا حکم دیا تو عورتیں اپنی بالیاں اور انگوٹھیاں نکال کر دینے لگیں اور حضرت بلال اپنے دامن میں لے رہے تھے‘‘۔ اس روایت کی تشریح کے تحت علامہ شوکانیؒ لکھتے ہیں :

فیہ استحباب وعظ النساء و تعلیمہن احکام الاسلام وتدکیرھن بما یجب علیہن و استجاب حثہن علی الصدقۃ و تخصیصہن بذلک فی مجلس منفرد (نیل الاوطار، کتاب العیدین، باب لاصلاۃ قبل العیدین)

’’اس روایت سے عورتوں سے وعظ کرنے، انہیں احکام اسلام کی تعلیم دینے، انہیں صدقہ دینے پر آمادہ کرنے اور ان کی تعلیم کے لئے علاحدہ مجلس کا اہتمام کرنے کا استحباب کا ذکر ہے‘‘

حضرت ابو سعید خدریؓ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ عورتوں نے دربار نبوی میں یہ شکایت کی کہ مرد آپ سے استفادہ میں ہم سے سبقت لے گئے، اس لئے آپ ہمارے لئے اپنی طرف سے کوئی دن متعین کردیجئے، اس دن ہم آپ کے پاس حاصر ہو جایا کریں تاکہ اللہ نے جو علم آپؐ کو دیا ہے آپؐ ہمیں اس کی تعلیم دیں ، آپؐ نے فرمایا کہ تم عورتیں فلاں دن فلاں مقام پر جمع ہو جایا کرو، وہ سب اس جگہ جمع ہوگئیں پھر آپؐ تشریف لائے اور عورتوں کو تعلیم دی پھر فرمایا کہ تم میں سے جس عورت کے تین بچے وفات پاجائیں وہ بچے اس کے لئے دوزخ سے حفاظت کا دریعہ بنیں گے، ایک عورت نے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول دو کے بارے میں کیا حکم ہے؟ ابو سعید ؓکہتے ہیں کہ اس خاتون نے اپنا سوال دہرایا تو آپؐ نے فرمایا دو، دو اور دو بھی۔ (بخاری: کتاب الاعتصام بالکتاب والنۃ، باب تعلیم النبی ﷺ، مسلم: کتاب البروالصلۃ والآداب، باب الاحسان الی البنات)

ایک روایت میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ان الفاظ میں منقول ہے:

من کانت لہ ابنۃ فادبہا فاحسن ادبہا وعلمہا فاحسن تعلیمہا واوسع علیہا من نعم اللہ التی اسبغ علیہ کانت لہ منعۃ وسترۃ من النار (المعجم الکبیر: ۱؍۱۹۷، روایت : ۱۰۴۴۷)

’’جس کے پاس لڑکی ہو اور اس نے اسے اچھا ادب سکھلایا اور اچھی تعلیم دی اور اس پروہ انعامات کو وسیع کیا جو کہ اللہ نے اس کو دیا ہے تو وہ لڑکی اس کے لئے جہنم سے رکاوٹ اور پردہ بنے گی‘‘

ایک اور روایت میں رسول اللہ ﷺ باندیوں کی تعلیم پر زور دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :

ثلاثۃ لہم اجران رجل من اہل الکتاب آمن بنبیہ و آمن بمحمد ﷺ والعبد المملوک اذا ادی حق اللہ وحق موالیہ ورجل کانت عندہ امۃ یطاً ہافادبہا فاحسن تادیبہا وعلمہا فاحسن تعلیمہاثم اعتقہا فتزو جہافلہ اجران (بخاری: کتاب العلم، باب تعلیم الرجل امتہ)

’’تین قسم کے لوگوں کے لئے دواجر ہیں ایک تو وہ آدمی جس کا اپنے نبی پر ایمان ہو پھر رسول اللہ ﷺ پر ایمان لے آئے، ایک وہ غلام جب کہ وہ اللہ کا حق اور اپنے آقاؤں کا حق ادا کردے اور ایک وہ آدمی جس کے پاس ایک باندی جس سے وہ جنسی تعلقات رکھتا ہو پھر وہ اسے اچھا ادب سکھلائے اور اسے اچھی تعلیم دے پھر اسے آزاد کرکے اس سے شادی کرلے تو اس کے لئے دواجر ہیں ‘‘

علامہ ابن حجر عسقلانیؒ اس روایت کے تحت لکھتے ہیں :

الاعتناء بالاہل الحرائر فی تعلیم فرائض اللہ وسنن رسولہ اکدمن الاعتناء بالاماء  (فتح الباری: کتاب العلم، باب تعلیم الرجل امتہ)

’’آزاد گھر والوں کو اللہ کے فرائض اور اس کے رسول کی سنتوں کی تعلیم پر توجہ دینا باندی کی تعلیم پر توجہ دینے سے زیادہ اہم اور ضروری ہے‘‘

حضرت عائشہ ؓ انصار کی ان عورتوں کی تعریف کرتی ہیں جو ’’تفقہ فی الدین‘‘ حاصل کرنے کی متمنی اور اس میں منہمک تھیں جیسا کہ امام بخاری نے آپ ؓ کا یہ قول ان الفاظ میں نقل کیا ہے:

نعم النساء نساء الانصار لم یننعہن الحیاء ان  یتفقہن فی الدین (بخاری: کتاب العلم، باب الحیاء فی العلم)

’’انصار کی عورتیں کتنی بہتر ہیں دین میں تفقہ حاصل کرنے میں انہیں حیاء مانع نہیں ہے‘‘

ان شرعی نصوص کی روشنی میں جمہورامت کا ہمیشہ اس مسئلہ میں اتفاق رہا ہے عورت تعلیم کے مسئلہ میں مرد ہی کی طرح ہے کیونکہ یہ اس کی صنفی نزاکت کے خلاف نہیں ہے، بلکہ اس سے اس کی شخصیت میں مزید زینت پیدا ہوتی ہے، یہ معاشرہ کی اصلاح میں معاون اور مددگار بنتی ہے اور رسومات و بدعات اور شرک و کفر کے اثرات سے مسموم ماحول کے لئے ’’تریاق‘‘ ثابت ہوتی ہے اور اگر غیر جانبداری کے ساتھ غور کیا جائے تو عورت کو ترقی دینے کا صحیح مفہوم اور اصل راز یہی ہے کہ عورت کو صاحب علم اور باشعور بنایا جائے کیونکہ عورت اگر باشعور ہوگی تو گھر کے اندر رہ کر بھی کارہائے نمایاں انجام دے سکتی ہے، جب کے وہ بے شعوری، ناواقفیت اور جہالت کے ساتھ نہ تو کوئی بڑا کام کرسکتی ہے اور نہ کسی بڑے کام کرنے والے کے لئے سہارا اور مددگار بن سکتی ہے، حتی کہ اس کی بے شعوری کے متعدی اثرات ان بچوں پر پڑیں گے جن کے  لئے اس کی گود شعور و آگہی اور تعلیم و تربیت کی پہلی درسگاہ ہے، بقول حضرت حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحبؒ :

’’حدیث میں آتا ہے کہ جب بچہ سات سال کا ہو جائے تو اس کو نماز کی طرف متوجہ کردیا جائے، تو حقیقت میں یہ مقصد عورتوں سے ہی حاصل ہوتا ہے کہ جب ماں تعلیم یافتہ ہوگی تو بچے کو تعلیم سے آشنا کردے گی، جس سے اس کے اخلاق سدھر جائیں گے‘‘ (خطبات حکیم الاسلام: ۶؍۶۶۲)

علامہ ابن حزم اپنی کتاب ’’الاحکام فی اصول الاحکام‘‘ میں عورت کی تعلیم کے بارے میں لکھتے ہیں :

وفرض علی کل امرأۃ التفقہ فی کل مایخصہا کما ذلک للرجال… وفرض علیہن کلہن معرفۃ احکام الطہارۃ والصلاۃ والصوم ومایحل و مایحرم من المآکل والمشارب والملابس وغیر ذلک کالرجال ولا فرق ولو تفقہت امرأۃ فی علوم الدنیا للزمناقبول نذارتھا فہولاء ازواج النبی ﷺ وصواحبہ قد نقل عنہن احکام الدین وقامت الحجۃ بنقلہن (الاحکام فی اصول الاحکام ۳؍۳۲۴)

’’ ہر عورت پر ان کے مخصوص مسائل میں اچھی واقفیت فرض ہے، جیسا کہ مردوں پر فرض ہے…… اور تمام عورتوں پر طہارت، نماز اور روزہ کے احکام کو جاننا اور کھانے پینے اور لباس وغیرہ کے حرام و حلال کو جاننا مردوں ہی کی طرح فرض ہے اور اس میں مرد وزن کا کوئی فرق نہیں ہے، اور اگر کوئی عورت علو دینیہ میں فقیہ بن گئی تو ہم پر ان کے تصریح کو قبول کرنا لازم ہے کیونکہ یہ نبی اکرم ﷺ کی ازدواج اور ان کی صحابیات ہیں جن سے دین کے احکامات منقول ہیں اور ان کو نقل کرکے استدلال کیا جاتا ہے‘‘

فقہ کی مشہور و مقبول اور مفصل کتاب ’’الموسوعۃ الفقہیۃ‘‘ میں عورت کی تعلیم کے بارے میں متعدد جگہوں پر وضآحت کے ساتھ یہ تصریح کی گئی ہے کہ مسئلہ تعلیم میں شریعت نے مرد و عورت کی کوئی تفریق نہیں رکھی ہے، چناں چہ تحریر فرماتے ہیں :

للمرأۃ حق التعلیم مثل الرجل فقدقال النبی ﷺ طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم وہو یصدق علی المسلمۃ ایضافقد قال الحافظ السخاوی: قدالحق بعض المصنفین بآخر ھذا الحدیث و مسلمۃ ولیس لہا ذکرفی شیٔ من طرقہ وان کان معناھا صحیحا (الموسوعۃ الفقہیۃ: انوثۃ، احکام الانوثۃ)

’’مرد کی طرح عورت کو بھی تعلیم کا حق ہے، کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے ’’ہر مسلمان پر علم کا حاصل کرنا فرض ہے اور یہ حدیث مسلمان عورت کو بھی شامل ہے چناں چہ علامہ سخاوی نے فرمایا ہے کہ بعص مصنفین نے اس حدیث کے آخر میں ’’ومسلمۃ‘‘ کی زیادتی کردی ہے جس کا اس حدیث کی کسی بھی سند میں تذکرہ نہیں ہے، اگرچہ کہ اس زیادتی کا معنی صحیح ہے‘‘

معنوی طور پر اس زیادتی کے صحیح ہونے کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ام کثیر بنت یزید انصاری کی بہن سے فرمایا:

فلتسأل فان طلب العلم فریضۃ (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ : ۸؍۲۸۳)

’’پوچھ لو (شرام مت کرو) کیوں کہ علم کا حاصل کرنا فرض ہے‘‘

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علم کا حاصل کرنا جس طرح مردوں پر فرض ہے اسی طرح عورتوں پر بھی فرض ہے اس میں مرد و عورت کی کوئی شخصیص نہیں ، اس لئے کہ آپ نے ان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ علم کا حاصل کرنا فرض ہے اگر علم کا حصول عورتوں پر فرض نہ ہوتا تو آپ ان کو مخاطب بناکر یہ بات نہ کہتے، اور نہ ہی فلتسأل کی دلیل میں اسے پیش کرنا صحیح ہوتا۔

’’الموسوعۃ الفقہیۃ‘‘ میں دوسری جگہ اس مسئلہ کو ان الفاظ میں تحریر کرتے ہیں :

لاخلاف بین الفقہاء فی مشرو عیۃ تعلیم النساء القرآن والعلوم والآداب ومن الفقہاء من قال بوجوب قیام المتأہلۃ من النساء بتعلیم علوم الشرع کما کانت عائشۃ رضی اللہ عنہا ونساء تابعات (الموسوعۃ الفقہیۃ : حرف التاء، تعلیم و تعلیم)

’’عورتوں کے قرآن، علوم اور آداب سیکھنے کی مشروعیت کے سلسلے میں فقہاء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے، بعض فقہاء نے تو ان عورتوں پر علوم شرعیہ کا سیکھنا واجب قرار دیا ہے جو اس کی اہلیت رکھتی ہوں جیسا کہ حضرت عائشہ اور تابعات عورتیں تھیں۔‘‘

اسی طرح ’’المفصل فی احکام المرأۃ والبیت المسلم فی الشریعۃ الاسلامیۃ‘‘ میں علامہ عبدالکریم زیدان لکھتے ہیں :

أن من حقہا أن تتفقہ فی الدین و تصیر من اہل الفتیاوالا جتہاد ویؤید قولنا ہذا أن الاستزادۃ من التفقہ فی الدین امر مرغوب فیہ شرعا و مندوب الیہ شرعا وطریق مؤکد للظفر بالخیر لقولہ ﷺ ’’من یرد اللہ بہ خیرا یفقہ فی الدین‘‘ وھذا یشمل النساء والرجال (المفصل فی احکام المرأۃ والبیت المسلم فی الشریعۃ الاسلامیۃ: ۴؍۲۴۰)

’’عورت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ دین میں تفقہ حاصل کرے اور مفقیہ اور مجتہدہ بنے، ہماری اس بات کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ دین کی سمجھ حاصل کرنا شرعاً پسندیدہ اور مطلوب ہے اور خیر کے حاصل کرنے کا ایک مضبوط ذریعہ ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ اللہ جس کے بارے میں خیر چاہتا ہے اسے دین میں فقیہ بنادیتا ہے اور یحہ حدیث مردو عورت دونوں کو شامل ہے‘‘

حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ فرماتے ہیں :

’’ان (عورتوں ) کی عام احتیاج رفع ہونے کی بجز اس کے کوئی صورت نہیں کہ کچھ عورتیں پڑھی ہوئی ہوں ، اور عام مستورات ان سے اپنے دین کی ہرقسم کی تحقیقات کیا کریں ، پس کچھ عورتوں کو بطریق متعارف تعلیم دین دینا واجب ہوا، اور ثابت ہوگیا کہ لکھے پڑھے مردوں کی طرح عورتوں میں ایسی تعلیم کا ہونا ضروری ہے ‘‘ (بہشتی زیور: ۸۷)

مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی میاں ندوی ؒ فرماتے ہیں :

’’ابتدائے اسلام سے بچیوں ، لڑکیوں اور خواتین کو بھی تعلیم میں اور اسلا م کی تربیت میں شریک کیا گیا ہے، حدیث میں فرمایا گیا ہے، ’’ طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم ومسلمۃ‘‘ علم کی طلب اور علم پر محنت کرنا اور علم کو حاصل کرنا یہ ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے، تو اسلام کا پورا نظام، اس کا نظام دینی اور اس کا نظام ذہنی، اور اس کا نظام اخلاقی اور اس کا نظام پرورش کا صحیح مفہوم وجود میں نہیں آسکتا، جب تک کہ خود ہماری امت کی مسلمان بیبیاں اس میں شریک نہ ہوں اور وہ ضروری حد تک علم حاصل نہ کریں۔ ۔۔ ۔   حقیقت یہ ہے کہ جیسے ایک گھرانہ بغیر بیبیوں کے ناقص ہے اور اس کو گھرانہ کہنا بھی صحیح نہیں ہے، ایسے ہی امت کا بھی حال ہے  کہ اگر اس میں تعلیم اور ترقی، فہم اور سمجھ، اخلاق اور تہذیب یہ صرف مردوں میں محدود رہی تو پھرامت کو بیدار امت اور زندہ امت کہنا مشکل ہے‘‘(اسلام میں عورت کا درجہ اور اس کے حقوق وفرائض: ۲۳۵)

تعلیم نسوان کی اہمیت کے حوالے سے مولانا علی میاں ندوی ایک موقع پر بڑے درد وکرب سے فرماتے ہیں :

’’ہم صاف کہتے ہیں کہ مسلمانوں کا اس ملک میں مسلمان بن کر رہنا، قرآن شریف کے پڑھنے کے قابل ہونا، اردو کتابوں سے فائدہ اٹھانا، اسلامی شعائر واحکام سے واقف ہونا، اسلامی تہذیب اختیار کرنا  اور اس پر قائم رہنا، اور توحید کے عقیدے پر مضبوطی سے جمنا، اس میں آدھی سے زیادہ ذمہ داری ہماری بیبیوں اور عورتوں پر ہے———  اگر یہ نہ ہوا اور اس میں ہماری خواتین اور ہمارے گھر کی پڑھی لکھی دیندار بیبیوں نے اس کی طرف توجہ نہ کی اور نہ ہی دلچسپی لی تو میں آپ سے صاف کہتا ہوں اور دل پر ہاتھ رکھ کر کہتا ہوں کہ اس ملک میں مسلمان کا مسلمان رہنا مشکل ہوگا، بلکہ یہ ملک اسپین بن جائے گا، اور آج بتاتا ہوں آپ کو کہ یہ نقشہ اور منصوبہ تیار ہے کہ اس ملک کو اسپین بنادیا جائے ‘‘(تعمیر حیات:۱۰؍اکتوبر۱۹۹۶ء)

ایک سوال کے جواب میں دارالعلوم دیوبند سے یہ فتوی صادر ہوا:

اسلام کی نظر میں دینی تعلیم مرد وعورت دونوں کے لیے یکساں طور پر مطلوب ہے، اور بنیادی عقائد، فرائض اورحلال حرام کا جاننا ہرمرد وعورت پر فرض ہے، قرآن کریم نے علم کوانسانوں کے لیے بطور انعام الٰہی کے بیان فرمایا ہے اوراس میں کہیں بھی مردوں کی تخصیص نہیں ہے،نیز مستند احادیث میں عورتوں اور اپنے اہل وعیال کو تعلیم دینے کا حکم دیا گیا ہے، چنانچہ صحیح بخاری کتاب العلم (۱/۱۹) میں ہے: قال مالک بن الحویرث: قال لنا رسول اللہ -صلی اللہ علیہ وسلم- ارجعوا إلی أھلیکم فعلموھم بلکہ تعلیم کے لیے عورتوں کا ایک جگہ جمع ہونا اور آپ علیہ السلام کا ان کی درخواست پر ان کی تعلیم کے لیے ایک دن مخصوص کرنا بھی صحیح احادیث سے ثابت ہے،اسی وجہ سے امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح (۱/۲۰) میں ھل یجعل للناس یوماً علی حدة کے عنوان سے ایک باب قائم فرمایا ہے اور اس کے تحت حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث لائے ہیں ، نیز تجربہ سے ثابت ہے کہ اجتماعی تعلیم جس قدر مفید ہوتی ہے انفرادی تعلیم اتنی مفید نہیں ہوتی، اس لیے مدارسِ نسواں کا قائم کرنا اور لڑکیوں وعورتوں کا تعلیم وتعلم کے لیے وہاں جانا اوران کا اپنی صنف کے مطابق علوم وفنون سیکھنا جائز اور مستحسن ہے اس لیے کہ اس کا مبنی تعلیم وتعلم کی تنظیم وتشکیل ہے، البتہ مدارسِ نسواں میں لڑکیوں کو تعلیم دلانے کی کچھ شرائط ہیں جن کی پابندی بہرحال لازم ہے، جہاں یہ شرطیں پائی جائیں گی وہاں لڑکیوں کو تعلیم دلانا جائز اور مباح ہوگا اور جہاں یہ شرائط مفقود ہوں گی وہاں خواتین کا تعلیم کے لیے جانا ناجائز ہوگا، وہ شرائط درج ذیل ہیں :

(۱) خواتین کی تعلیم گاہیں اور اسکول وکالج صرف اور صرف خواتین کے لیے مخصوص ہوں ،مخلوط تعلیم نہ ہو اور مردوں کا ان تعلیم گاہوں میں آنا جانا اورعمل دخل ہرگز نہ ہو، مدرسہ کا جائے وقوع فتنہ فساد اور اس کے امکان سے بھی محفوظ ہو۔

(۲) ان تعلیم گاہوں تک خواتین کی آمد ورفت کا شرعی پردہ کے ساتھ ایسا محفوظ انتظام ہو کہ کسی مرحلہ میں بھی فتنہ کا اندیشہ نہ ہو۔

(۳) نیک کردار، پاک دامن عورتوں کو تعلیم کے لیے مقرر کیا جائے، اگر ایسی معلمات نہ مل سکیں تو بدرجہٴ مجبوری نیک صالح اور قابل اعتماد مردوں کو مقرر کیا جائے جو پس پردہ خواتین کو تعلیم دیں۔

(۴) مدرسہ کے حالات کی کڑی نگرانی اور مفاسد وفتن کی روک تھام کا اہتمام بہت ہی اعلیٰ درجہ کا ہو۔

(۵) اگر کوئی مدرسہ شرعی مسافت پر ہو تو وہاں جانے کے لیے عورت کے ساتھ اس کا محرم بھی ہو۔

(۶) مدرسہ والوں کے عقائد اہل سنت والجماعت کے عقائد کے موافق ہوں تاکہ ان مدارس میں تعلیم حاصل کرنے سے عقائد خراب نہ ہوں۔

مذکورہ بالا شرائط کے ساتھ اگر کسی جگہ تعلیم دی جاتی ہو تو وہاں لڑکیوں کو تعلیم دلانا جائز اورمباح ہوگا۔ واضح رہے کہ لڑکیوں کو تعلیم دلانے میں والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ کوشش کریں کہ کم سے کم عمر میں ہماری لڑکی زیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کرلے؛ کیوں کہ بڑی لڑکیوں کو دور دراز بھیجنے میں مفاسد ہیں اس لیے بالکل شروع ہی سے ان کی تعلیم کی طرف توجہ دی جائے۔ واللہ تعالیٰ اعلم(فتوی دارالعلوم دیوبند: 51536)

ان تفصیلات سے عورت کے تعلیم کے بارے میں بالکل اسلام کا نظریہ معلوم ہو جاتا ہے کہ عورتیں بھی خود کو تعلیم سے آراستہ کرسکتی ہیں ، بلکہ ان پر بھی مردوں کی طرح اس کو حاصل کرنا ضروری ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں عورتوں نے علم سے وابستگی اختیار کی ہیں اور بڑے بڑے نمایاں خدمات انجام دی ہیں، خیر القرون ہی کے زمانہ میں جب ہم غور کرتے ہیں تو بہت سی فقیہہ اور حدیث نبوی کو نقل کرنے والی صحابیات کے نام ہمیں صفحۂ تاریخ میں ملتے ہیں ، حضرت عائشہ کا علمی مقام تاریخ میں مسلم ہے کہ حضور ﷺ نے ان کے بارے میں فرمایا کہ میری وحی کا آدھا علم میرے صحابہؓ سے اور آدھا علم حضرت عائشہ ؓ سے سیکھو، ان کے علاوہ اور صحابیات مثلاً دیگر ازدواج مطہراتؓ، حضرت ام سلیمؓ، حضرت ام حرامؓ، حضرت ام عطیۃؓ، حضرت ام کرزؓ، حضرت ام شریکؓ، حضرت ام الدرداء ؓ، حضرت ام خالدؓ، حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ، حضرت فاطمہؓ بنت قیس، حضرت بسرۃ ؓ وغیرہ کے نام علم و فقہ اور روایت حدیث میں نمایاں نظر آتے ہیں ، اسی طرح ہر زمانہ میں عورتیں علم و فضل سے وابسہ رہی ہیں، صاحب ’’صنفوۃ الصفوۃ‘‘ نے علم و فضل اور جہاد سیاست میں عورتوں کی خدمات پر مستقل عنوان قائم کرکے ان کے خدمات کو مفصل بیان کیا ہے، علامہ ابن خلکان نے ’’شہرہ بنت ابی نصر (متوفہ ۵۷۴ھ ؁ ) کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ بہت ہی جید عالمہ تھیں، انہوں نے بڑے بڑے علماء اور محدثین سے علم حاصل کیا اور ان سے بہت سے تشنگان علوم نے استفادہ کیا، علامہ مقریزی نے ’’نفح الطیب‘‘ میں عائشہ بنت احمد قرطبیہ (متوفیہ ۴۰۰ھ؁ ) کے بارے میں لکھا ہے کہ اندلس میں علم، فہم، ادب، شعر اور فصاحت میں کوئی ان کے برابر نہیں تھا، فقہ حنفی کی مشہور و متداول کتاب ’’بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع‘‘ کی وجہ تصنیف یہ ہے کہ ایک بہت بڑے عالم اور محدث علاء الدین سمر قندی کی دختر فاطمہ بھی بہت بڑی عالمہ اور فقیہہ تھیں اور ساتھ ہی ساتھ بہت ہی خوبصورت بھی تھیں ، بڑے بڑے علماء اور سلاطین نے ان کے پاس نکاح کا پیغام بھیجا مگر انہوں نے کسی کو قبول نہ کیا بلکہ یہ شرط رکھی کہ سارے علماء فقہ میں ایک کتاب تصنیف کریں جن کی کتاب مجھے پسند آئے گی میں ان سے نکاح کرلوں گی، چناں چہ علامہ کا سانی ؒ کی کتاب بدائع الصنائع انہیں پسند آگئی تو انہوں نے ان سے نکاح کرلیا۔ امام ابو جعفر طحاوی کی کتاب ’’طحاوی‘‘ کا املاء خود ان کی دختر نے کیا جو کہ ایک بڑی عالمہ تھیں۔

اس حقیقت کے ساتھ یہ بات بھی ملحوظ رہنی ضروری ہے کہ جہاں عورتوں کے لئے تعلیم ضروری ہے وہیں پردہ اور دیگر نسوانی خصوصیات اور عورتوں کے بارے میں حجاب کے متعلق اسلام کے خصوصی احکامات اور قواعد وضوابط کو بھی مدنظر رکھنا بھی لازم ہے، کیونکہ عورتوں کو تعلیم کی اجازت اسی شرط کے ساتھ ہے کہ وہ خود کو ان چیزوں سے بے پرواہ نہ کریں ، بلکہ اس کا مکمل خیال رکھیں اور اللہ کے نافذ کردہ خصوصی احکامات سے ہرگز بے توجہی نہ برتیں ، اپنی عزت و آبرو اور عفت و پاکدامنی کا خیال رکھیں ، علمی گفتگو میں ’’لچک‘‘ کو روانہ رکھیں ، اور نشست و برخواست میں مردوں سے علاحدہ رہیں۔

تبصرے بند ہیں۔