آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ: مبارک جدوجہد کے 45 سال (پہلی قسط)

شاہ اجمل فاروق ندوی

مسلمانان ہند کا سب سے موقر، سب سے مستند اور سب سے متفق علیہ ادارہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈاپنے وجود کے ۴۵؍ سال مکمل کرچکا ہے۔ اس مدت میں اس مبارک کارواں نے جو کارنامے انجام دیے، وہ دنیا کی تمام اقلیتوں کے لیے روشن مثال ہیں۔ تقریباً نصف صدی پر محیط اس مقدس ادارے کی حصول یابیاں تمام مسلم فرقوں، مسلکوں، جماعتوں اور اداروں کے بزرگوں کی دعاؤں اور مشترکہ جدوجہد کا نتیجہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بار بار داخلی اور خارجی فتنہ پروروں اور تخریب کاروں کی شرارتوں کے باوجود ملت کا یہ مشترکہ سرمایہ محفوظ ہے اور پوری ایمانی فراست، دانش مندی اور عزم و حوصلے کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔

پس منظر

ہندستانیوں کی مشترکہ جدوجہد کے نتیجے میں ۱۹۴۷ میں ہندستان انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوا۔ آئین ہند میں اس بات کی مکمل آزادی دی گئی کہ ہندستان میں ہر مذہب کا ماننے والا، اپنے مذہبی شعائر و امتیازات کے ساتھ زندگی گزار سکتا ہے۔ ایک طرف آئین کی تشکیل ہو رہی تھی، تو دوسری طرف وہ طاقتیں اپنے پنجے جما رہی تھیں، جنھوں نے بابائے قوم موہن داس کرم چند گاندھی (۱۸۶۹۔ ۱۹۴۸) کو خون میں نہلایا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وقت کے ساتھ ساتھ ملک کے ہر شعبے میں دو نظریات پائے جانے لگے۔ وطن سے محبت اور آئین کا مکمل احترام کرنے کا نظریہ اور دوسرا تمام اقلیتوں اور نیچی ذاتوں کو کچل کر ہندستان کو ہندو راشٹر بنانے کا نظریہ۔ مقتنہ، عدلیہ اور انتظامیہ سے متعلق تمام شعبوں میں یہ دونوں نظریات اپنا اپنا اثر دکھانے لگے۔ اقلیتیں خود کو غیر محفوظ محسوس کرنے لگیں۔ بالخصوص مسلمانوں کے خلاف چلنے والی خون آشام لہر نے انھیں ہر لحاظ سے نقصان پہنچایا۔ مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں اور ہندو نچلی ذاتوں کو اپنا ہی ملک اجنبی اجنبی سا لگنے لگا۔ افسوس! یہ صورت حال آج بھی باقی ہے۔ بلکہ یہ دور، جس میں یہ سطریں لکھی جا رہی ہیں، یہ آزاد ہندستان کا سب سے نازک اور سیاہ دور ہے۔ مرکزی حکومت کی شہ پر مسلم پرسنل لا کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ طلاق ثلاثہ کے مسئلے کو بنیاد بناکر یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی راہ ہم وار کی جارہی ہے۔ میڈیا تو حکومت کی سرپرستی میں کام کر ہی رہا ہے، خود وزیراعظم بھی مسلم عورتوں پر ہونے والے ’’مظالم‘‘ کے’’ غم میں گھلے ‘‘جارہے ہیں۔ یہ صورت حال کوئی نئی نہیں۔ آزادیِ وطن کے بعد بار بار ایسے حالات پیدا کیے گئے ہیں، جن کے مقابلے کے لیے ۴۵؍سال پہلے مسلمانان ہند نے متحد ہوکر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کو قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ الحمدﷲ موجودہ حالات میں بھی بورڈ پوری طرح سرگرم عمل ہے اور موجودہ فتنوں کے مقابلے کے لیے میدان میں اترا ہوا ہے۔

تاسیس

۱۹۷۲ میں ہندستانی پارلیمنٹ میں لے پالک بل پیش کیا گیا۔ اس بل کی رو سے منہ بولے بیٹے کو حقیقی بیٹے کی حیثیت حاصل ہوتی تھی۔ اس وقت کے وزیر قانون ایچ آر گوکھلے (۱۹۱۵۔ ۱۹۷۸) نے اس بل کو یونیفارم سول کوڈ کی تدوین کی طرف پہلا قدم قرار دیا تھا۔ (آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ۔ سرگرمیوں کا ایک خاکہ، از: محمد عبدالرحیم قریشی، سہ ماہی خبرنامہ بورڈ، شمارہ: جنوری تا جون ۲۰۰۵، ص:۲۲) یہ بل عمومی حیثیت کا تھا۔ تمام ہندستانیوں کو اس کا پابند بنایا جارہا تھا۔ یہ چیز اسلامی تعلیمات کے خلاف تھی۔ اسلامی شریعت کے مطابق منہ بولا بیٹا، سگے بیٹے کی حیثیت اختیار نہیں کرسکتا۔ چناں چہ مولانا سید منت اﷲ رحمانی(۱۹۱۲۔ ۱۹۹۱) کی تحریک پر ۱۳، ۱۴؍مارچ ۱۹۷۲ کو مولانا قاری محمد طیب قاسمی (۱۸۹۷۔ ۱۹۸۳) نے دیوبند میں ایک اجلاس بلایا۔ اجلاس کے شرکاء میں ان دونوں بزرگوں کے علاوہ مفتی عتیق الرحمن عثمانی (صدر مسلم مجلس مشاورت)، قاضی مجاہد الاسلام قاسمی (۱۹۳۶۔ ۲۰۰۱)، ڈاکٹر فضل الرحمن گنوری (علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ)، مولانا اسعد مدنی (۱۹۲۸۔ ۲۰۰۶)، مولانا عامر عثمانی(۱۹۲۰۔ ۱۹۷۵) اور مولانا سعید احمد اکبر آبادی (علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ) وغیرہ شریک ہوئے۔ اس اجلاس میں طے ہوا کہ چوں کہ مسلم پرسنل لا کی آواز سب سے پرزور طریقے سے ممبئی سے اٹھ رہی ہے، اس لیے وہیں ایک بڑا اجلاس منعقد کرنا چاہیے۔ (سہ ماہی خبرنامہ بورڈ، شمارہ: جنوری تا جون ۲۰۰۵،، ص:۲۹) چناں چہ ۲۷، ۲۸ دسمبر ۱۹۷۲ کو ممبئی میں ایک تاریخ ساز اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں مسلمانوں کے تمام فرقوں، مسلکوں اور جماعتوں کی بھرپور نمائندگی تھی۔ طے کیا گیا کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی تاسیس عمل میں آنی چاہیے۔ لہٰذا ۷؍اپریل ۱۹۷۳ کو حیدرآباد میں بورڈ کی تاسیس عمل میں آئی۔ مولانا قاری محمد طیب قاسمی اس کے صدر اور مولانا سید منت اﷲ رحمانی جنرل سکریٹری مقرر ہوئے۔

مقاصد

بنیادی طور پر بورڈ کے نو مقاصد طے کیے گئے:

ہندستان میں ’’مسلم پرسنل لا‘‘ کے تحفظ اور شریعت ایکٹ کے نفاذ کو قائم اور باقی رکھنے کے لیے مؤثر تدابیر اختیار کرنا۔

بالواسطہ، بلاواسطہ یا متوازی قانون سازی جس سے قانون شریعت میں مداخلت ہوتی ہو، علاوہ ازیں کہ وہ قوانین پارلیمنٹ یا ریاستی مجلس قانون ساز میں وضع کیے جاچکے ہوں یا آئندہ وضع کیے جانے والے ہوں یا اس طرح کے عدالتی فیصلے جو مسلم پرسنل لا میں مداخلت کا ذریعہ بنتے ہوں، انھیں ختم کرانے یا مسلمانوں کو ان سے مستثنیٰ قرار دیے جانے کی جدوجہد کرنا۔

مسلمانوں کو عائلی و معاشرتی زندگی کے بارے میں شرعی احکام و آداب، حقوق و فرائض اور اختیارات و حدود سے واقف کرانا اور اس سلسلے میں ضروری لٹریچر کی اشاعت کرنا۔

شریعت اسلامی کے عائلی قوانین کی اشاعت اور مسلمانوں پر ان کے نفاذ کے لیے ہمہ گیر خاکہ تیار کرنا۔

مسلم پرسنل لا کے تحفظ کی تحریک کے لیے بہ وقت ضرورت ’’مجلس عمل‘‘ بنانا، جس کے ذریعے بورڈ کے فیصلے درآمد کرنے کی خاطر پورے ملک میں جدوجہد منظم کی جاسکے۔

علماء اور ماہرین قانون پر مشتمل ایک مستقل کمیٹی کے ذریعے مرکزی یا ریاستی حکومتوں یا دوسرے سرکاری و نیم سرکاری اداروں کے ذریعے نافذ کردہ قوانین اور گشتی احکام (Circulars) یا ریاستی اسمبلیوں اور پارلیمنٹ میں پیش کیے جانے والے مسودات قانون (بل) کا اس نقطہ نظر سے جائزہ لیتے رہنا کہ ان کا مسلم پرسنل لا پر کیا اثر پڑتا ہے۔

 مسلمانوں کے تمام فقہی مسلکوں اور فرقوں کے مابین خیرسگالی، اخوت اور باہمی اشتراک و تعاون کے جذبات کی نشوونما کرنا اور ’’مسلم پرسنل لا‘‘ کی بقا و تحفظ کے مشترکہ مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے ان کے درمیان رابطہ اور اتحاد و اتفاق کو پروان چڑھانا۔

 ہندستان میں نافذ ’’محمڈن لا‘‘ کا شریعت اسلامی کی روشنی میں جائزہ لینااور نئے مسائل کے پیش نظر مسلمانوں کے مختلف فقہی مسالک کے تحقیقی مطالعے کا اہتمام کرنا اور شریعت اسلامی کے اصولوں پر قائم رہتے ہوئے کتاب و سنت کی اساس پر ماہرین شریعت اور فقہ اسلامی کی رہنمائی میں پیش آمدہ مسائل کا مناسب حل تلاش کرنا۔

 بورڈ کے مذکورِبالا اغراض و مقاصد کے حصول کے لیے وفود کو ترتیب دینا، Study Tearms تشکیل دینا، سمینار، سمپوزیم، خطابات، اجتماعات، دوروں اور کانفرنسوں کا انتظام کرنا، نیز ضروری لٹریچر کی اشاعت اور بہ وقت ضرورت اخبارات و رسائل او رخبرناموں وغیرہ کا اجراء اور اغراض و مقاصد کے لیے دیگر ضروری امور انجام دینا۔

طریقۂ کار

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ آئین ہند کے دائرے میں کام کرتا ہے۔ بلاوجہ کی جذباتیت، شعلہ باری، ہنگامہ خیزی، حکومت سے بے جا ٹکراؤ اور سطحی طریقے اختیار کرنا، اس کا مزاج نہیں ہے۔ بورڈ کی پوری توجہ رہتی ہے کہ وہ اپنے دائرے ’’مسلم پرسنل لا‘‘ سے باہر نہ نکل پائے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم پرسنل لا کے علاوہ بڑے سے بڑے معاملے میں بورڈ خاموشی اختیار کرتا ہے۔ ہاں ! مسلم پرسنل لا پر کوئی ضرب پڑتی ہے تو بورڈ شمشیر براں بن کر سامنے آجاتا ہے۔ بابری مسجد کا مسئلہ اصولی طور پر پرسنل لا کے دائرے میں نہیں آتا تھا۔ لیکن ایک طرف معاملے کی نزاکت اور دوسری طرف بورڈ کا مقام و مرتبہ۔ بورڈ پر دباؤ بڑھنے لگا کہ جیسے بھی ہو بورڈ اس مسئلے کو اپنے ہاتھ میں لے۔ چناں چہ امت کی ضرورت اور مطالبے کو دیکھتے ہوئے ایک الگ کمیٹی بنادی گئی۔ وہ کمیٹی ہی بابری مسجد کے مقدمے کی پیروی کر رہی ہے اور بورڈ اس کمیٹی کی کارکردگی پر نگاہ رکھے ہوئے ہے۔

تنظیمی ڈھانچہ

بورڈ میں ۱۰۲؍ارکان اساسی ہوتے ہیں۔ جب کہ ۱۴۹؍ارکان میقاتی ہوتے ہیں۔ سب سے اہم ارکان کی مجلس ’’مجلس عاملہ‘‘ ہوتی ہے۔ اس میں ۵۱؍ارکان ہوتے ہیں۔ خواتین کی نمائندگی کے لیے ۳۰؍خواتین بھی ہوتی ہیں۔ سب سے بڑا اور مرکزی عہدہ صدر کا ہوتا ہے۔ پندرہ برس سے مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی اس منصبِ جلیل کے لیے منتخب ہو رہے ہیں اور ملت کی کشتی کی ناخدائی کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف مکاتب فکر کی نمائندگی کے لیے پانچ نائب صدور ہوتے ہیں۔ اس وقت حلقۂ دیوبند کی نمائندگی کے لیے مولانا محمد سالم قاسمی(دیوبند)، حلقہ بریلی کی نمائندگی کے لیے مولانا سید شاہ فخرالدین اشرف (کچھوچھہ شریف)، حلقہ شیعہ کی نمائندگی کے لیے مولانا ڈاکٹر سید کلب صادق (لکھنؤ)، حلقہ اہل حدیث کی نمائندگی کے لیے مولانا کاکا سعید احمد عمری (مدراس) اور حلقۂ جماعت اسلامی کی نمائندگی کے لیے مولانا سید جلال الدین عمری (نئی دہلی)نائب صدور کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس کے بعد ایک جنرل سکریٹری کا عہدہ ہوتا ہے، جو عملی اعتبار سے سب سے سرگرم عہدہ ہوتا ہے۔ آج کل یہ اہم ذمے داری مولانا سید محمد ولی رحمانی (پٹنہ) انجام دے رہے ہیں۔ مختلف امور کی انجام دہی کے لیے کچھ (کم سے کم تین) سکریٹری ہوتے ہیں۔ اِن دنوں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی(حیدرآباد)، مولانا محمد فضل الرحیم مجددی(جے پور)، ایڈوکیٹ ظفریاب جیلانی (لکھنؤ) اور مولانا عمرین محفوظ رحمانی (مالیگاؤں ) سکریٹری کی حیثیت سے اپنی اپنی ذمے داریاں ادا کر رہے ہیں۔ ایک خازن ہوتا ہے، آج کل یہ ذمے داری پروفیسر ریاض عمر(دہلی) کے سپرد ہے۔ حسب ضرورت ترجمان بھی ہوتے ہیں، جس کے لیے اِن دنوں مولانا خلیل الرحمان سجاد نعمانی اور مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کو نام زد کیا گیا ہے۔

ذیلی کمیٹیاں

اس وقت بورڈ میں مختلف کمیٹیاں کام کر رہی ہیں :

(۱) اصلاح معاشرہ کمیٹی، کنوینر: مولانا سید محمد ولی رحمانی

(۲) تفہیم شریعت کمیٹی، کنوینر: مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی

(۳) دارالقضا کمیٹی، کنوینر: مولانا عتیق احمد بستوی

(۴) لیگل سیل، کنوینر: ایڈووکیٹ یوسف حاتم مچھالا

(۵) بابری مسجد کمیٹی برائے مقدمات، کنوینر: ایڈووکیٹ ظفریاب جیلانی

(۶) آثار قدیمہ کمیٹی، کنوینر: پروفیسر شکیل صمدانی

(۷) لازمی نکاح رجسٹریشن کمیٹی، کنوینر: ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس

بعض غلط نقطہ ہائے نظر

بورڈ کے اس اصولی طریقۂ کاراور بنیادی مقصد سے مکمل وابستگی کی وجہ سے بہت سے ناسمجھ لوگ بورڈ سے بدظن ہوجاتے ہیں۔ سوچتے سمجھتے نہیں۔ کہیں بم دھماکے کا مسئلہ ہو، کسی مسلمان پر ظلم و ستم کا معاملہ ہو، وہ چاہتے ہیں کہ بورڈ ہر معاملے میں بولے اور ہر معاملے میں تحریک چلائے۔ حالاں کہ یہ انداز غیرمنطقی اور غیراصولی ہوگا۔ ہر ادارے اور تنظیم کا ایک دائرہ کار ہوتا ہے۔ بورڈ کا دائرہ کار ’’مسلم پرسنل لا‘‘ ہے۔ بورڈ کو اسی دائرے میں کام کرنا چاہیے اور یہی وہ کرتا ہے۔

اسی طرح بہت سے جذباتی لوگ سمجھتے ہیں کہ جو وہ سوچ رہے ہیں، وہی درست ہے۔ افہام و تفہیم سے انھیں کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ وہ ترتیب و تنظیم کا مزاج نہیں رکھتے۔ سوچتے ہیں کہ جو اُن کی زبان سے نکل گیا، وہی حرف آخر ہے۔ اجتماعی مشورے میں اُن کی بات منظور نہیں کی جاتی تو مختلف وسائل استعمال کرکے بورڈ کے خلاف ماحول بناتے ہیں۔ بورڈ کا کچھ بگاڑ سکیں یا نہ بگاڑ سکیں، اپنی عاقبت ضرور بگاڑ لیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو سمجھنا چاہیے کہ بورڈ باہمی مشورے اور کاموں کی منظم تقسیم کار کے مطابق کام کرتا ہے۔ اصول و ضوابط کے مطابق جو بات طے ہوتی ہے، اُسی پر عمل کیا جاتا ہے۔ چاہے وہ بات کسی بڑے عہدے دارکی رائے کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔

کچھ لوگ پڑھے لکھے ہونے کے باوجود بورڈ کی کارکردگی کے متعلق غلط فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ کہیں کوئی ایسی بات پڑھ لی، جس میں بورڈ کی کارکردگی کو نشانہ بنایا ہو تو فوراً بورڈ کو غلط سمجھنے لگتے ہیں۔ اللہ کے بندے اس بات کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے کہ بورڈ کی ویب سائٹ یا سوشل میڈیا پر اس کے اکاؤنٹس ہی کو دیکھ لیں۔ کسی ذمے دار یا ممبر سے تفصیلات معلوم کرلیں۔ عام تجربہ ہے کہ ایسے لوگوں کو ذرا سی تفصیلات بتائی جاتی ہیں تو فوراً اپنی غلطی مان لیتے ہیں اور بورڈ کی حمایت کرنے لگتے ہیں۔
بہت سے لوگ اپنے فرقے، مسلک اور جماعت سے اوپر اٹھ کر سوچنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ عہدے داروں کے انتخاب، ذمے داریوں کی تقسیم اور عملی اقدامات، غرض یہ کہ ہر معاملے میں اپنے فرقے، مسلک اور جماعت کا چشمہ لگا کر دیکھتے ہیں۔ نتیجتاً بورڈ سے بدگمان ہوتے بھی ہیں اوربدگمانی پھیلاتے بھی ہیں۔

ظاہر سی بات ہے کہ یہ چاروں نقطہ ہائے نظر غلط ہیں۔ ان تمام لوگوں کو بورڈ کے دستور کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ مقدس ادارہ ہر مسلمان کی بنیادی ضرورت ہے۔ اس کو کسی بھی طرح کا چھوٹا بڑا نقصان پہنچانا، فرقہ پرست طاقتوں کو مضبوط کرنا اور ہندستان میں شریعت کی جڑ کھودنا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔