اقبال: معروضی تجزیے اور سائنسی مباحث

مبصر: ڈاکٹراشرف لون

(جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی)

نام کتاب: اقبال: معروضی تجزیے اور سائنسی مباحث

مصنف: عرفان عالم

پبلشر: ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، دہلی

ڈاکٹر عرفان عالم پچھلے کئی سالوں سے کشمیر یونیورسٹی میں اردو ادب پڑھارہے ہیں۔ ان کے مضامین وقتاََ فوقتا قومی و بین الاقوامی رسائل و جرائد میں شائع  ہوتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہروقت وہ اردو زبان کے فروغ کے لیے مختلف محازوں پر آگے آگے رہتے ہیں۔

’’اقبال : معروضی تجزیے اور سائنسی مباحثــ‘‘ عرفان عالم کی تازہ تصنیف ہے۔ جیسا کہ عنوان سے ہی ظاہر ہوتا ہے کتاب میں اقبال کے مختلف نظریات بشمول سائنسی نظریات سے بحث کی گئی ہے۔ لیکن کتاب اسی تک محدود نہیں بلکہ قرآن و حدیث کے موضوعات بھی اس میں آئے ہیں۔

’’قرآن کے ساتھ ایک سفر‘‘ میں عرفان عالم  نے قرآن کی عظمت بیان کی ہے، لیکن قرآن جو کہ ہدایت اور تزکیہ نفس کے لیے ہیں کو سائنس کے ساتھ جوڑنا نہ صرف غلط بلکہ بعض اوقات گمراہ بھی کن ہوسکتا ہے۔ گوکہ قرآن نے زمین و آسمان کے متعلق مختلف نشاندہیاں کی ہیں لیکن آج اکیسویں صدی میں سائنس باضابطہ طور پر ایک الگ موضوع بنا  ہوا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ مسلمان قرآن کو ہدایت و دیگر سماجی و معاشرتی معاملات میں رہنما کے بطور اپنائے اور سائنس کے خود مکتفی وجود کا اقرار کرے۔ اس پر وضاحت سے روشنی ڈالنے کے  لیے الگ مضمون درکار ہے۔ بہرحال اس سلسلے میں عرفان عالم کی اچھی خاصی بحث چھیڑی ہے۔

’’اقبال کا تصور قرآن‘‘  میں مصنف نے مختلف مباحث اٹھائے ہیں اور بڑے جامع انداز میں ان پر گفتگو کی ہے۔ عرفان عالم کے نزدیک اقبال کا قرآن اور اسلامی افکار سے محبت حضورﷺ  کی ذات مبارکہ سے محبت کا نتیجہ ہے، لیکن ان کا یہ کنا کہ اقبال کا تقریبا َ َ ہر شعر قرآن کی کسی نہ کسی آیت کا ترجمہ ہے غلو پر مبی ہے کیونکہ اقبال کی بہت سی ایسی شاعری ہے جس میں مختلف تاریخی موضوعات کو برتا گیا ہے اور بہت سی ایسی شاعری بھی ہے جس میں تضاد پایا جاتا ہے جس کی طرف متعدد نقادوں وسکالروں نے اشارہ کیا ہے۔ اقبال اجتہاد کے بھی قائل تھے اور مسلمانوں بالخصوص مسلم نوجوانوں میں حرکت و عمل کا جوہر دیکھنا چاہتے ہیں۔ اقبال مارکسی تعلیمات سے بھی متاثر ہوئے تھے، اسی لیے تو انہوں نے کہا تھا کہ:

؎وہ کلیم بے تجلی، وہ مسیح بے صلیب

نیست پیغمبر و لیکن در بغل دارد کتاب

لیکن اقبال مارکس کے دین مخالف نظریات کے قائل نہیں تھے، جس کا ذکر انہوں کئی بار اپنی شاعری اور تذکروں میں کیا۔

مصنف نے اقبال کے نظریات پر بحث کرتے ہوئے  بجا لکھا ہے کہ ’’ہمارے یہاں اب تک جو بھی فساد برپا  ہوئے یا جو بھی انقلابات رونما ہوئے ان کے پس پشت مذہب کا کوئی کردار نہیں بلکہ ’’مذہبی منتظمین ‘‘(مذہبی ٹھیکیداروں ) کا بڑا کردار ہے‘‘۔ جہاں تک فساد کا ذکر ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ مختلف وقتوں میں سیاست دانوں و دیگر افراد، جہیں اقبال نے کٹ ملا کے نام سے پکارا ہے نے مذہب کا سہارا لے کر لوگوں کا استحصال کیا اور سماج میں فساد برپا کیے۔ دنیا بالخصوس ہندوستان میں اس وقت بڑھتی مذہبی انتہا پسندی سامنے کی مثال ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا میں بہت سے انقلاب مذہبی پشت پناہی کے بغیر برپا ہوئے جیسا کہ مارکسی انقلاب یا فرانسیسی انقلاب جس کا بنیادی مقصد طبقاتی کشمکش اور استحصال کو ختم کرکے ایک مبنی بر انصاف سماج کی تشکیل کرنا تھا۔ اجتہاد کے حوالے سے مصنف نے مختلف موضوعات و مسائل  کے حوالے سے  اقبال کے نظریات پیش کیے ہیں اور ساتھ میں اپنی رائے بھی پیش کی ہے۔ عرفان عالم مختلف حوالوں سے اپنی رائے کو مضبوطی عطا کرتے ہیں۔

’’اقبال : فکری ماخذ، ایک جائزہ‘‘ میں عرفان عالم نے لکھا ہے کہ قرآن و حدیث کے علاوہ اقبال سرسید، مجدد الف ثانی، مولانا رومی  وغیرہ شخصیات سے بڑی حد تک متاثر تھے۔ مثلاََ سرسید کے اجتہادی پروگرام کی اہمیت کا اقبال نے بارہا ذکر کیا ہے۔ اس حوالے سے عرفان عالم نے جمیل جالبی  کا حوالہ پیش کیا ہے:

’’ اقبال پہلے شاعر ہیں، جنہوں نے سرسید و حالی کی روایت و فکر کو آگے بڑھاکر ایک ایسی واضح شکل دی اور اس میں ایسا پرسوز آہنگ شامل کیا کہ ان سے پہلے اور نہ کے بعد ایسی شاعری تخلیق کی جاسکی۔ اقبال کی شاعری اور دوسری تحریروں کے ساتھ مسلمانوں کی فکر، دور جدید کے مسائل اور عہد حاضر کے افکار کے دائرے میں داخل ہوجاتی ہے۔ ‘‘

اسی طرح مصنف مولانا رومی کے حوالے سے لکھتے ہیں :

’’ اقبال کی معروف شہرہ آفاق مثنوی ’’ جاوید نامہ‘‘ کے افلاکی خیالی سفر کی خاص بات یہ ہے کہ یہ سفر مولانا رومی کی رہنمائی میں ہوا۔ اقبال رومی کو اپنا پیر و مرشد تسلیم کرتے ہیں اور معرفت الٰہی کا فیض انہی سے حاصل کرتے ہیں۔ ‘‘

؎  اسی کشمکش میں گزریں میری زندگی کی راتیں

کبھی  سوزوساز  رومی کبھی پیچ و تاب رازی

غالب کی نثر اور شاعری کے حوالے سے غالب کے تجدد پسند ذہن و نظریات کی نشاندہی کی گئی ہے، کہ غالب انگریزوں کے ڈاک نظام اور ریل سے بہت متاثر ہوئے۔ اس کے علاوہ انہوں نے اپنے خطوط میں بہت سے جدید خیالات کو پیش کیا، مثلاََ ایک جگہ لکھا ہے:

’’میاں کس قصے میں پھنسا ہے؟  فقہ پڑھ کر کیا کرے گا۔ طب نجوم و ہیئت و منطق، فلسفہ پڑھ جو آدمی بننا چاہے۔ ۔ ۔ ‘‘

اس حوالے سے غالب نے سرسید کو بھی مطلع کیا تھا کہ زمانہ بدل رہا ہے، ہمیں نئی چیزوں کو اپنانا چاہیے اگر ہم قوم کا بھلا چاہتے ہیں۔

کتاب کا آخری باب ’’اقبال اور سائنسی مباحث‘‘ میں عرفان عالم نے اقبال کے سائنسی نظریات کو موضوع بحث بنایا ہے۔ حالانکہ اقبال کے سائنس کے حوالے نظریات بڑی اہمیت کے حامل ہیں، بالخصوص وہ نظریات جو انہوں نے اپنے خطبات اور لیکچروں میں پیش کیے اور مسلمانوں کے مختلف مسائل کو جدید تقاضوں کے تحت سمجھانے کی کوشش کی اور حل بھی پیش کیا لیکن یہ بات کہیں سے نقل کرنا کہ’ ’اقبال سائنس دان بھی تھے‘‘  ایسا ہی ہے جیسے ہم کہتے ہیں کہ ’’دیوان غالب‘‘ ایک الہامی کتاب ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ ان اقوال کی کوئی تنقیدی اہمیت ہے اور نہ ہی کوئی علمی اہمیت۔ اب جبکہ ماحولیاتی تنقید بھی اپنی اہمیت منواچکی ہے ایسے میں عرفان عالم اگر علامہ اقبال کے مختلف اشعار و نثری تحاریر سے سائنسی معنی برآمد کر رہے ہیں تو ہمیں اس پر حیران نہیں ہونا چاہیے، بلکہ ان چیزوں کو سنجیدگی کے ساتھ لینے کی ضرورت ہے اور ان کے ساتھ مکالمہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اقبال نے کہا تھا:

’’ وقت کا تقاضا ہے کہ اب ہم فقہی جزئیات کی چھان بین کے بجائے ان اہم شعبہ ہائے علم کی طرف متوجہ ہوں جو ہنوز محتاج تحقیق ہیں۔ ریاضیات، عمرانیات، طب اور طبیعات میں مسلما نوں کے شاندار کارنامے اب تک دنیا کے مختلف کتب خانوں میں مستور و پنہاں ہیں جن کے احیاء کی سخت ضرورت ہے۔ ‘‘

مجموعی طور پر عرفان عالم کی کتاب ’’اقبال : معروضی تجزیے اور سائنسی مباحث‘‘ اقبالیاتی مطالعے میں ایک اہم اضافہ ہے۔ عرفان عالم نے مختلف حوالوں سے اپنی بات کو مضبوطی عطا کی ہے اور سیکڑوں کتابوں اور رسائل و جرائد سے استفادہ کیاہے۔ ان کی نثر صاف اور سلیس ہے۔ امید قومی ہے کتاب قارئین سے داد و تحسین حاصل کرے گی۔

تبصرے بند ہیں۔