انسان اور زمین کی حکومت (قسط 112)

رستم علی خان

بنائے خاندان قریش؛ آنحضرت صلعم کا خاندان اگرچہ شروع سے ہی معزز اور ممتاز چلا آتا تھا لیکن جس شخص نے اس کو قریش کے نام سے ممتاز کیا وہ نضر بن کنانہ تھے بعض محققین کے نزدیک قریش کا لقب سب سے پہلے فہر کو ملا اور انہی کی اولاد قریش ہے-

قصی؛ نضر کے بعد فہر اور فہر کے بعد قصی بن کلاب نے نہایت عزت اور وقار حاصل کیا- اس زمانہ میں حرم کے متولی حلیل بن خزاعی تھے- قصی نے حلیل کی صاحبزادی جن کا نام "حبی” تھا سے شادی کی تھی- اس تعلق کی بنا پر حلیل نے مرتے وقت وصیت کی تھی کہ حرم کی خدمت قصی کے سپرد کی جائے اس طرح یہ منصب بھی ان کو حاصل ہو گیا- قصی نے ایک دارالمشورہ بھی قائم کیا جس کا نام دارالندوہ رکھا- قریش جب کوئی جلسہ یا جنگ کی تیاری کرتے تو اسی عمارت میں کرتے، قافلے باہر جاتے تو یہیں سے تیار ہو کر جاتے، نکاح اور دیگر تقریبات وغیرہ کے مراسم بھی یہیں ادا ہوتے-

قصی نے بڑے بڑے نمایاں کام کیے جو ایک مدت تک یادگار رہے- مثلا "سقایہ” (حاجیوں کو آب زمزم پلانے والے) اور "رفاوہ” (حاجیوں کے کھانے کا انتظام کرنے والے) جو خدام حرم کا سب اے بڑا منصب تھا انہی نے قائم کیا- تمام قریش کو جمع کر کے تقریر کی کہ سینکڑوں ہزاروں کوس سے لوگ حرم کی زیارت کو آتے ہیں ان کی میزبانی قریش کا فرض ہے- چنانچہ اہل قریش نے سالانہ رقم مقرر کی جس سے منی’ اور مکہ معظمہ میں حجاج کرام کو کھانا تقسیم کیا جاتا تھا- اس کے ساتھ چرمی حوض بنوائے جن میں ایام حج میں پانی بھر دیا جاتا تھا کہ حجاج کے کام آئے- مشعر حرام بھی انہی کی ایجاد ہے جس پر ایام حج میں چراغ جلاتے تھے- چنانچہ ابن عبدریہ نے عقدالقرید میں تصریح کی ہے کہ قصی نے اس قدر شہرت اور اعتبار حاصل کیا کہ بعض لوگوں کا بیان ہے کہ قریش کا لقب اول انہی کو ملا- (قریش کی وجہ تسمیہ میں اختلاف ہے- بعض کہتے ہیں کہ قریش کے معنی "جمع کرنے” کے ہیں اور قصی نے لوگوں کو ایک رشتہ میں منسلک کیا اس لیے قریش کہلائے- بعض کہتے ہیں کہ ایک مچھلی کا نام ہے جو باقی مچھلیوں کو کھا جاتی ہے  چونکہ قصی بہت بڑے سردار تھے اس لیے ان کو اس مچھلی سے تشبیہہ دی- ایک عام خیال یہ بھی ہے کہ قریش قصی یا اسی خاندان کے کسی اور شخص کا نام تھا- امام سہیلی کی تحقیقات یہ ہیں کہ قبیلہ کا نام ہے جس طرح کے عرب جانوروں وغیرہ کے نام پر قبیلوں کے نام رکھتے تھے- مثلا، "اسد”، "نمر”، وغیرہ- مورخین یورپ کا خیال ہے کہ چونکہ قبائل عرب جانوروں کی پرستش کرتے تھے پس جو جس جانور کی پرستش کرتا تھا اسی کے نام سے مشہور ہو جاتا تھا- البتہ عربی تاریخوں میں اس کا پتہ نہیں چلتا- واللہ اعلم بالصواب)

القصہ چنانچہ علامہ ابن عبدریہ نے عقدالقرید میں یہ بھی تصریح کی ہے کہ چونکہ قصی نے خاندان کو جمع کر کے کعبہ کے آس پاس بسایا اس لیے ان کو قریش کہتے ہیں کیونکہ قریش کے معنی جمع کرنے کے ہیں اس بنا پر ان کو مجمع بھی کہتے تھے-

قصی کی چھ اولاد تھی؛ "عبدالدار، عبدالمناف، عبدالعزی، عبد بن قصی، تخمر، برہ-” قصی نے مرتے وقت حرم محترم کے تمام مناسب سب سے بڑے بیٹے عبدالدار کو دئیے- اگرچہ وہ سب بھائیوں میں سب سے ناقابل تھے- لیکن قصی کے بعد قریش کی ریاست عبدالمناف نے حاصل کی اور انہی کا خاندان رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا خاص خاندان ہے- عبدالمناف کے چھ بیٹے تھے ان میں سے ہاشم نہایت صاحب صولت اور بااثر تھے- انہوں نے بھائیوں کو اس بات پر آمادہ کیا کہ حرم کے مناسب جو عبدالدار کو دئیے گئے واپس لیے جائیں- کیونکہ وہ لوگ اس منسب عظیم کے قابل نہیں ہیں- چنانچہ عبدالدار کے خاندان نے انکار کیا اور جنگ کی تیاریاں شروع کیں- بالآخر اس بات پر صلح ہو گئی کہ عبدالدار سے سقایہ اور رفاوہ واپس لیکر ہاشم کو دے دیا جائے۔

عبدالمطلب کے دس یا بارہ بیٹوں میں سے پانچ شخصوں نے کفر یا اسلام کی وجہ سے شہرت عام حاصل کی- یعنی، ابولہب، ابوطالب، عبداللہ، حضرت حمزہ، حضرت عباس- عام طور پر مشہور ہے کہ ابولہب کا اصلی نام اور ہے اور یہ نام آنحضرت صلعم یا اصحابہ کرام رض نے دیا، لیکن یہ غلط ہے- ابن سعد نے طبقات میں تصریح کی کہ یہ لقب خود عبدالمطلب نے دیا تھا جس کی وجہ یہ تھی کہ ابولہب نہایت حسین و جمیل تھا- اور عربی میں گورے چہرے کو شعلہ آتش کہتے ہیں اسی طرح فارسی میں بھی آتشیں رخسار ہے- مروی ہے کہ ابو لہب اس قدر حسین و جمیل تھا کہ جب آنحضرت صلعم کی ولادت ہوئی تو ابولہب آپ کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتا اور جہاں کہیں بھی کسی محفل میں جاتا حضور اقدس صلعم کو اپنے ساتھ لے جاتا اور فخریہ لوگوں کو بتاتا کہ دیکھو میرا بھتیجا اور عبداللہ کا بیٹا حسن و جمال میں مجھے بھی پیچھے چھوڑ گیا ہے-

الغرض جب عبداللہ قربان ہونے سے بچ گئے تو عبدالمطلب کو ان کی شادی کی فکر ہوئی- قبیلہ زہرہ میں وہب بن عبدالمناف کی صاحبزادی جن کا نام آمنہ تھا قریش کے تمام خاندانوں میں ممتاز تھیں- گو وہ اس وقت اپنے چچا وہیب کے پاس رہتی تھیں- چنانچہ عبدالمطلب وہیب کے پاس گئے اور عبداللہ کی شادی کا پیغام دیا- انہوں نے منظور کیا اور عقد ہو گیا- اسی موقع پر خود عبدالمطلب نے بھی وہیب کی صاحبزادی (یعنی حضرت آمنہ کی چچازاد بہن) سے جن کا نام ہالہ تھا شادی کی- حضرت حمزہ انہی ہالہ کے بطن سے ہیں- چونکہ ہالہ حضرت آمنہ کی چچیری بہن تھی اس لیے رشتہ میں وہ آنحضرت صلعم کی خالہ تھیں اس بنا پر حضرت حمزہ آنحضرت صلعم کے خالہ زاد بھائی بھی ہیں-

دستور تھا کہ دولہا شادی کے بعد تین دن تک سسرال میں رہتا تھا- عبداللہ تین دن سسرال میں رہے اور پھر گھر چلے آئے- اس وقت ان کی عمر تقریبا سترہ برس سے کچھ زیادہ تھی- عبداللہ تجارت کی غرض سے مدینہ کو گئے اور واپس آتے ہوئے مدینہ میں ٹھہرے اور بیمار ہو کر یہیں رہ گئے- عبدالمطلب کو جب یہ حال معلوم ہوا تو اپنے بڑے بیٹے حارث کو خبر لانے کے لیے بھیجا- جب حارث مدینہ میں پنہچے تو تب تک عبداللہ کا انتقال ہو چکا تھا- چونکہ یہ خاندان میں سب کو سب سے زیادہ محبوب تھے اس لیے تمام خاندان کو سخت صدمہ ہوا- عبداللہ نے ترکہ میں عبداللہ نے ترکہ میں اونٹ، بکریاں اور ایک لونڈی چھوڑی تھی جس کا نام ام ایمن رض تھا- جس وقت حضرت عبداللہ کا انتقال ہوا حضرت آمنہ حمل سے تھیں چنانچہ یہ سب چیزیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ترکہ میں ملیں- ام ایمن کا اصلی نام برکتہ تھا-

تبصرے بند ہیں۔