امر ناتھ یاترا اور سیاست

  ممتاز میر

 ۲۸ جولائی سے کشمیر میں امرناتھ یاترا شروع ہوچکی ہے۔ اب یہ ڈیڑھ ماہ چلے گی۔ کشمیر میں جب بھی یہ یاترا شروع ہوتی ہے نہ صرف کشمیر بلکہ پورا ملک خوف و تشویش کا شکار ہو جاتا ہے۔ پچھلے سال بھی واپسی مین ان یاتریوں کی بس پر حملہ ہوا تھا۔ جس سے پیدا ہونے والے سوالوں کا آج تک جواب نہیں مل پایا۔ قبل آغاز ہی انجام کا ڈر ہوتا ہے ؍دور اندیش بڑا تنگ نظر ہوتا ہے۔ ۔ کے مصداق ہمیں اس بار پھر قوی اندیشہ ہے کہ یہ یاترا کسی حادثے کا شکار نہ ہو۔ کیونکہ انتخابات سر پر ہیں سیاسی پارٹیاں انتخابی اشوز کی تلاش میں ہیں۔ کوشش کی جارہی ہے کہ بابری مسجد ؍رام جنم بھومی  کے اشو کو ایک بار پھر گرمایا جائے مگر گرمانے والوں کو خود یہ احساس ہے کہ یہ چوسا ہوا آم ہے۔

 امرناتھ ایک غار ہے جو سطح سمندر سے ۱۲۷۵۶فٹ بلندی پر واقع ہے۔ یہ غار یا گپھا سری نگر سے ۱۴۱ کلو میٹر دور اننت ناگ ضلع مین پہلگام کے قریب واقع ہے۔ یہ یاترا ننوان یا چندن واڑی بیس کیمپ سے شروع ہوتی ہے اور ۴۳ کلو میٹر کا سفر طے کرکے امرناتھ گپھا تک جاتی ہے جہان غار مین ان دنوں ہندو عقائد کے مطابق ’’شیو النگم‘‘ نظر آتا ہے۔ اس یاترا سے وہاں کے مقامی مسلمانوں کا روزگار جڑا ہوا ہے۔ اسلئے مقامی،  مسلمان تو یہ دعا مانگتے ہونگے کہ یاترا امن شانتی سے قائم رہے اور ڈیڑھ ماہ کے بدلے چھ ماہ چلے۔

کشمیر میں آئے دن دہشت گردانہ حملے ہوتے رہتے ہیں۔ اور تالی دونوں ہاتھ سے بجتی ہے کے مصداق یہ دو طرفہ ہوتے ہیں۔ دنیا میں کوئی ملک ایسا نہین جہاں اسٹیٹ اسپانسرڈ ٹیررز م وجود نہ رکھتا ہو۔ ہمیں یہ دیکھ کر بے انتہا حیرت ہوئی تھی کہ جاپان جیسا بودھ ملک بھی اس لعنت میں مبتلا ہے۔ ہمارے یہاں بھی اکثر حکومت ہر اس طرح کے الزامات لگتے رہتے ہیں۔ چھتی سنگھ پورہ ضلع اننت ناگ کے قتل عام کے وقت بھی یہ الزام بڑے زور وشور سے گونجا تھا۔ کہ یہ ریاستی دہشت گردی ہے۔ ۲۰ مارچ۲۰۰۰ کو ۱۵؍۱۷ بندوق بردار سکھوں کے اس قصبے میں گھس آئے۔ قصبے کے تمام مردوں اور لڑکوں کو گرودوارے میں جمع کرکے گولیوں سے بھون دیا۔ ۳۵ سکھ اس واقعے میں ہلاک ہوئے تھے۔

کہا جاتا ہے کہ یہ امریکی صدر مسٹر بل کلنٹن کا استقبالیہ تھا۔ اس واقعے کے بعد اس وقت کے وزیر داخلہ جناب ایل کے ایڈوانی نے سکھوں کے لئے حفاظتی اقدامات کرنے کی کوشش کی تھی جسے گاؤں کے بڑوں نے یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ ہمیں مسلمانوں سے کوئی خطرہ نہیں۔ اسی طرح آئندہ دو ہفتوں میں پتھری بل اور بارک پورہ میں دو اور قتل عام کے واقعات پیش آئے۔ ۲۵ مارچ ۲۰۰۰ کو چند فوجی افسران نے ۵ دیہاتیوں کو یہ کہہ کر مار ڈالا کہ یہ غیر ملکی عسکریت پسند تھے۔ مگر ۱۲ سال بعد ۲۰۱۲ میں CBIنے سپریم کورٹ میں یہ رپورٹ داخل کی کہ یہ غیر ملکی عام کشمیری دیہاتی تھے۔ ۲۵ مارچ ۲۰۰۰ کے چند دنوں بعد ہی سینئر پولس سپرنٹنڈنٹ فاروق خاں کی ٹیم نے بھی ۵ دیہاتیوں کو یہ کہہ کر ہلاک کر دیا کہ یہ چھتی سنگھ پورہ قتل عام مین ملوث تھے(دیکھئے ایک واقعہ کا کتنی مرتبہ فائدہ اٹھایا جاتا ہے)اور یہ سب کچھ ملک کے دیگر حصوں میں بھی ہوتا ہے۔ آجکل کشمیر کے تعلق سے بین الاقوامی فورمس بہت Active ہو چکے ہین اور آئے اس تعلق سے بیانات آتے رہتے ہیں۔ ہماری حکومت اور اس کے اجزاء حسب معمول اسے مسترد کرتے رہتے ہیں۔ مگر یہ طے ہے کہ بین الاقوامی اداروں اور خصوصٍاً مودی جی کے دوست ٹرمپ کے دیش سے آنے والے کشمیریوں پر بیانات کچھ نہ کچھ تو دباؤ بناتے ہی ہونگے۔

   مذکورہ حملوں کی طرح امرناتھ یاترا پر بھی کئی حملے ہو چکے ہیں۔ ابھی پچھلے سال ہی ۱۰ جولائی ۲۰۱۷کوگجرات کے زائرین کی بس پر حملہ ہوا تھا جسمیں ۸ زائرین مارے گئے تھے اس میں ۶ خواتین تھیں۔ اس حملے پر سوال تو بہت سارے اٹھے تھے مگر سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ بس اس وقت اس جگہ کیسے موجود تھی ؟جبکہ اس وقت وہ مخصوص جگہ ممنوعہ علاقہ ہو جاتی ہے۔ سوالات کئی تھے مگر جواب آج تک ایک کا بھی نہیں ملا۔ اسی طرح اس صدی کی ابتداء میں مسلسل تین سال تک امر ناتھ یاترا پر حملے ہوتے رہے ہیں۔ اور اس وقت بھی انہی لوگوں کی حکومت تھی۔ (۱) ۲۔ اگست ۲۰۰۰ کو مبینہ طور پر حزب المجاہدین نے ننوان کے بیس کیمپ پر ۲ گھنٹے جاری رہنے والے حملے میں ۳۲ یاتریوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ مگر دوسری طرف حزب المجاہدین کہتی ہے کہ یاتری ہمارے مہمان ہیں۔ (۲)۲۰ جولائی ۲۰۰۱ کو کسی دہشت گرد نے شیشناگ جھیل کے پاس بنے زائرین کے نائٹ کیمپ پر ۲ گرینیڈ پھینک دئے اور فائرنگ بھی کی جسمیں ۱۳ یاتری ہلاک اور ۱۵ زخمی ہوئے تھے۔ (۳)۶۔ اگست ۲۰۰۲ کو المنصوریان (لشکر طیبہ کا فرنٹ گروپ)نے حملہ کر کے ۹ زائرین کو مار ڈالا اور ۳۰ کو زخمی کر دیا تھا۔ یہ واقع ننوان کے بیس کیمپ کے پاس پیش آیا تھا۔

  اس قسم کے واقعات کے تعلق سے کبھی بھی قطعیت کے ساتھ کہا نہیں جا سکتا کہ کرتا کون ہے۔ وطن عزیز میں وقوع پزیر ہونے والے زیادہ تر واقعات کے تعلق کہا جاتا ہے کہ یہ حکمراں گروہ کی ضروریات پوری کرنے کے لئے وقوع پزیر ہوتے ہیں۔ آج کشمیر کی صورتحال بڑی دھماکہ خیز ہے۔ روز ہی کوئی نہ کوئی بین الاقوامی فورم ہماری حکومت کو کشمیریوں کی کسی نہ کسی حق تلفی پر مورد الزام ٹہرا رہا ہے۔ ان حالات میں جمی جمائی حکومت کا اچانک خاتمہ بھی سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ ہمارے نزدیک جناب عمر عبداللہ بڑے احمق ہیں۔ اگر انھیں یہ سمجھ نہیں تھی کہ اگر انھوں نے محبوبہ مفتی کا ہاتھ نہیں تھاما تو کشمیر میں گورنر راج نافذ ہوگا یعنی براہ راست بی جے پی کی حکومت ہوگی۔ ۔ تو انھیں سیاست چھوڑ دینی چاہئے۔ انھوں نے جان بوجھ کر کشمیر کو فرقہ پرستوں کے حوالے کر دیا۔ اب کشمیر میں جو نہ ہو وہ کم ہے اور اس کے لئے باپ بیٹے ذمے دار ہیں۔ ظاہر ہے اب کشمیر یوں پر پڑنے والی ہر مصیبت کے’’ثواب‘‘میں بھی وہ برابر کے حصے دار ہونگے۔ اور ہمیں یقین کہ کشمیر کی عوام ووٹ دیتے وقت یہ حساب کتاب رکھے گی۔

اب گورنر ہی نہیں ہندوستانی فوج کا چیف بھی اپنے بیانات سے یہ ثابت کر چکا ہے کہ وہ بی جے پی کا ہی آدمی ہے۔ دوسری طرف بی جے پی کو ۲۰۱۹ کے الکشن کے لئے اب تک کوئی اشو ہاتھ نہیں آیا ہے۔ بی جے پی کے چھٹ بھئیے بابری مسجد ؍رام جنم بھومی کے پیچھے پڑ گئے مگرخود انھیں اس کا اندازہ ہے کہ یہ گائے اب دودھ دینے والی نہیں اس لئے ان کی گفتگو،  باڈی لینگویج سے نیم دلی کا اظہار ہوتا ہے۔ ہمیں بہت ڈر لگتا ہے کہیں اشو کے فرسٹریشن میں امر ناتھ یاترا کے یاتریوں کو قربانی کا بکرا نہ بنا دیا جائے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔