مولانا محمد ایوب اصلاحیؒ 

مولانا اشہد رفیق ندوی

ایک دیا اور بجھا اور بڑھی تاریکی

بالآخروہ خبر کان سے ٹکرا ہی گئی جس کے بارے میں دل ہر دم دھڑکتا رہتا تھا۔ ابھی ابھی فون پر ایک نہایت دل گرفتہ آواز سنائی دی کہ مولانا محمد ایوب اصلاحی اللہ کو پیارے ہوگئے۔ یہ آواز پروفیسر اشتیاق احمد ظلی صاحب کی تھی۔ قدرت کے اس فطری فیصلہ کی خبر آنی ہی تھی، سو آگئی۔ کان میں خبر کی گونج، زبان پرانا ﷲ کا وِرد او رآنکھوں کے سامنے مختلف و متنوع مناظر گردش کرنے لگے۔ زمانہ طالب علمی سے اب تک کئی طرح کے رشتے بنے، کئی طرح سے استاذ گرامی کو دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ خوبیاں ہی خوبیاں ،کمال ہی کمال نظر آیا۔ اتالیق، استاذ، مربی، مصنف، خطیب اور ادیب و شاعر کیسے کیسے کمال اور ہنر رکھے تھے اللہ نے ایک ہی ذات میں۔

استاذ گرامی کی زندگی مدرسۃ الاصلاح سے شروع ہو کر وہیں پر ختم ہوجاتی ہے۔ اگرچہ اللہ کی وسیع و عریض زمین کی وسعت اور اس کے فیوض و برکات سے وہ اچھی طرح آگاہ تھے۔ مدرسہ کی چہار دیواری کے باہر بھی آپ کے لیے کافی امکانات تھے، مگر طالب علم بن کر داخل ہوئے تو زندگی کا ایک ایک قطرہ نچوڑ کر اس کی آبیاری میں لگا یا۔ عہد طفلی کے البیلے ایام کو چھوڑ کر ہوش و حواس اور صحت و عافیت کے تمام خوشگوار لمحات مدرسہ کی خدمت میں صرف کردیے، جب تک قویٰ نے ساتھ دیا، پوری توانائی نثار کرتے رہے۔ عصائے پیری ہاتھ میں آیا تب بھی عصا کے سہارے حاضر ہوتے رہے۔ پاؤں نے جواب دیا تو مہنگی سواری کا نظم کیا مگر فیض رسانی کو موقوف نہیں کیا۔ جب بالکل بستر پر آگئے تب بھی بستر کے ایک حصہ پر مدرسہ کا لٹریچر ہی ساتھ میں رہا۔ جب بھی عیادت کے لیے حاضر ہوا مدرسہ کے فکر میں ڈوبا ہوا پایا، ابھی ان کی کتاب ’’متاع قلم‘‘ اٹھا کر دیکھی تو انتساب مادر مہربان کے نام نظر آیا، دیکھئے کیسی محبت ہے، اپنی مادر علمی سے ’’باپ کا سایہ نہ رہا، ماں نے آنکھیں موند لیں، صاحب لوح و قلم نے لکھا: اسے ایسی مامتا کی آغوش عطا کی جاتی ہے جس کا دامن شفقت، بچپن، جوانی یہاں تک کہ بڑھانے میں بھی نہ چھوٹے گا۔سو آج تک وہ سایۂ عاطفت مجھے حاصل ہے،اس کے دامن کی راحت بخش ہوائیں مجھے ابھی تک میسر ہیں، میری ماں! تو کتنی مہربان ہے، تیرا خون جگر میری شریانوں میں دوڑ رہا ہے، عقل، علم اور دین تیرے قدموں تلے ملے، دل تیرے لیے سراپا سپاس ہے، تیرا وجود خداسلامت رکھے، تیر ا سایہ سدا باقی رہے۔

آج جب مدرسہ کی پُربہار تاریخ پر نظر جاتی ہے تو اس کی شادابی و رعنائی میں بہت سے کردار نظر آتے ہیں۔ مولانا فراہی نے اس کے سر پر قرآن کا تاج سجا کر سب سے اعلیٰ و ارفع مقام پر پہنچایا، تو مولانا امین احسن اصلاحیؒ کی آفاقی شہرت نے اس کے پیغام کو آفاقی بنادیا۔ مولانا اختر احسن اصلاحی ؒ کے اخلاص، ایثار اور انہماک کا خمیر اس کے عناصر ترکیبی میں شامل ہوا تو اللہ نے اس کا وافر حصہ اس کے فرزندوں کو عطا کردیا۔ اب اس کے بقا و ارتقاء کے لیے بے شمار لوگ کوشاں ہیں اوران شاء اللہ رہیں گے۔ مگر مدرسہ سے محبت، خدمت اور وفاداری کی جو تاریخ مولانا محمد ایوب اصلاحی ؒ نے رقم کی ہے ایسی نظیر شاید ہی کوئی رقم کر سکے۔

اپنی پوری زندگی مدرسہ کو عطا کی، چاروں بیٹوں کو مدرسہ میں پڑھایا، پوتوں اور نواسوں کو بھی کھینچ کر لے آئے۔ اس تین نسل کے سرنامہ پر مولانا اختر احسن اصلاحیؒ کا نام رکھ دیا جائے تو چار نسلوں کی فداکاری میں سبھی لوگ پیچھے رہ جائیں گے۔ پھر صرف نسبت و فدا کاری نہیں بلکہ مدرسہ کے فکر کی علمی و عملی ترجمانی بھی جس طرح خود کی اور ان کی اولاد و احفاد کررہے ہیں۔ وہ بھی بے نظیر ہے، راقم کو سب سے زیادہ جس بات پر اطمینان ہوتا ہے وہ یہ کہ اگر مدرسۃ الاصلاح کے کسی فاضل کی اس کے افکار کی روشنی میں کوئی تصویر بنائی جائے تو مولانا کی ہی ذات گرامی ایسی دکھائی دیتی ہے جو بہر اعتبار موزوں ہو۔ قول کے دھنی، کردار میں پاک باز، قرآن کے شیدا، پوری زندگی قرآن کی ترجمان اور گھر اورخاندان کی آنکھوں کے تارااور بستی کے بھی صادق و امین، بولیں تو منہ سے پھول جھڑے، قلم اٹھائیں تو فضا کو معطر کردیں، مادر علمی سے صرف زبانی محبت کا اظہار نہیں، نسل پر نسل قربان کردے۔ ایک ذات میں اتنی خوبیاں دیکھ کر خیال ہوتا ہے مدرسہ کے اصل ’’نیر اعظم‘‘ مولانا محمدایوب اصلاحیؒ ہی تھے اور اس وقت جو تعزیتی پیغام سوشل میڈیا پر موصول ہورہے ہیں ان میں بجا طور پر لکھا جارہا ہے کہ ’’ایک عہد کا خاتمہ ہوگیا‘‘ بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ نیر تاباں غروب ہو گیا ہے۔

مولانا ایوب اصلاحیؒ (پیدائش ۱۹۲۸) طالب علم کی حیثیت سے مدرسہ میں داخل ہوئے۔ زمانہ طالب علمی کے احوال سے راقم کو کوئی واقفیت نہیں مگر علم کی گہرائی و گیرائی، فکر کی پختگی اور اور نظریات کی وسعت دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اپنے زمانہ کے ہونہار طالب علم رہے ہوں گے۔ بعد کی پوری زندگی بھی ’’ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات‘‘ کی ترجمانی کرتی ہے۔ مدرسہ میں داخل ہونے کے بعد ان کی اتالیقی کے قصے بہت سنے، ایک ایک طالب علم پر باریک نگاہ، تعلیم ، سیرت و کردار ہر پہلو پر پینی نظر، پڑھائی کے وقت پر پڑھائی، کھیل کے وقت پر کھیل، نماز کے وقت پر نماز، کھانے کے وقت پر کھانا، سب کچھ وقت کی پابندی، نظم و نسق کے لحاظ کے ساتھ۔ بچوں کے ہر عمل میں اتالیق محترم خود شریک، ان کی سخت نگرانی میں جو ٹک گیا، سدھر گیا، سچ یہ ہے کہ ایسا فدائی نگراں مدرسہ کوپھر میسر نہیں آیا۔

مولانا محمد ایوب اصلاحیؒ کی اصل پہچان مدرسہ کے لائق و فائق استاد کی ہے۔ ابتدائی درجات سے منتہی درجات تک مختلف مضامین پڑھائے جو مضمون اپنے ذمہ لیا، اس کا حق ادا کردیا ۔ مجھے امثال آصف الحکیم، کلیہ و دمنہ اور قرآن مجید پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔ مکتب سے یونیورسٹی تک بہت سے لائق و فائق اساتذہ سے شرف تلمذ حاصل ہوا۔ مگر ا یوب نامی دو اساتذہ کرام نے دل و دماغ میں جو جو جگہ بنائی وہ مقام کسی کو نہ مل سکا۔ ایک حافظ محمد ایوب انصاری اور دوسرے مولانا ایوب اصلاحیؒ ۔ امر واقعہ یہ کہ ایسے استاذ نہ ملے ہیں اور نہ ملنے کی کوئی امید ہے۔ایک مثالی مدرس کیسا ہوتا ہے؟ تعلیم و تعلم کے ماہرین اس پر خوب لکھتے ہیں، کئی ادیبوں، صحافیوں کودیکھا گیاہے کہ اپنے اساتذہ کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں۔ اگر ان سب تحریروں کو جمع کرکے اپنے ممدوح کا خاکہ تیار کروں تب بھی احساس یہ یہی ہوگا کہ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔

اس وقت وفات پرملال کی خبر سے دل فگار اور آنکھیں اشک بار ہیں، میں ایک بار پھر اپنے آپ کو مدرسۃ الاصلاح کے کلاس روم میں محسوس کررہا ہوں۔ استاذ گرامی امثال آصف الحکیم کا درس دے رہے ہیں۔ یہ کتاب کیونکر نصابی کتاب کا رُتبہ پاگئی، سمجھ سے بالا تر ہے مگر حسن اتفاق سے اسے پڑھانے کے لیے ایسے استاذ ملے کہ امثال کے قصے اور اس کی حکمتیں، ساتھ ہی نحوی قواعد کی تطبیق ایسے دل نشیں پیرایہ، میٹھی آواز اور رعب داب والے اسلوب میں پڑھایا کہ پڑھانے کا حق ادا کردیا۔ سال کے نصف ثانی میں کلیلہ و دمنہ کی باری تھی۔ کتاب کلیلہ و دمنہ اپنے مصنف و مترجم کی قابلیت و مہارت کی وجہ سے مشہور و مقبول ہے مگر جس نے یہ کتاب استاذ گرامی محمد ایوب اصلاحیؒ سے پڑھ لی تو وہ اس تیسرے کردار کا معترف ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کتا ب کا فقرہ ’’کیف کان ذلک‘‘ ایک نیا موڑ لے کر آتا ہے۔ اس کی تشریح میں مولانا جب اپنی مثالیں او ر تعبیرات شامل کرتے تو بسا اوقات اس کہانی کا نتیجہ ابن المقفع کی سوچ سے آگے نکل جاتا۔ یہ ابتدائی درجہ عربی دوم کی بات ہے ۔عربی چہارم میں قرآن کے استاد بن کر جب مولانا محترم کلاس روم میں داخل ہوتے ہیں طلبہ کی بانچھیں کھل جاتی ہیں۔ تلاوت وترجمانی کوئی طالب علم کرتا ۔ پھر استاد گرامی کی گل فشانی شروع ہوتی ۔ زیر درس آیات میں احادیث سے استدلال کی ضرورت ہے تو احادیث، تاریخی مواقع پر تاریخی حقائق، ا دبی و بلاغی نکات کی تشریح میں کلام عرب سے نظائر کی جھڑی لگادیتے، مولانا کا درس اس وقت چرم سیما پرہوتا جب ’’القرآن یفسر بعضہ بعضاً ‘‘کی نوبت آتی۔ مضمون کی مماثل آیات کو جمع کرکے ایک مرقع تیار کرتے کہ مدرسے کا قرآن کریم کی محققانہ تعلیم کا دعویٰ سچ کی تصویر بن کر سامنے آجاتا۔ جتنی محنت ، لگن اور فدائیت کے ساتھ مولانا قرآن مجید پڑھاتے تھے، بس جی چاہتا تھا کہ وہ پڑھایا کریں اور ہم لوگ پڑھا کریں۔ ان کے درس کے اختتام پر احساس ہوتا کہ محرومی کے لمحات شروع ہورہے ہیں۔خیال ہوتا ہے کہ شاید یہ مولانا اختر حسن اصلاحیؒ کے کمالات کا انعکاس تھا۔

استاد گرامی مولانا محمد ایوب اصلاحی ایک اعلیٰ درجہ کے استاد ہونے کے ساتھ نہایت اعلیٰ درجہ کے مربی بھی تھے۔ اس کا بڑا ثبوت تو ان کے اولاد وا حفاد ہیں۔ سب کے سب لائق و فائق۔ چندے آفتاب، چندے ماہتاب۔ اپنے شاگردوں کی خوابیدہ صلاحیتوں کو صیقل کرنے کا بھی انھیں بہت شوق تھا۔ ایسے حکیمانہ طریقہ سے تربیت کرتے کہ شاگرد عزیز جب کامیابی سے ہم کنار ہوجاتے تب پتہ چلتا کہ اس کا پتوار کون ہے؟ کسی طالب علم کو بلا بٹھا کر نصیحت کرتے تو بہت کم دیکھا گیامگر اُچکتے کو ایڑ لگانے کا کام اکثر کرتے رہتے۔ کسی کے اندر تحریری صلاحیت دیکھی تو اچھے معیاری مواد کی نشاندہی کردی،مضمون تیار ہوگیا تواصلاح دے کر معیار بڑھا دیا۔ خطابت کے جوہر دیکھے تو اس کو چمکانے میں لگ گئے، کوئی انتظامات کا شوقین نظر آیا تو حسن انتظام کی تربیت دے دی۔ انجمن طلبہ کے صدر و مربی جب تک رہے، اسی طرح تربیت کرکے خام مواد کو جوہر قابل بناتے رہے۔

مدرسہ کا استاذمدرسی میں اتنا گراں بار ہوتا ہے کہ اس کی دیگر صلاحیتیں دب کر رہ جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مولانا محترم کو تحریر و تقریر کا بھی خوب ملکہ عطا کیا تھا۔ تقریر تو اکثر و بیشتر کرنی ہوتی۔ میں نے پہلی بار ان کا خطبہ ۱۹۸۴ء میں ان کے گاؤں کے ممبر سے سنا۔ ایساخطبہ کہ لفظ لفظ دل میں اتر جائے۔ خطابت کی شان بھی اور کردار کی جھلک بھی۔ پھر کئی بار مولانا محترم کوبولتے سنا و دیکھا، ہر بار رشک آیا کہ کاش ایسی ہی شان ا ن کے عقیدت مند شاگرد کے اندر بھی آجائے۔ زمانے تک ہم لوگ یہی سمجھتے رہے کہ استادگرامی استاد تو اچھے ہیں ہی، خطیب بھی بہت اچھے ہیں، مگر کوئی تحریر کبھی نظر سے نہیں گزری۔ ۱۹۸۸ء میں انجمن طلبہ کا مجلہ شائع ہونا شروع ہوا تو اس کے ابتدائی صفحات میں ’’سخنہائے گفتنی‘‘ کے عنوان سے ایک چھوٹی سی تحریر مولانا محترم کے گہر بار قلم کی چغلی کررہی تھی۔ لفظ لفظ میں مٹھاس، اپنائیت اور سوز، پیغام بھی ہے اور حوصلہ افزائی بھی ؂ خیال آیا کہ ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں ہے۔ دل سے دعا نکلی کہ مجلہ کا یہ سلسلہ جاری رہے۔ تاکہ مولانا محترم کے قلم گہربارقلم سے کم از کم سال میں ایک صفحہ پڑھنے کو مل جایا کرے ۔ پھر انتظار کی اس اذیت کو کم کرنے کے لیے مدرسہ نے نظام القرآن کے نام سے سہ ماہی رسالہ نکالنے کا فیصلہ کرلیا اور اس کی ادارت باصرار مولانا محترم کے سپرد کردی ۔ اب ہر تین مہینہ بعد تازہ شمارہ ملنے لگا اور آنکھیں اس سے مستنیر ہونے لگیں۔ خیال یہ تھا کہ یہی کل تحریری سرمایہ ہوگااور رشک ہوتا رہا کہ کاش مولانا محترم کو زیادہ مواقع ملتے اور مزید شہ پارے نصیب ہوتے۔ ادھر چند برس قبل مولانا محترم کی تحریروں کا مجموعہ ’’متاع قلم‘‘ منظر عام پر آیا تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ مجموعہ مضامین شہادت دے رہا ہے کہ زندگی کے ہر پڑاؤ پر جب بھی وقت نے آواز لگائی مولانا کے قلم نے لبیک کہا ہے۔ زمانہ طالب علمی میں انور اعظمی اور انیس الرحمن اعظمی صاحبان کے ساتھ قلمی رسائل میں ادارت کی مشق کرتے رہے تو فراغت کے بعد تراجم و طبع زادمضامین، کہانیوں کا سلسلہ شروع کیا جو معارف، دوام اور دوسرے رسائل میں شائع ہوتا رہا۔ مدرسہ پر علمی محفلوں کا انعقاد شروع ہوا تو اس میں کلیدی، افتتاحی، اختتامی خطبات آ پ کے سپرد کیے جاتے، وہ خطبات بھی آپ نے قلم بند کیے، آپ کے قلم سے اپنے اساتذہ، محسنین اور احباب کی یاد میں جو مضامین آئے وہ اتنے پختہ، معیاری اور دلنشین تھے کہ آدمی پڑھتا جائے اور سر دھنتا جائے۔

استاذ گرامی دنیا میں نہیں رہے مگر آپ نے حسن البنا شہید کے طرز پر سینکڑوں رجال کار تصنیف کیے ہیں ، ہزاروں دلوں میں قرآن کی محبت جاگزیں کی ہے، بہترین تعلیم و تربیت کے ذریعہ صالح اولاد چھوڑی ہے، بلا شبہ یہ سب کے سب صدقہ جاریہ ہیں اور قیامت تک اس بطل جلیل کے حق میں ان شاء اللہ بلندی درجات کا ذریعہ بنتے رہیں گے۔

بار الٰہی! میرے مشق و محترم استاد کی ایک ایک نیکی کو قبول فرمالے، تیرایہ بندہ تیری کتاب کا سچا خادم تھا، اپنی کتاب کو اس بندہ صالح کے لیے شافع بنا دے۔ بار الٰہی تو غافر الذنب و ستار العیوب ہے اپنے اس نیک بندے کے ساتھ عفو و در گذر کا معاملہ فرما۔ بارالٰہی ان کے چھوڑے ہوئے پاکیز نقوش کو تابندگی عطا فرما۔ ان کی اولاد، ورثا اور تمام لواحقین کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرما۔

1 تبصرہ
  1. محمد شاکرالاکرم فلاحی کہتے ہیں

    پر اثر تحریر. مولانا سے اصلی ملاقات مولانا کی وفات کے بعد ہوئی. جزاک اللہ خیرالجزاء

تبصرے بند ہیں۔