انٹلی جنس اور سیکیورٹی کی ناکامی!

عالم نقوی

ایک ہی سال میں پٹھان کوٹ کے بعد اُری کے سرحدی فوجی ہیڈ کوارٹر پر حملہ ہماری خود ہماری انٹلی جنس اور سیکیورٹی کی مشترکہ ناکامی اورناقص، ناکافی ا ور شرم ناک انتظامات کا ثبوت ہے لیکن ہماری خود فریبی کا عالم یہ ہے کہ کوئی اس کا نام بھی نہیں لے رہا ہے، اور یہ توآفاقی اصول ہے کہ جب تک غلطی، کوتاہی اور تساہلی کا اعتراف نہ کیا جائے، اُس وقت تک پیش بندی اور تدارک بھی ممکن نہیں۔

اِن حالات میں کہ جب آٹھ ماہ قبل ہی پٹھان کوٹ کا فوجی ہیڈ کوارٹر اسی طرح کے دہشت گردانہ حملے کا نشانہ بن چکاتھا اور اُری میں واقع آرمی ہیڈ کوارٹر حقیقی کنٹرول لائن (یعنی  جموں کشمیر اور پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے درمیان قائم عارضی اور مصنوعی سرحد! )سے قریب ترین  مقام پرواقع ہے اُس کی سیکیورٹی کے نظام کا اِس درجہ ناقص ہونا کہ نہ تو’ را‘ اور ملٹری انٹلیجنس کو  پیشگی طور پراس کی کوئی بھنک لگے نہ بھاری اسلحے سے لیس چار دہشت گردوں کو اندر داخل ہونے سے روکا جاسکے، زبان حال سے یہی کہہ رہے ہیں کہ پہلے ہمیں اپنے گھر کی خبر لینی چاہیئے۔

 بارہ سے تیرہ ہزار فوجیوں کی بیک وقت  کفایت کرسکنے  والا اُری کا فوجی اڈہ اِس اعتبار سے، پٹھان کوٹ سے کچھ زیادہ ہی تزویری  Stratagicحساسیت  و اَہمیت کا حامل ہے کہ اس کے اندر داخل ہونے کے تین راستے ہیں جن میں سے ایک لائن آف کنٹرول سے محض چھے کلومیٹر کے فاصلے پر اور کھلے میدان میں ہے جبکہ 6 کلو میٹر دور واقع پاکستانی فوجی اڈے پہاڑی بلندیوں پر ہیں جہاں سے وہ ہمہ وقت، پورے فوجی اڈے پر بآسانی نگاہ رکھ سکتے ہیں!

 وزیر اعظم کا یہ بیان وہی گھسا پٹا اور روایتی ہے کہ ’’حملے کے ذمہ داروں کو بخشا نہیں جائے گا ‘‘ لیکن کویمبٹور (14 فروری 1998)لال قلعہ (22 دسمبر 2000)جموں کشمیر اسمبلی (یکم اکتوبر 2001)پارلیمنٹ(13 دسمبر 2001)، اکشر دھام (24 ستمبر 2002 ) اور ممبئی (26 نومبر 2008)سے لے کر پٹھانکوٹ (2 جنوری 2016)اور اُری(18 ستمبر 2016) کے تزویری فوجی اڈوں تک ہونے والے سبھی  دہشت گردانہ حملے  بتاتے  ہیں کہ نہ صرف  ملٹری انٹلی جنس اور رائ(RAW)سمیت ہماری سبھی خفیہ ایجنسیاں نا اہل ثابت ہوئی ہیں بلکہ متعلقہ قومی اہمیت کے اداروں اور مقامات کی سیکیو رٹی کی ذمہ دار ایجنسیاں اور ان کے سربراہان  بھی اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں بری طرح  ناکام رہے ہیں یا پاکستانی دہشت گرد تنظیوں اور ان کی تربیت گاہوں سے  پوری طرح باخبر ہونے کے باوجود جان بوجھ کے غفلت کا شکار رہے ہیں۔

چونکہ معاملے کا یہ رُخ دانستہ طور پر ہماری اعلیٰ ترین پیشہ ورانہ مہارت اور ذمہ دارانہ توجہ سے محروم رہا اسی لیے ہم  نے کبھی اپنی غلطیوں اور

کوتاہیوں کو کھلے دل کے ساتھ تسلیم کر کے اپنی کمیوں، خامیوں اور کمزوریوں کو دور کرنے کی کوئی سنجیدہ اور ایماندارانہ کوشش بھی نہیں کی۔

کوئمبٹور شہر میں دہشت گردانہ حملہ ٹسٹ کیس تھا۔ جب دہشت گردوں نے دیکھا کہ ہم نے اس سے کوئی سبق نہیں لیا تو انہوں تین سال بعد لال قلعے کو نشانہ  بناڈالااور جب اس کا بھی کوئی اثر ہماری انٹلی جنس اور سیکیورٹی اِیجنسیوں پر نہیں پڑا تو اَگلے دو برسوں میں اُنہوں نے تابڑ توڑ تین بڑے دہشت گردانہ حملے کرڈالے  اور ’’لینا، پکڑنا، جانے نہ پائے، اور چھوڑیں گے نہیں ‘‘سے زیادہ اور کچھ نہیں کرپائے جس کا نتیجہ چھے سال بعد ممبئی حملوں کی شکل میں برآمد ہوا۔ جب مہاراشٹر کے سابق آئی جی پولیس ایس ایم مُشرِف نے دو دو کتابیں لکھ کر ممبئی دہشت گردی کی ساری بخیائیں اُدھیڑ ڈالیں اور انٹلی جنس، سیکیورٹی اور حکومت تینوں کو برہنہ کر دیا کہ سرحد پار کے دہشت گردوں کو ٹھیکے پر بلوایا گیا تھا تاکہ گھریلو دہشت گردوں سے سنگھ پریوار کی دہشت گردی کا بھانڈا پھوڑ دینے والے ایماندار پولیس افسر ہیمنت کر کرے اور ان کی ٹیم کو راستے سے  ہٹایا جاسکے تو ظاہر ہے کہ پھر اپنے آپ آٹھ سال تک کسی بیرونی حملے کا ڈرامہ اسٹیج نہیں ہوسکااور ہماری ایجنسیاں گھر کے اندر ہی بے گناہوں کا شکار کرنے میں مصروف رہیں۔ لیکن مرکز میں سنگھ پریوار کی حکومت آتے ہی دو سَوَا دو سال کے اَندر دو دو بڑے حملے ہوگئے اور دونوں حساس فوجی اڈو ں پر کیے گئے تاکہ دشمن دنیا کو یہ دکھا سکے کہ بڑے بڑے دعوے کرنے والے حقیقتاً کتنے پانی میں ہیں! اور جو فوجیں اپنے ہی شہریوں پر اپنی طاقت آزماتے رہنے کی عادی ہوجاتی ہیں وہ بیرونی دشمن سے مقابلہ کر سکنے  کی بس اتنی طاقت رکھتی ہیں جتنی پٹھان کوٹ اور اُری کے فوجی اڈوں کے تحفظ میں سامنے آئی ہے!

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔