اولاد

سالک جمیل براڑ

شہرکے مین بازار میں اسلم کی چھوٹی سی چائے کی دوکان اپنی مثال آپ تھی۔ اسلم کی دوکان جتنی چھوٹی تھی اس کی شہرت کا دائرہ اتنا ہی وسیع تھا جہاں وقت بے وقت چھوٹی موٹی محفل سجی رہتی تھی۔ جس میں ہرطرح کے لوگ نوجوان، بوڑھے، اَن پڑھ، پڑھے لکھے، ادیب وشاعرشامل ہوتے۔ جو چائے کی چسکیوں کے ساتھ بحث وتکرار، شعرو شاعری کا بھی مزہ لیتے۔ یہ محفلیں اسلم کی ذائقہ دار چائے کا کمال تھیں یاپھرکوئی اور بات تھی۔ یہ توخداہی بہتر جانتا ہے۔ انہی حضرات میں سے اسحاق صاحب ایسے شخص تھے جنھیں اپنے اعلیٰ خاندان اور اونچی ذات والاہونے پربہت نازتھا۔ جوبات بات پراپنے داداصاحب ناناصاحب کی مثالیں دیتے۔ جب بھی انہیں موقع ملتا۔ عادت سے مجبور اپنی گٹرگوں شروع کردیتے تھے۔

دوپہر کے تقریباً دو بج رہے تھے۔ اسلم کی دکان میں تین چارصاحبان اپنی گفتگو میں مشغول تھے کہ اسحاق صاحب آگئے۔ سرپر مخملی ٹوپی ہلکی ہلکی داڑھی جس میں جگہ جگہ سفیدی جھانک رہی تھی۔ سیاہ شیروانی، سفید چوڑی دار پاجامہ میں ملبوس سلام ودعاکے بعد بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر بعد شروع ہوگئے۔

’’اجی……ہمارے داداصاحب بھی ایسے ہی کہتے تھے………واہ کیا خوب آدمی تھے۔ اس نے اپنے داداصاحب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا۔

پھر بات گھما پھراکراپنے خاندان پر لے آئے۔ اوراپناسلسلہ نسب بتاتے ہوئے اپنے اجدادکوآل رسول قراردیا گیا۔ اورسینہ پھلاکرٹانگ پے ٹانگ رکھتے ہوئے سامنے بیٹھے لوگوں کی طرف دادطلب اندازمیں دیکھنے لگے۔ گویاوہ اس کے سامنے بونے پڑگئے ہوں۔

’’قبلہ آپ کس خاندان سے ہیں ؟‘‘انہوں نے سامنے بیٹھے ایک سادہ سے آدمی سے پوچھا۔ جسے وہ اچھی طرح جانتے تھے۔

’’جی میں ……‘‘وہ گہری سوچ میں پڑگیا اور تھوڑی دیرسوچنے کے بعد بولا۔

’’میں بھی………ایک نبی کی اولاد ہوں ……!‘‘

مخملی ٹوپی والے صاحب اپنی جگہ سے اچھل پڑے اورحیرانی سے پوچھنے لگے۔

’’نبی کی اولاد……اورآپ………؟آپ کے آباواجدادسے توہم بخوبی واقف ہیں ………‘‘

وہ بڑی عاجزی سے زیرِ لب مسکراتے ہوئے بولا۔ ’’جی………اس نبی کوبھی جانتے ہیں ………!!‘‘

’’توآپ کی ذات کے مطابق آپ کا تعلق کس نبی سے اورکیسے ہوا؟‘‘

وہ نرمی سے بولا۔ حضور میری ذات انسانیت ہے اور میں حضرت آدم علیہ اسلام کی اولاد ہوں۔ ‘‘

تبصرے بند ہیں۔