طارق چھتاری کا ’’بَاغ کا دَروازہ‘‘ – ایک تنقیدی تجزیہ

صفدرامام قادری

            طارق چھتاری کی کہانی ’باغ کا دروازہ‘ دوسطروں کی ایک مختصرسی تمہید کے ساتھ شروع ہوتی ہے۔ ایک جملے میں فضابندی اوردوسرے جملے سے کہانی کا آغاز۔ ایک کردار کے کُود کرپلنگ پر چلے آنے سے کہانی میں ڈرامابھی شروع ہوجاتاہے۔ آج قصّے کو باغ کی حفاظت میں ناکام شہزادوں کی شہربدری سے آگے بڑھناہے لیکن نوروزؔ قصّہ سننے کی بے تابی میں معلوم قصّے کے متوقع انجام کے بارے میں اپنے طفلانہ تاثرات بھی اتاولے پن میں پیش کرتاجاتاہے۔ اسی مرحلے میں بچّے نوروزؔ کے اندرسے شاید افسانہ نگارکی آوازابھرتی ہے :  ’’یہ توہمارے ہی شہرکے باغ کا قصَّہ ہے، باغ کو ٹھی والاباغ‘‘۔ یہاں سے افسانوی کش مکش شروع ہوجاتی ہے۔ آخریہ کس باغ کی کہانی ہے؟  وہ جوقصّوں میں رہتاہے یاواقعتاً اس شہرمیں موجود باغ کوٹھی والے باغ کی کہانی۔ ابتدائی مرحلے میں ایک لحظہ کے لیے یہ سوال پیداکردینے کے بعدافسانہ نگارقصّے سے غائب ہوکراصل کہانی کو فطری رنگ میں آگے بڑھنے دیتاہے۔ بچّے کے تجسّس پرافسانہ نگارکی خاموشی اور دادی کا عمومی تبصرہ کہ ’یہ ہمارے شہرکی بھی داستان ہے اور ان شہروں کی بھی، جوہم نے نہیں دیکھے‘ یہ دونوں چیزیں ایک طرح سے اس اہم سوال کو فوری طورپرزائل کردینے میں کامیاب ہوجاتی ہیں۔ یہیں سے سچ اور جھوٹ، حقیقت اورگمان کے بیچ کی افسانوی کش مکش اورتذبذب کی ابتدا ہو جاتی ہے۔

            کہانی گل ریز شہزادے سے شروع ہوتی ہے۔ حالاں کہ اشارے اس سے پہلے کے واقعات کے بھی یہاں موجود ہیں۔ باغ کی حفاظت کا مسئلہ آن پڑاہے۔ شاید اس پرکسی دیوکاسایہ ہے۔ محافظت کے ساتھ دیوپر فتح یابی ضروری ہے۔ یہ مسئلہ اتناپیچیدہ ہوگیاہے کہ بادشاہِ وقت کی طرف سے یہ انعام مقررہے کہ جوکوئی بھی اس کی رکھوالی میں سرفرازی پائے گا، اسے نصف بادشاہت حاصل ہوگی۔ لیکن ناکامی میں ملک بدری ملے گی۔ گل ریز سے بڑے بادشاہ کے پانچ بیٹوں نے باری باری قسمت آزمائی اور نتیجے میں شہزادگی چھوڑ، دُوردیس کی راہ لینے پرمجبوُرہوئے۔ اس کے باوجود بادشاہ کا آخری بیٹاگل ریز جب باغ کی رکھوالی کے لیے اجازت طلب کرتاہے توعجیب مشکل پیداہوجاتی ہے۔ افسانہ نگار نے بادشاہ کے دل میں موجودکش مکش کو کمال سوزکے ساتھ گفتگوکی زبان میں ڈھال دیاہے۔ بیٹے کوکس الم انگیز لہجے میں بادشاہ سمجھاتاہے، ملاحظہ کریں :

’’نہیں جانِ پدر! شرط مشکل ہے اور توعزیز۔ اگرتیرا پہرابھی ناکام ہواتواس وطن کے آخری ستارے کوبھی شہربدر ہوناپڑے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تیرے پانچوں بھائی بھی میری آنکھوں کو ویران کرگئے ہیں۔‘‘

باپ کے نہیں چاہنے کے باوجودگل ریز نے ضدکرکے باغ کی رکھوالی کا فیصلہ کر لیا۔ ہربارکامسئلہ یہ تھا کہ رکھوالی کرنے والاصبح سے ذرا پہلے نیند کی زدمیں آجاتاتھااور پھردیو  آکرباغ کو اُجاڑدیتاتھا۔ گل ریز نے اپنے ساتھ ایک عددچاقواور پسی ہوئی سُرخ مرچوں سے بھری شیشی رکھ لی۔ یہ سامان اس نے نیند بھگانے کی تدبیرمیں ساتھ رکھے تھے۔ جب آدھی رات ہوئی اور جھپکیاں آنے لگیں تواس نے چاقونکال، اپنی کنّی انگلی تراش، اس میں مرچیں بھرلیں۔ نیندآنکھوں سے غائب ہوگئی اور سحرنمودار ہونے لگی۔ اسی بیچ دیوباغ میں داخل ہوتاہے اور پھولوں کو روندنا شروع کردیتاہے۔ گل ریز اور دیومیں مقابلہ ہوا  اور بالآخر گل ریز فتح یاب ہوا۔ دیونے اپنی جاں بخشی کے عوض میں شہزادے کو چند ہدایات کے ساتھ سات جادوئی بال عطاکیے جنھیں وہ بہ وقتِ مصیبت استعمال کرکے زندگی میں سرفراز ہوسکتاہے۔ گل ریز نے اپنے والد سے نصف سلطنت نہیں لی بلکہ اس نے شہربدرہوئے اپنے پانچ بھائیوں کی تلاش میں نکلنے کا فیصلہ کیا۔ نتیجہ اچھاہوااورشہزادے کواپنے پانچوں بھائی مل گئے۔ لیکن انھوں نے گل ریز کے ساتھ مناسب سلوک نہیں کیا۔ انھیں اس کی رنجش تھی کہ جس کام میں وہ ناکام ہوکرشہزادگی اور دیگرسہولیات سے محروم ہوکرشہربدرہوئے، اس میں اس چھوٹی جان نے کیونکر کامیابی پائی۔ حسد کے مارے ان بھائیوں نے مل کر گل ریز کوسائیس بناکررکھ دیا۔

            اپنے بھائیوں کی سرگوشی سے گل ریز کوایک دن معلوم ہواکہ اس ملک کی شہرادی گلشن آرانے اپنی شادی کی عجیب شرط رکھی ہے۔ بُرج کی محراب میں وہ بیٹھی رہے گی۔ محل کے پہلے دروازے  سے اسے پھولوں کی گیندمارنے میں جوکوئی کامیاب ہوگا، اسی سے وہ شادی کرے گی۔ ہواکارُخ ایساکہ پھول کیوں کر وہاں پہنچے۔ کئی ممالک کے شہزادے اس عمل میں ناکام ہوئے۔ گل ریز کے بھائی بھی یہاں قسمت آزمائی کررہے تھے اور ناکام واپس ہوئے۔ گل ریزؔ نے دیوکے عطاکردہ بال کی مدد لینے کا فیصلہ کیا۔ اس نے ایک نہیں، پورے سات بارالگ الگ بھیس میں شہزادی پرپھول مارے اور ہربار کامیاب ہوکروہاں سے غائب ہوجاتا۔ شہزادی نے اسے پکڑنے کی ترکیب نکالی اور آخرکار وہ ایک سائیس کے بھیس میں گرفتارہوکرشہزادی  کے پاس پہنچا۔ دونوں کی شادی ہوگئی۔ لیکن گل ریز چوں کہ ایک سائیس تھا، اس لیے کم رتبہ آدمی سے شہزادی کی شادی کوبادشاہ نے پسند نہیں کیا۔ بادشاہ نے اپنی بیٹی اور اس کے شوہردونوں کو اپنی سَلطنت سے نکال دیا۔

            یہاں کہانی میں ایک نیامسئلہ پیدا ہوجاتاہے۔ اب گل ریز اور گلشن آرا کو بالکل نئے سرے سے اپنی دُنیا بسانی ہے۔ افسانہ نگار نے بتادیا ہے کہ دُنیابسانے کا وہی پراناطریقہ اس جوڑے نے بھی آزمایا۔ باپ نے دو  دھڑی اناج اور ایک اشرفی دے کرمحل سے نکالاتھا، اسی سے پھران لوگوں نے اپنی زندگی شروع کی۔ طارق چھتاری کی زبان سے قصّہ سنیئے :

’’ایک اشرفی کے کچھ چاول، کچھ ریشم کے دھاگے، کچھ زری کے تاراور کچھ اوزار۔ چاول کے دانے میدان میں ڈالے۔ رنگ برنگی چڑیاں آئیں۔ پَرٹوٹے، ان کوسمیٹ کر پنکھابنایا۔ شہزادہ بازارمیں بیچ آیا۔ پھرچاول کے دانوں، ریشم کے دھاگوں اورزری کے تاروں کی تعداد بڑھتی گئی۔ ہرروزکئی کئی پنکھے تیارہونے لگے۔ پھرفرشی پنکھے، چھت سے لٹکنے والے پنکھے اوردیوار کے قالین بننے لگے۔ کاروباربڑھاتوایک گڑھی نماقلعہ بنوایا۔ یوں اُن کی دنیا آباد ہوگئی۔ دونوں نے ایک دوسرے سے بے پناہ محبّت کی اور پھرایک باغ لگایا۔‘‘

            افسانے میں صرف چند سطروں میں ایک نئی دُنیا بسانے کی تفصیل ہے لیکن لکھنے والے کی مہارت ایسی کہ معلوم ہوتاہے تہذیب وتمدّن کے ارتقاکی ازلی کہانی لکھی جارہی ہے۔ بیان کاڈھب ایساکہ جادوکاگمان ہو۔ قصّے میں ایک سانس میں ’سچ جھوٹ‘ کا احساس، اپنی دل رُبائی میں یہاں شباب پرہے۔

            بچّے نے دادی جان کو کہانی کے اسی موڑپرروک کر بتادیا کہ آگے  کی کہانی سنانے کی ضرورت نہیں کیوں کہ وہ اسے جانتا ہے۔ بچّہ بتاتاہے کہ یہ ہمارے ہی شہرکی کہانی ہے اور باغ کوٹھی کے دربان سے اس نے سُن رکھا ہے۔ اس طرح کہانی اور حقیقت کے بیچ پھرسے کش مکش شروع ہوجاتی ہے۔ کنفیوژن ہونے لگتاہے کہ دادی کی بات صحیح ہے یا اُن کے پوتے کی۔ آخر سچی کہانی کون سی ہے؟ ایک چوتھائی بڑھنے کے باوجودافسانہ نگارہمیں پھرسے اسی ابتدائی سوال کے اردگردلاکر چھوڑدیتاہے۔ کہناچاہیے کہ وہ ہمیں جادونگری اور ہمارے شہرکی دنیا دونوں کہانیوں کو ایک دوسرے میں ملاکردیکھنے میں محتاط اور چاق وچوبند رہنے کی تنبیہہ کرتارہتاہے۔

             لیکن ابھی تک وہ کہانی کہاں شروع ہوئی ہے جسے طارق چھتاری ہمیں سناناچاہتے ہیں۔ وہ توخودبھی ہزاروں لاکھوں برس کی کہانیوں کے موجودہ نشانات میں الجھ رہے ہیں۔ اسی مرحلے میں ’شعورکی رو‘ کی تکنیک کااستعمال شروع ہوتاہے۔ اب نوروزؔ’’برسوں ‘‘ بعد سوچتاہے کہ اس نے گلشن آرا کے لگائے باغ کی کہانی نہیں جانتے ہوئے بھی کیوں دادی سے جھوٹ بول کر، آگے کی کہانی نہیں سننے کی صورت پیداکی۔ اصل میں وہ اس اُجڑتے باغ کی قدیم داستان سننے کے بجائے اپنی آنکھوں سے اُسے دیکھنا چاہتاتھا۔ جب کہانی حقیقی صورتوں میں ظاہر ہوسکتی ہے تواسے دیکھنے کے بجائے سننے کا کوئی تمنائی کیوں ہو؟

            افسانہ نگار بتاتاہے کہ یہ باغ ’’ہزاروں ‘‘ برس میں لگ پایا۔ نوروز کی آنکھیں بھی ’’ہزاروں ‘‘ سال پرانی ہیں۔ کہانی کی آیندہ تفصیلات میں پھرسے ایک نیاقصّہ ہے۔ دراصل اس باغ کے بنانے کی وجہ کیاہے اور کس نے اسے بنایا، ان سوالوں کے جواب ابھی کہانی میں نہیں آئے تھے۔ افسانہ نگارجواب میں ایک علاحدہ کہانی پیش کرتاہے:

            گل ریز اور گلشن آرا کے ملک میں نٹوں کی ٹولی آئی ہے۔ نٹ اور نٹنی نے اعلان کررکھاہے کہ وہ نقلی پَرلگاکردوکوس تک ہوامیں اُڑان بھرسکتے ہیں۔ اس بات کو آخرکوئی کیوں مانے؟ شہزادی نے نٹ جوڑے کوبلوایا اور اپنی آنکھوں کے سامنے کرتب شروع کرنے کا حکم دیا۔ مشرقی بُرج سے دونوں نقلی پَرلگاکراڑے اور کوئی ڈھائی کوس تک اڑنے کے بعد زمین پر ایسا گرے کہ پھراُٹھ نہ سکے۔ گلشن آرا  ان کی لاش دیکھنے پہنچی تودیکھا کہ وہاں کوئی لاش نہیں بلکہ دو  خوب صورت پھول کِھلے ہوئے ہیں۔ دنیا کے سب سے خوبصورت اور بے مثال پھول۔

            اس واقعے سے ملول شہزادی نے حکم دیاکہ اسی مقام پرایک باغ لگایا جائے جس میں دنیابھرسے پھول، پودے اور پھل داردرخت لاکرلگائے جائیں۔ باغ میں ہزاردروازے ہوں اور تمام دروازے سب کے لیے کھُلے ہوں، مختلف ملکوں سے اس باغ کو دیکھنے والے آتے اور اپنے ملک یاقوم کے بہترین پھول، پھل کے درخت اس باغ میں لگاتے۔ آنے والوں میں کوہِ قاف سے لے کر سمندرپارتک کے لوگ شامل تھے۔ مختلف ممالک سے آنے والے اپنے ساتھ نایاب قسم کے پودے لاتے اور باغ کو ٹھی میں قیَام کرکے محسوس کرتے گویاباغ میں نہیں، شہزادی گلشن آرا کے دل میں قیام پذیر ہوں۔ باغ میں برگد، پیپَل، صنوبر، گلِ رعناسے لے کر کرسمس ٹرِی تک مختلف وقتوں میں لگتے گئے جس سے اس کی خوش نمائی میں اضافہ ہوا۔

            اسی دوران باغ میں اُجڑنے کی صورت پیداہوگئی۔ باغ کی پاسبانی کے نئے نئے دعوے دارپیداہوتے گئے اور انھوں نے باغ کی حفاظت کے نام پرہزاردروازوں کو بندکرنامنظورکیا۔ فصیلیں مزیداونچی کی گئیں۔ صدردروازے پرسیاہ وردی داربٹھائے گئے۔ اسی بیچ کوٹھی کی محرابیں اور ستون ڈھہ گئے۔ اجڑنے اور اُجاڑنے کی کیفیت جاری رہی۔ نئے پاسبانوں نے فیصلہ کیاکہ باقی دروازوں کی طرح صدردروازے کو بھی بندکردینازیادہ مناسب ہوگا۔ ممکن ہے، اسی راستے باغ کی بربادی کا سامان داخل ہورہاہو۔ اب فیصلہ ہوتاہے کہ اس باغ میں کسی ’’باہر‘‘ کے شخص کو نہ آنے دیاجائے گااور نہ باہر کے پھول اور پودے لگانے کی اجازت ہوگی۔ نئے پاسبانوں کا ماننا ہے کہ نئے پودے قدیم پیڑوں کو غارت کردیتے ہیں۔ بے کاراوربے میل پودوں اور پھولوں کو باغ کی حُسن کا ری کے مقصد سے اکھاڑپھینکاگیا۔ گُلِ رعنااور گُلِ جعفری اور گُلِ سوسن کونکال پھینکا گیا، حالاں کہ کیتکی اور ناگ پھنی اسی طرح اپنی جگہوں پرقائم رہے۔ اسی صفائی میں پام اورایروکیریاکے درخت بھی ہٹادیے گئے۔

            اس کے باوجود باغ کے اجڑنے کا سلسلہ جاری رہا۔ نئے پاسبان اپنی تمام تدبیروں کے باوجود باغ کی شادابی اور رونق کو واپس نہیں لوٹا سکے۔ شہربھر کے لوگوں کا باغ کے دروازے پر اجتماع ہے۔ ایک بوڑھا نسخۂ کیمیالاتاہے۔ اس کی جھولی میں گلِ ہزارہ کی ایک خوبصورت گیندتھی اور ایک تیشہ۔ اس نے بتایاکہ سب سے پہلے توباغ کے تمَام دروازوں کو کھولناہوگا۔ پھراس نے چاقواورمرچوں والی شیشی نکال کرنوروز کودی اور کہا :

            ’’اگرتواس کا صحیح استعمال کرے گاتویہ باغ قیامت تک سرسبز اورشاداب رہے گا۔‘‘

            یہاں افسانہ نگارایک مختصرسَاڈراما پیش کرتاہے لیکن ایک اشارے کے سوااس میں کوئی حل نہیں کہ ایک پریوں کی شہزادی جس کے سَر پر نقرئی تاج، ہاتھ میں قدیم ساز ہے اور وہ ہنس کی سواری کر رہی ہے، باغ کے دروازے پرکھڑکی ہے، حالاں کہ اس واقعے کو بھی بوڑھے اور  نوروز کے علاوہ کسی نے نہیں دیکھا۔

            ’’باغ کا دروازہ‘‘ خالص علامتی افسانہ ہے۔ پہلی سطرسے لے کرآخرتک یہ علامتی فضا قائم رہتی ہے۔ علامتی اعتبار سے قصّے کی مکمل معنویت بھی ابھرتی ہے۔ باغ کو اگرہم صرف باغ تصوّر کریں، تب بھی اس کے مفاہیم روشن ہوجاتے ہیں۔ اس طرح یہ افسانہ اپنے آپ میں ایک تمثیل کااثررکھتاہے۔ لیکن طارق چھتاری نے اس علامتی افسانے کوداستانی روایت میں شیروشکرہونے دیاہے۔ کتھا کہانی سنانے کافن اوراسی بہانے افسانہ اپنے انجام تک پہنچ جائے۔ بیدیؔ نے ’’بھولا‘‘ میں اس سے فائدہ اٹھایاہے لیکن اس کہانی کی فضاداستانی نہیں۔ ایک گہرے علامتی افسانے میں داستانی روایت کواس طرح اندرتک داخل کرکے لطف کی کیفیت پیداکرلیناطارق چھتاری کی فنّی گرفت کاثبوت ہے۔ روایت اور جدّت دونوں وسیلوں سے انھوں نے جوکچھ پایا، اسے اس افسانے میں یک مشت استعمال کرکے پڑھنے والوں کو حیرت میں سردُھننے پرمجبورکردیاہے۔

             آج ایسے لوگ ایک ہاتھ کی انگلیوں پرگنے جاسکتے ہیں جنھیں اُردوکی قدیم داستانوں جیسی نثرنویسی پرقدرت ہو۔ ’ سب رس‘۔ ’نوطرزِمرصّع‘ اور’فسانہ عجائب‘ جیسے سجے دھجے اسالیب کی کون کہے؛ ’باغ وبہار‘ کی سادگی کوبھی ایک آدھ صفحے میں اتاردینا ممکن نہیں۔ طارق چھتاری نے قصے کی مناسبت سے مقدوربھرداستانی نثرقلم بندکرنے کی کوشِش کی ہے۔ بعض جملوں پردھوکاہوتاہے کہ اکیسویں صدی کا افسانہ زیرِمطالعہ ہے یااٹھارویں صدی کی کوئی داستان۔ آپ خودان کے اقتباسات ملاحظہ کریں :

٭          ’’نہیں جانِ پدر ! شرط مشکل ہے اور توعزیز۔ اگر تیراپہرابھی ناکام ہواتواس وطن کے آخری ستارے کوبھی شہربدر ہوناپڑے گا۔ شہرخالی ہوچکاہے۔ تیرے پانچوں بھائی بھی میری آنکھوں کوویران کرگئے ہیں۔‘‘

٭          ’’آخر کار، دیوکی ہارہونی تھی، سوہوئی۔ بولا: توجیتا، میں ہارا۔ اب مجھے چھوڑ، اس کے عوض تجھے سات بال دوں گا جووقت ضرورت تیرے کام آئیں گے۔ جب مصیبت آئے توایک بال جلادینا، باقی بُرے وقت کے لیے رکھ لینا۔‘‘

٭          ’’ایک اشرفی کے چاول، کچھ ریشم کے دھاگے، کچھ زری کے تاراورکچھ اوزار۔ چاول کے دانے میدان میں ڈالے۔ رنگ برنگی چڑیاں آئیں، پَرٹوٹے۔ ان کوسمیٹ کرپنکھابنایا۔ شہزادہ بازارمیں بیچ آیا۔‘‘

            داستانی تکنیک صرف زبان تک محدود نہیں، کرداراور واقعات کی تشکیل و تعمیر میں اُردو داستانوں کی روایت سے کافی فائدہ اٹھایاگیاہے۔ نوروز، گل ریز، گلشن آرا، شیزفام کے علاوہ دیو، فقیر، نَٹ، نٹنی اور بوڑھے کے کرداروں کی موجودگی نے ’’باغ کا دروازہ‘‘ کوقدیم داستانی ماحول کی آغوش میں پہنچا دیاہے۔ اسی طرح علمی مخصوصات اور معلومات کے دفترسجادینے کا ہنرمثنویات اورداستانوں کی ایک خاص پہچان ہے۔ طارق چھتاری نے باغ کے مشتملات کے لیے جن پھولوں، پیڑوں کا ذکرکیاہے، ان کی فہرست ملاحظہ ہو : گل ہزارہ، گل داؤدی، گلِ آفتاب، گُلِ رعنا، گلِ جعفری، گلِ سوسن، گلِ شب افروز، گلِ صدبرگ، گل گوں، گلِ نیلوفر، نسترن، یاسمین، خیار شبز، صنوبر، آبنوس، مولسری، تمرہندی، برگد، پیپَل، املتاس، ببول، کیتکی، ناگ پھنی، کیوڑا، کرسمس ٹری، پام ٹری، منی پلانٹ اورایروکیریا۔

            یہ مثنوی’ سحرالبیان‘ سے ماخوذ کوئی حصّہ نہیں اور نہ ہی لکھنؤ کے باغات کی تفصیل ہے۔ طارق چھتاری نے کہانی کے موضوع کی مناسبت سے مختلف قومیت اورنسل، رنگ اورخوشبوکے پھل اورپھول جمع کردیے ہیں ؛ اتنے نام اور انواع واقسام کے پھول۔ طارق چھتاری اپنے موضوع کے اعتبار سے ’موادکی فراہمی‘ کا شاید منصوبہ بندسلیقہ رکھتے ہیں۔ بعض ناول نگاراپنی کتابوں کے لیے تحقیقی موادیاڈیٹابیس (Data-base)تیار کرتے ہیں۔ غالباً طارق چھتاری نے باغ کا دروازہ لکھتے ہوئے کم ازکم داستانی عناصربالخصوص پھولوں کی تفصیل پیش کرنے کے مرحلے میں موضوعاتی تحقیق ضرور کی ہے۔

            طارق چھتاری نے یہ افسانہ رواروی میں نہیں لکھا۔ بالعموم تخلیقی ادب کے سلسلے میں یہ مان لیاجاتاہے کہ ذوق اوروجدان کے وفورمیں لفظ وبیان کی کشتی خودبہ خود کنارے پہنچ جاتی ہے۔ لیکن بڑالکھنے والا زندگی اور اس کے مضمرات کے بیان میں سرسری طور سے گزرنے کی خو، نہیں اپناتا۔ ایک مصرعے کے لفظوں کی ترتیب پربھی شاعرباربار غورکرتاہے۔ طارق چھتاری نے اپنے اس افسانے کی تعمیر وتنظیم میں قدرتِ بیان کا یہی ہنرآزمایاہے۔ یہاں موضوع اور اسلوب، دونوں سطحوں پراُن کی مہارت دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ عام طورسے افسانے اتنے دل لگاکر اورچُول سے چول بٹھاکرنہیں لکھے جاتے۔ قصّہ بیَان کرکے کسی دل پسندمقام پرچونکاتے ہوئے پڑھنے والوں کے لیے ایک لمحۂ فکریہ کی تلاش کرکے افسانہ نگاراپنے فرائض سے سبک دوش ہوجاتاہے۔ خوشی کی بات ہے کہ طارق چھتاری نے ’باغ کادروازہ‘ خوب جی لگاکرلکھا۔ ایک ایک لفظ، جملہ، اشارہ یاواقعہ سب پوری سُوجھ بوجھ اور موقع محل کے اعتبار سے کہانی میں موجود ہیں۔ شایدہی کوئی جملہ یامختصرساواقعہ ہوجسے کہانی سے نکال دیاجائے اوراس کااثرکہانی پرنہ پڑے۔ اختصاراور جامعیت کایہ حال ہے کہ دس جملوں کی جگہ اگرایک جملے سے کام چل جائے توطارق چھتاری اسی کواولیت دیتے ہیں۔ اسی لیے کبھی کبھی ایک یادوجملوں میں پورا  واقعہ سمٹ آتاہے۔ ایک کردارچندلفظوں میں اُبھرکراپنی موجود گی درج کراکے انجام تک پہنچ جاتا ہے۔ دوسرے لکھنے والوں کی طرح طارق چھتاری نے اس کام کے لیے کئی کئی صفحات خرچ کرنے سے گریز کیاہے۔

            قصے کی تعمیر کا سلیقہ طارق چھتاری میں موجود ہے۔ چھوٹے سے واقعے کی تفصیل میں بھی وہ حسنِ ترتیب اور مختلف اجزاکاسلسلے وار بیان اپنے فرائض میں شامل رکھتے ہیں۔ باغ کی تعمیر کے سلسلے میں ان کے جملے اس طرح قلم بند ہوئے ہیں :

’’شہزادی گلشن آرا نے حکم نامہ جاری کیاکہ یہاں ایک ایسا باغ لگایاجائے گاجس میں دنیابھر کے نادرونایاب پھول، طرح طرح کے پھل اور بے شمارخوبصورت درخت ہوں۔ باغ کی چہاردیواری ایسی ہوکہ جس میں ہزاردروازے ہوں اور سارے دروازے سبھی کے لیے کُھلے رہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پہلے تمرہندی، برگد، پیپل اور املتاس کے درخت لگائے گئے اور پھر درمیانی روشیں مولسری، آبنوس اور صنوبر کے درختوں سے آراستہ کی گئیں۔ باغ کے وسط میں ایک عالی شان عمارت تعمیر کی گئی جوباغ کوٹھی کے نام سے مشہور ہوئی۔‘‘

اسی طرح باغ کی ویرانی کا سلسلہ شروع ہوتاہے تواس کی تفصیل بھی واضح طورپرمرحلہ وارہے۔ وہ کہتے ہیں :

’’اب فصیل مزید اونچی کردی گئی تھی اور اس کے تمام دروازے پتھروں سے چُن دیے گئے تھے۔ صرف صدردروازہ کُھلاتھا جس پرسیاہ وردی پہنے سپاہی آبنوس کے درختوں کی طرح جامدوساکت کھڑے تھے۔‘‘

            طارق چھتاری واقعات کے بیان میں تاریخ نویسی کے آداب کا اس لیے لحاظ رکھتے ہیں کیوں کہ پڑھنے والے ان کی اصل کہانی کے تاریخی پس منظر کے ساتھ ساتھ باغ کے بننے اور اُجڑنے کی تمام کیفیات محسوس کرسکیں۔ فکشن کے اداشناس ہونے اور داستانوی حربے کے دخل کے باوجود قصّے کی حقیقی لہرکوتاریخ کے ماہرکی طرح ایک ایک پُرزہ  درست کرکے ہمارے سامنے رکھ دیناافسانہ نگار کا بڑاکارنامہ ہے۔ اس افسانے میں حالاں کہ حقیقت اور گمان کے درمیان ہروقت ایک کھیل تماشہ ہوتا رہتا ہے لیکن پڑھنے والا اسی تاریخی ہنر مندی کے سبب عصرحاضر کے مفاہیم سے کسی بھی مرحلے میں خودکوالگ نہیں کرپاتا۔

            اس افسانے میں ڈرامائیت بہت ہے۔ موضوع اور مقام کے تعلق سے بعض گریزکے مواقع افسانہ نگار نے ڈرامائیت کے بل بوتے سنبھال لیے۔ قصّہ سنانے میں دادی اور پوتے کے درمیان کئی ڈرامائی منظَر آتے ہیں۔ شہزادے کا باغ کی حفاظت کے لیے بادشاہ سے رخصت لیتے وقت کا سین، دیوسے مقابلہ اور دیوکے ہارنے کے بعد جادوئی بال کا تحفہ ملنا۔ گلشن آراکوپھولوں کی گیند سے مارنے کی شرط اور اس میں گل ریز کا سات بارکامیاب ہونا، نٹ نٹنی کا کھیل اور تماشے میں موت۔ قریب سے دیکھنے پرلاش کے بجائے دوپھولوں کی موجودگی، نوروزؔ کی باغ کے نئے انتظامات سے باخبری، بوڑھے کااچانک قصّے میں ورودِ مسعوداور مجمع سے خطاب، نقرئی تاج پہنے پریوں کی شہزادی کی آمد — یہ تمام چھوٹے چھوٹے ڈرامے ہیں جنھیں طارق چھتاری نے مختصر منظروں کی مدد سے اس کہانی میں بڑے سلیقے سے پرویاہے۔ چند لفظوں میں ایک سین تیار کردیناآسان کام نہیں۔ اس مختصر سے افسانے میں چند سطروں میں منظربدل جاتے ہیں۔ کبھی کبھی صرف ایک جملے کے بعد وقت اور مقام دونوں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ اس پرمستزاد شعورکی رو  کاجھٹکا— لیکن افسانہ نگار قصّہ گوئی کے فن کاایسا واقف کارکہ چوٗل سے چوٗل بٹھانے کے اپنے فرائض سے کبھی غافل نہیں ہوتا۔ جہاں توازن اور اعتدال کا رآمد حربے کے طور پر نہیں کام کرسکتے وہاں ڈرامابناکر قصّے کی رفتارکواپنے ہاتھوں میں بہرحال رکھ لینے کی طاقت طارق چھتاری نہیں کھوتے۔

            ’’باغ کا دروازہ‘‘ چھوٹی سی کہانی ہے، لیکن اس کے اندراور بھی کئی مختصر کہانیاں داخل کردی گئی ہیں۔ اصل کہانی دادی سنارہی ہے اور نوروز سُن رہاہے۔ بادشاہ اور اس کے شہزادے بیچ میں اپناقصّہ لے کرآجاتے ہیں۔ اسی دوران شہزادی گلشن آراالگ سے اپنامعاملہ پیش کرتی ہے۔ دونوں قصوں کے ایک ایک کردار گل ریز اور گلشن آرا رشتہء ازدواج میں بندھ کرالگ سے اپنی دُنیابسانے نکل پڑتے ہیں۔ ایک نَٹ اور نٹنی کی کہانی علاحدہ ہے جن کی موت کے سبب شہزادی نے باغ کی تعمیر کا فیصلہ کیا۔ باغ کے بنانے اور اجاڑنے دونوں کے قصّے نئے سرے سے بُنے گئے ہیں۔ باغ کی حفاظت کے دعوے داراور باغ کی بربادی پرماتم کناں جماعتوں کے تاثرات بھی علاحدہ قصّے کی طرح ہیں۔

            کہانی میں بوڑھے کی آمد اور نوروز کا قصّہ سننے کے بجائے سرگرم شرکت کا فیصلہ بھی الگ قصّہ ہے۔ کہانی کے انجام کے مرحلے میں پریوں کی شہزادی کی آمداور اختتامی اشارے بھی ایک نئی کہانی کہہ رہے ہیں۔ ۔ طارق چھتاری کا کمال یہ ہے کہ ان چھوٹے چھوٹے قصّوں کو ایک دوسرے سے اس طرح انھوں نے جوڑدیا ہے کہ سب مل کرایک بڑی کہانی معلوم ہوتے ہیں۔ کہانی کے ایک ایک جزوکو ایسی سلیقہ مندی سے جوڑدینے والے افسانہ نگاربہت کم ہیں۔ ’’باغ کا دروازہ‘‘ جیسے مرصع افسانے کہاں لکھے جارہے ہیں؟

            افسانے کو راجندرسنگھ بیدی نے ’جھوٹ سچ‘ کہاہے۔ طارق چھتاری اس بات پریقین کرتے نظرآتے ہیں۔ ’’باغ کا دروازہ‘‘ میں وہ باربار سچ اور جھوٹ، حقیقت اور گمان کے بیچ ہمیں الجھادیتے ہیں۔ اس دوران وہ باربار فنٹاسی کا سہارا لیتے ہیں۔ یہ اصل میں دادی کے ذریعے سنائی جانے والی کہانی ہے لیکن وہ باربار اس سلسلے کو توڑدیتے ہیں۔ پڑھنے والے کو اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ وہ کب خواب سے حقیقت میں چلاآیا۔ جیسے وہ حقائق کے مضمرات محسوس کرنے کی تیاری کرتاہے، اُدھرسے دادی نوروز سے پوچھ بیٹھتی ہے:

            ’’سوگیاکیا؟‘‘ اور جواب آتاہے: ’’نہیں، دادی جان!‘‘

            یعنی پڑھنے والاپھر سے قصّے کی دنیا میں واپس آجائے۔ دیو کا ہارکر شہزادے کو جادوئی بال عطاکرنااور پھراُن کی مدد سے گلشن آرا کی مشکل شرط پر کھرا  اترنا فنٹاسی کی خوبصورت مثالیں ہیں۔ اپنے والد کے گھر سے نکال دیے جانے کے باوجود گلشن آرانے اپنے شوہر کے ساتھ مل کرجس طرح اپنی نئی دنیا بسائی، اس کا مختصر گوشوارہ کسی جادو گھر کی سیر کے لطف سے کم نہیں۔ کہانی میں نٹ نٹنی کا داخلہ، اُن کا مصنوعی پَر لگاکراُڑنا اور پھرموت، لاش کا دوپھولوں میں بدل جانا اور ان کی یادمیں ایک عدیم المثال باغ کی تعمیر۔ ۔ ۔ سب مرحلے فنٹاسی پر مبنی ہیں۔ کہانی کے انجام کے مرحلے میں نوروز اور بوڑھے میں سے کسی ایک کو ہی مجمع دیکھ سکتا تھا، یہ بھی فنٹاسی ہی ہے۔ ان فنٹاسیوں اور’ جھوٹ سچ‘  سے طارق چھتاری نے کہانی کی خوابناک اور سحرانگیز تصویر میں اور بھی کتنے رنگ بھردیے ہیں۔

            اس افسانے میں دیو، بھوت، فقیر جیسے کردار دیکھ کریہ التباس پیدا ہوتا ہے کہ طارق چھتاری آج کے ترقی یافتہ عہد میں آخر کس قسم کی قصہ گوئی کرناچاہتے ہیں؟ پورے افسانے کی فضاداستانی ہے اور مافوق الفطری عناصرابتداسے انجام تک چھائے رہتے ہیں۔ افسانے کی علامتی بُنت بھی پڑھنے والے کو یہی راستہ دکھاتی ہے۔ لیکن کیا ’باغ کا دروازہ‘ اسی قدرہے؟ کیا اسے عصرِحاضر کے داؤ پیچ سے بے خبر رہنے والے وقوعے کے بہ طورپڑھ لینے سے ہمارا کام چل جائے گا؟ طارق چھتاری نے اتنے سادہ طریقے سے یہ افسانہ نہیں لکھا۔ انھوں نے ہمارے آس پاس کے نہ جانے کتنے اشارے اس افسانے میں رکھ چھوڑے ہیں۔ اب پڑھنے والے کاکام ہے کہ اسے ایک داستانی افسانہ سمجھ کر قناعت کر لے یا پھراپنے زمانے کی دھڑکنوں اور سانسوں کو قید ہوتاہوادیکھ لے۔

            اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ طارق چھتاری نے آخرکس باغ کی کہانی لکھی ہے؟ کس کے بننے اور اُجڑنے کی تفصیل اس قدرتوجّہ اور گہرے درد کے ساتھ بیان کی گئی ہے۔ کہانی صدفی صداستعاراتی ہونے کے باوجود اپنے اندراشارے رکھتی ہے کہ اسے سمجھاجائے۔ یہ اِسی ملک کی کہانی ہے۔ باغ بننے کا عمل کب سے شروع ہوتا ہے، اس کے بارے میں بھی اشارہ موجود ہے۔ ’’ہزاربرس‘‘ افسانہ نگار نے کچھ یوں ہی نہیں لکھا۔ وہ بتانا چاہتاہے کہ آج سے ایک ہزاربرس قبل اس  باغ کی تعمیر کی صورت پیداہوئی تھی۔ اصل میں یہ باغ ہندستان میں مسلمانوں کی آمد کے بعد بننا شروع ہوا۔ اس کی تعمیر اور ترقی میں ان کی محنت، جاں سوزی اور احساسِ جمال کا صرفہ ہواہے۔ اسے انھوں نے سیکڑوں برس میں اپنے خونِ جگر سے سینچا ہے۔ مُلک میں منافرت کے بجاے خیرسگالی، تنگ نظری اور اپنے آپ میں سمٹ کر رہنے کی جگہ وسیع المشربی اور تہذیبی میل جول کا جوپیغام اس دور ان عام ہوا، اس کی کوئی دوسری نظیردُنیا کی تاریخ میں شاید ہی ملے۔ لیکن یہ صورت ہمشہ قائم نہ رہ سکی۔ داخلی اور خارجی دونوں اسباب حالات بدلنے کے ذمے دار ہیں۔ ہندواور مسلمان طبقے میں ایک دوسرے کے خلاف خود کو قائم کرنے کی کوششیں شروع ہوئیں۔ انگریزوں پرہم اس بٹوارے کی پوری تہمت ڈال کرخود کو بچالیں، یہ انصاف کی بات نہیں۔ آزادی کی جنگ کے دوران ’دوقومی نظریہ‘ تو اس تقسیم کی سطحی تاویل تھا۔ صوفیوں، سنتوں اور اصلاحی تحریکوں کے باوجود ہندستان میں مذہبی اعتبار سے حلاحدہ شناخت کے تئیں سنجیدہ کوششیں بہت کامیاب رہیں۔ طارق چھتاری مبارک بادکے مستحق ہیں کہ انھوں نے ہندستان کی تعمیر نو اور دنیا کے ایک بہترین سماج کی تشکیل کے کرب کو محسوس کیااور اس کے خلاف اٹھ رہی آوازوں کے تعلق سے اپنی واضح راے پیش کرنے کی کوشش کی۔

            موضوع جس قدرجذباتی تھا، طارق چھتاری نے بیان کے ضبط سے اس کے سوزکو اور بھی بڑھادیاہے۔ میرؔ کے اشعار میں بعض اوقات ایک عجیب آسیبی فضاملتی ہے۔ ڈرلگنے لگتاہے کہ آدمی کہاں آگیا۔ طارق چھتاری نے اس افسانے میں اسی آسیبی کیفیت کی بازیافت کی ہے۔ لیکن بیان ایسا نپا تُلا اور بظاہر لاتعلقی ظاہر کرتا ہوا موجود ہے کہ پڑھنے والا واقعتاً یہ نہیں سمجھ پاتا کہ ُاس کی اپنی زندگی، خاندان اور پُرکھوں کے باغ کے زوال کی کہانی ہے۔ اصل میں یہ احساسِ زیاں کی کہانی ہے۔ جس گلشن کو ہزاروں سال میں آپ نے بنایا، سجایا اور سنوارا ہو، اسے اپنی آنکھوں کے سامنے اجڑتے دیکھنے کی لاچاری ہے۔ یہاں قصّے کا پھیلاو تو بہت ہے لیکن ہر جگہ کھونے کے احساس کی شدّت دکھائی دیتی ہے۔ افسانہ نگار اپنی معروضی لاتعلقی کے باوجود اس دود کے رشتے سے بندھا ہے۔ لفظوں میں کراہنے کا عمل کس واقعے میں محسوس نہیں ہوتا؟ خاص طور سے نوروزؔ کے کردار کی تشکیل میں غالباً افسانے کا اصل سوز پوشیدہ ہے۔ دادی سے قصہ سننے سے لے کر باغ کو پھر سے آباد کرانے کی مہم تک نوروزؔ کی بے چینی اور بے تابی ہمیں ہراساں کردیتی ہے۔ شاید اسی لیے نوروزؔ کے تبصرے سب سے دردناک ہیں۔ ملاحظہ کیجیے، طارق چھتاری کے وہ جملے جہاں باغ کی ویرانی نوروز کی زبانی قلم بند ہوئی:

’’صدر دروازے سے داخل ہوتے ہی اس نے دیکھا کہ جہاں مولسری اور صنوبر کے شجر تھے، وہاں ببول کی کانٹے دار جھاڑیاں اُگ آئی ہیں۔ حوض جس میں ہر پل فوارہ چلتا رہتا تھا، اسے بارش کے پانی اور کائی کی پرتوں نے مینڈکوں کا مسکن بنا دیا ہے۔ سامنے نگاہ کی تو کُھلاکہ باغ کو ٹھی کے کھنڈر دَم سادھے کھڑے ہیں۔ کوٹھی کی بلند محراب کی طرف گردن اٹھائی تو اندھیرے میں ڈوبے آسمان کا عکس نظر آیا۔ محراب ٹوٹ کر گرچکی تھی اور ستون سرنگوں تھے…..ایک پتھر سے ٹکراکر (نوروز) اوندھے منہہ آگِرا۔ کانپتی انگلیوں سے ٹٹولا تو دو قبروں کے نشان پائے۔ اسے معلوم ہے یہ قبریں شہزادہ گل ریز اور شہزادی گلشن آرا کی ہیں۔‘‘

            کہانی میں باغ کی تعمیر اور مختلف ادوار میں اس کی توسیع کے ساتھ ساتھ اس کے زوال کی کڑیاں بہت سلیقے سے بیان کی گئی ہیں۔ تعمیر کے صبر اور استقامت کے ساتھ بکھراو کے اشتعال اور عجلت بھی ہنر مندی کے ساتھ تحریر میں موجود ہیں۔ باغ کو پھر سے آباد کرنے کے تعلق سے کہانی کا موڑ کہیں نہ کہیں ماضی کی طرف پلٹنے کا راستہ دکھاتا ہے۔ اشارے علم کی تسخیر یا تشدد کے راستے سے کامرانی کے بھی ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ کچھ الجھاوے پھر شروع ہو گئے۔ افسانہ نگار نے افسانے میں ایک ڈرامائی کیفیت پیدا کر کے اپنی جان بچا لی ہے لیکن مسئلہ بہر حال قائم رہتا ہے۔ مشکل مسئلوں کے جواب سِررا ہے نہیں دیے جاتے۔ طارق چھتاری نے اچھا کیا کہ مکمل حل تنہا ڈھونڈ لینے کا کوئی دعوا نہیں کیا۔ سارا سماج غور کرے کہ باغ کو اس کے شباب کے دور میں پھر کس طرح پہنچایا جا سکتا ہے۔ طارق چھتاری نے اس سوال کو فضا میں اچھال دیا ہے۔

            باغ کی کہانی جس طرح ایک ہزار سال قبل سے شروع ہوتی ہے۔ عین ممکن تھا کہ اسے مزید دو ڈھائی ہزار سَال پیچھے لے جایا جاتا اور ہندستان میں آریائوں کی آمد سے ملک کے سماجی نظام کی تبدیلیوں پر بھی توجہ دی جاتی۔ طارق چھتاری نے افسانے میں شعور کی رو کا استعمال کیا ہے، اس لیے انھیں اور بھی آسانی تھی۔ افسانے میں موضوعاتی پیچیدگی تو آتی لیکن نتائج تک پہنچنے میں معروضیت کا اضافہ ہوتا۔ ممکن ہے ساڑھے آٹھ صفحے کے افسانے سے میرا یہ تقاضا انصاف پسندانہ نہ مانا جائے۔ ’’باغ کا دروازہ‘‘ بیان کے ضبط اور ٹھہراو، احتیاط پسندی، آنکھیں کھلی رکھ کر مشتملات کو افسانوی رنگ دینے کی فن کاری کی وجہ سے اہمیت کا حامل ہے۔ اس قدر نپی تلی اور اثر پیدا کر دینے والی کہانیاں آج اُردو میں کتنی لکھی جا رہی ہیں؟

تبصرے بند ہیں۔