تبصرہ- ’’صدف‘‘(بین الاقوامی سہ ماہی)

نام رسالہ: ’’صدف‘‘(بین الاقوامی سہ ماہی)

مدیر اعلیٰ(اعزازی): صفدر امام قادری

مدیر انتظامی: شہاب الدین احمد

اشاعت: جلد :1، شمارہ :1، دورِدوم/ کتاب۔ 3، جون 2016ء

قیمت فی شمارہ: 200روپے

مبصر: غلام نبی کمار، یسرچ اسکالر، شعبۂ اردو د، ہلی یونی ورسٹی

ہندوستان میں شائع ہونے والے حالیہ ادبی رسائل و جرائد میں چند معدودے رسائل کو ہی بین الاقوامی شہرت حاصل ہورہی ہے۔ ان میں اردو دنیا، اردو ادب، معارف، اردو بک رویو، ثالث خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ یہ وہ ادبی جرائد ہیں جن کی اشاعت استقلال اور طمطراق انداز میں مسلسل عمل میں لائی جا رہی ہے۔ قارئین کے ذہن میں یہ سوالات پنپ رہے ہونگے کہ مذکور بالا رسائل میں بیشتر سرکاری اداروں سے شائع ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ایسا ممکن ہو سکا ہے۔ دراصل ان ادبی جریدوں کی کامیابی کا سہرا اس کے ادارتی شعبے کے سر باندھا جا سکتا ہے جو اپنی ہنر مندی، قابلیت، صداقت شعاری اور پُر عزم حوصلے کے ساتھ انہیں شاندار طریقے سے ترتیب و تہذیب دے کرعمل میں لاتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ رسالے کی جہت کو خوب سے خوب تر اور اعلیٰ سے اعلیٰ تر بنانے کی ہر ممکن کوشش میں کوشاں رہتے ہیں۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ ان رسائل کو بڑے قلمکاروں کا قلمی تعاون حاصل ہونے کے علاوہ ان کی مجلس ادارت، مجلس مشاورت اور زیر سرپرستی شائع ہونے کا فخر حاصل ہوتا ہے۔ آج کل انہی رسائل کے دوش بدوش اور ان ہی کی خصوصیات جیسا حامل رسالہ سہ ماہی’’صدف‘‘ بھی ادبی حلقے میں متنوع موضوعات اور اعلیٰ معیار کے بل بوتا پراپنادائرہ کار بڑھانے میں مصروفِ عمل نظر آتاہے۔ جس کونہایت ہی قلیل عرصے میں قارئین کے دلوں کو جیتنے کا اعزازی شرف بھی نصیب ہوا ہے۔

سہ ماہی’’صدف‘‘ کے فہرست مشمولات پرایک طائرانہ نگاہ ڈالتے ہی اس کی وسعت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اردو کی بیشتر مقبولِ عام اصنافِ ادب کو فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ شاعری، تحقیقی و تنقیدی مضامین، تبصراتی مضامین، خاکے اور دیگر اصناف پر طبع آزمائی کرنے والے تخلیق کاروں سے قارئین اس رسالے کی بین الاقوامیت کا احساس بخوبی لگا سکتے ہیں۔ مشاہیر کے ساتھ ساتھ نو آموز لکھنے والوں کو بھی اپنی فنی خوبیوں کو بروئے کار لانے کابھرپورموقع عنایت فرمایا گیا ہے۔ چونکہ ’’صدف‘‘ کے مذکورہ شمارے کی اشاعت سے قبل اردو کے آفاقی ناول نگار پیغام آفاقی اس دنیا کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خیر آباد کہہ گئے۔ جن کی خلا کو اردو میں کوئی اور پُر نہیں کر سکتا۔ مرحوم کو فوری طور پرخراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے زیر ِ نظر شمارے میں اداریے کو ہٹااس کی جگہ پیغام آفاقی پر غضنفر کا لکھا ہوا خاکہ’’یار طرح دار‘‘ پیش کیا گیا ہے۔ ’آہ !پیغام آفاقی ‘میں اس خاکے سے پیغام آفاقی کی شخصیت کے سب اوصاف نمایا ں ہو جاتے ہیں۔ کسی وصف کی تشنگی محسوس نہیں ہوتی جس کو سپرد قلم نہ کیا گیا ہو۔ پرفیسر غضنفر علی پیغام آفاقی کی آفاقی شخصیت کے بارے یو ں تحریر فرماتے ہیں :

                ’’’مکان‘ اور دوسری تحریروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ پیغام آفاقی صرف پیغام ہی نہیں، بلکہ اہلِ پیغام بھی ہے اور اس کا پیغام کسی مخصوص دائرے تک محدود رہنے والا پیغام نہیں ہے۔ اس کا رینج بہت بڑا ہے۔ وہ اپنے پیغام کو آفاق کے گوشے گوشے میں پہنچانا چاہتا ہے۔ اس کے پاس پیغام اس لئے ہے کہ وہ دنیا کو صرف دیکھتا ہی نہیں، اس کے متعلق سوچتا بھی ہے اور سوچتا بھی اس طرح ہے جس طرح برگد کے نیچے بیٹھ کر سوچا جا تا ہے۔ ‘‘

ادا ریہ میں اداریہ نویسی کے فرائض پورا کرتے ہوئے مدیر اعلیٰ نے پیغام آفاقی کو ’’اندر سے اگا ہوا آدمی‘‘ کے نام سے یادکیا ہے۔ غضنفر صاحب کے پُر مغز خا کے کے بعدگزارش میں ’’صدف: آیندہ سرگرمیاں ‘‘ کے عنوان سے مدیر انتظامی نے ادارہ صدف کے بہ اہتمام منعقد کیے گئے سابقہ پرگراموں اور آیندہ انجام دیے جانے والے پروگراموں کی تفاصیل کے علاوہ ’’صدف‘‘ کے بڑھتے حلقہ ٔ اثرپر خصوصی گفتگو کی ہے۔ ’’صدف‘‘ کے مشمولات کی ابتدا حسب معمول عصرِ حاضر کے مقبول شاعر طارق متین کے لکھے ہوئے ’’حمد‘‘ سے ہوتی ہے۔ جن کے مطلعے یوں ہے:

                ۱) عجب قدرت ہے اس کی، کیا فراہم کردیا اس نے

                ۲)اسی سے لطف و عنایت کا سلسلہ بھی تو ہے

حمد کے بعدواحد نظیر کے دو’’تعتِ شریف‘‘ بھی شامل کیے گئے ہیں۔ حمد ہو یا نعت دونوں میں شاعروں کی فنی و تخلیقی پرتیں خوبی سے اجاگر ہوتی ہے۔ حمد و نعت کا یہ سلسلہ قاری کو اپنی گرفت میں لے ہی لیتا ہے۔ ’’انٹرویو‘‘ کے باب میں خان احمد فاروق کا’’پروفیسر عرفان حبیب سے گفتگو‘‘ کے بعنوان ایک تفصیلی اور سیر حاصل انٹرویو’نشاۃالثانیہ‘ کے موضوع پرلیا گیا ہے۔ جس میں پروفیسر عرفان حبیب سے نشاۃ الثانیہ کے بارے میں رائے، ہندوستان میں نشاۃالثانیہ، مسلم نشاۃالثانیہ، مسلمانوں میں نشاۃالثانیہ کی ضرورت، مسلم نشاۃالثانیہ پر لکھے جانے والے مضامین، قرآن کے حوالے سے نشاۃ الثانیہ کا ذکر وغیرہ پر گفت و شنید ہوئی ہے۔ بابِ’’خود نوشت‘‘ میں مظفر حنفی کی’’شیشۂ ساعت میں سر دُھنتی ہے ریت‘‘کی خود نوشت پرپندرہ صفحات مختص کیے گئے۔ اس خود نوشت سے مظفر حنفی کی شخصیت اور ادبی جہات کا پورا منظر نامہ روشن ہوجاتا ہے۔ ’’خصوصی انتخاب‘‘ کے حصہ میں پروفیسر شہپر رسول کی بارہ غزلیں شامل کی گئی ہیں۔ چونکہ پروفیسر موصو ف عرصۂ دراز سے اردو شاعری کے بال و پر سنوارنے میں مصروف عمل ہے اور شاعری میں انہیں فنی اختصاص بھی حاصل ہے۔ پیش نظر شمارے کی غزلیں اس کی عمدہ مثال پیش کرتی ہیں۔ صنفِ’’خاکہ‘‘ کے باب میں اردو کے نو ناولوں کے خالق، ایک ڈرامہ تحریر کرنے والے ہیرو، ایک افسانوی مجموعہ تخلیق کرنے والاافسانہ نگار، تین تنقیدی کتابوں کا مالک، ایک درس و تدریس کی کتاب تصنیف کرنے والااستاد اور خاکوں کا ایک مجموعہ قلمبند کرنے والا خاکہ نگار غضنفر علی کالکھا خاکہ بعنوان’’نظر نہ آنے والے منظر کا منظر‘‘شامل اشاعت ہے۔ یہ جاننے کی کوشش میں کہ خاکے میں کس شخصیت کا خاکہ کھینچا گیا ہے۔ پڑھتے پڑھتے تحریرمیں اس قدر کھو گیا کہ بار بار پڑھنے کو جی چاہا۔ جی ہاں ! یہ خاکہ پروفیسر ناز قادری پر لکھا گیا ہے۔ موصوف کچھ عرصے سے علیل تھے۔ اللہ اناز قادری صاحب کو صحت یاب فرمائے۔ ان پر غضنفر صاحب کے اس خاکے کے پختہ کار الفاظ، فنی رچاؤ، جوشِ بیان اور جادوبیانی کا رنگ یقیناً قارئین کو دل موہ لینے میں کامیاب ہونگے۔ اس خاکے سے ناز قادری صاحب کی شخصیت کی ہر پرت کھل کر واضح ہو جاتی ہے۔ حصہ’’ناول کا ایک باب‘‘ میں ثروت خاں کے غیر مطبوعہ ناول’’کڑوے کریلے کھیت میں ‘‘ کے دو باب شامل کیے گئے ہیں۔ یہ ناول ضرور اردو ناول کے باب میں ایک اہم اور قابل قدر اضافہ کا باعث بنے گا۔ اس ناول پر اٹھارہ صفحات صرف کیے گئے ہیں۔ ’’مژگاں تو کھول‘‘ کے حصے میں صفدر امام قادری نے ’’اے دلِ آوارہ:شموئل احمد کی عمرِ گزشتہ کی کتاب‘‘ پر دس صفحات پر مشتمل ایک عمدہ اور فکر انگیز مضمون تحریر فرمایا ہے۔ باب’’تنقیدی مضامین‘‘ میں معاصر اردو غزل کی شعریات از قدوس جاوید، ذکیہ مشہدی کی افسانہ نگاری از اقبال واجد، اردو ڈرامے کی ایک مہاجرآواز: جاوید دانش از ابو زر ہاشمی کے بے حد معلوماتی اور معنی خیز مضامین پیش کیے گئے ہیں۔ قارئین کو ان مضامین سے ضرور حظ اُٹھاکر اپنی ادبی معلومات میں اضافہ کرنا چاہئے۔ ’’غزلیں ‘‘ میں مدحت الاختر، عابد علی عابد، رونق شہری، خالد عبادی، سمیرہ عزیز، عزیز نبیل، احمد عرفان، عادل حیات، شوکت علی ناز، اعجاز حیدر، افروز عالم نمایندہ شعراء کا کلام پیش کیا گیا ہے۔ ’’تحقیقی مضامین ‘‘ کے باب میں انقلاب ستاون:غالب کے ترکِ اشعارکا بنیادی محرک از جمیل حیات، منشی نول کشور از خلیل طوقارکے تحقیقی مضامین کو جگہ مل پائی ہے۔ غالب اور منشی نول کشور اردو کی دو اہم کڑیاں ہے۔ ایک نے شاعری کی دنیا سے اردو زبان کو آباد کیا تو وہیں دوسرے نے اردو زبان کو اپنے اشاعتی ادارے کے توسط سے فروغ دے کر اس کے لئے گھر تعمیر کیا۔ باب’’نظمیں ‘‘ میں شاہن کی دونظمیں، احمد سہیل کی دو نظمیں، جاوید دانش کی ایک نظم، اسلم مرزا کی چارنظمیں، وفا یزدا منش کی دو نظمیں اور عبید حیات کی ایک نظم شاملِ رسالہ ہے۔ سب نظمیں موضوعات کے مطابق معیاری اور وقیع ہیں۔ ’’رباعیات‘‘ میں اظفر کمالی کی اڑتالیس رباعیوں کو شائع کیا گیا ہے۔ ان رباعیوں میں عہد حاضر اور زمانہ کی منظر کشی کا خوب عکس دکھا ئی دیتا ہے سب کی سب رباعیاں انوکھی اور انفرادی موضوعات پر مبنی ہے۔ ’’افسانے‘‘ کے باب میں بہار کے ناموراور موجودہ افسانہ نگار ابرار مجیب کا ایک طویل افسانہ’’آمدِ فصل لالہ کاری‘‘ کے علاوہ بلراج بخشی کاا فسانہ’’ڈیتھ سرٹیفکیٹ‘‘ اشرف جہاں کا افسانہ’’کوشش‘‘ انور ظہیر رہبر کامختصر افسانہ’’۴۷ کلو میٹر‘‘شہناز یوسف کا افسانہ’’ایک اور کفن‘‘شومورتی کا ہندی افسانہ ’’اکال ڈنڈ‘‘ ازاردوترجمہ نگار ظفر کمالی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ ایسامحسوس ہوتا ہے کہ جیسے افسانہ’’کوشش‘‘ میں حیات اللہ انصاری کے ’’آخری کوشش‘‘ اور افسانہ’’ایک اور کفن‘‘ میں پریم چند کے افسانہ’’کفن‘‘ کاتتبع نظر آتا ہے۔ ان کہانیوں میں واقعیت، جامعیت، جاذبیت اور تمانیت عروج پر ہے اوران سے مکمل استیعاب حاصل کر کے انسانی زندگی کے کئی گوشوں  کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ حصہ’’قطعات‘‘ میں قمر سیوانی کے اٹھارہ قطعات شامل ہیں۔ باب’’تجزیہ ‘‘ کے مضامین میں محمد اسلم پرویز کا مضمون’’تاریخ کے حاشیے پر منٹو کا ایک غیر معروف افسانہ:سنہ 1919ء کی ایک رات‘‘ اور سلمان عبدالصمد کا مضمون’’ناگہانی :کی نفسیاتی کہانی‘‘مطالعۂ فکر کی دعوت دیتی ہے۔ ’’شخصیت ‘‘ کے باب میں راقم کا ’’پروفیسر ظہیر احمد صدیقی‘‘ پر مضمون بھی لائقِ مطالعہ ہے۔ ظہیر احمد صدیقی خواجہ احمد فاروقی کے زمانے میں دہلی یونی ورسٹی شعبہ اردو میں درس و تدریسی شعبے سے وابستہ تھے۔ اپنی قابلیت اور صلاحیت کی بنا پر ترقی کرتے کرتے اسی یونی ورسٹی  میں صدر شعبۂ اردو اورڈین فیکلٹی آف آرٹس کے فرائض انجام دیتے رہے۔ انہیں جامعہ اردو، علی گڑھ کا 1996ء میں پرو چانسلر کے عہدہ سے سرفراز کیا گیا۔ انجمن ترقی اردو ہند کے سکریٹری بھی رہے۔ چھتیس سے زائد کتابیں تصنیف فرمائی۔ مومن خان مومنؔ پر ان کی متعدد کتابیں ہیں۔ غرض ان کی ذاتی اور ادبی زندگی کا سرمایہ

بہت وسیع ہے۔ اس شمارے کے بابِ ’’تبصرہ‘‘ میں چھ کتابوں پر تبصرے بھی ہوئے ہیں۔ تبصرے نہ رہ کر یہ تبصراتی مضامین کی نوعیت اختیار کر چکے ہیں۔ تبصرہ نگاروں میں شاہ نواض فیاض، علی احمد فاطمی، عمیر منظر، ولی اللہ قادری، ابرار احمد اجراوی اور نکہت پر وین قابلِ ذکر ہیں۔

آخر ی حصہ’’تاثرات‘‘ میں جن مکتوب نگاروں نے رسالہ’’صدف‘‘ کے گزشتہ شمارے کے حوالے سے تاثرات قائم کئے ہیں ان میں عارف حسن خان، سید ظفر ہاشمی، سعید رحمانی، ناز آفرین، قمر جمالی اور فرحت حسین خوشدل شامل ہیں۔

رسالہ صدف’’بہ یاد:داکٹرضیاء الدین احمدشاہد جمال‘‘ کی یاد میں شائع ہوتا ہے۔ اس میں شائع ادبی تحریرات، تحقیقی و تنقیدی کاوشات اور تخلیقی نگارشات بہت ہی معیاری اور غیر معمولی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ اندرون اور بیرون ملک کے قلمکاروں کے قلمی تعاون سے ’’صدف‘‘ کا ہر شمارہ شہرت کا موجب ثابت ہورہا ہے۔ زیر نظر شمارہ ضخیم بھی ہے اور اعلیٰ کوالٹی سے مزین بھی۔ اس کے سرورق میں پیغام آفاقی کی تصویر ثبت کی گئی ہے۔ اس کا پیپر، اس کی طباعت، اس کی کمپوزنگ اور خوش نویسی اس رسالے کی کامیابی کا علم بلند کرتا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔