وزیر دفاع بتائیں کہ شہیدکو کیا کیا دیتے ہیں؟

حفیظ نعمانی

            این ڈی ٹی وی انڈیا میں ہفتے میں چار دن رات کو 9 بجے سے ایک گھنٹہ کا پروگرام پرائم ٹائم آتا ہے جسے رویش کمار ایڈٹ کرتے ہیں، کل پروگرام شروع ہوا تو مخدوم محی الدین کے کہے ہوئے ایک گیت ’’تو کہاں جارہا ہے سپاہی‘‘ بجنا شروع ہوا اور فلیش بیک میں فوجیوں کی نقل و حرکت، گاڑیوں کے اتار چڑھاؤ، اسلحہ کی نمائش اور اُڑی کے حادثہ میں قربان ہونے والے فوجیوں کی آخری رسوم کی تیاری کے مناظر دکھائے گئے۔ اس کے بعد رویش کمار خود سامنے آئے اور انھوں نے نمدیدہ آنکھوں سے اور غم میں ڈوبی ہوئی آوز سے بتانا شروع کیا کہ یہ کون گاؤں ہے اور یہ کس کا بہادر بیٹا، کس کا شوہر اور کن بچوں کا باپ ہے اور کس بوڑھی ماں کے کلیجہ کا ٹکڑا ہے؟ جن کے اوپر غم کے پہاڑ گر پڑے ہیں اور جو پچھاڑیں کھا رہی ہیں، اپنی چوڑیاں توڑ رہی ہیں اور ایک ہی بات کہہ رہی ہیں کہ مودی سرکاری میں بھی وہی ہورہا ہے تو کیا فائدہ ہوا، مودی کے آنے سے؟ اور کیا بات ہے کہ پاکستان تو سب کردیتا ہے اور ہندوستان کچھ نہیں کرپاتا۔ ایک بہادر باپ کو اس کا دکھ ہے کہ ان کا بیٹا مقابلہ کرتے ہوئے نہیں مرا بلکہ سورہا تھا اور دشمن نے اسے سوتے میں مار دیا۔

            رویش کمار نہ دکھانے میں کنجوسی کررہے تھے اور نہ اپنے شہیدوں کو جو سلامی دی جارہی ہے اور فوج کے جوان ضلع کے تمام افسر اور گاؤں کے ہجوم کی موجودگی بھی دکھا رہے تھے اور بار بار اس کا بھی ذکر آرہا تھا کہ ۲۰-۲۰ لاکھ کے چیک بھی ان کے وارثوں کو دئے جارہے ہیں اور کہتے جارہے ہیں کہ ہندوستان کے عوام اپنے بہادر جوانوں کا پورا پورا احترام کرتے ہیں اور ہمیشہ فخر کے ساتھ ان کا نام لیتے ہیں۔

            اور اسی پروگرام کے دوسرے آدھے گھنٹے میں انھوں نے حکومت کا وہ چہرہ بھی دکھانے میں کوئی رعایت نہیں کی کہ حکومت وہ کسی بھی پارٹی کی رہی ہو، اس نے ان بہادروں سے صرف جھوٹے وعدے کیے۔ انھوں نے اتراکھنڈ کے ایک بہادر کے بارے میں وعدہ کیا تھا کہ انھیں پکا مکان دیں گے۔ ان کی جو زمین بندھے کے لیے لی گئی تھی اس سے دو گنی زمین دیں گے۔ پھر ان کا گھر دکھایا جہاں جھونپڑی پڑی ہے اور کچے مکان ہیں مٹی کا چولہا ہے اور لکڑی پر کھانا پک رہا ہے اور اس جوان کے بھائی نے جب جواب دئے تو اس کا گلا بھر گیا کہ وہ ا ور ۸۰ برس کا باپ مزدوری کرکے پیٹ بھر رہے ہیں۔

            ہریانہ کے ایک گاؤں کے جوان نے 1965کی جنگ میں جان قربان کی، حکومت نے اس کے گاؤں کو ریلوے اسٹیشن بنانے کا اعلان کیا اور بنادیا لیکن زمین پر صرف بورڈ لگا دیا اور برسوں ٹرینیں گذرتی اور دھول اڑاتی رہیں۔ آخر کو گاؤں والوں نے آپس میں چندہ کرکے پچاس میٹر لمبا پلیٹ فارم بنادیا اور چہار دیواری بھی۔ یہ ۵۰ سال کے بعد کیا گیا۔ اب حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ اس اسٹیشن پر تین منٹ کے لیے ٹرین روکی بھی جائے۔ رویش کمار نے ایسے درجنوں واقعات سنائے اور دکھائے اور کہا کہ کہیں بھی جوان مارے جائیں بس انہیں شہید کہہ دیا جاتا ہے اور وعدہ کوئی پورا نہیں کیا جاتا۔

            یاد نہیں کب سے ہندوستان میں فوجیوں میں جو گولی سے مرتے ہیں انہیں شہید کہہ دیا جاتا ہے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ اگر پاکستان کے دہشت گردوں کی ٹکڑی کسی جگہ حملہ کردے اور اس میں ۵ آدمیوں کی موت ہوجائے جن میں تین شہری ہوں اور دو فوجی تو کہا جائے گا کہ دو جوان شہید ہوگئے اور تین مقامی آدمی بھی مر گئے۔ ہم نہیں جانتے وہ کون ہے جس سے ہندو کے لیے بھی شہید کا لفظ استعمال کرنا شروع کیا ہے؟ جبکہ شہید عربی کا لفظ ہے       نہ انگریزی کا ہے نہ سنسکرت کا، اردو نے عربی کے جیسے بہت سے لفظ لے لئے ہیں ایسے ہی شہادت اور شہید کو لے لیا ہے۔ شہادت کی موت تو صرف مسلمان کے لیے ہے اس لیے کہ اللہ اور اس کے بندے کا معاملہ ہے بزرگ عالم تو جنگ آزادی میں مرنے والوں کو بھی شہید نہیں مانتے، جیسے اشفاق اللہ خاں کو کوئی عالم دین شہید نہیں کہے گا یا بریگیڈیر عثمان اور عبدالحمید جو پاکستان کی گولیوں سے مرے، مسلمان تھے مگر وہ شہید نہیں تھے۔

            ایک بار حضرت عمرؓ نے قوم سے معلوم کیا کہ تم لوگ شہید کسے کہتے ہو؟ لوگوں نے عرض کیا کہ اے امیر المومنین وہی تو ہیں جو غزوات میں قتل کئے گئے، یہ سن کر امیر المومنین نے فرمایا کہ پھر تو تمہارے شہدا کی تعداد کثیر ہوجائے گی، غزوہ میں مرنے والوں میں شہید وہ ہے جو میدان جہاد میں صرف اللہ کے لیے رُکا ہوا ہو، بیوی سے بھاگ کر غزوہ میں حصہ لینے نہ آیا ہو۔

            اسلام کی فتوحات کے وقت جہاد میں دکھلانے کے لیے بھی شریک ہوئے شہرت کے لیے بھی شریک ہوئے اور حصول دنیا کے لیے بھی شریک ہوئے اور بعض ایسے تھے جو جنگ پر مجبور تھے، لیکن اصل وہ ہیں جو صرف ثواب کی نیت سے جہاد کرتے ہیں اور صرف وہی شہید ہیں، اسلام نے شہید کا لفظ دیا اور بتادیا کہ شہید کون ہے؟ اور ہمارے ملک میں شہادت ایسے بٹ رہی ہے جیسے سچن کو بھارت رتن بنادیا اور ریکھا کو راجیہ سبھا کا ممبر بنادیا اور کیسا مذاق ہے کہ عشرت جہاں کو ونجارہ گولی مارے تو شہید وہ نہیں دہشت گرد ہے اور لاہور جیل میں کوئی پاکستانی قیدی ہندوستانی قیدی کو مار دے تو اسے شہید کا درجہ دیا جائے اور بٹلہ ہاؤس میں دو مسلمان لڑکوں کے سروں میں گولی مارے اور اپنے سپاہی سے کہے کہ میرے فلاں جگہ گولی مار دو تاکہ انکاؤنٹر کا ڈرامہ پورا ہوجائے اور اس کا ہاتھ بہک جائے اور آخر کار اس کی جان بھی چلی جائے تو ان کے باپ مطالبہ کرتے ہیں کہ میرے بیٹے کو شہید کا درجہ دیا جائے۔ اللہ جانے وہ کیا ہے جسے حکومت شہید کہتی ہے۔ کاش کوئی بتا دے۔

            اور اسلام کی شہادت کیا ہے اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے یہ بات بہت پسند ہے کہ اللہ کے راستے میں شہید کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں پھر شہید کیا جاؤں اور پھر زندہ کیا جاؤں ا ور پھر شہید کیا جاؤں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو میرے راستے میں نکلا اور جس نے میرے لیے جہاد کیا اس کا ضامن میں ہوں کہ اسے بہشت میں داخل کروں گا۔ یہی وجہ ہے کہ جہاد میں جب کسی کی شہادت کی خبر آتی تھی تو اس کے گھر میں نہ کہرام مچتا تھا اور نہ گھر کے لوگ پچھاڑیں کھاتے تھے بلکہ مبارک باد دیتے تھے۔ غم تو اس گھر میں منایا جاتا تھا جس کے جوان جہاد میں شریک ہوتے تھے ا ور فتح کے پرچم لہراتے ہوئے آتے تھے اور غازی کہلاتے تھے۔ ثواب کے اور جنت کے حقدار بھی ہوتے تھے مگر وہ درجہ نصیب نہیں ہونے کا غم تھا جو شہید کا ہوگا۔

            رویش کمار نے ان گھروں کا جیسا ماحول دکھایا ہے جہاں گھر کے جوان کی اڑی میں موت کی خبر آئی تو سچ تو یہ ہے کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں بھی نم ہوگئیں۔ خاص طور پر بیوائیں، بوڑھی مائیں اور بوڑھے باپ یا معصوم بچے اس کی وجہ ایک یہ بھی ہے کہ وہ فوج میں بھرتی ہوئے تھے تو مرنے کے لیے نہیں ہوئے تھے انھوں نے تو سوچا تھا ۲۵-۳۰ برس لیفٹ رائٹ کریں گے اور زندگی بھر پنشن کمائیں گے اور انہیں یہ بھی یقین نہیں کہ اب حکومت ان کے ساتھ کچھ کرے گی یا کہانی ختم۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔