شاہین

محمد صالح انصاری

شاہین کا آج رزلٹ آنے والا تھا گھر کے سارے لوگ اس انتظار میں تھے کی میری گڑیا اس بار بازی مار جائیگی اور میدان فتح کر کے نام روشن کریگی، کیونکہ اس بار اُس نے پورے ایک سال گھر سے باہر اور سب سے دور رہکر پڑھائی کی اور خوب محنت کی ہے۔

اسی اُمید میں سارے لوگ بیٹھے ہوئے تھے کہ آج اُسکے محنت کا صلہ ملےگا ۔ایک ایک پل بڑی مشکل سے گزر رہا تھا اور خود شاہین کے لیے وہ لمحہ بہت ہی مشکل تھا۔ بہت سارے سوال اور الجھنے ایسی کی سر سے پسینہ آ رہا تھا حالت یہ کی رزلٹ کے ڈر سے کئی دنوں سے کھانا بھی نہیں کھائی تھی۔ جیسے جیسے وقت گزرتا اُسکی حالت خراب ہوتی جا رہی تھی۔

آخر کار وہ وقت آ گیا جب رزلٹ نکلنا شروع ہوا شاہین نے اپنا چھوٹا سا فون اٹھایا اور ڈرتے ہوئے موبائل کے بٹن کو دبانے لگی۔ اُسکے ہاتھ کانپ رہے تھے اور اُنگلیاں اِدھر اُدھر پڑ رہی تھی۔ تھوڑی دیر موبائل میں اِدھر اُدھر دو چار بٹن دبانے کے بعد سارے بچّو کی لسٹ سامنے تھی اور شاہین اب زیادہ اضطراب کی کیفیت میں تھی۔ اُسکی آنکھیں بے چین تو تھی ہی، ساتھ ہی ڈر تھا کی ابھی لوگ کیا کیا سوال کرینگے کتنے سارے الزام اور باتیں میرے سر کرینگے؟

خیر دھیرے دھیرے اپنا نام تلاش کرتے کرتے بلکل آخر میں پہنچ گئی اور اسکا نام نہیں ملا۔

اسنے دھیرے سے اپنا فون کنارے رکھا اور پتا نہیں کیا خیال کرنے لگی۔ اسے تو اپنی غلطیوں کا اندازہ تھا ہی، اسے پتا تھا کہ وہ کس وجہ سے پاس نہیں ہو سکی اور چند نمبر سے پیچھے کیوں رہ گئی۔

اتنے میں بہت لاڈ و پیار کرنے والی ہمیشہ آنکھوں کا تارا بنا کر رکھنے والی ماں اُسکے سامنے ہوتی ہے۔ حالت دیکھتے ہی ماں کو اندازہ ہو گیا کی ماجرا کیا ہے ماں تو پہلے سے ہی بہت زیادہ اضطراب کی حالت میں تھی بیٹی کی یہ حالت دیکھ کر اُسکی بےچینی اور بڑھ گئی۔ کون ماں نہیں چاہتی کی اُسکی بیٹی آگے جائے، پڑھے محنت کرے اور اپنے پیروں پر کھڑی ہو دنیا میں اپنے ماں باپ اور خاندان والوں کا نام روشن کرے اُنکا سر فخر سے اونچا کرے۔

 ماں نے دھیرے سے پوچھا کیا ہوا میری پیاری گڑیا؟

تم نے تو بہت محنت کی تھی گھر سے دور تھی خوب پڑھائی کی؟ لیکن پھر بھی کیا ہوا؟

اتنا سننا تھا کی شاہین برآمدے سے نکل کر اپنے کمرے میں آ جاتی ہے اُسکے پیچھے پیچھے ماں بھی جاتی ہے۔

کمرے میں شاہین اور اسکی ماں اکیلی ہیں وہاں اور کوئی نہیں تھا۔ شاہین تھی اور اس سے سب سے زیادہ پیار کرنے والی اُسکی ماں۔ شاہین کو بھی آج موقع ملا کہ ماں کے سامنے آج سارے درد بول دیے جائیں، جو کچھ اُسکے ساتھ ہوا ہے اسکا راج فاس کیا جائے، جو غلطیاں اُسکے ساتھ ہوئی ہیں اُس کو بتا دیا جائے، لیکن سوال یہ تھا کی شروع کیسے کیا جائے؟

تبھی ماں ایک بر پھر پوچھتی ہے بتاؤ بیٹی کیا ہوا مایوس کیوں ہو؟

شاہین کہتی کی ماں یہ آپکی محبتوں کا نتیجہ ہے جو اپنے بےجا، ہے وقت اور بےحد زیادہ لٹائے تھے۔

      بچپن میں جب میں بہت چھوٹی تھی تو میری ہر مشکل کو آپنے آسان بنا دیا۔ کبھی گھر سے باہر نکلتے وقت کسی کے ساتھ اس لیے بھیجا کی کہیں کوئی دقت نہ پیش آئے۔ اپنے گھر میں مجھے اتنا پیار دیا کہ ‘مشکل کیا ہوتی ہے کبھی پتا ہی نہیں چلا’۔ اسکول جانے لگی تو اسکول کے سارے کام آپ نے کیے۔ ہر بار تسلّی ہی دیا اور میری پریشانیوں کو آپنے اپنا بنا لیا۔ کبھی کھیلنے باہر اس لیے نہیں جائے دیا کی کہیں کوئی مجھے مار نہ دے یا کوئی پریشان نہ کرے اور اگر کبھی چھپ چھپا کر چلی جاتی اور کوئی مذاق میں بھی پریشان کرتا دکھ جاتا تو اُسکی خیر نہیں ہوتی تھی۔ جسکی وجہ سے شروع سے ہی میں مشکلوں سامنا کرنے سے پیچھے بھاگتی رہی۔ آج مجھے اندازہ ہوا کہ کھیلنے کودنے سے ذہن تیز ہوتا اور ساتھ ہی صلاحیت میں ارتقاء بھی تیزی سے ہوتا ہے۔

لیکن  آج جب میں نے طوفانوں کا سامنا کرنے کی ہمت کری ہے تو اب آپ مت روکنا؟

 اب یہ نہ کہ دینا کی بیٹی رہنے دو اب بس بہت ہو گیا؟

 تمہارے دیے میں روشنی نہیں ہے اور تم کارواں میں سب سے آخر میں ہو؟

 تمہاری محنت بیکار ہے، رہنے دو اب گھر پر ہی رہو کوئی چھوٹا موٹا کام سیکھ لو، باہر رہنے کی کوئی ضرورت نہیں؟

 کہاں جاؤ گی اکیلے کھانا بنانے اور کپڑا دھلنے؟

نہیں ماں اب میں یہ نہیں سننا چاہتی۔ اب میں پڑھونگی آگے جاکر خاندان اور گاو کا نام روشن کرونگی۔

ماں تم کہتی ہو میرے دیے میں روشنی نہیں، لیکن کبھی آپنے سوچا کی میرے دیے میں روشنی کیوں نہیں؟ میرے حصے کی روشنی کہاں گئی؟ کیوں اسکی لو اتنی دھیمی اور ہلکی ہے۔ سچائی یہ ہے کی میرے دیے میں بہت روشنی تھی لیکن آپکے محبت کی آنشوں نے میرے دیے کی روشنی کو بجھا دیا اور اسے ٹمٹمانے کے لائق بھی نہیں چھوڑا۔ میرے بچپن کے جو خواب تھے وہ مٹا دیے۔میری تمناؤں کو قتل کر دیے۔

لیکن اب میں پیچھے نہیں جانے والی، اب میں ہر مشکل کا سامنا کرنے والی، طوفانوں سے ٹکرانے والی، ہواؤں سے بات کرنے والی، اپنے دیے کی روشنی خود سے جلانے اور اسے پوری دنیا میں چمکانے والی ہوں۔

دیکھنا ماں آپکی گڑیا بہت جلد ایک ایسی گڑیا بنیگی جو حق انصاف سچائی برابری اور محبت کا سرچشمہ ہوگی۔ میں ایک ایسی مثال بنونگی جسکی پوری دنیا یاد رکھے گی اور ہر ماں میرے نام کی مثال دیگی۔

ہاں ماں میں شاہین بننا چاہتی ہوں …………..

وہی شاہین جسکی دنیا نہ مشرق ہے نہ مغرب بلکہ پورا آسمان اسکا جہاں ہوگا۔ میں ایسی شاہین بنوں گی جو کبھی نہیں تھکتی، جو مشکلوں سے نہیں ڈرتی بلکہ اسکا سامنا کرتی ہے…………..

ہاں ماں میں شاہین بنوں ہی۔

تبصرے بند ہیں۔