‘محدثات انسائیکلوپیڈیا’ پر ایک مجلسِ مذاکرہ

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

       چند ماہ قبل برادرِ محترم ڈاکٹر محمد اکرم ندوی کی محدّثات انسائیکلوپیڈیا ‘الوفاء بأسماء النساء’ (43جلدیں) کی اشاعت کے بعد ایک آن لائن تہنیتی تقریب میں میں نے وعدہ کیا تھا کہ ان شاء اللہ جلد اس پر ایک مجلسِ مذاکرہ علی گڑھ میں منعقد کرواؤں گا۔ پھر جب انھوں نے  ایک صاحبِ خیر کے تعاون سے از راہِ نوازش اس کا ایک سیٹ ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ کی لائبریری کو بھجوادیا تو خواہش ہوئی کہ یہ مجلس جلد منعقد ہو۔ سکریٹری ادارہ برادر مکرم مولانا اشہد جمال ندوی نے ادارہ کی مجلسِ عاملہ کا اجلاس علی گڑھ میں کرنے کا فیصلہ کیا تو طے پایا کہ اسی مناسبت سے یہ مجلس مذاکرہ  بھی منعقد کرلی جائے۔ آج ڈاکٹر محی الدین غازی کے ساتھ اسی مقصد سے علی گڑھ کا سفر ہوا۔

          اس مجلسِ مذاکرہ  میں حصہ لینے کے لیے ادارۂ تحقیق  کے اراکین اور زیرِ تربیت اسکالرس کے درمیان انسائیکلوپیڈیا کی جلدیں تقسیم کردی گئی تھیں۔ ڈاکٹر محی الدین غازی کو مہمانِ خصوصی بنایا گیا اور صدارت پروفیسر محمد سعود عالم قاسمی ڈین فیکلٹی آف تھیالوجی علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی نے کی۔

               اشہد صاحب نے یہ تذکرہ کرتے ہوئے کہ میں ڈاکٹر اکرم کا کلاس فیلو رہا ہوں، خواہش کی کہ میں ان کا، ان کی علمی خدمات کا اور خاص طور پر اس انسائیکلوپیڈیا کا تعارف کرادوں۔ میں نے بتایا کہ اکرم ندوی (ولادت 1964) کا تعلق ریاست اتر پردیش کے ضلع جون پور سے ہے۔ انھوں نے دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے عالمیت (1981) اور فضیلت (1983) کی ہے، پھر چند برس ندوہ میں تدریسی خدمت انجام دینے کے بعد وہ UK چلے گئے تھے، جہاں طویل عرصہ تحقیقی ادارہ آکسفورڈ سینٹر آف اسلامک اسٹڈیز سے وابستہ رہے۔ گزشتہ چند برسوں سے وہ السلام انسٹی ٹیوٹ اور کیمبرج کالج کے ذریعے یورپ میں دینی تعلیم عام کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ میں نے ان کے علمی کاموں کا تعارف کراتے ہوئے تفسیر، حدیث، فقہ، سوانح، علم الاسناد، سفر نامہ اور دیگر موضوعات پر ان کی کتابوں کا تذکرہ کیا۔  میں نے بتایا کہ اکرم صاحب نے اپنے کسی لیکچر میں تذکرہ کیا ہے : ” UK پہنچنے کے کچھ دنوں کے بعد ایک مرتبہ ایک عیسائی مستشرق کا ایک مضمون ان کی نظر سے گزرا، جس میں اس نے لکھا تھا کہ اسلام نے عورتوں پر علم کے دروازے بند رکھے ہیں ، چنانچہ اسلام کی پوری تاریخ میں کسی بھی فن میں ان کا کوئی کارنامہ نہیں ہے۔ اس پر میرے دل میں آیا کہ علم حدیث میں خواتین کی خدمات کا تذکرہ جمع کروں۔ میں نے سوچا تھا کہ پانچ دس محدثات تو ضرور مل جائیں گی، لیکن جب کام شروع کیا تو مواد ملتا گیا، ملتا گیا، یہاں تک کہ 43 جلدوں میں یہ کتاب تیار ہوگئی، جس میں دس ہزار سے زائد محدّثات کا تذکرۂ جمیل جمع ہوگیا ہے۔ ” میں نے بتایا کہ اس انسائیکلوپیڈیا کا خلاصہ بہت پہلے انگریزی میں Al-Muhaddithat۔ Women Scholars in Islam کے نام سے UK سے شائع ہوگیا تھا۔ ( یہ کتاب انٹرنیٹ پر موجود ہے، جہاں سے ڈاؤن لوڈ کی جاسکتی ہے۔ ) اللہ کا شکر ہے کہ اب اصل کتاب بھی منظرِ عام پر آگئی ہے۔ میں نے کہا کہ اکرم صاحب نے خواتین کی علمی خدمات کو نمایاں کرنے کا ٹرینڈ بنادیا ہے، چنانچہ ہند و پاک میں تفسیر و علومِ قرآن، فقہ اور دوسرے اسلامی علوم میں خواتین کی خدمات پر ایم فِل اور پی ایچ ڈی کے مقالات لکھے جا رہے ہیں۔

     ادارہ کے اراکین : مولانا محمد جرجیس کریمی، مولانا کمال اختر قاسمی، مولانا محمد انس فلاحی مدنی اور زیرِ تربیت اسکالرز : محمد صادر ندوی، انور سلیم ندوی، محمد طارق بدایونی، محمد اشہد فلاحی، شارق نسیم اور عبید اللہ فلاحی نے انسائیکلوپیڈیا کی مختلف جلدوں کا تعارف کرایا۔ اس میں ازواج النبی، بنات النبی، صحابیات، تابعیات، تبع تابعیات، پھر دوسری صدی سے پندرھویں صدی ہجری تک صدی بہ صدی ان خواتین کا تذکرہ کیا گیا ہے جنھوں نے احادیث کی روایت کی ہے، حدیث کے درس و تدریس کی خدمت انجام دی ہے، یا علمِ حدیث کے فروغ میں کسی بھی پہلو سے کام کیا ہے۔ ان حضرات نے مصنف کا منہجِ تالیف بیان کیا، اہم خواتین کا تذکرہ کیا، مصنف کی غیر معمولی محنت کی ستائش کی، تاریخِ علوم میں کتاب کی اہمیت بیان کی، ساتھ ہی کتاب کا تنقیدی جائزہ بھی لیا اور اپنے ملاحظات بیان کیے۔ مثلاً انھوں نے کہا کہ کتاب کے نام کے ساتھ لکھا گیا ہے : ” موسوعۃ تراجم أعلام النساء فی الحدیث النبوی الشریف۔ ” أعلام النساء کا مطلب ہوتا ہے غیر معمولی شہرت رکھنے والی خواتین، جب کہ کتاب میں مذکور بہت سی خواتین کے تذکرہ سے علم حدیث میں ان کی شہرت کا اندازہ نہیں ہوتا۔ کتاب میں خواتین کے ساتھ ان کے باپوں، شوہروں، شیوخ اور شاگردوں کا تذکرہ تفصیل سے کیا گیا ہے۔ اسی طرح ان کی بعض مرویات کا ذکر کرنے کے بعد ان مرویات پر تفصیل سے بحث کی گئی ہے۔ اگر ان چیزوں میں اختصار ملحوظ رکھا جاتا تو کتاب کی ضخامت کم کی جاسکتی تھی۔

          ڈاکٹر محی الدین غازی نے فرمایا کہ کتاب میں دس ہزار سے زائد محدّثات کا تذکرہ جمع کیا گیا ہے، یہ بات بہت اہم ہے۔ تعداد کی بھی اپنی جگہ اہمیت ہوتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس کتاب کو صرف اسی پہلو سے نہیں لینا چاہیے کہ اس سے دشمنانِ اسلام کے ایک الزام کا جواب ملتا ہے، بلکہ یہ دوستانِ اسلام کو بھی احتساب کی دعوت دیتی ہے کہ اگر ماضی میں خواتین کا علم میں اعلیٰ مقام تھا تو اب وہ یہ اعلیٰ مقام کیوں نہیں حاصل کرسکتیں؟ انھوں نے اس جانب توجہ دلائی کہ دوسری صدی کے امام زہری (124ھ) نے فرمایا تھا کہ علم حدیث مَردوں کا علم ہے، لیکن آٹھویں صدی کے امام ذہبی (748ھ) کا بیان ہے کہ علم حدیث میں ایک خاتون بھی ایسی نہیں ملتی جس پر ‘وضع’ کا الزام لگا ہو، یا ضعف کی بنا پر اس کی کوئی روایت ترک کی گئی ہو، جب کہ ضعفاء اور وضّاع مردوں کی ایک طویل فہرست ہے۔

     پروفیسر سعود عالم قاسمی نے اپنے صدارتی خطبہ میں اہم پہلوؤں کی طرف توجہ دلائی۔ انھوں نے بتایا کہ ایک دہائی قبل سفرِ برطانیہ کے موقع پر ڈاکٹر اکرم سے ان کی ملاقات ہوئی تھی۔ انھوں نے ایک مستشرق کا تذکرہ کیا، جس نے اپنی کتاب میں مختلف علوم و فنون میں نمایاں خدمات انجام دینے والی خواتین کا تذکرہ کیا۔ اس نے گنتی کی چند مسلم خواتین کا ذکر کیا اور اس کا سبب یہ بتایا کہ اسلام نے خواتین کو تحصیلِ علم کے مواقع سے محروم کیا ہے۔ اس پس منظر میں اکرم صاحب کی اس انسائیکلوپیڈیا کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے۔ انھوں نے تفصیل سے بتایا کہ عہدِ نبوی اور ابتدائی صدیوں میں خواتین کا دینی و علمی شعور کافی بلند تھا۔ یہاں تک کہ مرد بھی ان سے علمی استفادہ کرتے تھے۔ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ بعد کی صدیوں میں وہ کیوں حاشیے پر چلی گئیں؟ پروفیسر موصوف نے اس انسائیکلوپیڈیا کی تحسین و توصیف کرتے ہوئے فرمایا کہ اکرم صاحب نے ایک گراں قدر خدمت انجام دی ہے۔ انھوں نے پوری امّت کی طرف سے ایک فرض، بلکہ قرض ادا کیا ہے، جس پر وہ شکریے کے مستحق ہیں۔

       پروگرام میں ادارہ کے وابستگان کے علاوہ دیگر شائقینِ علم بھی شریک ہوئے۔ سکریٹری ادارہ اشہد صاحب نے اعلان کیا کہ اس مجلسِ مذاکرہ میں پیش کی جانے والی تحریروں کو شائع کیا جائے گا۔ مولانا جرجیس صاحب نے وعدہ کیا کہ وہ تمام جلدوں کا مطالعہ کرکے ایک مبسوط تعارفی مقالہ لکھیں گے۔ میں نے اسکالرز سے کہا کہ اگر وہ کتاب میں مذکور اہم محدّثات کا تذکرہ مقالات کی شکل میں لکھیں تو انہیں مجلات میں شائع کروانے کی کوشش کی جائے گی۔

تبصرے بند ہیں۔