آرٹیکل 341: نا انصافی کے 67 سال

ذاکر حسین

ہر سال کی طرح امسال بھی 10 اگست کوملک کے مختلف خطے میں مسلم سیاسی جماعتوں اور ملّی تنظیموں کی جانب سے آرٹیکل 341 پر عائد مذہبی پابندی کے خلاف احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔ لیکن سوال یہ ہیکہ یہ آرٹیکل 341 کیا ہے؟ اور ہر سال ملک کی مسلم سیاسی جماعتوں اور ملّی تنظٰیموں کی جانب سے اس دن ’یوم سیاہ ‘ یعنی کالا دن کیوں منایا جاتا ہے۔ ان سب باتوں کو جاننے کیلئے آیئے ہم تاریخ کے اوراق کا جائزہ لیتے ہیں۔ ملک کی آزادی سے قبل کزب و افتراء پر مبنی برٹش حکومت  نے دیش کی غریب اور سماجی لحاظ سے پسماندہ طبقات کو ریزرویشن کے حق سے نوازا تھا۔ہو سکتا ہیکہ انگریزحکام کا یہ قدم بھی ملک میں بغاوت کے شعلوں کو بھڑکانے کے لیے اٹھا یا گیا ہو بہر حال ہمیں اس بحث میں نہیں پڑنا ہیکہ برٹش حکو مت ریزر ویشن کے نام پر کس قسم کا کھیل شروع کرنا چاہتی تھی۔

ہندستان میں ریزرویشن کی تاریخ کی داستان یوں شروع ہوتی ہیکہ برٹش حکومت ملک میں پھیلی تفریق اور اونچ نیچ کی کھائی کو کم کرنے کے لیئے آئینی اصلاح کے نام پر  1927 میں سائمن کمیشن  بھارت بھیجا۔لیکن سائمن کمیشن کوسیاہ جھنڈے اور سائمن واپس جائو کے نعروں کے ساتھ زبردست مخالفت کا سامنا کرنا  پڑا ۔ لیکن بعد میں 1930 اور 1932  کی گول میز کانفرنسوں میں انڈین نٰیشنل کانگریس کی زبردست مخالفت ور احتجاج کے باوجود کمیشن کی سفارشات کو منظور کر لیا گیا۔اور ملک کی پسماندہ طبقات کو ریزرویشن کے حق سے نواز اگیا اور جو 1943 میں نافذالعمل ہوا۔

اس میں ہندو درج فہرست ذاتوں کے مساوی پیشہ اختیار کرنے والی مسلما نوں کی تقریبا75  فیصد آبادی تھی۔ آئین ہند کے نفاذ تک ملک کے پسماندہ طبقات کو ریزرویشن کی سہولت ملتی رہی۔ 15 اگست 1947 کو ملک میں آزادی کا سورج طلوع ہونے کے بعد برٹش حکومت کے نقش قدم پر چلتے ہوئے وطن عزیز کے آئین سازوں نے بھی ملک کے پسماندہ طبقات، دلتوں اور اچھوتوں کو درج فہرست ذاتوں میں شامل کرکے انکی آبادی کے تناسب میں سرکاری اداروں، قانون ساز اداروں، اور تعلیم گاہوں وغیرہ میں انکی نمائندگی یقینی بنانے کی غرض سے ریزرویشن کو حسب سابق قانون کا درجہ دیا۔ درج فہرست ذاتوں میں نٹ، جولاہا، مداری، دھوبی ،کھٹِک، جھوجھا، بھانٹ، جوگی منگتا (فقیر)ڈفالی، گورکن، کُجڑا، حلال خور، مہتر ،بھنگی، بیہنا، گوریا منہار، وغیرہ شامل تھیں۔

واضح ہو کہ درج فہرست ذاتوں میں مسلما نوں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل تھی، ان تما م ذات کے لوگ خوہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں سب کو شیڈول کاسٹس کے زمرے میں رکھا گیا تھا۔اور سبھی پسماندہ طبقات کو ریزرویشن کے حق سے نوازہ گیا تھا۔لیکن افسوس آئین ہند کے نفاذ کے بعد ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے 10 اگست1950کو آرٹیکل 341 کی ’’دفعہ 1 ‘‘کا سہارا لیکر ملک کے پہلے صدر جمہوریہ راجندر پرساد کے زریعے ایک صدارتی حکم نامہ جاری کروا یا کہ شیڈول کاسٹس سے متعلق لوگوں میں سے محض انہیں کو ریزرویشن اور دوسری مراعات حاصل ہونگی جو ہندو مذہب (سناتن دھرم) کو ماننے والا ہوگا اس کے علاوہ غیر ہندو دلتوں کو ریزرویشن سے محروم کر دیا گیا۔ حکومت ِہند کے اس غیر آئینی قدم کے خلاف سکھ سماج کے لوگوں میں بیداری نظر آئی اور سکھ سماج کے دلتوں نے زبردست تحریک اور احتجاج کے ذریعے حکومت ہند کو دو بارہ ریزرویشن دینے کے لیے مجبور کر دیا۔ اور مسٹر نہرو کی قیادت والی سرکار نے1956 میں آئین (شیڈول کاسٹس)آرڈر1950 کے پیرا ۔3میں ترمیم کرکے ریزرویشن کی سہولت پانے کے لیے ہندو اور سکھ ہونا لازمی کر دیا۔لیکن افسوس خود کو سیکولرزم کی پجاری کہنے والی ملک کی سب سے قدیم سیاسی پارٹی نے آئین ہند کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دلت مسلمانوں اور عیسائیوں کو ریزرویشن سے محروم کر دیا۔

نہ صرف ملک کے اقلیتوں کو ریزر ویشن سے محروم کیا گیا بلکہ آئین کے آرٹیکل 14 کی بھی خلاف ورزی کی گئی ۔کیونکہ آارٹیکل 14 کی رو سے مذہب و ملتـ ،ذات پات ،علاقہ ،رنگ و نسل سے قطع نظر ملک کے تمام شہریوں کو برابری کے حقوق دیے گئے ہیں ۔اور ظلم و زیادتی کی علامت سمجھی جانے والی برٹش حکومت کے زریعے ملک کے اقلیتوں کو ریزرویشن  کے نام پر جو مراعات حاصل تھیں اسے آزاد ہندوستان کی حکومت نے چھین لیا ۔اتنا سب کچھ کرنے کے بعد بھی ملک کی آزادی میں نما یاں رول ادا کرنے والی سیاسی پارٹی کے سربراہ ا ور ملک کے پہلے وزیر اعظم کو تسلی نہیں ہو ئی اور نا انصافی کی راہ پر ایک اور قدم بڈھتے ہوئے 1958میں آئین میں ترمیم کراتے ہوئے یہ اضافہ کیا کہ جن ہندو دلتوں کے آباء و اجداد کبھی اسلام میں داخل ہو گئے تھے اگر وہ دوبارہ ہندو مذہب(سناتن دھرم) میں واپس آ جاتے ہیں تو انہیں ریزرویشن اور دیگر مراعات حاصل ہوں گی۔ واضح ہو کہ آئین ہند کی دفعہ 34 0،341 ۱ور342 میں کہیں بھی مذہب لفظ کا ذکر نہیں ہے۔۱س آرٹیکل341  پر مذہبی پابندی کے سلسلے میں سپریم کورٹ نے 21 جنوری 2011 کو مرکزی حکومت سے پوچھا کہ ایک سیکولر ملک میں اس قسم کی پابندی کا کیا جواز بنتا ہے؟لیکن ابھی تک سپریم کورٹ کو مرکزی حکومت  نے کوئی جواب نہیں دیاہے۔

حلانکہ سچرکمیٹی اور رنگناتھ مشراکمیشن کی کانسٹی ٹیوشن(شیڈول کاسٹس)آرڈر1950کے پیرا ۔3 میں ضروری ترمیم کر کے مسلم اورعیسائی دلتوں کو بھی شیڈول کاسٹس ریزرویشن کے حق دینے کی اہم سفارش ہے لیکن مرکزی حکومت ان سفارشات کو نافذ کرنے میں غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی رہی ہے۔1990 میں بدھ سماج کے دلتوں کو بھی حکومت ہند کی جانب سے ریزرویشن کی سہولت دی گئی۔ لیکن اب بھی دلت مسلمان اور عیسائی اپنے آئینی حقوق سے محروم رہے ۔آیئے اب آئین ہند کی ان دفعات پر نظر ثانی کرتے ہیں جو چیخ چیخ کر آرٹیکل 341 پر لگی مذہبی پابندی کو غلط ٹھہراتی ہیں ۔ آرٹیکل 15ملک کے تمام شہریوں کو خواہ وہ کسی بھی مذہب یا طبقے سے تعلق رکھتا ہوتعلیمی اداروں میں برابری کے حقوق دیتا ہے۔

آرٹیکل 16 ملک کے سبھی شہریوں کو سرکاری ملا زمتوں کو مساوی حقوق فراہم کرتا ہے ۔لیکن افسوس شاید اس غیر آئینی قدم اٹھانے والے نے خود کو دستور ہند سے بالاتر سمجھا۔ اور ملک کی سب سے بڑی اقلیتی فرقے کو اس کے آئینی حقوق سے محروم کر کے پسماند گی  کے گہرے دلدل میں دھکیل دیا ۔ آزادی کا ایک طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ملک کے دلت مسلمان اورعیسائی یزرویشن کے منتظر ہیں ۔حکومتیں بدلیں حکمراں بدلے لیکن کسی نے بھی اس غیر آئینی آرٹیکل  341 پر لگی مذہبی پابندی کے خلاف ایکشن نہیں لیا۔ایک طرف تو حکومتیں ملک کے جمہوری نظام اور آئین ہند میں گہرا ایمان اور عقیدت رکھنے کی بات کرتی ہیں۔ لیکن وقت آنے پر حکومتیں آئین ہند کی خلاف ورزی کرنے سے گریز نہیں کرتیں ۔کشمیر کا ہے معاملہ لے لیجئے۔

حکمراں جماعت کے ہی چند عناصر کشمیر کو ملے خصوصی ریاست کے درجے کو ختم کرنے کی بات کرکے سیاسی گلیاروں میں ہلچل پیدا کر دیتے ہیں ۔لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ  ابھی بھی قوم کے بیشتر افرادکو ملک کے پہلے وزیر اعظم کے اس غیر آئینی حکم نامے کا علم ہی نہیں ہے۔اور جن کو اس نا انصافی کا علم ہے وہ اس بارے میں کسی کو بتانا ضروری نہیں سمجھتے اورکچھ نے اپنے مفاد کی خاطر اس معاملے سے چشم پوشی کی۔قوم کی رہنمائی کا دعویٰ کرنے والے ہما رے سیاسی رہنمائوں کی اس ناانصافی کے خلاف خاموشی معنی خیز ہے، اورخود کو سیکولرزم کی پجاری اور مسلم ہمدرد کہی جانے والی سیا سی پارٹیوں نے ریزرویشن کے نام پرصرف مسلمانوں کو دھوکا دیا ہے ۔ الیکشن کے وقت تمام سیاسی پارٹیاں مسلم ہمدرد ہونے کا سوانگ رچ کر مسلم ووٹ لیکر اپنے عشرت کدے میں قیدہو کر خواب خرگوش کے مزے لوٹتی ہیں اور مسلم قوم اپنی زبوں حالی پر آنسو بہاتے ہوئے اپنے مسائل کے حل کے لئے حکمراں جماعتوں کی دہلیز پر دستک دیتی ہے لیکن جواب میں صرف سکوت طاری رہتا ہے اور یہ سلسلہ گزشتہ 47 سالوں  سے اب تک جاری ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. مولوی اقبال کہتے ہیں

    بہترین تجزیہ!

تبصرے بند ہیں۔