یوم آزادی: ہم جشن منائیں یا ماتم کریں!

 منصور عالم قاسمی

یہ ماہ اگست ہے، یعنی باشندگان ہند وپاک کے لئے جشن آزادی کا مہینہ۔عوامی اورحکومتی سطح پرجشن کے لئے تیاریاں بام عروج پر ہیں، تاہم جشن آزادی کے ساتھ کرب وسو ز کی ہولناک داستانیں بھی جڑی ہوئی ہیں ۔ تقریباًدو صدی سے زائد انگریزوں سے معرکہ آرائی اور سیاسی اتھل پتھل کے بعد 15؍اگست 1947  میں ہندوستان کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا۔ یہ تقسیم ایک ملک کی نہیں تھی بلکہ ایک جسم کی تھی، جس کے کرب و سوز سے آج بھی لوگ تڑپ رہے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے جنگ یا قحط کے علاوہ کبھی بھی لوگوں کی اتنی بڑی تعداد نے اپنے گھربار کو الوداع نہیں کہا، ایک اندازے کے مطابق ایک کروڑ بیس لاکھ لوگ در بدرمحفوظ پناگاہ کی تلاش میں بھٹکتے رہے، چونکہ انگریز تقسیم کے وقت تک ہندو مسلم کے درمیان مذہبی منافرت پھیلا نے میں کامیاب ہو چکے تھے، اسی وجہ سے ان میں سے تقریباً 10 ؍ لاکھ افراد مذہبی جنونیوں نے مار دیئے اور ۸۰ ہزار سے زیادہ عورتیں مخالف مذہب کے ہوس پرستوں کی شکار ہو گئیں۔

    اس میں شک نہیں کہ انگریزوں کی غلامی سے نجات کے لئے سارے مذاہب و ادیان کے جیالوں نے اپنی اپنی قربانیاں پیش کیں، قید وبند کی صعوبتیں جھیلیں، پھانسی کے پھندے کو چوما، تختہء دار پربخوشی لٹکے مگر افسوس کے ساتھ مجھے یہ خامہ فرسائی کرنی پڑ رہی ہے کہ عصر حاضر کے متعصب مؤرخین سیکولراور مسلم مجاہدین کے کردارمسخ کرنے پر تلے ہوئے ہیں، حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کر رہے ہیں۔ غدر سے پہلے حیدر علی اور سلطان ٹیپو نے انگریزوں سے چار جنگیں لڑیں، اور بالآخر جام شہادت نوش فرمایا، جنرل ہارس کو جب آپ کی شہادت کی خبرملی تو وہ خوشی کے مارے پھولے نہیں سما رہا تھا، پھر ٹیپو کی نعش پر کھڑا ہو کر کہا : آج سے ہندوستان ہمارا ہے،، سلطان ٹیپو ہی نے کہا تھا: شیر کی ایک دن کی زندگی، گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے،،۔ ٹیپو اللہ کے پیارے ہو گئے مگرتحریک آزادی کی جو مشعل انہوں نے جلائی تھی اس سے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور ان کے شاگردوں نے روشنی حاصل کی، چنانچہ شاہ عبدالعزیز بن ولی اللہ محدث دہلوی نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ جاری کیا۔ تحریک آزادی کی چنگاری روز افزوں شعلہ جوالہ بنتی جا رہی تھی، پھر وہ وقت آیا کہ علامہ فضل حق خیرآبادی، مفتی صدرالدین آزردہ اور سید کفایت اللہ کے علاوہ 33 علماء کرام نے دہلی کی جامع مسجد سے بیک وقت انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ صادر فرمادیاجس کی وجہ سے مسلمان جنگ آزادی کو اپنا فریضہ سمجھ کر میدان میں کود پڑے۔

1857میں علماء کی ایک بڑی جماعت کو جس میں مولانا احمد اللہ مدراسی، مولانافضل حق خیرآبادی، مولانا قاسم نانوتوی، حافظ ضامن شہید، مولانا جعفر تھانیسری، مولاناعبدالرحیم صادق پوری اور مولانا احمد اللہ عظیم آبادی تھے یا تو پھانسی دے دی گئی یا سزائے کالا پانی کاٹنی پڑی۔ خود اکابرین دارالعلوم دیوبند جنگ آزادی کے ہر محاذ پر آگے آگے رہے، دارالعلوم دیوبند کا کے قیام کا ایک عظیم مقصد ہندوستان کی آزادی بھی تھی، چنانچہ تحریک ریشمی رومال آزادی کا ایک زریں باب ہے، اسی جرم کے پاداش میں حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی کوبحیرہء روم میں واقع  جزیرہء مالٹا کا اسیر بنادیاگیا۔دنیا جانتی ہے کہ ٹیپو سلطان کے بعد شیخ الہند ہی انگریزوں کے سب سے بڑے دشمن کہلائے تھے۔

     جب مسلح جنگ آزادی کی صدا بلند ہوئی تو اسلحہ جات کی فراہمی کے لئے خطیر رقم کی ضرورت تھی، آخر یہ رقم کہاں سے آتی ؟مجاہدین کے پاس پیسے نہیں تھے، اس لئے مرد مجاہد اشفاق اللہ خان اور رام پرساد بسمل نے کاکوری کے مقام پر سرکاری خزانے لے جا رہی 8 ڈائون سہارنپور۔ لکھنئو پسینجر کو لوٹ کر ہتھیار کا انتظام کیا، مگر اس جرم کے بدلے انگریزوں نے اشفاق اللہ خان کو پھانسی کے پھندے میں لٹکا دیا ،  پھانسی سے پہلے انہوں نے جو کہا، وہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہے، آپ نے کہا:اے میرے بچو!مت رونا، اے میرے بزرگو!مت رونا، میں زندہ ہوں، میں زندہ ہوں۔ ہندوستانی مسلمانوں کی ایک معتبر تنظیم جمعیۃالعلماء کا قیام 1919ء عمل میں آیا، اس کے جتنے بھی اراکین تاسیسی تھے، سب کے سب مجاہدین آزادی تھے، اسی جمعیۃ العلماء نے ترک موالات کا فتویٰ شائع کیا تھا۔ 9؍اگست 1942 میں جب بھارت چھورو کی تحریک چلی تو جہاں مہاتماگاندھی اور جواہر لال نہرو سمیت کانگریسی  لیڈران گرفتار ہو ئے، وہیں جمعیۃ العلماء کے سیکڑوں علماء اور کارکنان نذر زنداں کئے گئے۔

   ہم نے علماء کرام اور مسلمانوں کی جنگ آزادی کے کردار پر اس لئے خامہ فرسائی کی، تاکہ ہمارے حب الوطنی پر انگشت نمائی کرنے والے جان لیں کہ ہم نے اور ہماری تنظیموں نے آزادی کے لئے وہ قربانیاں پیش کی ہیں، جو تم نے اور تمہاری شنگٹھنوں نے نہیں کیں، محب وطن تو ہم ہیں، تم تو دیش بھگتی کا فرضی لبادہ اوڑھے ہوئے ہو، جب بھارت چھوڑو کی تحریک چل رہی تھی، ہرکس و ناکس اس میں شامل ہو رہا تھا اس وقت تمہارے گرو ’’گوالکر،، نے اس تحریک اور لڑائی سے یہ کہتے ہوئے خود کوعلیٰحدہ کر لیاتھا، کہ یہ ایک سیاسی لڑائی ہے، ہم ہندوانہ تہذیب و شناخت کے ساتھ علیٰحدگی چاہتے ہیں، اسی علیٰحدگی کی وجہ سے ممبئی سرکار نے گوالکر کی خوب ستائش کی تھی۔ساورکر جس کو تم ویر کہتے ہو، اس کوجب قید کیا گیا تو اس نے باضابطہ معافی نامہ لکھ کر انگریزوں کو دیا اور اس کی فوج کے لئے بھرتیاں کرتا تھا۔ سنگھیوں کے بابا شیاما پرساد مکھرجی نے انگریزوں کو خط لکھ کر یقین دہانی کرائی تھی کہ بھارت چھوڑو تحریک کو بنگال میں ہم کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ بھارت ماتا کی جے اور وندے ماترم کے لئے بھونکنے والے غداران وطن آر ایس ایس نے اپنے مرکزی دفتر ناگپور میں 2002 تک کسی موقع پر ترنگا نہیں لہرایا، 2001 میں راشٹریہ پریمی یوادل کے نیتا اتم گڑھ، وجے رمیش کلمبے اور دلیپ چھتائی نے جب مرکزی دفتر میں ترنگا لہرا دیا تو ان سب کو جیل بھیجوادیا گیا۔

آرایس ایس کے سربراہان نے ہمیشہ ہندوستانی آئین کو نکارا ہے، ترنگا کی جگہ بھگوا جھنڈا اپنایا ہے، ، گاندھی جی نے ایک بار کہا تھا: سنگھ پر بھروسہ کرنا ناممکن ہے، اس کے چند دن بعد ہی سنگھ کا  ایک رکن ناتھو رام گوڈسے نے 4 فروری 1948 کو گاندھی جی کاقتل کردیا، اس کے بعد سنگھ پر پابندی لگائی گئی، اندرا گاندھی نے ایمرجنسی میں بھی پابندی لگائی، 1992 میں بابری مسجد کے انہدام کے بعد بھی پابندی لگی لیکن کانگریس کا نرم ہندتو رویے نے ہر بار پابندی اٹھا لی، اگر سیمی کی طرح اس سے پابندی نہیں ہٹائی جاتی تو آج کانگریس کو اتنی ذلت و خواری نہیں سہنی پڑتی اور کانگریس مکت بھارت کا نعرہ نہیں سننے کو ملتا۔ 1885 میں جب انڈین نیشنل کانگریس کا قیام ہوا اس وقت سے آج تک مسلمان کانگریس کے شانہ بشانہ چلتے رہے مگر اس نے مسلمانوں کو ہمیشہ دھوکہ دیا، بے گناہ نوجوانوں کی ہمیشہ گرفتاریاں کرواتارہا، بابری مسجد کا تالا کھلوایا، مورتی  رکھوائی، اور کانگریس حکومت میں ہی مسجدبھی ڈھادی گئی، نہ مسجد مندر کے تنازع کوہوا دی جاتی اور نہ بی جے پی اقتدارمیں آتی۔ بی جے پی کو اقتدار میں آنے کا موقع اسی کانگریس نے فراہم کیا ہے۔

مجھے آر ایس ایس کی سیاسی جماعت بی جے پی سے تو کوئی خیر کی امید نہیں تھی اور نہ ہے لیکن کانگریس جیسی نام نہاد سیکو لر پارٹی بھی اپنے دور حکومت میں آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے مسلم مجاہدین آزادی کا تذکرہ کرنے سے دامن بچاتی رہی، مجاہد اول ٹیپو سلطان شہید فراموش کردیئے گئے، اسیران مالٹا کا کوئی ذکر خیر نہیں، شاملی کے میدان میں دریا کی طرح خون بہانے والے بھی بھلا دیئے گئے۔ ظاہر ہے جب کانگریس کے قدم سے قدم ملا کر لڑنے والوں کو اس نے خود یاد نہیں رکھا تو بی جے پی یا دوسری سرکاریں کیا یاد رکھیں گی ؟بی جے پی سرکار تو باضابطہ اپنی تقریروں میں غداروں کو ہیرو بنا کر پیش کر رہی ہے، نصابی کتابوں میں تاریخ  ہند و جنگ آزادی بدلی جارہی ہے۔ اگر یہ حکو مت  مزیدچند سال براجمان رہی تو یاد رکھئے ! ٹیپو سلطان، اشفاق اللہ خان، مہاتما گاندھی، جواہر لال نہرو، مولانا ابوالکلام آزاد، شیخ الہند، بھگت سنگھ رام پرساد بسمل، فضل حق خیرآبادی اور سکھدیو سنگھ مجاہدین آزادی نہیں کہلائیں گے بلکہ گوالکر، ساورکر، شیاما پرساد مکھرجی، ناتھورام گوڈسے، دین دیال اپادھیائے مجاہدین آزادی کہلائیں گے اور آر ایس ایس سب سے بڑی قربانی دینے والی پارٹی۔

  آزادی میں اتنی قربانیاں دینے کے باوجود آج ہم سے محب وطن کی شہادت مانگی جا رہی ہے، ہم گائے کے نام پر قتل کئے جا رہے ہیں، ہمیں سر راہ تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، ہمارے حقوق سلب کئے جا رہے ہیں، ہمیں دوسرے درجے کا شہری گردانا جا رہا ہے، اس لئے ہمیں سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ ہم یوم آزادی کے موقع پرجشن منائیں یا ماتم کریں !

تبصرے بند ہیں۔