آہ کانگریس(پہلی قسط)

مشرّف عالم ذوقی

جب آپ نے مسٹر گاندھی، مسلم دانشوروں سے ملنےکا فرمان جاری کیا، مجھے احساس ہوا کہ کانگریس پھر سے وہی غلطی کرنے جا رہی ہے جو غلطی آزادی کے بعد سے مسلسل کرتی آی ہے۔ مسلمانوں کو تو کچھ حاصل نہیں ہوا لیکن آپکے مسلمان مسلمان کھیل سے آر ایس ایس کو اقتدار میں آنے کا موقع مل گیا اور بہت حد تک اکثریت یہ مان بیٹھی کہ کانگریس صرف مسلمانوں کے بارے میں سوچتی ہے۔ ۔جبکہ آپ بھی جانتے ہیں مسٹر گاندھی کہ ایسا نہیں ہے۔ ۔سچر کمیٹی، رنگنآتھ مشرا کمیشن۔ ۔۔صرف کاغذات کے پلندے تک محدود رہے۔ اسکا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں سے ہمدردی دراصل مسلمانوں کے لئے اس ملک میں سلو پوائزن ثابت ہوئی۔ نفرت کا کاروبار بڑھا۔ ۔مسلمانوں کے مخصوص لباس کو بھی حقارت سے دیکھا گیا۔ گودھرا کے قاتلوں کو اقتدار ملا تو تماشے شروع ہو گئے۔ لیکن اس تماشے کے پیچھے آپ تھے۔ نہ آپ مسلمانوں کو ووٹ بینک بناتے، نہ مسلمان سیاسی پارٹیوں لئے آسان شکار ثابت ہوتے۔ ۔۔مسٹر گاندھی، انہوں نے آپکے کھیل کو بدل دیا۔ کھیل کی اس نیی پاری سے اٹل بہاری باجپایی کی ٹیم بھی واقف نہیں تھی۔ ۔آپ مسلمان چلاتے رھے انہوں نے بدلے میں ہندو ہندو چلانا شروع کیا۔ ملک کے سو کروڑ ہندوؤں کو ایک جٹ کرنا اور انتخاب میں فتح حاصل کرنا زیادہ آسان تھا۔ (مسلمانوں سے ملاقات کا کام آپکے جاوید ندیم جیسے لوگ بہتر انجام دے سکتے ہیں )۔

اس میں شک نہیں کہ جب موت کے آہنی پنجے بے رحمی سے ہماری طرف بڑھ رہے تھے، ایک اچھے متبادل کے طور پر ہم نام نہاد سیکولر پارٹیوں سے امید لگایے بیٹھے تھے۔ آزادی کے ان ستر برسوں میں سیکولر کہی جانے والی پارٹیوں کو بھی دیکھا ہے کہ جب بھی موقع ملا ان پارٹیوں نے بھی سیکولرزم کے لباس کی دھجیاں بکھیرنے میں کویی کثر نہیں چھوڑی۔ لیکن مودی حکومت با الخصوص مسلمانوں کے لئے موت بن کر سامنے آی۔ اخلاق، پہلو خان سے لے کر میڈیا میں مسلمانوں کی رسوایی تک لمبی کہانی ہے مسٹر گاندھی، جسے سنانے، بتانے سے کچھ حاصل نہیں۔ ۔یہ آپ بھی جانتے ہیں۔ اور اب ساری دنیا جانتی ہے کہ مودی حکومت مسلمانوں کے ساتھ کیسا کھیل کھیل رہی ہے۔ ۔صرف ایک مثال کافی ہے کہ ممتا بنرجی نے ٩ اگست سے بی جے پی بھارت چھوڑو تحریک کا اعلان کیا ہے۔ انگریزوں بھارت چھوڑو کی کہانی ابھی بھی دھندلی نہیں ہوئی کہ بی جے پی بھارت چھوڑو کا اعلان سامنے آگیا۔ اس بات کو سمجھنے کی کوشش کیجئے مسٹر گاندھی کہ مودی، آر ایس ایس اور بی جے پی اب آھستہ آھستہ ہندوستان کے لئے انگریزوں سے بڑا خطرہ بن گئے ہیں۔ یہ پارٹی آگے بھی حکومت کرتی ہے تو آیین، جمہوریت، گنگا جمنی تھذیب، اتحاد، امن، محبت، اخوت، بھایی چارہ سب کا جنازہ اٹھ جائے گا۔ رواداری، ملت، محبت کے پرخچے اڑ جایئنگے۔ ایک جیسی فکر رکھنے والی سیاسی پارٹیوں کے اتحاد سے امید قایم ہوئی کہ آپ سنجیدگی سے ملک کے مسائل پر غور کر رہے ہیں۔ ۔تحریک عدم اعتماد کا فیصلہ پہلے دن سے معلوم تھا لیکن اس تحریک سے مودی کے پانچ برسوں کا کچا چٹھا سامنے آنے کی امید قایم ہوئی تھی۔ تقریر سے پہلے اپکا مودی سے گلے ملنا بچکانہ حرکت ضرور تھی لیکن آپکی تقریر نے مردہ دلوں میں امید جگانے کا کام بھی کیا تھا مگر۔ ۔۔۔۔

کیا یہ سب کچھ مذاق تھا مسٹر گاندھی ؟ پانچ برسوں سے ملک میں ہونے والا دہشت اور موت کا کھیل صرف ایک مذاق کہ آپ نے آنکھ کے ایک اشارے سے مودی کی مخالفت میں چلنے والی شاندار مہم کو مودی کی حمایت میں کر دیا۔ ۔مسٹر گاندھی، آپ اسکے نقصان سے واقف نہیں مگر حقیقت ہے کہ پانچ برسوں کے ہجومی تشددکے واقعات، ہلاکت کے افسانے، آپ کے ایک آنکھ کے اشارے سے مذاق بن گئے۔ ۔

مسٹر گاندھی، عام مسلمانوں کی مشکل یہ ہے کہ سیاست کے بدلتے منظرنامے میں وہ کس کا ساتھ دیں اور کس کے ساتھ نہ جائیں۔ کیونکہ اسی برسوں کی بدلتی فضا میں تمام پارٹیوں کو نہ صرف آزما چکے ہیں بلکہ اس حقیقت کو بھی جان گئے ہیں کہ یہ پارٹیاں صرف اور صرف مسلمانوں کا سیاسی استعمال کرتی رہی ہیں۔

دیکھا جائے تو ہندوستانی مسلمانوں کا سچ یہ ہے کہ ہر سطح پر وہ آزادی اور تحفظ چاہتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ سب سے زیادہ دنگے کانگریس کی حکومت میں ہوئے۔ بابری مسجد میں مورتیاں راجیو گاندھی کے دور اقتدار میں رکھی گئیں۔ بابری مسجد کے فیصلے کو لے کر بھی مسلمانوں کو بیوقوف بنایا گیا۔ فرضی انکاﺅنٹر سے لیکر مسلم نوجوانوں کی گرفتاری تک مسلمان کانگریس کے اصلی چہرے کی شناخت کرچکے ہیں۔ اس کے باوجود مسلمانوں کو لگتاہے کہ مسلمان کانگریس کے دور اقتدار میں ہی محفوظ ہیں۔

ملک ایک بار پھر بارود کے دہانے پر ہے۔۔ ایک زمانہ تھا جب تقسیم کی وکالت کرتے ہوئے شیخ عبداللہ نے کہا تھا کہ جو قوم مسلمانوں کے ہاتھ سے ایک گلاس پانی نہیں پیتی وہ مسلمانوں کو انکا حق کیسے دے گی۔ ان پانچ برسوں میں مسلمان اپنے ہی ملک میں اچھوت بن گیا۔، مودی حکومت جو پانچ برسوں میں نہیں کر سکی، وہ آنے والے پانچ برسوں میں موت کے کھلے، ننگے ناچ کے ساتھ کرنا چاہتی ہے۔ آر ایس ایس اب ہندستان کا مستقبل ہندو راشٹر کی شکل میں لکھنا چاہتی ہےاور اس ہندو راشٹر میں مسلمانوں کی کویی حیثیت نہیں ہوگی۔ اوریہ نہ بھولیے کہ ملک کی’ کٹرتا‘ کی تاریخ میں مودی کسی شخص کا نام نہیں آئیڈیالوجی کا نام ہے۔ شخص مرسکتا ہے۔

آئیڈیالوجی بندوق سے چھوٹی ہوئی طوفانی گولی سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے— تاریخ اٹھا کر دیکھیے تو مودی نہ مسلمانوں کے خلاف اپنے کسی بھی رویہ سے نہ نادم ہوا، نہ گجرات کے قتل عام کے لیے معافی مانگی— نہ ہجومی تشدد پر کوئی درد اس کے سینے میں ہے۔  بلکہ اقتدار میں آنے کے بعد مودی موت اور خوف کی ایسی علامت بن گیا کہ سیاسی پارٹیوں کو بھی ملک کے ساتھ اپنا مستقبل بھی خطرے میں نظر آنے لگا۔ آئیڈیالوجی برسوں اور صدیوں حکومت کرتی ہے۔اس لیے یہ غور کرنا ضروری ہے کہ جس شخص نے گجرات کے مسلمانوں کو اپاہج کیا اس نے پانچ برسوں میں مسلمانوں سے سر اٹھا کر جینے کا حق بھی چھین لیا۔، مسٹر گاندھی، سو سال پہلے امریکی آزادی کے حلف نامے پر دستخط کرنے والوں نے ایک خواب دیکھا تھا— کب ختم ہوگی نا انصافی؟ غلاموں کی زندگی میں کب آئے گی امید کی کرن — ان پانچ برسوں میں فرقہ وارانہ فسادات کی بڑھتی پھیلتی آگ بار بار ہندوستانی مسلمانوں کے حق میں شاید اسی سوال کو اٹھاتی رہی ہے— کب ختم ہوگا، غیر محفوظ ہونے کا احساس—؟ فی الحال ملک کی بد تر ہوتی صورت حال کو دیکھتے ہوئے صرف اتنا کہا جاسکتا ہے کہ کسی نہ کسی کو تو آگے بڑھ کر ان ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کرنی ہوگی۔

مسٹر گاندھی، آپکا مذاق اگر ٢٠١٩ گنوا دیتا ہے تو مسلمانوں کے ساتھ برا حشر تو ہوگا ہی، آپکی کانگریس کا بھی نام و نشان مٹ جائے گا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔