دو داغِ محبت دے، جو چاند کو شرمادے

مدثراحمد

جنگ آزادی سے قبل ہندوستان میں مسلمانوں کی ایک طاقت تھی، حالانکہ حکومتیں الگ الگ رہنے کے باوجود جب بھی ہندوستان کی سرزمین پر مسلم حکمرانوں کی حکومتوں پر آنچ آئی، اس وقت تمام مسلم حکمرانوں نے مل کر اپنی دشمن طاقتوں سے مقابلہ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ سرزمین ہند پر مسلمانوں نے750 سال تک حکومتیں کیں۔ جب انگریزوں کی آمد ہوئی اُس وقت کچھ غدار حکمرانوں کی وجہ سے مسلمانوں کو اپنی ریاستوں وحکومتوں سے ہاتھ دھونا پڑا اور ملک کی پوری رعایا انگریزوں کی غلام بن گئی۔ 1857 سے لیکر1947 تک جو جنگ آزادی ہوئی اس آزاد ی میں بھلے ہی مسلمانوں نے اہم کردار اداکیا، لیکن اس جنگ آزادی کی پوری رودادمیں مسلمانوں کے کردار کو ہذف کیا جارہا ہے۔ دہلی سے لیکر لاہورتک ہی سڑک کے کناروں پر ہزاروں علما، ومجاہدین آزادی کو پھانسی کے تختے پر لٹکایاگیا۔ یہ تمام شہادتیں اور قربانیاں آج ناپید ہوتی جارہی ہیں۔

جنگ آزادی کے بعد ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت خراب ہوتی گئی، حالانکہ مولانا ابوالکلام آزاد جیسے وسیع النظر عالم دین، دانشور، سیاستدان اور متقی شخصیت نے مسلمانوں کو پسماندگی سے بچائے رکھنے کیلئے اہم رول اداکیا۔ لیکن مولانا آزاد کے بعد اس ملک میں اور کوئی آزادؔ پیدا نہیں ہوا، جس کی وجہ سے مسلمانوں کی حالت خراب ہوتی گئی اور وہ پسماندہ طبقات میں شمار ہوتے گئے۔ پسماندگی اور غربت الگ بات ہے، لیکن آئے دن مسلمانوں کو سماجی انصاف سے جس طرح سے محروم رکھا جارہا ہے وہ قابل فکر بات ہے۔ آئے دن ہندوستان کے مختلف مقامات پر جس طرح سے مسلمان گروہی تشدد کاشکار ہورہے ہیں، گائے کے نام پر مسلسل شہید ہورہے ہیں اور مسلمانوں کو اس ملک میں جس طرح سے متعصبانہ رویہ سے دیکھا جارہا ہے وہ تمام باتیں ملک پر 750 سال حکومت کرنے والے مسلمانوں کیلئے ایک توہین آمیز بات ہے۔ ہندوستان میں 1925 میں جب آر ایس ایس کا باضابطہ طو رپر آغاز کیا گیا اس وقت اُس تنظیم کے پاس محض3 افراد کی طاقت تھی اور ان تین افراد نے ملک کے ہر کونے میں اپنی فسطائی سوچ کو پھیلانے کیلئے باقاعدہ منظم طریقے سے کام کیا، فی الوقت اس تنظیم کے اراکین کی تعداد اندازاً70 لاکھ ہے، جو50 ہزار شاخوں میں پھیل چکی ہے۔ یہ اعداد وشمارات دو سال پرانے ہیں مگر تاحال اس کی تعدادمیں اور بھی اضافہ ہوا ہوگا۔ اس تنظیم کے70 لاکھ کارکنان بھلے ہی محدود تعداد دکھائی دیتے ہیں لیکن اس70 لاکھ افرادنے جس طرح سے100 کروڑ کی آبادی کو اپنے ماتحت کرتے ہوئے15 کروڑ مسلمانوں کو پریشان کر رکھا ہے وہ افسوسناک بات ہے۔ آج70لاکھ کارکنوں کی معمولی تعدادہونے کے باوجود جس طرح سے انہوں نے ہندتوا اور فسطائی ایجنڈے کو قائم کرنے کیلئے عام لوگوں کی ذہن سازی کی ہے وہ جمہوری نظام کیلئے خطرناک ہے۔ اس بات کا اندازہ ہم اس بات سے ہی لگا سکتے ہیں کہ پچھلے پارلیمانی انتخابات کسی سیاسی پارٹیوں کے درمیان نہیں بلکہ براہ راست ہندو بنام مسلمان اور سیکولرزم بنام کمیونزم رہا ہے۔ اسی وجہ سے آج ہندوستان پر کمیونل سوچ رکھنے والی سیاسی پارٹی راج کررہی ہے۔

 حالانکہ ماضی میں ہم نے دیکھا کہ اڈلف ہٹلر نے اسی طرح کا رویہ کااختیار کررکھا تھا، نازی پارٹی نے جس طرح سے نہ صرف جرمنی پر اپنی حکومت قائم کرنے کی کوشش کی تھی بلکہ ساری دنیا کو اس نے اپنے پہلو میں لانے کا منصوبہ بنا رکھا تھا، لیکن اس کا انجام کیا ہوا یہ تاریخ بتا دیتی ہے۔ ایک طرف 1925میں قائم کردہ سنگھ پریوار ہے تو دوسری جانب مسلمانوں کی مختلف سیاسی، ملی، فلاحی اور سماجی تنظیمیں ہیں۔ ان تمام تنظیموں کی قیادت الگ الگ طریقوں سے الگ الگ افراد کررہے ہیں، لیکن ہم یہ بات محسوس کرسکتے ہیں کہ کچھ نامورو طاقتور تنظیموں پرا قرباء پروری کانشہ چھایا ہوا ہے، ان تنظیموں میں بھی خلافت کا نظام چل رہاہے، دادا کے بعد بیٹا، بیٹے کے بعد پوتا، بھائی کے بعد بھتیجا، بھتیجے کے بعد چچا۔ اس طرح سے ہماری تنظیمی نظام چل رہے ہیں، کچھ تنظیموں میں مسلکوں کااختلاف ہے تو کچھ تنظیمیں سلسلوں کولیکر ایک دوسرے کی دشمن بنی ہوئی ہیں۔ حالانکہ مسلمانوں کو قیامت تک73 فرقوں میں بٹنے کی ضرورت ہے اور نبی کریمﷺ کی پیشنگوئی ہے، لیکن ہم یہ دیکھیں گے کہ ہمارے اس ملک کی اکثریت ہندو پہلے سے ہی سینکڑوں گروہوں میں بٹ چکی ہے اور ان ہندوئوں میں ہزاروں اختلافات ہونے کے باوجود جب ایک ہونے کی بات آتی ہے تو وہ ایک ہوجاتے ہیں اور تمام ہندو ایک بِندو یعنی نقطہ بن جاتے ہیں اور اپنے حریفوں کامقابلہ کرتے ہوئے انہیں مات دینے لگے ہیں۔ جس دین نے ایک امت ہونے کا درس دیا ہے وہیں اُمت آج بکھرے ہوئے تاروں کی طرح ہوچکی ہے۔ بقول علامہ اقبال

’’ایک ہوجائیں تو بن سکتے ہیں خورشید ومبین

ورنہ بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کام بنے‘‘

آج ہم آسمان پربکھرے ہوئے تارے تو ہیں ہماری روشنی سے راتیں تو جھلملاتی ہیں، لیکن اگر یہی تارے ایک ہوجائیں تو اس سے کتنا بڑا کام ہوسکتا ہے یہ اندازہ لگائیں۔ بھلے ہمارے افکار، اذکار الگ ہوں، ہمارے مسلک الگ ہوں۔ مگر ایک خدا ایک نبی ایک قرآن کے ماننے والے ہونے کی وجہ سے ہمیں ایک ہوکر موجودہ حالات کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے، جو گروہی تشدد اور گائے کے نام پر دہشت گردی کا سلسلہ جاری ہے اسے روکاجاسکتا ہے، کچھ لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر مسلمان گائے کھانا چھوڑ دینگے تو مسلمان اس ملک میں محفوظ رہ سکتے ہیں۔ لیکن ہمیں یہ بات ذہین نشین کرلینی چاہیے کہ بیل و گائے تو ایک حیلہ ہے، اگر یہ بیل وگائے بھی مسلمانوں سے دورہوجائیں تو سنگھ پریوار کے سامنے اور بھی کئی حیلے ہیں جن کا مسلمان شکار ہوسکتے ہیں۔ آزادی کے بعد سے 1992تک سنگھ پریوارکے پاس بابری مسجد ایک حیلہ تھا جسے لیکر سنگھ پریوارنے مسلمانوں کاجینا حرام کررکھا تھا۔

1992سے2012 تک ہندوستان کا ہر مسلمان سنگھ پریوارکیلئے دہشت گرد تھا جس کیلئے مسلمانوں کوجیلوں میں ٹھونسا جارہا تھا، 2012 کے بعدگائے جوان ہوئی تو مسلمانوں کو اس گائے سے جوڑا جانے لگا اور مسلمانوں کاقتل عام ہونے لگا۔ ہم اتنا کہنا چاہیں گے کہ جس طرح سے ملک کی مختلف تنظیمیں بکھری ہوئی ہیں اگر وہ تمام تنظیمیں ایک ہوکر موجودہ حالات کا مقابلہ کریں تو یقینا مسلمانوں کا تحفظ یقینی ہے، ورنہ ہمارے پاس اناللہ پڑھنے کے سواء کچھ نہ رہ جائیگا۔

اس دور کی ظلمت میں ہر قلب پریشاں کو

دو داغِ محبت دے جو چاند کو شرمادے

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔