اچھے دن

دانش حماد جاذبؔ

(سعادت حسن منٹوؔ کے مشہور زمانہ افسانہ نیا قانون کا سیکول)

 استاد منگو کوچوان بستر مرگ پرپڑا اپنی زندگی کی آخری سانسیں گن رہا ہے۔ وہ اپنے بیٹے بھولا کا منتظرہے جو دوائی لینے گیا ہے۔ بھولا اپنے نام کے عین مطابق بالکل بھولا ہے۔ اپنے باپ کی طرح جذباتی اور حساس ہے۔ عمر کی چالیس منزلیں طے کرچکا ہے پر ابھی تک سنجیدہ نہیں ہوا۔ اس کی بیوی اس کی احمقانہ حرکتوں سے تنگ آکر اسے چھوڑ کر میکہ جا چکی ہے۔ اب وہ اپنے باپ کا اکیلا سہارا ہے۔ آزادی کے بعد منگو کوچوان نے اپنا تانگہ بیچ کر اور کچھ رقم قرض لے کر ایک ٹیکسی خریدی تھی جو اب ان کے گزر بسر کا واحد ذریعہ تھی۔ بھولا دن بھر ٹیکسی چلاتااور جو روپئے اکٹھے ہوتے اس سے گھر یلو اخراجات پوری کرتا اور بچی ہوئی رقم سے باپو کا علاج کرواتا۔ مہینے میں ایک دفعہ جاکر بچوں سے مل آتا تھا۔ کبھی ان کے لئے کپڑے تو کبھی کھلونے لے جاتا۔ اپنی چھوٹی سی دنیا میں وہ بہت ساری الجھنوں سے جنگ کررہا تھا۔ اس کی دیرینہ خواہش تھی کہ پرانی ٹیکسی بیچ کر نئی ٹیکسی خریدے پرجو کچھ بھی وہ مہینے میں بچاتا وہ باپو کے علاج اورٹیکسی کی سروسنگ میں صرف ہوجاتے۔

بھولا تکنیک کے نئے دور میں جی رہا تھامگر اس کی ٹیکسی پرانے زمانے کی تھی جو کسی کھٹارے سے کم نہیں لگتی تھی۔ یہ منگو کوچوان کے دور کی ٹیکسی تھی جہاں ایک طرف منگو بستر پر ایڑیاں رگڑ رہا تھا اور اپنی زندگی کی آخری سانسیں گن رہا تھا وہیں دوسری طرف اس کی ٹیکسی بھی جواب دیرہی تھی۔ پھر بھی بھولا اس ٹیکسی کی بہت دیکھ بھال کرتاوقتاً فوقتاً اس میں کام کرواتا رہتاجس کی وجہ سے ٹیکسی چلنے لائق رہتی۔ کار اسٹینڈ میں ایک سے ایک خوبصورت ٹیکسی لگی ہوتیں اور بھولا اپنے کھٹارے کو ایک طرف کنارے کھڑی رکھتا۔ اس نے اپنی ٹیکسی میں کرایہ بھی کم رکھا تھاپھر بھی گراہک نئے کاروں میں جانا پسند کرتے تھے۔ دن بھر میں اکا دکا گراہک ہی اس کے نصیب میں ہوتے تھے۔

اس دن بھی وہ دوپہر میں کھانا کھانے کے بعد دوسرے ڈرائیوروں کے ساتھ تاش کھیل رہا تھا۔ کھیل کے دوران ملک کے سیاسی حالات پر بھی بحث ہورہی تھی جسے بھولا انہماک سے سن رہا تھا۔ ایک کہہ رہا تھا کہ یار۔ ۔ ۔ مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے۔ پیاز ۶۰ روپئے تو دال ۱۰۰ روپئے کلو ہو گئی ہے ٹماٹر تو بس گھروں میں سجانے کی چیز ہوگئی ہے۔ اتنے میں سونو ڈرائیور نے کہا۔ ۔ ۔ آج میں نے اپنی ٹیکسی میں دو لوگوں کو باتیں کرتے سنا کہ ایک نئی سرکار آنے والی ہے جس کے آمد سے ہر چیز سستی ہوجائیگی ہمارا دیش بہت ترقی کرے گا۔ اب اچھے دن آنے والے ہیں یہ مہنگائی کی مار زیادہ دن جھیلنی نہیں پڑے گی۔ غریبوں کو بلا سودی قرض ملے گا جسے وہ اپنی سہولت کے مطابق روپئے کما کر آسان قسطوں میں بھر سکیں گے۔ اتنا ہی نہیں اگر آپ کے پاس بچت کھاتا ہے  تو اس میں لاکھوں روپئے آئیں گے۔ لون اور روپئے کا نام سن کر بھولا خوش ہوگیا۔ ا س کے دل کے اندر کی دبی ہوئی خواہشش کی چنگاری کو کسی نے ہوا دے دی تھی۔

گھر آکر اس نے کچھ وقت باپو کے پاس بتایا اور پھر اپنے کمرے میں آکر بستر پر لیٹ گیا۔ وہ اچھے دن کے بارے میں سوچنے لگا۔ اسے نیند نہیں آرہی تھی، کروٹ پر کروٹ بدل رہا تھا۔ ذہن سے دوپہر کی باتیں نہیں ہٹ رہی تھیں من ہی من وہ بہت خوش ہوا جارہا تھا کہ اب ہمارے دن پھر جائیں گے۔ لون سے میں نئی کار خریدوں گاجس سے میری آمدنی میں خوب اضافہ ہوگامیں لون کی قسطیں بھی بھر سکوں گااور باپو کا بہتر علاج بھی کرا سکوں گا۔ پیسوں کی افراط ہوگی تو بیوی بچوں کو بھی منا کر گھر لے آئوں گا۔ پھر تو ہر طرف خوشی ہی خوشی ہوگی۔ ایک حسین اور خوش کن خواب میں بھولا کھوگیا اور بے صبری سے اچھے دن کا انتظار کرنے لگا۔

 صبح کام میں جانے سے پہلے وہ بینک چلا گیا اوراپنے نام کا بچت کھاتا کھلوایا۔ اور بینک کے ایک افسر سے پوچھنے لگا۔ ۔ ۔ سر اس کائونٹ میں پیسے کب اور کتنے آئیں گے میں نے سنا ہے کہ غریبوں کے اکائونٹ میں بہت سارے پیسے آئیں گے۔ افسر نے کہا کہ ایک سال کے اندر اس یوجنا سے جڑے سبھی غریبوں کے کھاتے میں لاکھوں روپئے آئیں گے۔ خو ش و خرم وہ وہاں سے لوٹا اور اچھے دن کا انتطار بے صبری سے ہونے لگا۔ اسٹینڈ پہنچ کر ٹیکسی کھڑی کرکے وہ چائے کی دکان پر جا بیٹھا اور چائے کی چسکی لیتے ہوئے ٹی وی دیکھنے لگا۔ منتری جی کا انٹرویو چل رہا تھا اب وہ چائے کی چسکی دھیرے دھیرے لینے لگا اور انہماک سے منتری جی کی باتیں سن رہا تھا۔ ۔ ۔ ۔ گزشتہ سرکاروں صرف لوٹنے کا کام کیا ہے۔ اب اچھے دن آگئے ہیں ایک سال کے اندر ہمارا دیش دنیا کے ممتاز دیشوں میں شمار کیا جانے لگے گا۔ مہنگائی اور غریبی دور بھاگے گی۔ دیش میں ہم کالا دھن واپس لائیں گے۔ ہماری بینک یوجنا سے جڑے ہر غریب، مزدور اور کسان کے کھاتے میں لاکھوں روپئے آئیں گے۔ روپوں کا تذکرہ سنتے ہی بھولا خوابوں میں کھو گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ ایک خوبصورت اور نئی ٹیکسی چلا رہا تھا۔ اس نے نیا مکان بھی لے لیا ہے جس دروازے پر منگو بیٹھا ہے اور اس کے بچے آنگن میں کھیل رہے ہیں وہ سب کے لئے کھلونے لے کر آیا ہے اور اس کی بیوی اس کے سامنے اس کے دئے تحفے کی پیکنگ پھاڑ رہی ہے اندر لال ساڑی پھول بوٹے کا کام دیکھ کر وہ تو خوشی سے رو پڑی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور بھولا بڑبڑانے لگا اچھے دن آگئے، اچھے دن آگئے۔

 گھر آکر وہ باپو کو بتانے لگا باپو اب ہمیں بہت جلد لاکھو ں روپئے ملیں گے۔ منگو کوچوان نے سوال کیا۔ ۔ ۔ کون دے گا اتنے روپئے؟  تو بھولا نے بڑی معصومیت کے ساتھ جواب دیا۔ ۔ ۔ نئی سرکار باپو نئی سرکار۔ آج میں نے ٹی وی پر منتری جی کو کہتے سنا ہے کہ ہماری یوجنا سے جڑے سبھی غریب کے کھاتے میں کچھ ہی دنوں میں لاکھوں روپئے آجائیں گے۔ باپو پھر ہم آپ کا علاج اچھے اسپتال میں کرائیں گے اور ایک نئی کار بھی خرید لیں گے۔          استاد منگو کو پرانے دن یاد آگئے۔ نیا قانون کے نافذ ہونے پر وہ بھی اسی طرح خو ہوا تھا۔ اس نے بھولا سے کہا بیٹا ان سب کے پیچھے مت پڑو یہ صرف بتولے ہیں۔ الیکشن جیتنے کے ٹوٹکے ہیں۔  بھولا نے کہا   بابا یہ آپ کا دور نہیں ہے اب یہاں انگریزو ں کی حکومت نہیں بلکہ ہماری ہے اور پھر میں خود ٹی وی پر دیکھا ہے۔ استاد منگو خاموش ہوگیا۔

 کچھ دن بعد نیتا جی اپنے منصب پر فائز ہوکر عہد وپیمان لے رہے تھے۔ اب تو بھولا کو یقین ہوگیا۔ ا ک امید سی بندھ گئی تھی۔ اب اچھے دن کی شروعات ہوچکی تھی۔ اس نے لون کے لئے بینک میں درخواست بھی جمع کردی تھی۔ افسر نے اسے یقین دلایا تھا کہ پندرہ دنوں کے اندر اس کا لون پاس ہوجائے گا۔

 اچھے دن کی آس میں ایک عرصہ بیت گیاپر بھولا کے لئے کچھ اچھا نہ ہوا۔ دال، شکر، پیاز تیل، گیس وغیرکے دام دن بدن بڑھتے گئے۔ اب تو اس کی ٹیکسی بھی زیادہ تیل پینے لگی تھی۔ وہ کرایہ بڑھانا چاہتا تھا پر وہ ایسا نہیں کر سکتا تھا۔ گراہک کم کرایہ ہونے کی وجہ سے ہی اس کی ٹیکسی پر سواری کرتے تھے۔ استاد منگو کی طبعیت بھی دن بدن بگڑتی جارہی تھی۔ مشکل سے دوائیوں کا انتظام ہورہا تھا جن کی مدد سے منگو موت سے لڑائی کررہا تھا۔

 آج بھولا پھر بینک کے افسر سے ملا اور لون کے بارے میں پوچھا تو افسر نے کہا دیکھو تمہارے کاغذات صحیح نہیں تھے پھر بھی ہ م نے تمہارا لون پاس کروادیا ہے ڈیڑھ لاکھ کا بس تمہیں اپنے کھاتے میں پچیس ہزار فکس کرنے ہوں گے۔ اب تو بھولا سکتے میں آگیا اس کے پاس سو روپئے ہوتے تو وہ باپو کے لئے دوائی لے آتا پچیس ہزار کہاں سے آئیں گے۔ مایوس ہو کر بھولا ٹیکسی اسٹینڈ آیا اور چائے کی دکان میں چائے پیتے ہوئے ٹی وی دیکھنے لگا جو کہ اس کا معمول تھا۔ میڈیا والوں نے منتری جی کو سوالوں میں گھیر رکھا تھا۔ صاحب آپ کی سرکار میں تو ہر سستی ہونے کے بجائے پہلے سے زیادہ مہنگی ہوگئی ہے۔ کہاں ہے کالا دھن؟ نہ ہی آپ کے قول کے مطابق غریبوں کے کھاتے میں پیسے آئے؟ کیا یہی ہیں اچھے دن؟منتری جی نے دو ٹوک میں جواب دیا۔ ۔ ۔ ارے وہ سب تو بس ایک جملہ تھا۔ ۔ ۔ اور چلتے بنے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ سن کر بھولا کو دوہری مار پڑی۔ تھکے اعصاب لے کر وہ گھر پہنچا اورمنگو کے سرہانے بیٹھ کرروہانسہ ہو کرکہنے لگا۔ باپو۔ ۔ باپو۔ ۔ ۔ یہ اچھے دن کا صرف ڈھونگ تھا، ملک کی ساری عوام کو بے وقوف بنایا گیاہر چیز مہنگی ہوگئی، سبھی اشیاء میں ٹیکس بڑھا دئے گئے ہیں۔ جو پیسے بچا رکھے تھے وہ بینک افسر کے چائے ناشتے میں ختم ہوگئے۔ اب میرے پاس آپ کی دوائی کے پیسے بھی نہیں ہیں۔ ہمارے وہ پرانے دن ہی ٹھیک تھے نہیں چاہیئے ہمیں اچھے دن۔ باپو۔ ۔ باپو تم سن رہے ہو نا اس نے منگو کے ہاتھوں کو ہلکا سا جھنجھوڑاپر منگو کی حرکت قلب بند ہو چکی تھی اور وہ کب کا مالک حقیقی سے جا ملا تھا۔

تبصرے بند ہیں۔