ایسی نا مرد صحافت سے طوائف اچھی
ذوالقرنین احمد
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کے تحت ہر سال دنیا بھر میں ۳ میٔ کو عالمی یوم آزادی صحافت منایا جاتا ہے اقوام متحدہ کے تمام اراکین اس دن کو مناتے ہے یونیسکو نے اپنے جنرل کانفرنس کی ۲۶ ویں اجلاس میں منعقد ۱۵ اکتوبر سے ۷ نومبر ۱۹۹۱ پیرس کی قرارداد ۲۶/۴.۳ کے زریعے اس دن کو منانے کی سفارشات پیش کی جس کے تحت اقوام متحدہ جنرل اسمبلی نے اس دن کو منانے کی باقاعدہ منظوری دی اس دن کو منانے کی ابتداء ۱۹۹۳ میں ہویٔ اس دن کا مقصد دنیا بھر میں آزادی کا اندازہ کرنے کیلئے انکی آزادی پر حملوں سے میڈیا کی حفاظت صحافیوں کو خراج تحسین پیش کرنا ہے۔
صحافی اپنی زندگی عوام کیلے وقف کر دیتے ہے دُنیا بھر میں ہورہے حالات سے واقف کرانے کیلے جان اور وقت کی قربانی دیکر ان تک صحیح معلومات کو پہنچاتے ہیں عالمی یوم آزادی صحافت یہ دن صحافیوں کیلئے اہمیت کا حامل ہے حکومت کو اپنی غلطیوں سے آگاہ کرانا یہ صحافیوں کی آزادی کا حق ہے،جہاں پر بھی ظلم نا انصافیاں ہوتی ہے اسکے خلاف آواز بلند کرنا اور حق بات کو دنیا کے سامنے پیش کرنا اور عوام کے اندر صحیح شعور اور بیداری پیدا کرنا انکی ذہن سازی کرنے میں صحافی برادری کا اہم رول ہوتا ہے لیکن آج اس وقت پوری دنیا میں صحافی مسلسل بڑھتے دباؤ کا شکار ہیں انکے کام میں رکاوٹیں ڈالی جاتی ہیں انھیں دھمکایا جاتا ہیں یہاں تک کہ انہیں گولی مارو کر قتل کر دیا جاتا ہیں، جنگلوں اور ظلم کے شکار شام، عراق،فلسطین، افغانستان، جسے ممالک میں بھی صحافیوں کو ہر طرف سے جان لیوا خطرات کا سامنا کرنا پڑھ رہا ہے گزشتہ کچھ مہینے قبل فلسطینیوں پر ہورہے ظلم کی ریپورٹنگ کرنے والے صحافیوں پر حملہ کیا گیا انکے کیمرے اور موبائل چھین لیے گئے اور گولی ماری گئی، ایسے حالات میں بیک وقت متعدد زبانوں میں قارٔین، سامعین اور ناظرین تک معلومات پہنچانے والے بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کا کردار اور بھی اہم ہو جاتا ہے تاکے پابندیوں اور شر کی زد میں آئے ہوئے معاشرے تک غیر جانب دارانہ معلومات کی ترسیل رکنے نہ پائے۔
ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں بھی اب میڈیا دباؤ کا شکار ہے اور پیشہ ورانہ بنیادوں پر کام کرنے والے ذرایع ابلاغ کی عوام میں ساخت ماضی کے مقابلے میں خراب ہو چکی ہے یہی وجہ ہے کے میڈیا کا اپنے قابل اعتماد ہونے سے محروم ہوتے جانا اس وقت آزادی صحافت کیلئے سب سے بڑا خطرہ بن چکا ہے۔
ہندوستانی میں مجرمانہ ذہنیت کے ساتھ فساد پھیلانے اور نفرت پھیلانے کی ذہنیت کے ساتھ فروخت ہونے کی بیماری لگ گئی ہے جسکی وجہ سے میڈیا خطرے میں آچکا ہے کوبرا پوسٹ کے آپریشن ۱۳۶ میں بکاوں میڈیا کا چہرہ کھل کر سامنے آچکا ہے جس میں مودی میڈیا کے چینل اور اخبارات شامل ہے ٹأمس ناو، ریپبلک ٹی وی،راجیہ سبھا ٹی وی، ڈی این اے، انڈیا ٹی وی، دینک جاگرن، پنجاب کیسری، ہندی خبر، سب ٹی وی، سماچار،ریڈف ڈاٹ کام، انڈیا واچ، آج، سادھنا پرأیم نیوز، وغیرہ کا پردہ فاش کیا گیا جو پیسوں کے لالچ میں تشدد آمیز ہندوتوا آر ایس ایس، کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں اسٹینگ آپریشن میں دیکھا جاسکتا ہے کسطرح سے میڈیا کے یہ گروپ خود کو فخر سے ہندوتوا بریگیڈ کا سالار بتاتے ہے مودی میڈیا کا سچ آج کھل کر سامنے آچکا ہے ہم روزانہ جو نیوز پڑھتے اور دیکھتے ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ میڈیا کسطرح عوام کے ذہنوں کو تبدیل کر رہا ہے ملک میں ہورہے فساد اور حادثات کوکسطرح مذہبی پیرہن میں دیکھایا جاتا ہے اور فرقہ وارانہ ماحول تیار کیا جاتا ہے۔
ملک میں میڈیا حکومت کی گود میں بیٹھ کر ان کے اشاروں پر ناچ رہا ہے اور حکومت کے کیے گئے وعدوں کو بھلانے کے لیے عوام کے ذہنوں کو منتشر کرنے کا کام کررہا ہے، ملک میں ہورہے گھوٹالوں کو اجاگر کرنے کے بجائے حکومت کی واہ واہی میں لگا ہے ملک کے وزیراعظم کو غیر ملکی دوروں سے ابھی تک فرست نہیں مل رہی کہ عوام کے مسایٔل کو سن سکے اور ملک کس طرف جارہا ہے اسکا جأزہ لے، میڈیا ہی جب حق بولنے اور لکھنے سے قاصر ہو تو یہ ملک کی جمہوریت اور ساخت اور آزادی صحافت کیلے خطرہ ہے، میڈیا کو جمہوریت کا تیسرا ستون کہاں جاتا ہے، میڈیا اور صحافتی اداروں کا کام ہے کے وہ سچا ٔی کو منظر عام پر لأے اور حکومت کو اپنی غلطیوں سے آگاہ کریں لیکن یہ میڈیا بک چکا ہے یہ حکومت کے تلوے چاٹنے میں لگا ہوا ہے اور جو انصاف پسند صحافی برادری ہے جو حق بولنے سے نہیں ڈرتے کیونکہ اسلام بھی کہتا ہے کہ افضل ترین جہاد ظالم حکمرانوں کے سامنا حق کا کلمہ کہنا ہے، لیکن حکومت ان صحافیوں کےسامنے آنے تیار ہی نہیں انکے سوالوں کے جواب دینے تیار نہیں ہے، اور جو صحافی حکومت کے خلاف انکے گنڈا راج کے خلاف آواز اٹھاتے ہے تو ان حکمرانوں کے گنڈے اور حواری ایسے انصاف پسند صحافیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہے لیکن حق بولنے اور لکھنے والوں کی آواز دفن نہیں ہوتی ایک انصاف پسند کے مرنے پر ایسے ہزاروں آوازیں ظالموں کے خلاف بلند ہوتی ہے صحافت ایک مقدس پیشہ تھا لیکن کچھ فرقہ پرستوں اور مفاد پرستوں نے اپنے مفادات کی خاطر اسے بیچ کر اسکی عصمت کو تار تار کردیا ہے لیکن اب بھی حق بولنے والے اور لکھنے والے زندہ ہے سچ لکھ کر قلم کا حق ادا کر رہے۔

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔