پیدائش کے بعد بچے کے شیطان کے لمس کی وجہ سے رونے کے متعلق حدیث

ڈاکٹر احید حسن

بعض بچے پیدائش کے دوران سانس کی تکلیف یا رکاوٹ ( Asphyxia) سے اس حد تک متاثر ہوتے ہیں کہ وہ درد یا سردی یا کاربن ڈائی آکسائیڈ کا جواب نہیں دیتے، مطلب یہ ہے کہ وہ اتنے بے ہوش ہوچکے ہوتے ہیں کہ وہ انسانوں یا دوسرے مخلوقات جیسے  شیطان کے لمس کو محسوس نہیں کرسکتے ہیں۔

پیدائش کے بعد زندگی کے پہلے چند منٹ میں سائنس کے مطابق کے بچے اس وجہ سے روتے ہیں

1: وہ پیدائش کے صدمے سے زخمی اور تکلیف میں ہوتے ہیں، کیونکہ وہ ماں کے جسم میں پیدائش کے انتہائی تنگ راستے سے گزرتے ہیں۔ عام طور پر یہ عمل ان کے لئے اتنا تھکا دینے والا ہوتا ہے کہ وہ اگلے آٹھ گھنٹے تک سو جائیں گے۔ ,لیکن  یہ صرف ایک مفروضہ ہےاور کوئی ثابت شدہ سائنسی حقیقت نہیں ہے اور اگر ثابت ہو تو بھی کیا ثبوت ہے کہ یہ صرف اسی ایک ہی وجہ ہے اور شیطان کا چھونا اس میں شامل نہیں ہے؟  ,کیا سائنس سے ثابت ہوا کہ یہ معاملہ نہیں ہے اور اس کا حوالہ کیا ہے؟اگر سائنس کو فرشتے اور شیطان کی طرح کوئی چیز نہیں مل سکتی تو کیا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ وجود نہیں رکھتے؟کیا ثبوت کا میسر نہ ہونا غیر وجود کا ثبوت بن سکتا ہے جبکہ سائنس نے اس کائنات کے صرف ایک فیصد سائنسی حقائق دریافت کیے ہیں اور دیگر اب بھی پردے میں ہیں؟ یقینی طور پر نہیں۔

  2: ماں کے پیٹ میں بچہ نوماہ تک نسبتا گرم سیال انفسی یا Amniotic fluid میں رہتا ہے اور جب یہ باہر آتا ہے تو باہر کے نسبتا ٹھنڈے ماحول کے ساتھ رابطے کی وجہ سے جلد ٹھنڈا ہوتا ہے جس سے دو ریفلیکس یا غیر اضطراری فعل چلتے ہیں۔ -کولڈ کرائنگ ریفلیکس( Cold Crying Reflex) – پیدائش کے بعد ٹھنڈے گیلے پوتڑے یا لنگوٹ یا ڈایپر اس رویے کو تحریک دیتے ہیں۔ رونے والےبچے زیادہ سرد نہیں ہوتے۔کولڈ پریسر ریفیکس( Cold Pressor Reflex) – سرد جلد خون کے بلڈ پریشر کو بڑھادیتی ہے۔ اس طرح بچے کو رونے کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ سب سے پہلے ایک لمبا سانس لے،اس سےہوا بچے کے سکڑے ہوئے پھیپھڑوں تک پہنچ جاتی ہے اور اس ریفلیکس کے ذریعہ پلمونری شریان کھل جاتی ہے جو کہ پہلے سکڑی ہوتی ہے ,سردی پریس ریلیکس ابرٹا کے ذریعہ بلڈ پریشر میں اضافہ کرتی ہے۔ لہذا یہ دو تنفس اور گردش کے نظام کو محفوظ رکھتی ہیں۔یہاں ایک سوال ہے، تقریبا تمام بچے پیدائش کے بعد روتے ہیں۔ اگر گیلے  ٹھنڈے ڈایپر سے بچے  کے رونے والی بات سچ ثابت ہوتی ہے اور اگر ثابت ہو تو بھی کیا ثبوت ہے کہ یہ صرف اسی ایک ہی وجہ ہے اور شیطان کا چھونا اس میں شامل نہیں ہے؟  ,کیا سائنس سے ثابت ہوا کہ یہ معاملہ نہیں ہے اور اس کا حوالہ کیا ہے؟اگر سائنس کو فرشتے اور شیطان کی طرح کوئی چیز نہیں مل سکتی تو کیا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ وجود نہیں رکھتے؟کیا ثبوت کا میسر نہ ہونا غیر وجود کا ثبوت بن سکتا ہے جبکہ سائنس نے اس کائنات کے صرف ایک فیصد سائنسی حقائق دریافت کیے ہیں اور دیگر اب بھی پردے میں ہیں؟ یقینی طور پر نہیں۔

3: پیدائش کے بعد بچے مائع یا سیال انفسی یا Amniotic fluid سے باہر کے ماحول میں آتے ہیں جہاں یہ زیادہ ہل نہیں سکتے اور اس لیے روتے ہیں۔یہ بھی ایک مفروضہ ہے اور اس کی کوئی سائنسی گواہی نہیں اور اگر ثابت ہو تو بھی کیا ثبوت ہے کہ یہ صرف اسی ایک ہی وجہ ہے اور شیطان کا چھونا اس میں شامل نہیں ہے؟  ,کیا سائنس سے ثابت ہوا کہ یہ معاملہ نہیں ہے اور اس کا حوالہ کیا ہے؟اگر سائنس کو فرشتے اور شیطان کی طرح کوئی چیز نہیں مل سکتی تو کیا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ وجود نہیں رکھتے؟کیا ثبوت کا میسر نہ ہونا غیر وجود کا ثبوت بن سکتا ہے جبکہ سائنس نے اس کائنات کے صرف ایک فیصد سائنسی حقائق دریافت کیے ہیں اور دیگر اب بھی پردے میں ہیں؟ یقینی طور پر نہیں۔

4:  پیدائش کے بعد بچہ سخت شور اور عجیب آوازیں سنتا ہے جو اس کے رونے کا سبب بنتی ہیں۔ یہ بھی ایک مفروضہ ہے اور یہاں تک کہ اگر سچ ہے تو کیا یہ ثبوت ہے کہ یہ صرف سخت شور اور انسانوں کی آوازوں م کی وجہ سے ہے اور شیطان کی وجہ سےنہیں؟ اس وقت تک کوئی ثبوت نہیں۔

5:ماں کے پیٹ سے باہر آنے کے بعد پہلی بار عجیب اور نامانوس مخلوق کو دیکھ کر بچہ روتا ہے۔ یہ وجہ بھی صرف ایک مفروضہ ہے اور یہاں تک کہ اگر سچ ہے تو کیا یہ ثبوت ہے کہ بچے کا رونا صرف دوسرے مخلوقات کو دیکھنے کی وجہ سے ہے اور شیطان کےدیکھنے اورلمس سے نہیں  اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے ایک بھی نہیں۔

6:پیدائش کے بعد بچہ لوگوں کے چھونے اور سے روکتا ہے۔ اگر بچے لوگوں کے چھونے کی وجہ سے روتے ہیں تو شیطان کے لمس کی وجہ سے وہ کیوں نہیں رو سکتے ہیں اور اگر ہم کوئی چیز نہیں دیکھتے تو ہم اس کی موجودگی سے کیسے انکار کرسکتے ہیں؟ کائنات میں بے شمار چیزیں ہیں جنہیں ہم نے اس وقت کبھی نہیں دیکھا ہے۔

یہ رونا اس قدر اہم ہے کہ عام طور پر ڈاکٹرپیدائش کے بعد بچے کو رلانےکے لئے بچے کو چوٹ پہنچاتے ہیں۔ لیکن روونے کا کیا سبب ہے؟  ,سائنس یہ ٹھیک طور پہ ابھی تک بالکل نہیں جانتی  ہے اور جانے کے بغیر ہم کیسے انکار کر سکتے ہیں کہ یہ چلانا شیطان کے لمس کی وجہ سے نہیں ہے جسے ہم نہیں دیکھ سکتے ہیں؟ جب کہ سائنس کے مطابق آگ سے بنی مخلوقات جیسا کہ جن موجود ہوسکتے ہیں۔

جن اور شیطان بڑے پیمانے پر برقی مقناطیسی سپیکٹرم پر موجود ہیں۔ ,اگر آپ ایک پراناریڈیو چلائیں  تو آپ برقی مقناطیسی سپیکٹرم کا مشاہدہ کرسکتے ہیں, آپ ریڈیو کے شور میں کبھی کبھی آپ برقیوں اور برقی مقناطیسی شعاعوں  کا بہاؤ سن سکتے ہیں۔ , اشیاء یا دیگر مخلوقات کے برقی مقناطیسی میدان اور ہمارے اپنے اعصابی نظام کے درمیان باہم طبعی تعامل  ہوسکتا ہے جس سے یہ مخلوقات جیسا کہ جن ہمارے دماغی و نفسیاتی افعال پہ متاثر ہوسکتے ہیں۔ یہی وہ مخلوقات ہیں جو برقی مقناطیسی قوّت کے طور پہ موجود ہوسکتی ہیں اور جن کو مذہب نے جنات اور شیاطین کے طور پہ ایک ایسی آگ قرار دیا ہے جس کا دھواں نہیں یعنی وہ نظر نہیں آتی ,یہی برقی مقناطیسی تابکاری دوسرے وسائل سے بھی آسکتی ہے، حقیقت میں کائنات کی سب اشیاء یہ  توانائی خارج کرتی  ہیں۔ ,مختلف اشیاء کی کیمیائی ساخت اس توانائی کا تعین کرتی ہے۔ ,زندہ نامیاتی مخلوقات   غیر نامیاتی یا Inorganic  چیزوں کے مقابلے میں ایک مختلف قسم کی برقی مقناطیسی شعاعیں( Electromagnetic radiation) خارج  کرتی ہیں، اور یہ  بات اس کی وضاحت کر سکتی ہے کہ کس طرح ہڈیوں میں موجود  کیلشیم کے نیٹ ورکوں کی منفرد توانائی( Energy signature) کو جنات  ہڈیاں کھاکر حاصل کرتے ہیں جیسا کہ مذہب کا تصور ہے۔ اسی طرح شیاطین جو کہ جنات ہیں بچے کو تکلیف پہنچا کر بالکل اس کے رونے کا سبب بن سکتے ہیں۔

لیکن واضح طور پر شیطان اور جہنم دونوں کو سمجھنا  بہت مشکل ہے، کیونکہ کائنات کی ہماری تفہیم محدود ہے۔ انسان یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اگر اس نے کوئی چیز نہیں دیکھی تو وہ چیز وجود نہیں رکھتی اور مسلسل کئی صدیوں سے ہونے والی دریافتیں یہ ثابت کرتی ہیں کہ ہم نے کافی کچھ نہیں دیکھا اور بہت کو لمبے عرصے تک دیکھنے کے قابل نہیں ہوسکیں گے۔

پرانے زمانے کے انسان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ پودوں میں بھی جانوروں کی طرح نر(male) اور مادہ (female) ہوتے ہیں۔ البتہ جدید نباتیات یہ بتاتی ہے کہ ہر پودے کی نر اور مادہ صنف ہوتی ہے۔ حتٰی کہ وہ پودے جو یک صنفی (Unisexual) ہوتے ہیں۔ ان میں بھی نراور مادہ کے امتیازی اجزاء یکجا ہوتے ہیں۔قرآن نے یہ بات چودہ سو سال پہلے کی تھی۔

وَّ اَنْذَ لَ مِنَ السَّمَآ ئِ مَآ ئً ط فَاَ خْرَجْنَا بِہ اَزْ وَا جًا مِّنْ نَّبَا تٍ شَتّٰی ہ

ترجمہ:۔ اور ہم نے آسمان سے پانی برسایا اور اس میں ہم نے مختلف اقسام کے پودوں کے جوڑے پیدا کیے جو ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں۔

وَ اَوْ حٰی رَ بُّکَ اِ لَی النَّحْلِ اَنِ ا تَّخِذِ یْ مِنَ الْجِبَا لِ بُیُوْ تًا وَّ مِنَ الشَّجَرِ وَ مِمَّا یَعْرِ شُوْ نَ ہ ثُمَّ کُلِیْ مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰ تِ فَا سْلُکِیْ سُبُلَ رَ بِّکِ ذُ لُلًا ط

ترجمہ:اور دیکھو تہمارے رب نے شہد کی مکھی پر یہ بات وحی کر دی کہ پہاڑوں میں اور درختوں میں اور اُونچی چھتریوں پر اپنے چھتے ّ بنا تے اور ہر طرح کے پھولوں کا رس چوستے اور اپنے رب کی ہموار کی ہوئی راہوں پر چلتی رہ۔

وان فرش (Von Frisch) نے شہد کی مکھیوں کے طرز عمل اور ان میں رابطہ وابلاغ (Communication) کی تحقیق پر 1973ء میں نوبل انعام حاصل کیا۔ شہد کی کسی مکھی کو جب کوئی نیا باغ یا پھول دکھائی دیتا ہے تو وہ اپنے چھتے میں واپس جاتی ہے اور اپنی ساتھی شہد کی مکھیوں کو اُس مقام کا ٹھیک ٹھیک سمت اور وہاں پہنچنے والے راستے کے مفصّل نقشے سے آگاہ کرتی ہے۔ شہد کی مکھی، پیغام رسانی کا یہ کام خاص طرح کی جسمانی حرکات سے لیتی ہے جنہیں شہد کی مکھی کا رقص (Bee dance) کہا جاتا ہے۔ ملا حظہ فرمائیے کہ مذکورہ بالا آیات مبارکہ میں قرآن عظیم وشان نے کتنی صراحت کے ساتھ یہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شہد کی مکھی کو خاص طرح کی مہارت عطا فرمائی ہے جس سے لیس ہو کر وہ اپنے رب کے بتائے ہوئے راستے تلاش کر لیتی ہے۔ ایک اور توبہ طلب نکتہ یہ ہے کہ مذکورہ بالا آیات مبارکہ میں شہد کی مکھی کے لیے جو صنف استعمال کی گئی ہے، وہ مادہ (female) کی ہے (یعنی، فَاسُلِکی اور کُلی) اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ غذا کی تلاش میں نکلنے والی شہد کی مکھی مادہ ہوتی ہے۔ بالفاظ دیگر سپاہی یا کارکن شہد کی مکھی بھی مادہ ہی ہوتی ہے۔

وَ حُشِرَ لِسُلَیْمٰنَ جُنُوْ دُ ہ مِنَ الْجِنِّ وَ الْاِ نْسِ وَ اطَّیْرِ فَھُمْ یُوْ زَ عُوْنَ ہ حَتّٰی اِ ذَآ اَ تَوْا عَلٰی وَ ادِ النّمْلِ قَا لَتْ نَمْلَةُیّٰاَ یُّھَا النَّمْلُ ادْ خُلُوْا مَسٰکِنَکُمْ لَا یَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیْمٰنُ وَ جُنُوْ دُ ہ وَ ھُمْ لَا یَشْعُرُوْ نَ ہ

ترجمہ:سلمان کے لیے جن اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کیے گئے تھے اور وہ پورے ضبط میں رکھے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ جب یہ سب چیونٹیوں کی وادی میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا۔ اے چیوٹیو ! اپنے بلوں میں گھس جائو کہیں ایسا نہ ہو کہ سیلمان اور اس کے لشکر تمھیں کچل ڈالیں اور انہیں خبر بھی نہ ہو۔

حالیہ برسوں کے دوران ہمیں چیونٹیوں کے طرز حیات، باہمی روابط اور پیچیدہ معلومات کے تبادلے کے حوالے سے بہت کچھ علم ہو چکا ہیں۔ یہ معلومات دور جدید سے پہلے کے انسانوں کو حاصل نہ تھیں۔ تحقیق سے انکشاف ہواہے کہ وہ جانور یا حشرات (کیڑے مکوڑے) جن کا طرز حیات انسانی معاشرت سے غیر معمولی مما ثلت رکھتا ہے۔ یہ اسلام کے وہ سائنسی حقائق ہیں جن کا انکار کیا جاتا تھا لیکن جن کو بعد میں جدید سائنس نے ثابت کردیا۔اسی طرح شیطان کے لمس سے بچے کے رونے والی بات بھی ہے۔ عین ممکن ہے کہ سائنس کسی دن اس کو بھی دریافت کرلے۔

سائنسی دریافتوں اور اعدادو شمار میں سالوں بلکہ بعض اوقات صدیاں تک لگتی ہیں اور جستجو و ترقی کے اس سفر میں پوشیدہ حقائق کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ہم سب کو جستجو اور ترقی کے اس سفر کا مسافر بننا چاہیے لیکن ان حقائق کا انکار نہیں کرنا چاہیے جو اب تک ہماری نظر سے مخفی ہیں۔

  حوالہ جات:

www۔quora۔com
https://ur۔m۔wikipedia۔org/wiki/%D9%82%D8%B1%D8%A2%D9%86_%D8%A7%D9%88%D8%B1_%D8%AC%D8%AF%DB%8C%D8%AF_%D8%B3%D8%A7%D8%A6%D9%86%D8%B3
http://www۔sciencefocus۔com/qa/why-do-newborn-babies-cry

تبصرے بند ہیں۔