بابری سے دادری تک- پر فریب سیاست کی داستان خوں چکاں

 ڈاکٹر عابد الرحمن(چاندور بسوہ)

بابری مسجد اپنی شہادت کے24 سال بعد ایک بار پھر خبروں میں ہے لیکن اس لئے نہیں کہ اسکی حفاظت پر مامورسلامتی اہلکاروں کو ان کی لا پروائی اور اپنے فرض سے کوتاہی کی سزا ملی ہو ،اس لئے بھی نہیں کہ مسجد مسمار کر نے والے تمام خاص و عام لوگ مجرم قرار دئے گئے ہواورانہیں ان کے کئے کی قانونی سزا دی گئی ہو،اس لئے بھی نہیں کہ مسجد کے اطراف لوگوں کو جمع کروانے والے اور انہیں اشتعال دلانے اور ’بے قابو ‘ ہوجانے کے لئے اکسانے والے خاص خاص لوگوں پر قانون کا شکنجہ کسا گیا ہو، اس لئے بھی نہیں کہ مسجد مسماری کے بعد پورے ملک میں جگہ جگہ پھوٹ پڑ نے والے فسادات کو پھوڑنے والے اصل دماغوں کو قانون کی چکی میں پیسنے کا حکم دیا گیا ہو اور اس لئے بھی نہیں کہ مسجد کی جگہ مسلمانوں کے حوالے کردی گئی ہو اور وہاں پہلے ہی کی طرح عالی شان مسجد کی تعمیر کی تیاری کی جارہی ہو ۔یہ ساری چیزیں سارے الزامات سارے شواہد اب 24 سالوں کا لمبا عرصہ بیت جانے کے بعد بھی جوں کے توں برقرار ہیں ان کے مطابق ابھی تک ملزمین پر کوئی خاص قانونی کارروائی نہیں کی گئی بلکہ الٹا ہوا کہ بابری مسجد کے ملزمین ترقی ہی کرتے گئے ۔اب بھی بابری مسجد خبروں میں آئی تو وہی مسلمانوں سے دھوکہ دہی اور ظلم کے لئے،حال ہی میں سپریم کورٹ نے تین مسلم افراد کو بابری مسجد مسماری کی پہلی برسی پر مختلف ٹرینوں میں پانچ بم بلاسٹ کروانے کے الزام سے باعزت بری کرکے ان کی فوراً رہائی کا حکم دیا ہے ۔انڈین ایکسپریس میں شائع ان کی روداد کے مطابق انہیں ۲۳ سال پہلے گرفتار کیا گیا تھا ان پر الزام تھا کہ انہوں نے پانچ اور چھ دسمبر کی درمیانی رات میں ممبئی کانپور سورت حیدرآباد اور کوٹا میں پانچ الگ الگ ٹرینوں میں بم بلاسٹ کروائے تھے۔ اس کے علاوہ اسی سال اگست ستمبر میں ہوئے کچھ غیر حل شدہ بم دھماکوں کا الزام بھی انہی پر ڈال دیا گیا ،لیکن ان کے خلاف پولس کے پاس ایک ہی ثبوت تھا اوروہ تھا ان کے اقبالیہ بیانات جو پولس کسٹڈی میں حاصل کئے تھے ۔ پولس نے ان کے اقبالیہ بیانات کوانکے خلاف حتمی ثبوت بنانے کے لئے ان پر ٹاڈا کی کچھ دفعات بھی لگادی تھیں لیکن حیدرآباد سیشن کورٹ نے ان لوگوں پر سے ٹاڈا ہٹا دیا اور سپریم کورٹ نے بھی اس فیصلہ کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ بے ضابطگی سے ٹاڈا کا استعمال کر نے پر حیدرآباد پولس کمشنر کو پھٹکار بھی لگائی۔ 2007 میں حیدرآباد کی ٹرائیل کورٹ نے ان تینوں کو باعزت بری کردیا تھا لیکن 2004 میں اجمیر کی خصوصی ٹاڈا عدالت نے 1996 میں حیدرآباد سیشن کورٹ اور اس کے بعد سپریم کورٹ کے ذریعہ ٹاڈا ہٹا کر ناقص قرار دئے گئے اقبالیہ بیانات ہی کی بیناد پر ان تینوں کو عمر قید کی سزا سنادی جسے انہوں نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا اور اب سپریم کورٹ نے اجمیر کی عدالت کے فیصلے کو غلط قرار دیتے ہوئے ان کے تمام مقدمات خارج کردئے اور انکی فوراًرہائی کا حکم دیا۔ لیکن اس فیصلے کے لئے انہیں بارہ سال اور جیل سے رہا ہونے کے لئے کل تئیس سال تک کا لمبا عرصہ انتظار کرنا پڑا اور یہ انتظار کوئی انتظار عشق نہیں تھا بلکہ اپنے والدین بھائی بہنوں سے اور خود اپنی زندگی سے بھی بہت دورجیل کی کوٹھڑی سے رہائی کا انتظار تھا ان پر جو کچھ بیتی انہیں ہی معلوم لیکن ان کا یہ تئیس سالہ دور اسیری ہی ہمارے رونگٹے کھڑے کئے دے رہا ہے ۔ اس کیس میں بھی یہی سوال اٹھتا ہے کہ کیا پولس ،سرکار اور سرکاری قانونی ماہرین کو سپریم کورٹ میں جانے تک بھی یہ احساس نہ ہوسکا کہ ان کے پاس ان تینوں کے خلاف موجود ثبوت انتہائی کمزور اور نا قابل یقین ہیں؟یہ بات قبول ہی نہیں کی جا سکتی کہ انہیں اس بات کا ادراک نہیں ہوگا ،اس مقدمے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ ہماری پولس کا مقصد مسلمانوں کو بلی کے بکرے بناکر انہیں لمبے عرصہ تک قید رکھ کر ان کا مستقبل تاریک کرنا زندگی برباد کردینا اور ان کے ذریعہ پوری قوم پر دہشت گردی کا دھبہ لگا دینا ہی رہا ہے ،مقدمہ کے فیصلے کی انہیں کوئی پرواہ نہیں ۔مسلم ملزمین کے معاملے میں کبھی اس طرح کی جانچ نہیں کی گئی جس طرح اب مبینہ ہندو دہشت گردوں کے متعلق کی جارہی ہے اور انہیں کلین چیٹس دی جارہی ہیں۔مذکورہ بالاتین مسلم افراد میں سے ایک نثار احمد کو جس وقت گرفتار کیا گیا تھا اس کی عمر بیس سال تھی اور اب سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد وہ جب رہا ہوا تو اسکی عمر ترتالیس سال ہے اس نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے بڑا چبھتا ہوا سوال کیا ہے کہ سپریم کورٹ نے مجھے میری آزادی واپس دلوائی ہے لیکن مجھے میری زندگی کون واپس دے گا؟ دادری بھی ایک مرتبہ پھر خبروں میں ہے اور وہ بھی اسلئے نہیں کہ مرحوم محمد اخلاق کے بے رحم قاتل کیفر کردار تک پہنچا دئے گئے یا قاتلوں کو اس قتل پر اکسانے والوں کو سزا سنادی گئی ۔دادری خبروں میں اس لئے ہے کہ اب متھورا کی فارنسک لیباریٹری سے رپورٹ آئی ہے کہ اس معاملہ میں ضبط کیا گیا گوشت ’گائے یا اس کی نسل کا ہے‘۔یہ رپورٹ پچھلے سال ہی آچکی تھی لیکن اب افشا ہوئی ہے۔اس معاملہ میں یہ رپورٹ اثر انداز نہیں ہونی چاہئے کیونکہ پہلے تو پولس کے سیزر میمو کے مطابق گوشت اخلاق کے گھر یا فرج سے نہیں بلکہ دیہات کے چوراہے پر موجود ٹرانسفارمر کے پاس ملا تھا ( اکونامکس ٹائمز آن لائن 2 جون 2016) اسی طرح وزیر اعلیٰ یوپی اکھیلیش یادو جی نے بھی کہا ہے کہ اخلاق کے فرج سے کوئی قابل اعتراض چیز نہیں ملی تھی( انڈین ایکسپریس آن لائن کم جون 2016 )۔ اور دوسرے اور سب سے اہم کہ دادری کا کیس’ گؤ ہتیا ‘سے زیادہ’ منوشیہ ہتیا‘ کا ہے اور منوشیہ کی غیر قانونی ہتیا کسی بھی قیمت پر اور کسی بھی بہانے سے نظر انداز نہیں کی جانی چاہئے۔ حالانکہ کہا یہی جا رہا ہے کہ اس رپورٹ سے اخلاق کے قتل کے مقدمہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا لیکن جس طرح اس رپورٹ کی تشہیر کی گئی اور کی جارہی ہے اس سے ایسا لگتا ہے کہ اس ایک تیر سے کئی شکار کی کوشش کی جارہی ہے ایک تو یہ کہ اس رپورٹ کو بنیاد بنا کر مرحوم اخلاق اور اس کے خاندان کو ہی مجرم قرار دیتے ہوئے قاتلوں کی حمایت میں عوامی رائے بنانا کی کوشش کی جارہی ہے ،بی جے پی کے رکن لوک سبھا یوگی ادتیہ ناتھ نے تو باقائدہ اس کی شروعات بھی کردی ہے انہوں نے مطالبہ ٹھوک دیا کہ اخلاق کے خاندان پر گؤکشی کا مقدمہ درج کیا جائے، انہیں دی گئی معاشی امداد اور دیگر سہولیات واپس لے لی جائیں ،اتنا ہی نہیں انہوں نے بڑی ڈھٹائی سے یہ مانگ بھی کر ڈالی کہ اخلاق کے قتل میں گرفتار کئے گئے ہندو نوجوانوں کو جیل سے رہا بھی کیا جائے ( فرسٹ اسپاٹ یکم جون 2016 )دوسرے یہ کہ یوپی میں اسمبلی انتخابات نزدیک ہیں وہاں فرقہ وارانہ سیاست کو ہوا دینے کے لئے بھی اس رپورٹ کا استعمال کیا جاسکتا ہے اورایسا لگتا ہے کہ یوگی جی کے مطالبات کا پس منظر دراصل یہی ہے۔ابھی دو سال پہلے بی جے پی نے یوپی اسمبلی کے ضمنی انتخابات لو جہاد وغیرہ کے نام مسلم مخالف فرقہ وارانہ سیاست کے ذریعہ ہی لڑے تھے اس بار تو وہ کامیاب نہیں ہو سکی تھی لیکن اب کی بار شاید گؤ ماتا کے نام پر اپنا ہندو ووٹ بنک مضبوط کر نے کے ساتھ ساتھ اس کا دوسرا اور اہم شکار تمام غیربی جے پی پارٹیاں ہیں کہ اس رپورٹ نے اور اس پر بی جے پی رکن لوک سبھا کی چینخ پکار نے ان پارٹیوں کو مخمصہ میں مبتلا کر دیا ہے کہ وہ اگر گؤ رکشا کی مخالفت کریں تو ’ ہندو مخالف‘ قرار پائیں گی اور اگر گؤ رکشا کی حمایت میں مرحوم اخلاق کو مورد الزام ٹھہرائیں تو ’ مسلم مخالف ‘ قرار پائیں گی اور ان دونوں صورتوں کا فائدہ براہ راست بی جے پی اور اس کے اتحادیوں کو ہی ہوگا۔ یہ رپورٹ اخلاق کے خاندان ، اس کے لئے انصاف کی لڑائی لڑنے والوں اورمسلمانوں سے زیادہ یوپی کی حکمراں جماعت ایس پی اور دوسری بڑی جماعت بی ایس پی کے لئے پریشان کن ہے کہ ایک تو یوپی کے وزیر اعلیٰ اکھیلیش یادو اپنے آپ کو تمام قوموں اور ذاتوں کا لیڈر بنا کر پیش کر نے کی کوشش کر رہے ہیں اور دوسرے ان کی پارٹی اورمایاوتی جی کی بی ایس پی دونوں اقتدار کے لئے مسلم ووٹوں کو اپنے حق میں کیش کر نے کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔ اگر وہ اس معاملہ میں مرحوم اخلاق کی حمایت کریں توانکا ہندو ووٹ کھسک سکتا ہے اور اگر مرحوم اخلاق کی مخالفت کریں تو مسلم ووٹ کھسک سکتا ہے۔ دونوں صورتوں میں بی جے پی کا فائدہ طئے ہے اب دیکھنا ہے کہ اس معاملہ انصاف کی فتح ہوتی ہے یا سیاست کی۔ ہمارا مطالبہ تو یہی ہے کہ یوپی سرکار مرحوم اخلاق کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھے ۔اور یہ اس کی ذمہ داری بھی ہے۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ واقعی اخلاق نے گائے ہی ذبح کی تھی اور اسکا گوشت کھایا تھا تو بھی اس کا یہ مطلب نہیں کہ لوگ گؤ رکشا کے نام پر اسے بے رحمی سے پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیں ،اگر اخلاق گؤ کشی کا مجرم تھا تو بھی اس کے قتل کو کسی بھی طرح جائز نہیں ٹھہرایا جا سکتا اور نہ ہی گؤ رکشا کے نام پر ہوئی اس غیر قانونی کارروائی کی حمایت کو جائز ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ ( جمعہ 3جون 2016 )

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔