فلوجہ:معصوم شہریوں کی نئی قتل گاہ!

نایاب حسن
داعش سے آزادکرانے کے بہانے اس وقت عراقی شہرفلوجہ پربم و بارودکی پیہم برسات کی جارہی ہے اورشہرکے معصوم وبے قصورلوگ ایک طرف امریکہ کی سرپرستی میں عراقی حکومت کی جانب سے منظم کی گئی افواج کی زدپرہیں،تودوسری طرف داعش کے خوں خوارجنونیوں کااُنھیں خوف ہے۔موجودہ صورتِ حال کی مزید تفصیل سے پہلے اس شہرکی ماضی کی تاریخ پرایک اُچٹتی نگاہ ڈال لینی چاہیے۔فلوجہ شہرعراقی صوبہ انبارمیں آتاہے اور یہ دارالسلطنت بغدادسے تقریباً ساٹھ کیلومیٹرشمال مغرب میں واقع ہے، اقوام متحدہ کے اعداد وشمار کے مطابق 2004ء میںیہاں کی آبادی چارلاکھ تہترہزارتھی،جبکہ صدام حسین کے دورِ صدارت میں کی گئی سرکاری مردم شماری کے مطابق وہاں کی کل آبادی سات لاکھ تھی،اچھے دنوں میں فلوجہ عراق کے اُن شہروں میں شمارہوتا تھا،جہاں مساجدکی کثرت تھی،2004ء سے پہلے اس شہرمیں کل دوسوپچاس مساجدتھیں،اس شہرکی زیادہ ترآمدنی کا ذریعہ کھیتی تھی،چوں کہ اس کے جنوبی کنارے پر دریائے فرات واقع ہے؛اس لیے پانی کی فراوانی ہوتی تھی اورمختلف موسموں میں لوگ الگ الگ قسم کی فصلیں اُگاتے تھے،اسی مناسبت سے اس شہرکانام ’فلوجہ‘پڑا؛کیوں کہ اس کا ترجمہ ہے وہ زمین جوکھیتی کے لائق ہو(لسان العرب)سیاسی و دفاعی اعتبار سے ماضی سے لے کراب تک اس شہر کوغیر معمولی اہمیت حاصل رہی ہے؛چنانچہ جس زمانے میں دنیاپرفارس و روم کی قوت وشوکت کے غلغلے تھے،اُس وقت بھی یہ عراقی شہرعالمی طاقتوں کی باہمی کشمکش کی آماجگاہ رہا، اسلامی دورِحکومت کے اموی عہدمیں یہ علاقہ فوجی اسٹیشن کے طورپراستعمال میں رہا،عباسیوں نے بھی بغدادکی تاسیس سے پہلے صوبۂ انبارکوہی صدرمقام بنایاتھا،اسی طرح عثمانی خلافت کے دورمیں بھی فلوجہ میں ہی فوجی اسٹیشن ہواکرتاتھا۔جب بیسویں صدی کے چھٹے عشرے میں بعثیوں نے عراق پرقبضہ کیا، توانھوں نے بھی اس خطے کی اسٹریٹیجک اہمیت کوسمجھااوریہ علاقہ ان کے لیے بھی بہت خاص رہا،یہاں تک کہ9؍اپریل2003ء کوبغدادسمیت پوراعراق امریکی جارحیت کاشکارہوکرکشت وخون اور جبروقہرکے ایک نئے دورمیں داخل ہوگیا،جس کا سلسلہ تاہنوزجاری ہے۔امریکہ نے اس شہراور پورے عراق پرحملہ تواس بہانے سے کیاتھاکہ صدام حسین نے مہلک ہتھیاربناکرچھپارکھے ہیں،جودنیاکے لیے خطرناک ہوسکتے ہیں؛لیکن اس کی کمینگی،خست اور بے ایمانی کی داددیجیے کہ امریکی افواج نے ہی عراق پر حملے کے دوران بعض ایسے ہتھیار بھی استعمال کیے،جوعالمی قانون کے مطابق ممنوع تھے،جب 2003ء میں امریکہ فلوجہ شہرپرقبضہ نہ کرسکااور وہاں کے شہریوں نے زبردست پامردی اور جرأت و ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکی ظلم و جورکا دنداں شکن جواب دیا،تواس نے وہ مہلک ترین ہتھیاراستعمال کیا،جس کے اندوہ ناک اثرات وہاں پیداہونے والے بچوں پراب بھی ظاہراورنمایاں ہیں،عالمی رپورٹس میں اس شرمناک حقیقت کا اعتراف کیاگیاہے،2010ء میں برطانوی اخبار’انڈیپنڈنٹ‘میں لیڈزیونیورسٹی برطانیہ میں ماحولیات کے ایک پروفیسرنے اپنے کالم میں ناٹوسے مطالبہ کیاتھاکہ ان ہتھیاروں کی جانچ کی جانی چاہیے،جوامریکی افواج نے فلوجہ پر حملے کے دوران استعمال کیے تھے۔جس دن سے امریکہ نے عراق پرقبضہ کیااور فلوجہ شہراور وہاں کے شہریوں کواپنی درندگی و حیوانیت کانشانہ بنایاہے،تب سے لے کر آج تک وہاں امن و امان کانشان نہیں ہے،جس شہرمیں کل آبادی سات لاکھ لوگوں پر مشتمل تھی،وہاں اب تازہ خبروں کے مطابق صرف سترہزارلوگ بچے ہیں،باقی شہری یاتوناکردہ گناہی کے جرم میں شہید ہوچکے ہیں یاوہاں سے کسی طرح جان بچاکرنکلنے کے بعداب پڑوس کے ملکوں میں دربدری کی زندگی گزاررہے ہیں۔
2013ء کے اواخراور2014ء کے آغازمیں اسلامی دنیا،خاص طورسے عراق و شام میں آفت کانیاپرکالہ’داعش‘کے نام سے ظہورپذیرہوا،جس نے معدودے چند دنوں میں نہ صرف عراق اور شام کے بہت سے علاقوں کی اینٹ سے اینٹ بجادی؛بلکہ اس کی ہیبت کا سکہ پوری دنیاپر بیٹھ گیا اور چند ہزار جاں بکف سرپھروں کی جماعت کوقابوکرنے کے لیے امریکہ بہادر کی سربراہی میں چالیس ملکوں کاایکاتیارکرناپڑا۔اس نے سب سے پہلے عراق کے مرکزی شہرموصل اور انبارکے مختلف خطوں پر قبضہ کیاتھا،فلوجہ پرجنوری2014ء میں اس کا قبضہ ہواتھا،اس کے بعد سے گزشتہ پورے سال بھی عراقی حکومت ، اتحادی افواج اور داعش کے درمیان بم و بارودکاکھیل جاری رہا،یہاں تک کہ اب 23؍مئی کوموجودہ عراقی وزیراعظم حیدرالعبادی کے اعلان کے بعدعراقی افواج،عام شہری،قبائلی جماعتوں،امریکی فوج اور ایرانی ملیشیانے مل کرداعش کے زیرِتسلط علاقوں کوواپس لینے کی عسکری تحریک چھیڑی،ان لوگوں نے اب تک متعددچھوٹے چھوٹے شہروں کوداعش کے قبضے سے آزادبھی کروالیاہے،مگرفلوجہ میں گزشتہ ایک ہفتے سے زبردست مقابلہ آرائی جاری ہے اورنتائج کاکچھ پتہ نہیں۔حالاں کہ امریکہ نے شروع میں عراق کی اِس لڑائی میں شرکت سے انکارکیاتھااور خود عراقی وزیراعظم اوروہاں کے سینیٹرزمیں سے اکثرلوگوں کا موقف بھی یہی تھا،مگرخداجانے پھرکیاگول مال ہواکہ امریکی فوج بھی اس معرکے میں شامل ہوگئی،اسی طرح باوثوق ذرائع، متعددانٹرنیشنل اخباروں اور نیوزچینلوں میں یہ خبرآرہی ہے کہ اس لڑائی میں ایرانی فوج کاایک جتھہ بھی حصہ لے رہاہے۔
فلوجہ شہرمیں جاری لڑائی کی ظاہری صورتِ حال تووہی ہے،جواوپربیان کی گئی ہے،مگر اصل صورتِ حال یہ ہے کہ وہاں جوساٹھ سترہزارلوگ بچے ہوئے ہیں،وہ دراصل چکی کے دوپاٹوں کے بیچ پھنسے ہوئے ہیں،ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے،انسانی حقوق کے عالمی ادارے چیخ رہے ہیں،مگران کی آوازوں کاکیااثرہوسکتاہے،داعش توخیران کے خیر خواہ ہیں ہی نہیں؛لیکن جولوگ فلوجہ کوآزادکرواناچاہتے ہیں،خود وہ بھی ان معصوموں کی جانوں کے دشمن ہیں،عراقی وزیراعظم عالمی میڈیاکوگمراہ کرناچاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہاں موجودشہریوں کوہم کچھ نہیں ہونے دیں گے؛حالاں کہ اندر کی حقیقت یہ ہے کہ فلوجہ میں ان کی فوج بھی وہی انسانیت سوزحرکتیں کررہی ہیں،جوداعش سے منسوب ہیں،اور فلوجہ میں ہی نہیں،جن شہروں کوبھی حکومتی اور اس کی اتحادی فوج نے داعش سے آزادکروایاہے،وہاں شہریوں کے ایک مخصوص طبقے کوگھیرگھیرکرمارا،انھیں خوارکیااورجس طرح وہ داعش کے زیرِکنٹرول بے خانماں تھے،اسی طرح اب بھی نہ ان کے پاس گھرہے،نہ در!جولوگ فلوجہ کوداعش کے ظلم وستم سے آزادکروانے گئے ہیں،آپ کوحیرت ہوگی کہ وہی لوگ اس شہرکے نہتے، معصوم اور بے قصورشہریوں کوپکڑپکڑکر ماررہے ہیں،ان کی تذلیل و تحقیرکررہے ہیں،انھیں گالیاں دے رہے ہیں اورباقاعدہ ایک نہایت تنگ کال کوٹھری بنائی ہوئی ہے،جس میں فی الوقت سات سولوگوں کوقیدکرکے رکھاگیاہے،اس کال کوٹھری میں قیدکیے گئے سب کے سب لوگ فلوجہ کے سنی شہری،بچے اور بوڑھے ہیں،یہ من گھڑت خبرنہیں؛بلکہ 2؍جون کوایمنسٹی انٹرنیشنل کے سکریٹری جنرل سلیل شیٹی کی ’الجزیرہ‘ سے بات چیت پرمبنی ہے اوراس اخبارمیں شائع بھی ہوچکی ہے،فلوجہ میں جولوگ زندہ ہیں اور کسی طرح داعش اور عراقی فوج کی دست رس سے بچے ہوئے ہیں،انھیں سخت غذائی قلتوں کا سامنا ہے، باہر سے کھانے پینے کاکوئی سامان اندرنہیں جاپارہااوراندرموجودغذائی ذخائرنہایت ہی قلیل ہیں اور اس کی وجہ سے ان کی قیمتیں اتنی زیادہ ہیں کہ لوگ انھیں خریدنے سے بھی معذورہیں،ایمنسٹی انٹرنیشنل نے امریکہ وایران سے مطالبہ کیاہے کہ کہ وہ عراقی حکومت پردباؤبنائے کہ فلوجہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہ کی جائے،اقوامِ متحدہ نے بھی اپنی سخت تشویش کااظہارکیاہے،مگراس سب سے ہوتاکیاہے،حقیقتاً داعش کے درِ پردہ امریکہ وایران کی بھرپورمددکے ذریعے عراق کی موجودہ حکومت فلوجہ ہی نہیں ،وہاں کے تمام شہروں میں پائے جانے والے سنیوں کوتہہِ تیغ کردینا چاہتی ہے،عالمی میڈیایاہندوستانی اردو میڈیاہمیں اصل حقائق سے دوراوراندھیرے میں رکھے ہواہے،وجہ یہ ہے کہ جس طرح دنیاکے بیشترمؤثرصحافتی ذرائع پرصلیبی و صہیونی عناصرکاقبضہ ہے، اسی طرح ہندوستان کا اردومیڈیا مجموعی طورپرایک مخصوص متعصبانہ فکرمیں ڈوبے ہوئے عناصرکے نرغے میں ہے،کیایہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ دہلی کے ایک سب سے بڑے اورملٹی ایڈیشن اردواخبارکے ایڈیٹرداعش اوراس کے مظالم کے بارے میں توخوب لکھتے ہیں(اوراس پر ہمیں بھی اعتراض نہیں) مگر یمن میں حوثیوں کی دھماچوکری،ظلم و بربریت پران کاقلم تاہنوزخاموش ہے،شام میں روس اور بشارالاسدکے ساتھ مل کرحزب اللہ جوگل کھلارہاہے،اس پرکبھی نہیں لکھا،عراق میں امریکی حملے کے بعد سے لے کراب تک پہلے نوری المالکی اوراب حیدرالعبادی کے ذریعے وہاں کے سنیوں کی نسلی تطہیرپرہندوستانی اردو صحافت خاموش ہے،سعودی حکومت نمرباقرالنمرکی ملک مخالف سرگرمیوں کی وجہ سے اسے دارپرچڑھاتی ہے،توہندوستان بھرمیں اس فیصلے کے خلاف ہنگامہ ہاے رستاخیزبرپاکردیے جاتے ہیں؛لیکن ایران عراق و شام میں ہزاروں،لاکھوں بے قصور،نہتے اور معصوم شہریوں کو تڑپا تڑپا کر مارا جاتااوران کے مسلّمہ حقوق سے بھی انھیں محروم کیاجاتاہے،تویہاں کے عام مسلمانوں سمیت اردوصحافت کوسانپ سونگھ جاتاہے۔اوراس سے بھی زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس وقت ہندوستانی مسلمانوں میں سے حرم فروش ملاؤں کی ایک ایسی ٹولی تیار ہوچکی ہے،جوعصرِ حاضرکی مجوسیت اوراس کی غیرانسانی سرگرمیوں کو ’شرعی دلائل‘ فراہم کررہی ہے۔ظلم بہرحال ظلم ہے ،چاہے وہ کسی کے ساتھ بھی اورکہیں بھی ہواوراپنی حد تک اس کے خلاف صداے احتجاج بلند کرنا ہر با شعور انسان کی ذمے داری ہے،اسے مخصوص عینک سے نہیں دیکھناچاہیے،یہ ہمارے ضمیرکے بھی خلاف ہے اوراس سے انسانی قدریں بھی مجروح ہوتی ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔