فقہ سے استفادہ کیسے کریں

مولوی محمد فیصل
ترجمہ: نیاز احمد

’’ فقہ ‘‘ احکام شرعیہ کے اس مجموعہ کو کہتے ہیں جس کی عملاََ پابندی کرنا ہر مسلم پر لازم ہے، یہ احکام فردی اور اجتماعی معاملات پر مشتمل ہوتے ہیں جن کی قسمیں درج ذیل ہیں۔
1۔ عبادات : وہ احکام جو نماز ،روزہ ،حج اور زکوٰۃ سے متعلق ہیں۔
2۔ احوال شخصیہ : وہ احکام جو ایک خاندان (کی ابتدا سے آخری شکل تک) سے متعلق ہیں۔
3۔ معاملات: وہ احکام جو عوام کے آپسی امور سے تعلق رکھتے ہیں جیسے حقوق ،عقود (سمجھوتہ) وغیرہ ۔
4۔ احکام سلطانیہ : وہ احکام جو ایک حکومت کا اس کے عوام (کے نظم وضبط ) سے متعلق ہیں۔
5۔ احکام امن وجنگ : وہ احکام جو حکومت اسلامی کا دیگر ملکوں اور قوموں کے مابین تعلقات پر مبنی ہیں۔
احکام کی جامعیت اور اس کا تمام ہی موضوع پر محیط ہونا اس پر دلالت کرتا ہے کہ اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے جو زندگی کے ہرگوشہ (دین و دنیا) کی بھلائی کے لئے مشعل راہ ہے ۔
احکام شرعیہ کے ماخذ: امت مسلہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ تمام مسلم کے لئے شرعی احکام کی معرفت کا اساسی مرجع اللہ تعالی کی کتاب قرآن عظیم اور اس کے رسول ﷺ کی سنت مطہرہ ہے ، البتہ ان کے علاوہ دیگر ماخذ بھی ہیں جن کے متعلق اختلاف واقع ہوئے ہیں ،وہ یہ ہیں : اجماع ،قیاس ،استحسان ،مصالح مرسلہ،عرف۔حقیقت تو یہ ہے کہ یہ مصادر بھی قرآن و سنت ہی کی طرف لوٹتے ہیں ، اس لئے یہ کہنا بجا ہے کہ ’’قرآن وسنت ہی مسلمانوں کے لئے اسلامی احکام جاننے کے مصادر ہیں ‘‘ ۔ اس کا مفہوم یہ نہیں کہ ہم ان دیگر شرعی مصادر کا انکار کررہے ہیں بلکہ اس مطلب یہ ہے کہ ہم انہیں قرآن وسنت کے تابع قرار دے رہے ہیں ۔
احکام شرعیہ کی قسمیں: احکام شرعیہ کی دو قسمیں ہیں۔ 1۔قطعی 2۔ظنی
قطعی: وہ احکام جن کے واضح دلائل قرآن وسنت میں موجود ہیں، جیسے
*نماز کی فرضیت ۔ اللہ تعالی کا یہ قول ( ۔۔۔وأقیموالصلوۃ)
* روزہ کی فرضیت ،، (۔۔۔فمن شھدمنکم الشھرفلیصمہ)
* زکات کی فرضیت ،، (۔۔۔وآتوا الزکاۃ)
* حج کی فرضیت ،، (۔۔۔وللہ علی الناس حج البیت)
* سود کی حرمت ،، (۔۔۔وذروا مابقی من الربا)
* زنا کی حرمت ،، (۔۔۔ولا تقربوا الزنا)
* شراب کی حرمت ،، ( ۔۔۔۔فاجتنبوہ لعلکم تفلحون)
* نیت کا اعتبار رسول ﷺ کا قول (انما الاعمال بالنیات)
قطعی احکام شرعیہ کے سلسلے میں مسلمانوں (علماء ،مسالک ،عامۃ الناس) کے درمیان کوئی اختلاف نہیں اور یہ ضروری دینی احکام ہر خاص و عام کے درمیان معروف ہے ، البتہ یہ احکام بہ نسبت ظنی احکام کے کم ہیں ۔
ظنی: ظنی احکام دو طرح کے ہیں ۔
1۔ وہ احکام جن کے ظنی دلائل قرآن وسنت میں موجود ہیں ۔
2۔ وہ احکام جنہیں فقہاء کرام نے اجتہاد کرکے دیگر مصادر شرعیہ سے استنباط کیاہے۔
پہلی قسم کی مثالیں:وضو میں سرکے مسح کی واجبی مقدار ،امام مالک اور امام احمد کے نزدیک پورے سر کا مسح ہے جبکہ امام ابوحنیفہ اور امام شافعی کے نزدیک بعض حصے کا، اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ آیت کریمہ (وامسحوا برؤوسکم) میں ’’ب‘‘ کے مختلف معنی مراد لئے جاسکتے ہیں اور اس کے ایک قطعی مفہوم کی تعیین نہیں کی جاسکتی ۔ ایسے ہی سفر کی وہ مسافت جب نماز قصر اور روزہ نہ رکھنا مباح ہوجاتا ہے۔ مالکیہ ،شوافع،اور حنابلہ کے نزدیک چار بُرد(تقریبا 90 کلو میٹر ) ہے جس کی دلیل صحیح بخاری کی حدیث ہے کہ ابن عمرؓ اور ابن عباسؓ چار برد پر نماز قصر کرتے اور روزہ نہ رکھتے تھے ۔جبکہ احناف کے نزدیک یہ مقدار تین دن کی مسافت (تقریباََ 82۔85 کلو میٹر)ہے، اس کی دلیل صحیح بخاری کی حدیث ہے کہ کسی مومنہ مسلمہ کے لئے حلال نہیں کہ وہ تین دن کی مسافت کا سفر کرے مگر یہ کہ اس کے ساتھ محرم ہو ۔ یہاں پر یہ واضح ہے کہ دونوں حدیثوں سے استدلال ظنی ہے ۔
دوسری قسم کی مثال : اس گمشدہ کی بیوی کا مسئلہ جس کے بارے میں علم نہ ہو کہ وہ زندہ ہے یا مرچکا ہے ۔امام ابوحنیفہ اور امام شافعی کے مطابق وہ انتظار کرے گی یہاں تک کہ شہر میں اس کے شوہر کے عمر کے تمام لوگ وفات پاجائیں ،پس شوہر کی موت کا بھی گمان غالب ہوجائے ۔اس وقت قاضی اس کی شادی کے فسخ کا فیصلہ کرے گا اور اس کے لئے نکاح ثانی حلال ہوجائے گا۔ امام مالک کے نزدیک مفقود اور اس کی بیوی کے درمیان نکاح فسخ کردیا جائے گا اگر بیوی گمشدگی کے چار سال بعد اس کا مطالبہ کرے اور یہ حالت امن کی صورت میں، جبکہ حالت جنگ میں ایک سال کے بعد ۔ اس کے دلائل میں بیوی کی مصلحت کا خیال ،اسے نقصان سے بچانا اور ان مفاسد کو روکناہے جو اسے معلق رکھنے کی صورت میں پیدا ہو سکتے ہیں اور یہ دلیل اجتہادی اور ظنی ہے ۔
فقہ اسلامی کا ارتقاء 
پہلا دور : رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ 
آپ کی حیات مبارکہ میں مسلمانوں کے لئے احکام شرعیہ کی معرفت کا ذریعہ براہ راست آپ ﷺ کی ذات مطہرہ ہی تھی ،اور یہ احکام قرآن کریم اور سنت (آپﷺ کے قول و فعل و تقریر یعنی امرونہی) سے ماخوذ ہوتے ۔آپﷺ کا حکم قطعی حکم الہی کے درجہ میں ہے گرچہ یہ قرآن کریم یا اس کی کسی آیت سے مستنبط ہو، کیوں کہ آپ کی ذمہ داری قرآن کی وضاحت اور اس کی تفسیر کرنا بھی تھی ،اللہ تعالی نے فرمایا (ونزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیہم)لیکن صحابہ کرام ہمیشہ آپ کے ساتھ نہ ہوتے کہ اپنے ہر پیش آمدہ مسائل کے متعلق دریافت کرسکیں۔کسی کو سفر درکارہے، تو کو ئی کسی دور دراز علاقہ میں مقیم ہے ،اس صورت میں اگر کوئی مسئلہ در پیش آتا تو وہ کیا کرتے؟ 
اس حالت میں صحابہ کرام اسلام کے بنیادی اصول کی جتنی معرفت رکھتے اس کے مطابق اجتہاد کرتے ،پھر جب ان کی ملاقات آپﷺ سے ہوتی تو اس مسئلہ کے متعلق دریافت کرتے ، آپ یا تو ان کے اجتہاد کو درست قرار دیتے اور انہیں اس پر باقی رکھتے یا پھر خطا کی صورت میں اصلاح فرماتے ۔لیکن ان کے اجتہاد پر آپ کبھی نکیر نہ کرتے۔اس کی مثال عمار بن یاسرؓ کی حدیث ہے ،کہتے ہیں کہ آپﷺ نے کسی مہم پر مجھے روانہ کیا ۔مجھے بدخوابی (احتلام) ہوئی،میں پانی نہ پا سکا تو زمین میں لوٹا جیسے کہ جانور لوٹتے ہیں ۔جب آپ ﷺ کے پاس آیا تو اس کا ذکر کیا، آپ نے فرمایا تمہارے لئے بس اتنا کرنا کافی تھا ، پھر آپ نے دونوں ہاتھوں کو زمین پر ایک مرتبہ مارا پھر بائیں ہاتھ سے دائیں ہاتھ ،ہتھیلی کی پشت اور چہرے پر مسح کیا(اس کی روایت امام بخاری اور امام مسلم دونوں نے کی ہے،الفاظ امام مسلم کے ہیں)۔
کبھی ایسا بھی ہوتا کہ صحابہ کرام جماعت کی صورت میں ہوتے اور اجتہاد کرنے میں ان کے درمیان اختلاف بھی ہوجاتا ۔پھر جب وہ آپﷺ کے حضور مسئلہ پیش کرتے تو آپ درست پر موافقت کرتے اور غلطی کرنے والوں کی خطا کی وضاحت کرتے۔کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوتا کہ آپ دو متعارض اور مختلف اجتہاد کو قبول کرلیتے، جیسا اس وقت ہوا جب منادی کرنے والے نے خروج کا اعلان کرتے ہوئے کہاکہ کوئی بھی عصر نہیں پڑھے گا مگر یہ کہ بنو قریظہ میں ۔(لا یصلین احد العصر الا فی بنی قریظہ) بخاری نے کتاب المغازی میں اسے تفصیل سے روایت کیا، مسلمانوں نے خروج کے لئے جلدی کی، لیکن صورت یہ ہوئی کہ بنو قریظہ پہونچنے سے پہلے عصر کا وقت ختم ہونے کے قریب ہو گیا ،صحابہ کرام نے اجتہاد کیا ۔کچھ نے تو راستہ میں عصر کی نماز ادا کرلی تاکہ عصر کا وقت فوت نہ ہوجائے اور انہوں نے کہا کہ آپ ﷺ کا مدعایہ نہ تھا کہ ہم عصر کو اس کے وقت سے مؤخر کردیں،جب کہ دوسروں نے بنو قریظہ پہونچ کر عشاء کے بعد اسے ادا کیا آپ ﷺ کے حکم کے ظاہر کی اتباع کرتے ہوئے۔ جب آپ ﷺ کو اس واقعہ کی خبر ہوئی تو آپ ﷺ نے کسی جماعت پر نکیر نہ کی۔اس سے معلوم ہوا کہ کسی ایک مسئلہ میں کئی درست رائیں ہوسکتی ہیں ۔
دوسرا دور: رسول اللہ ﷺ کی وفات سے لے کر ائمہ اربعہ کی وفات تک
آپ ﷺ کی وفات اور اسلامی فتوحات کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو مسائل میں مزید اجتہاد کی ضرورت در پیش آئی ،اس کے دو بنیادی اسباب تھے ۔
1۔ جب اسلام نئے معاشرے اور علاقے میں پہونچا تو وہاں نئے مسائل پیش آنا شروع ہوئے جو آپ ﷺ کے زمانے میں واقع نہیں ہوئے تھے اور نہ ہی اس سے متعلق کسی وحی کا نزول ہواتھا اور اس سلسلہ میں حکم شرعی کی واقفیت عوام کے لئے لازمی تھی۔
2۔ ہر صحابہ کرام کو تمام سنتوں اور احادیث کا علم نہ تھا،کیونکہ آپﷺ جب کوئی بات بتاتے یا کوئی حکم دیتے یا پھر کسی مسئلہ کی موافقت کرتے تو ایسا چندہی صحابہ کرام کے سامنے ہوتا اور کبھی کبھی تو صرف ایک صحابہ کی موجودگی میں ، اور قرآن کریم کی طرح ابھی تمام احادیث کو جمع نہیں کیا جاسکاتھاکہ سب کی معرفت اس سے ہوجائے، چنانچہ بعض صحابہ کرام ایسے مسائل میں اجتہاد کرتے جن میں انہیں رسول ﷺ سے کوئی حدیث معلوم نہ ہوتی ، جب کہ بعض دوسرے صحابہ کرام کو اس کے متعلق حکم شرعی معلوم ہوتا ۔مزید برآں صحابہ کرام (خاص طور پر حضرت عمرؓ کی وفات کے بعد ) مختلف ملکوں میں دور دور ہوگئے تھے اور اس طرح فقہ سے استفادہ کی کیفیت کے اعتبار سے دو مختلف مدارس کے ظہور کی راہیں ہموارہوئیں۔
حجاز میں مدرسۃالحدیث : وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس کے ماننے والوں کی اکثریت احادیث کی اتباع کرتی تھی کیونکہ حجاز اسلام کا پہلا مرکز ہونے کے سبب وہاں کے رہنے والے ہر شخص کو احادیث کا علم تھا،مزید یہ کہ ان کے معاشرہ اور مسائل میں کو ئی خاص تبدیلی واقع نہ ہوئی کہ انہیں کسی نئے اجتہاد کی ضرورت پڑے ۔
کوفہ میں مدرسۃالرائے : اس کے نام کا سبب یہ تھا کہ یہ احکام شرعیہ کی معرفت کے لئے اجتہاد اور رائے کا کثرت سے استعمال کرتے کیونکہ یہاں صحابہ کرام کی تعداد کم اور حدیثیں عام نہ تھیں ۔مزیدیہ کی یہ معاشرہ نیا اور حجاز سے مختلف تھا جہاں نئے نئے مسائل پیدا ہوتے جن کے متعلق احادیث موجود نہ تھیں ۔
ابتدا میں ان فکری مدرسوں کے درمیان دوری تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان میں قربت بڑھتی گئی، خاص طورپر جب احادیث کی کتابیں مدون ہو گئیں اور علماء کرام نے صحیح، ضعیف، مکذوب احادیث کو انتہائی محنت و مشقت کرکے الگ الگ کیا۔اب رائے اور اجتہاد کی صرف ایک ہی صورت رہ گئی تھی کہ اس کے متعلق کوئی نص موجود نہ ہو، البتہ بذات خود نص کے مفہوم کی تحدید میں اجتہاد کرنا دونوں ہی مدرسوں میں پایا جاتاتھا ۔اس مرحلہ تک پہونچتے پہونچتے فقہ ایک ضخیم صورت اختیار کرکے ایک مستقل علم ہوگیا اور بڑے بڑے علماء کرام پیدا ہوئے جن میں چار ائمہ کافی مشہور ہیں ۔
(1)ابوحنیفہ ،نعمان بن ثابت (80۔150ھ) آپ کو امام اعظم کہاجاتاہے ،آپ فارسی الاصل تھے، بڑے اہل فکر آپ کے گرد جمع ہوئے، آپ نے ’’ استحسان ‘‘ کی فکر دی اور اسے مصادر شرعیہ میں معتبر سمجھا، آپ کی طرف حنفی مسلک منسوب ہے۔
(2) مالک بن انس الاصبحی (93۔179ھ) آپ اہل مدینہ کے امام تھے ، اپنے فقہ میں حدیث اور رائے دونوں کوجمع کرتے ،آپ نے ’’مصالحہ مرسلہ ‘‘ کی فکر دی اور مصادر شرعیہ میں اس کا اعتبار کیا ۔آپ کی طرف مالکی مسلک منسوب ہے۔
(3) محمد بن ادریس شافعی قرشی(150۔204ھ) آپ کا مسلک اہل حدیث سے قریب تر ہے باوجود یکہ آپ نے امام ابوحنیفہ اور امام مالک کے متبعین سے استفادہ کیا۔آپ کی طر ف شافعی مسلک منسوب ہے ۔
(4) احمد بن حنبل شیبانی(164۔241ھ) آپ امام شافعی کے شاگرد ہیں اور آپ کا مسلک (حنبلی) بھی اہل حدیث سے قریب ترہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ ان ائمہ کرام سے پہلے، ان کے دور میں اور ان کے بعد بھی بہت سے جید علماء پیدا ہوئے جن کی اہمیت ان سے کسی بھی طرح کم نہیں ہے ۔خصوصاََ فقہاء صحابہ جیسے عبداللہ ابن مسعود ،عبداللہ بن عباس ،عبداللہ ابن عمر اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہم ، اوراسی طرح فقہاء تابعین جیسے سعید بن مسیب،عطابن رباح ،ابراہیم نخعی،حسن بصری،مکحول،اور طاووس (رحمہم اللہ ) ، پھر ائمہ اربعہ کے شیوخ اور اساتذہ او ران کے دور کے بہت سے علماء جیسے امام جعفر صادق ،اوزاعی، ابن شبرمہ ، لیث بن سعد وغیرہ(رحمہم اللہ)، لیکن ائمہ اربعہ کو ایسے شاگرد ملے جو ان کی آراء وافکار کو جمع ومرتب کرتے اس کی شرح اور اختصارکرتے اور پھر اسے عامۃالمسلمین کے لئے ایک سہل اور آسان ماخذ کی صورت میں پیش کرتے، اس طرح عوام اپنے لئے ایک آسان، مرتب اور منسق ماخذ پاجاتے ۔زمانہ کے گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی فقہ مساجد میں پڑھائی جانے لگی، اس طرح اس کی جڑیں مسلمانوں مضبوط ہوتی گئیں اور ان کی اکثریت احکام شرعیہ کی معرفت کے لئے احادیث اور تفاسیر کی کتابوں کی طرف رجوع کرنے سے بے نیاز ہو گئی ، اور لوگوں کے لئے یہ فقہی مسالک ایک تیار شدہ ماخذ کے طور پر عام ہوگئے۔
تیسرا دور: ائمہ اربعہ کی وفات سے خلافت عثمانیہ کے زوال تک 
اس دور میں ائمہ اربعہ (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے مسالک کو مسلمانوں کے درمیان قبولیت عام ملی اور یہ فقہ اسلامی کی اساس کی حیثیت اختیار کرگئے۔علماء کرام نے انہیں پڑھنا پڑھانا شروع کیا، فقہ میں مزید وسعت ہوتی گئی، حقیقی واقعات سے لے کر افتراضی حالات تک کے مسائل کے حل کو تلاش کرنے کی کوشش کی گئی،فقہی مناظرات کی کثرت ہوئی اور پھر وہ مسلکی تعصب ظاہر ہوا کہ ہر مسلک کے ماننے والے اپنے مسلک کو اصل اسلام سمجھنے لگے ، بجائے اس کے کہ وہ اسے اسلام کی لامحدود وسعت کے دائرے میں چند اسلامی احکام وآراء سمجھتے ،نتیجتاً مذاہب اربعہ کے علماء نے اجتہاد کے دروازے کو بند کرنے کا فتوی دیا تاکہ ہر کس و ناکس(گرچہ وہ اس کی اہلیت نہ رکھتا ہو) اجتہاد کرنا شروع نہ کردیں اور پھر بعد میں عوام ان کی اتباع کرنے لگیں ،پھر امت ائمہ عظام کی قائم کردہ بنیاد کو منہدم کرکے ایک انتشار میں مبتلا ہوجائیگی۔چنانچہ عوام نے تقلید کو اختیار کیا ، علماء کی ساری تگ ودو مسالک کی آراء کے لئے دلیلیں پیش کرنے ،مسلک کے دائرے میں رہ کر اجتہاد کرنے اور ایک ہی مسلک کے مختلف اقوال کے درمیان راحج قول تلاش کرنے میں صرف ہوئیں۔اس طرح فقہ اپنے ہی گرد چکر لگانے لگا ۔ایک عالم کسی امام یا فقیہ کی کتاب کی تفصیلی شرح کرتاجو کئی ضخیم جلدوں پر مشتمل ہوتی ،پھر دوسرا اس کو مختصرکرتا ،تیسرا اس مختصرکی بعض مبہم چیزوں کی وضاحت کے لئے تعلیق لکھتا، پھر کوئی اس پر حاشیہ لگاتا،پھرکوئی اس کی مفصل شرح کرتا، اس طرح فقہ نئے مسائل کی جانب کماحقہ توجہ نہ کرسکا ۔
عبادات کے مسائل زیادہ ہوتے گئے جبکہ سیاسی شرعی مسائل مضمر اور اوجھل ہی رہے، ایسا ہی دیگر مسائل اور معامالات میں بھی ہوا۔ یہاں تک کہ انیسویں صدی کے اواخر میں مغربی فکری یلغار نے جب مسلم ممالک رخ کیا تواپنے مقابل میں ایسے کمزور لوگوں کو پایا جنہوں نے اس کے بہت سارے افکار کو بلا کسی تردد کے قبول کرلیا جو شریعت اسلامی کے خلاف تھے ۔پھر اسلام کی مشیخیت نے یتیموں کے لئے سود کو جائزقرار دیا اور کمزور دلائل کا سہارا لے کر ایسے قوانین وضع کرنے کی کوشش کی جو میراث میں مرد وعورت کو برابر کا حق دیتے ہوں ۔خلافت عثمانیہ کے زوال کے اسباب میں سے یہ فقہی جمود بھی ہے جومذہبی تعصب کے نتیجہ میں پید ا ہوا ۔ اس دور میں بہت سے مجتہد علماء پیدا ہوئے جنہوں نے تقلید کو ترک کرنے کی دعوت دی۔ اسی طرح مسالک کے بھی جید علماء اجتہاد کرتے اور بعض مسائل میں اپنے مسلک کے برخلاف دوسرے مسالک کی آراء کو ترجیح دیتے۔ لیکن مسلمانوں کی اکثریت مسلک کے التزام پر قائم رہی، خصوصااس وقت جب بعض مسلکی متعصبین کی جانب سے ایک مسلک سے دوسرے میں منتقلی کے حرام ہونے کا فتوی صادر ہوا۔
چوتھا دور : خلافت عثمانیہ کے زوال سے دور حاضر تک
اس دور میں بالخصوص دو قسم کے فقہی نظریات کے درمیان اختلافات ظاہر ہوئے ۔
مدرسہ فقہیہ: یہ ائمہ اربعہ کے متبعین کے مسالک ہیں جن کے نزدیک اجتہاد کا دروازہ بند ہے اور ہر ایک مسلم کو کسی ایک مسلک کی اتباع لازمی ہے ۔
مدرسہ سلفیہ: ان افراد کا مسلک ہے جو براہ راست قرآن و سنت کی طر ف رجوع کے قائل ہیں اور مسلمانوں کو فروعی فقہی مسائل میں تقلید سے منع کرتے ہیں ۔تحقیق واجتہاد اور نصوص شرعیہ سے براہ راست استفادہ کو واجب قرار دیتے ہیں، اس دور سے پہلے بھی ان دونوں فقہی نظریاتی گروہ کے درمیان رسہ کشی تھی، لیکن اس دور میں اس میں مزید اضافہ ہوا ۔اہل علم اور طلبہ علم( حتی کی عوام) کے درمیان بحث ومباحثہ کا ایک اہم موضوع بن گیا، پھر ہرایک گروہ کے مؤیدین و انصار نے اپنی آراء واقوال کی تائید کے لئے کتابیں اورمقالات نشر کرنا شروع کیا ، بالآخر آپسی بحث ومباحثہ کا ایک مثبت اثر یہ ہواکہ دونوں جماعت کے مؤیدین تعصب سے باز آئے اور بہت کم مسائل میں اختلاف رہ گئے، قریب تھاکہ یہ اختلافات بالکل ہی ختم ہوجاتے اگر دونوں ہی جماعتوں میں ایسے چند متعصبین نہ ہوتے جو اپنی آراء اور متعصب مواقف پر اڑ جاتے ہیں، جس کے سبب مقابل گروہ جواباََ رد عمل کرتا ہے ۔
ہم یہاں پر چند ایسے شرعی قواعد کی تحدید کی کوشش کریں گے جن پر دونوں گروہ تعصب کو بالائے طاق رکھ کر باہم ایک رائے ہوسکیں ۔
پہلا قاعدہ: تقلید کی مشروعیت 
تقلید کے معنی کسی عالم دین کے قول کی اتباع بغیر اس کی صحت کی دلیل کی معرفت کے کرنا، فقہ کے فروعی مسائل میں عامۃ المسلمین کے لئے اس کی مشروعیت درج ذیل دلائل کی بنیاد پر ثابت ہے ۔
1۔ قول باری تعالی (فاسئلوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون۔سورۃ النحل43)، یہاں پر اللہ تعالی نے ان لوگوں کو حکم دیا ہے جو شرعی احکام کی معرفت نہیں رکھتے ہیں کہ وہ اہل علم سے معلوم کریں، اور امر کا کم سے کم حکم ’’مباح ہونا‘‘ ہوتا ہے۔ اس طرح ایک عام شخص کے لئے علماء سے پوچھنا اور اس پر عمل کرنا جائز ہے۔
2۔ قول باری تعالی (وما کان المومنون لینفروا کافۃ فلولانفر من کل فرقۃ منہم طائفۃ لیتفقہوا فی الدین ولینذروا قومہم اذا رجعوا الیہم لعلہم یحذرون۔سورۃ توبہ122)، اس آیت میں صراحت ہے کہ تمام مسلمانوں کے لئے فقہ کا علم حاصل کرنا ممکن نہیں، بلکہ اس کے لئے ایک جماعت خود کو فارغ کرے، پھر یہ جماعت اپنی قوم کو اسے سکھائے، اگر تمام مسلمانوں کے لئے تفقہ فی الدین ممکن یا مطلوب ہو تا تو اللہ تعالی اس کی نفی نہیں فرماتے ۔
3۔ صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کاعمل اور وہ خیرقرون ہیں :ان کے درمیان چند فقہاء تھے اور بقیہ صحابہ اپنے شرعی مسائل میں ان کی طرف رجوع کرتے اور ان کے فتاوی کو قبول کرتے بغیر اس کے کہ دلیل معلوم کریں سوائے چند نادر حالات میں ۔اسی طرح آپ ﷺ فقیہ اور قاری صحابہ کرام کو دوسرے قبائل میں بھیجتے جو انہیں اسلام اور قرآن کی تعلیم دیتے اور وہ ان سے بغیر دلیل پوچھے اسے سیکھتے اور اس پر عمل کرتے، صحابہ کرام کا اس پر اجماع ہے کہ ایک عام شخص کسی مجتہد کی اتباع کرسکتاہے۔
4۔ عملی اور عقلی منطق: ایک عام مسلم جو کسب معاش میں مشغول ہے بلکہ ایک انجینئر، ڈاکٹر، یا اور کوئی؟ جب اس کے سامنے کو ئی شرعی مسئلہ درپیش ہوتو وہ کیا کرے؟ کیا ہم اس سے مطالبہ کریں گے کہ وہ تفاسیر اور احادیث کی کتابوں کی طرف رجوع کرے، اور مسئلہ کے متعلق کو ئی نص تلاش کرے، اور اگر وہ کوئی نص پاتا ہے تو زبان سیکھے تاکہ وہ اسے سمجھ سکے،پھر اگر کئی نصوص ہیں تو ان میں سے راجح کی تحقیق کرے،اور یہ ساری تگ دو بغیر وسیع مطالعہ اور ناسخ ومنسوخ کی معرفت کے ممکن نہیں ۔اسی طرح اگر وہ کوئی نص نہیں پاتا تو اجتہاد کرے اور جب تک اس کے پاس اجتہاد کی صلاحیت اور ملکہ نہ ہو وہ نہیں کرسکتا۔ ہم اجتہاد کے لئے کتنی ہی نرمی کا رویہ اختیار کریں اور اس کے لئے کم از کم شرطیں نافذ کریں پھر بھی عوام کی اکثریت اجتہاد نہیں کرسکتی اور یہ چیز عملی مشاہدہ سے ثابت ہے ، اس سے انکار سوائے سخت متعصبین کے کوئی نہیں کرسکتا۔پھر بغیر شرعی ضوابط اور مطلوب علم و صلاحیت کے اجتہاد کرنے کی اجازت دینا اس سے بہت زیادہ خطرناک ہے کہ عوام مسائل میں ان علماء کی طرف رجوع کریں جو مسائل واحکام کے بحث و استنباط میں مشغول ہیں۔
5۔ مدرسہ سلفیہ کے متبعین کی عملی کیفیت : یہ بات جگ ظاہر ہے کہ اس مسلک کے علماء کی بھی بہت سارے مسائل میں مختلف آراء ہیں، خواہ یہ اختلاف تفسیر میں ہو ، حدیث کی صحت یا احکام کے استنباط میں ہو ۔اسی طرح ہر عالم دین کے کچھ متبعین ہیں جو ان کی آراء کی اتباع کرتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ یہ تقلید نہیں اتباع ہے کیونکہ اتباع کرنے والے نے دلیل کو جان لیا ہے اور وہ اس پر مطمئن ہے۔ ہم یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیوں ایک عالم دین دوسرے عالم دین کے دلائل نہ جان سکے اور اس پر مطمئن نہ ہوئے؟ اور کیا ایک طالب علم یا عامی شخص کا کسی عالم دین کی دلیل پر مطمئن ہوجانا معتبر قرار پائے گا جبکہ اسی دلیل پر ایک دوسرا عالم دین مطمئن نہ ہو سکا۔پھر آخر ان دو اتباع میں فرق کیا رہ گیا،ایک وہ اتباع جو کسی ایسی دلیل پر قناعت کے بعد کیا جائے جس کی صحیح بنیاد نہ ہو ،دوسرا وہ اتباع جو ایک مقلد بغیر دلیل پوچھے کرے کیونکہ وہ سمجھتاہے کہ اس کے اندر دلیل کے درجہ قبول وانکار کو پرکھنے کی صلاحیت نہیں ہے ۔
حقیقت تو یہ ہے کہ تقلید کی مشروعیت اور اس کے جواز پر اجماع قرون اولی سے ثابت ہے گرچہ مدرسہ سلفیہ کے بعض متعصبین اس کو نہیں مانتے ہیں، لیکن وہ کسی دوسری شکل میں اس کا اقرار کرتے ہیں، اور ان کا معارضہ بہت ساری مباح چیزوں پر بندش لگانے کے سوا کچھ نہیں۔
دوسرا قاعدہ: تقلید واجب نہیں
مذہبی تعصب کے زیر اثر ایک عام غلطی یہ ہوئی کہ مسلمانوں کو مقلد اور غیر مقلدناموں کے دو خانوں میں تقسیم کردیا گیااورپھر اجتہاد کے دروازے کو بند کردیا گیا،عوام تو کیا علماء اور طلبہ بھی مقلد ہوگئے ۔بحث وتحقیق اور مناقشہ کا محرک ختم یا پھر انتہائی ضعیف ہوگیا۔پھر علماء کی ساری جدوجہد اپنے مسلک کی آراء کو صحیح ثابت کرنے کے لئے صرف ہونے لگی خواہ اس کے لئے انتہائی کمزور دلائل کا سہارا لینا پڑے، کیونکہ’’مقلد‘‘ رہتے ہوئے وہ اپنے مذہب کی مخالفت نہیں کرسکتے۔
عزبن عبدالسلام نے اپنی کتاب (قواعدالاحکام) میں ایسے فقہاء کی سخت گرفت کی ہے جو اپنے امام کے کسی کمزور موقف کی وکالت اور اتباع کرتے ہیں جبکہ انہیں حقیقت حال کا پتہ ہے، اور اس کا بھی علم ہے کہ اس موقف کی کمزوری دفع نہیں کی جاسکتی، اس کے باوجود وہ اس رائے کی اتباع کرتے ہیں اور اس تقلید کے چلتے وہ کتاب وسنت اور صحیح قیاس کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔
ہمارے کہنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ اجتہاد کا دروازہ ہرکس وناکس کے لئے کھول دیا جائے خواہ اس کے اندر اس کی قدرت وصلاحیت ہویا نہ ہو، بلکہ ہمارا مقصود یہ ہے کہ تقلیدکی مشروعیت اور ضرورت بلاشبہ ثابت ہے ۔لیکن بہر حال یہ مباح اور جوازکی حد تک نہ کہ وجوب کی ،سوائے ایسے عامی شخص کے لئے جو پڑھنے اور بحث وتحقیق کی بالکل صلاحیت نہ رکھتا ہو، البتہ جو شخص پڑھنے لکھنے اور بحث و تحقیق کی صلاحیت رکھتا ہو اور اس کے سامنے اس کی راہیں ہموار ہوں تو اس کے لئے ضروری ہے کہ تقلید( دلیل کی معرفت کے بغیر کسی عالم دین کی رائے کی اتباع کرنا) کی بجائے اتباع (دلیل کی معرفت کے بعد کسی عالم دین کی اتباع کرنا) کو اختیار کرے۔
دلیل کو جان لینا اور اس پر مطمئن ہوجانا کسی شخص کو اجتہاد کرنے کا اہل نہیں بنادیتا،لیکن کسی مسئلہ میں اس کے لئے جائز بلکہ کبھی کبھی واجب ہوجاتا ہے کہ ایک رائے کو چھوڑ کر دوسری قوی رائے کو اختیار کرلے، جب کہ وہ دیگر مسالک کے دلائل کا مطالعہ کرچکا ہو اور اپنے مسلک کی دلیل کا ضعیف ہونا اس کو معلوم ہوچکا ہو۔کسی شخص کی اس اہلیت (مرتبہ) کو درجۃالنظر فی احکام الشرعیہ کانام دیاجاسکتاہے جیسا کہ امام حسن البنا نے (رسالۃالتعلیم) میں دیا ہے ،یعنی کسی شخص کا اس مرتبہ کو پہنچ جاناکہ وہ احکام شرعیہ میں غور وفکر کرسکے اور اس کے دلائل کو پرکھ سکے اور اس کے تجزیہ کے لئے اساسی مأخذ کی طرف رجوع کرسکے ۔
تیسرا قاعدہ: تقلید صرف مسالک اربعہ کے لئے خاص نہیں 
مسلکی تعصب کے زیر اثر یہ عام رجحان ہواکہ تقلید کو صرف ائمہ اربعہ کے مسالک تک محدود کردیا گیاہے ۔جب کہ کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جو ان کے علاوہ کی تقلید سے منع کرتی ہو،دراصل ان مسالک کی خوش بختی ہے کہ انہیں ایسے افراد ملے جنہوں نے اسے مدون کیا ،اس کی تشریح کی،چنانچہ یہ عوام کے سامنے مرتب ومبوب صورت میں آیا ، مزید یہ کہ ان مسالک کی تعلیم دینے والے علماء موجود رہے جن سے اس بات کی تاکید اور اطمنان ہوجاتا کہ مسئلہ یا رائے جس امام یا مسلک کی طرف منسوب کی جارہی ہے ،یہ انتساب درست ہے ۔جب کہ ائمہ اربعہ کے علاوہ کی طرف منسوب آراء ومسالک کے لئے مشکل درپیش تھی اور یہ پتہ نہ تھا کہ ان کی نسبت کہاں تک صحیح ہے، اگر کسی کی طرف سے اطمنان بھی حاصل ہوا تو اس کے لئے کماحقہ اور مناسب کام نہ ہو ا ،اور صاحب مسلک کے ایسے شاگرد نہ تھے جو ضرورت پڑنے پر اس کی تشریح کرتے۔
انہیں علمی اور فنی اسباب کی بنا پر علماء نے صرف مسالک اربعہ کی تقلید کی تاکید کی ،لیکن اب جب کہ تراث اسلامی کی کتابوں کی طباعت ہوچکی ہے اور لوگ بسہولت ان سے استفادہ کرسکتے ہیں اور اکثر صحابہ کرام ،تابعین عظام اور دیگر ائمہ ومجتہدین (خواہ وہ ائمہ اربعہ سے پہلے ،ان کے معاصر،یا بعد کے ہیں) ان سب کی آراء نشر ہوچکی ہیں ۔کسی رائے کا اس سے منسوب شخص ہی کی ہونے پر تاکید ممکن ہے ۔اب کسی ایک یا کئی مسائل میں ان کی تقلید کرنے سے کوئی مانع نہیں جب کہ ایک عالم دین ان حضرات کے دلائل کو ان مسالک سے زیادہ قوی پائے جن پر عمل کیا جارہاہے ۔
عزبن سلام (اپنی کتاب قواعدالاحکام میں) تحریر فرماتے ہیں کہ ایک شخص اپنے مسلک کی تقلید اسی لئے کرتا ہے کہ یہ ایک سلسلہ سے ثابت ہے اور اس کی صحت پر اسے غالب گمان ہوتا ہے۔ پھر جب اس کے نزدیک دیگر مسالک میں سے کوئی مسلک پائے ثبوت کو پہونچ گیا تو اس کی اتباع کرنا اس کے لئے درست ہے گرچہ یہ مسلک ائمہ اربعہ کے علاوہ کا ہو۔
چوتھا قاعدہ
مسلکی تعصب کی بنا پرجو غلط فہمیاں مسلمانوں میں عام ہیں اس میں سے ایک یہ بھی ہے کہ تقلید کسی ایک ہی مسلک کی جائے اور اس مسلک سے دوسرے میں منتقل ہونا حرام ہے ۔اس فکر کا ردعمل یہ ظاہر ہوا کہ ایک گروہ نے ایک ہی مسلک کے التزام کو ہی حرام قرار دیا۔ ان دونوں انتہاؤں کے پس پشت کو ئی دلیل نہیں ہے۔
1۔ ایک مسلک کی تقلید کے التزام کو واجب قرار دینا اور اس کے علاوہ دوسرے میں انتقال کو حرام گرداننا (خواہ یہ عام شکل میں ہو،یا کسی ایک مسئلہ میں ،یا چند مسائل میں، خواہ یہ عمل کرنے سے پہلے ہو یا بعد میں) بہر حال اس کی کوئی شرعی دلیل نہیں ہے ،کیونکہ واجب وہی ہے جسے اللہ اور اس رسول نے واجب قرار دیا ،ہمیں احکام شرعیہ کی اتباع کا مکلف بنایا اور اس بات کی اجازت دی کہ اگر کسی مسئلے کو براہ راست قرآن وسنت سے معلوم نہ کرسکیں تو اہل علم سے دریافت کریں ،اس دریافت کرنے میں کسی ایک خاص کی تحدید نہیں کی ہے ۔ صحابہ کرام اپنے فقہاء سے مسائل دریافت کرتے اور وہ انہیں اس کا جواب دیتے، لیکن کسی صحابہ نے فتوی پوچھنے والے سے یہ نہیں کہا کہ یہ مسئلہ یا اس کے علاوہ کوئی دوسرا مسئلہ کسی دوسرے سے معلوم نہ کرے ۔اس زمانے میں مسلمانوں کا یہی طرز عمل رہا ،یہاں تک کہ ائمہ اربعہ کے زمانے میں بھی کسی امام نے اپنے شاگردوں کو دوسرے امام یا عالم دین کی رائے پر عمل کرنے سے منع نہیں کیا۔ایک مسلک کے التزام کا وجوب اور دوسرے میں منتقلی کو حرام قرار دینا بعد کے زمانے میں ہوا۔
2۔ اسی طرح یہ کہنا کہ کسی ایک مسلک کا التزام حرام اور ایک طرح کا شرک ہے بغیر کسی دلیل کے ہے ۔کوئی بھی مسلم جب کسی عالم دین کے علم اور تقوی سے مطمئن ہوجائے اور وہ اسی سے فتوی پوچھنا پسند کرے تو شریعت میں اس کی کہیں بھی ممانعت نہیں ہے ۔ہاں اس کے لئے جائز نہیں کہ وہ اس التزام کو اپنے اوپر شرعا واجب سمجھے، اسی طرح جب کبھی بھی وہ دوسرے مسلک میں منتقل ہونا چاہے اس کے لئے بھی شریعت میں کوئی مانع نہیں ہے (اس کا تفصیلی ذکر تلفیق کی بحث میں آرہاہے)۔
پانچواں قاعدہ : شرعی احکام میں بصیرت رکھنے والے کے لئے دلیل کا التزام ضروری ہے
ایک متبع جو شریعت میں گہری بصیرت رکھتاہو اس کے لئے واجب ہے کہ مسائل کا بغور مطالعہ کرے،مختلف آراء اور ان کے دلائل کو پرکھے ،پھر اس رائے کو اختیار کرے جو قرآن وسنت سے قریب تر ہو، خواہ یہ رائے کسی بھی مسلک کی ہو ،اسی طرح وہ ان جدید مسائل میں اجتہاد کرے جس میں پہلے کے علماء کی کوئی رائے موجود نہ ہو ۔اس کے لئے کو ئی مانع نہیں کہ کسی مسلک کی کسی مسئلہ یا سارے مسائل میں اتباع کرتا رہے ،یہاں تک کہ وہ اس مسئلہ میں غور وفکر کے بعد کسی رائے تک پہونچ جائے، کیونکہ اللہ تعالی کسی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ مکلف نہیں کرتا،ایک مسئلہ میں قوی دلیل تک پہونچے میں کئی مہینے بھی لگ سکتے ہیں ،اس لئے کوئی حرج نہیں کہ وہ کسی امام کی تقلید کرتا رہے یہاں تک کہ قوی رائے تک رسائی حاصل کرلے ،اس غو ر وفکر کے بعد اگر وہ اپنے ہی امام کی دلیل کو قوی پائے تو اس پر باقی رہے اور اگر کسی دوسرے امام کی رائے قوی ہے تو وہ اسے اختیار کرلے۔
چھٹا قاعدہ : تلفیق کا جواز 
تلفیق کا مفہوم یہ ہے کہ کسی مسئلہ میں مختلف مسالک کی آراء کو قبول کیا جائے اور ایسی صورت ہوجائے کہ کہنامشکل ہو یہ کس مسلک کے مطابق ہے ۔درج ذیل میں تلفیق کی کچھ مزید صورتوں کی وضاحت کرتے ہیں۔
1۔ایک مسئلہ میں کسی مسلک کی اتباع کرنا جبکہ کسی دوسرے مسئلہ میں دوسرے مسلک کو اختیار کرنا درآنحالانکہ دونوں مسئلہ میں کوئی باہمی ربط نہ ہو۔ اسے ان علماء کی اکثریت جائز قرار دیتی ہے جو ایک ہی مسلک کے التزام کو واجب نہیں سمجھتے اور ایک مسلک سے دوسرے میں انتقال کو جائز قرار دیتے ہیں۔مثلاََکسی نے نماز شافعی مسلک کے مطابق پڑھی اور زکوۃ حنفی مسلک کے مطابق ادا کیا ، یاروزہ مالکی مسلک کے مطابق رکھا۔
2۔ کسی مسئلہ میں ایک مسلک کی پیروی کرنا،پھر بعدمیں اسی مسئلہ میں دوسرے مسلک کی رائے کواختیار کرلینا ،مثلاََ ظہر کی نماز ایک مسلک کے مطابق پڑھی اور عصر دوسرے مسلک کے۔ اسے بھی ان علماء کی اکثریت جائز قرار دیتی ہے جو ایک مسلک کے التزام کو واجب قرار نہیں دیتے ۔
3۔ تلفیق کی وہ صورت جس کے جواز اور عدم جواز میں اختلاف ہوا وہ ایک ہی مسئلہ (عمل) میں تلفیق کی جائے ، جیسے کسی نے وضو کیا ،شافعی مسلک کی تقلید کرتے ہوئے سرکے کچھ حصہ کا مسح کیا،پھر عورت کو چھوا اور اپنے وضو کو حنفی اور مالکی مسلک کا اعتبار کرتے ہوئے برقرار سمجھا، کیونکہ ان کے یہاں عورت کے چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا ،پھر نماز ادا کی ۔علماء متاخرین اس تلفیق کو ناجائز قرار دیتے ہیں ،ان کے بقول یہ وضو امام شافعی کے نزدیک درست نہیں ہوا کیونکہ ان کے نزدیک عورت کے چھونے سے وضو ٹوٹ جاتاہے ،اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک درست نہیں کیونکہ اس نے چوتھائی سر کا مسح نہیں کیا،اور امام مالک کے یہاں صحیح نہیں کیونکہ اس نے پورے سر کا مسح نہیں کیا ۔پس یہاں پر تلفیق ایسی کیفیت اختیار کرگئی کہ کہا نہیں جاسکتا کہ یہ کو ن سا مسلک ہے اور یہ تلفیق جائزنہیں ہے۔
اس سلسلے میں ہمارا خیال یہ ہے:
1۔ اگر تلفیق اس شخص کی جانب سے ہے جو احکام شریعت میں بصیرت رکھتا ہے اور اس نے کسی دلیل سے مطمئن ہوکر ایسا کیا ہے تو جائزہے، کیونکہ اس کے لئے واجب یہی ہے کہ وہ اپنے سلسلے میں اجتہاد کرے ،اور میں سمجھتا ہوں کہ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہونا چاہئیے۔
ب۔ اگر تلفیق کسی عام شخص کی جانب سے ہو تو بھی جائز ہے ۔کیونکہ ایک عامی کا مسلک اس کے مفتی کا مسلک ہوتاہے اور عامی اس مکلف نہیں کہ مسالک کا مطالعہ کرے اور ان کے اختلافات کی بارکیوں کا علم رکھے ،اگر وہ ایسا کرسکتا تو پھر مقلد ہی کیوں ہوتا ۔ اسی طرح صحابہ کرامؓ جب کسی مسئلہ کے بارے میں دریافت کرتے تو اس کے سارے متعلقات نہ معلوم کرتے اور نہ ہی انہیں بتانے والا اس سے مطالبہ کرتا کہ میرے بعد اب کسی سے اس کے متعلق دریافت نہ کرنا ۔اس سے معلوم ہوا کہ خیرقرون میں لوگوں نے تلفیق کیا،خصوصاََ جب تک صحابہ کرام کے مسالک اور ان کی آراء مدون اور مرتب نہ ہوگئی تھیں ۔حاجت پڑنے پر جس صحابی سے ملاقات ہوئی مسئلہ معلوم کرلیتے اور پھر مزید ضرورت پر کسی دوسرے سے دریافت کرلیتے، بغیر اس بحث میں جائے کہ دونوں مسئلے باہم ایک دوسرے سے متعلق ہیں یا الگ الگ ہیں۔
ج۔ رہی وہ کیفیت جس کی مثال وضو سے دی گئی ہے،اس کا جواب یہ ہے کہ وضو شافعی مسلک کے مطابق درست ہے تو پھر شریعت میں معتبر ہے کیونکہ شافعی مسلک الگ سے کوئی شریعت نہیں بلکہ مسلم کے لئے اللہ کی شریعت میں دخول (شمولیت) کا دروازہ ہے۔جب وہ اس سے داخل ہوا تو وہ اللہ کی شریعت کے حدود میں ہے اور اس کا وضو درست ہوا، پھر جب اس نے مسلک احناف کی تقلید کرتے ہوئے عورت کو چھوا تو بھی اس کا وضو باقی رہا،کیونکہ مسلک حنفی کے ہو نا گویا شریعت اسلامی کے مطابق ہونا ہے،کیونکہ مسلک حنفی شریعت کا ہی ایک جزء ہے نہ کہ اس کے برخلاف کو ئی اور شے۔
د:۔ صاحب بصیرت جو کسی دلیل پر مطمئن ہوکر تلفیق کرے ،اس کے لئے اس کو جائز قرار دینا اور اسی سے کسی عام شخص کو روک دینے کا مطلب یہ ہوا کہ ایک چیز ایک مسلم کے لئے حرام ہے جبکہ وہی دوسرے کے لئے حلال ہے۔یہ بات اس شریعت کی روح کے برخلاف ہے جس کے معروف خصائص میں سے اس کا سب کے لئے یکساں ہونا ہے ۔اس کی حلال کردہ اشیاء سب کے لئے حلال اور حرام کردہ سب کے لئے حرام ہے۔
تلفیق کے جواز کا فتوی دینے والوں میں شیخ طرطوسی، علامہ ابوسعود، علامہ ابن نجیم، علامہ ابن عرفہ مالکی، علامہ عدوی اور ان کے علاوہ دیگر حضرات بھی ہیں (اصول الفقہ الاسلامی ۔ الدکتور وھبہ الزحیلی)
تلفیق کی ذریعہ رخصت (آسان )کو اختیار کرنا
تلفیق کی صورت میں بہت سے لوگ رخصت اور اسی طرح مسالک اور علماء کے شاذ اقوال کی اتباع کرتے ہیں،خواہش نفس یا پھر آسانی کی غرض سے ،کیا ایسا کرنا جائزہے ؟ علماء کی اکثریت اس نوع کی تلفیق سے منع کرتی ہے کیونکہ یہ ایک طرح سے نفس کی اتباع ہے جس کی شرع میں ممانعت ہے ۔ابن عبدالبر سے اس پر اجماع منقول ہے لیکن یہ ثابت نہیں ہے۔ بعض علماء نے کسی مسلک میں رہتے ہوئے رخصتوں کی اتباع کو جائز قرار دیاہے ،کیونکہ شرع میں ایسا کچھ نہیں جو اس سے منع کرتاہو۔
کمال بن ھمام ’’تحریر‘‘ میں لکھتے ہیں ’’مقلد کو اختیار ہے کہ جس کی چاہے تقلید کرے ،اگر ایک شخص ہر مسئلہ میں کسی مجتھد کے اس قول کو اختیار کرے جو اس پر آسان ہو تو میں سمجھتا ہوں کہ نقلا اور عقلا اس کی ممانعت نہیں، کیونکہ وہ اپنے لئے آسان چیزوں کو کسی مجتھد کے قول کی بنا پر کرتاہے اور میرے علم کی حد تک شریعت اس کی مذمت نہیں کرتی ۔آپ ﷺ بھی اس چیز کو پسند فرماتے جو امت کے لئے آسان ہو ۔‘‘
ہم سمجھتے ہیں کہ شرعی احکام میں رخصت اور عزیمت کو اختیار کرنے میں کوئی تردد نہیں جبکہ ان احکام کے صحیح دلائل موجود ہوں اور جب تلفیق اصلاََ مباح ہے تو رخصت کو اختیار کرنے سے منع کرنے کی کوئی وجہ نہیں، جبکہ اس کی پشت پردلیل شرعی ہو۔یہ بھی کہنا صحیح نہیں کہ بغیر عذر اور ضرورت کے ایسا کرنا مکروہ ہے اور عذر اور ضرورت کی صورت میں بلا کراہت جائز ہے ۔رسول اللہﷺ کو بھی جب دو چیزوں میں اختیار دیا گیا تو آپﷺ نے آسان کو چنا جبکہ اس میں کوئی گناہ نہ ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک مسلم کو مختلف اجتہادی آراء کے درمیان اختیار کی آزادی ہے اور ان میں سے کسی کو اختیار کرنے پرگناہ نہیں ہے (ان شاء اللہ)۔
اس بات کا دھیان رہے کہ تلفیق صرف اجتہادی ظنی مسائل میں ہی ہے، قطعی مسائل میں تلفیق اور رخصت کی کوئی گنجائش نہیں۔پس اگر کوئی شخص تلفیق یا رخصت کے ذریعہ کسی شرعا ممنوع چیز کو اختیار کرتا ہے تو یہ حرام ہے جیسے اگر کوئی تلفیق کے ذریعہ شراب یا زنا یا ایسی ہی کسی قطعا حرام کو مباح کرے، یہ کسی طرح بھی حلال نہیں ہو سکتا،خواہ وہ تلفیق کے ذریعہ ہو یا کسی اور طرح سے۔

تبصرے بند ہیں۔