قرآن کا پیغام والدین کے نام – صالح اولاد کیلے نیک بیوی کا انتخاب ضروری (14)

مولانا عبدالبر اثری فلاحی
’’وَنَادیٰ نُوْحٌ رَّبّہٗ فَقَالَ رَبَّ اِنَّ ابْنِیْ مِنْ اَھْلِیْ وَ اِنَّ وَعْدَکَ الْحَقُّ وَ اَنْتَ اَحْکَمُ الْحَاکِمِیْنَ۔ قَالَ یَا نُوْحُ اِنَّہٗ لَیْسَ مِنْ اَھْلِکَ اِنَّہٗ عَمَلٌ غَیْرصَالِحٍ فَلاَ تَسْألْنِ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ اَنْ اَسْأَلَکَ مَالَیْسَ لِیْ بِہٖ عِلْمٌ وَ اِلاَّ تَغْفِرْلِیْ وَ تَرْحَمْنِیْ اَکُنْ مِّنَ الْخَاسِرِیْنَ‘‘ (ھود:45۔48)
ترجمہ:151 ’’اور نوح علیہ السلام نے اپنے رب کو پکاراپس کہا : اے رب! میرا بیٹا میرے گھر والوں میں سے ہے اور تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب حاکموں سے بڑا اور بہتر حاکم ہے ۔ جواب میں ارشاد ہوا : وہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں ہے۔ وہ تو ایک بگڑا ہوا کام ہے لہٰذا تو اس بات کی مجھ سے درخواست نہ کر جس کی حقیقت تو نہیں جانتا۔ میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے آپ کو جاہلوں کی طرح نہ بنالے۔ نوح علیہ السلام نے فوراً عرض کیا ۔ اے میرے رب ! میں تیری پناہ ‘مانگتا ہوں اس سے کہ وہ چیز تجھ سے مانگوں جس کا مجھے علم نہیں۔ اگر تونے مجھے معاف نہ کیا اور رحم نہ فرمایا تو میں برباد ہو جاؤں گا‘‘۔
ان آیات کا پس منظر یہ ہے کہ ساڑھے نوسو سال تک نوح علیہ السلام کی دعوت و اصلاح کی کوشش کے باوجود جب ان کی قوم نہ مانی تو ان پر اللہ کا عذاب آیا۔ سیلاب نے انہیں آگھیرا ، ہر ایک غرق ہونے لگا۔ صرف وہی لوگ محفوظ تھے جو نوح علیہ السلام کی کشتی میں سوار تھے۔ نوح علیہ السلام نے جب اپنے نافرمان بیٹے کو غرق ہوتے دیکھا تو اللہ تعالیٰ سے اسے بچا لینے کی درخواست کی۔ مندرجہ بالا آیات میں اس درخواست پر اللہ تعالیٰ کے جواب اور اس جواب پر نوح علیہ السلام کے طرز عمل کا تذکرہ ہے۔ اس پورے بیان سے بہت سی حقیقتیں سامنے آتی ہیں۔ جو عملی زندگی میں ہمارے لئے مشعل راہ بن سکتی ہیں۔ ذیل کے سطور میں ان حقیقتوں کی نشاندہی کی جارہی ہے۔
(1) نجات کی شرط ایمان ہے، قرابت داری نہیں خواہ کتنا ہی قریبی کیوں نہ ہو، نوح علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبر کی درخواست رد کردی گئی کیونکہ بیٹا صاحب ایمان نہیں تھا۔ تو ہماشما کس گنتی میں ہیں؟ اسی طرح ابراہیم خلیل اللہ جیسے جلیل القدر پیغمبر اپنے مشرک باپ آزر کے کچھ کام نہیں آسکے حتیٰ کہ اپنے باپ کے حق میں مغفرت کرنے کی دعا سے انہیں روک دیا گیا تو اور کون کیا کرسکتا ہے؟ خود شافع محشر رسول اللہ ﷺ نے اپنے خاندان والوں کو جمع کرکے واضح لفظوں میں بتادیا تھا ’’اے عبدالمطلب کی اولاد !خود کو آگ سے آزاد کرلو۔۔۔اے فاطمہ بنت محمد! اپنی جان کو آگ سے بچا لو۔ میں اللہ تعالیٰ سے تمہیں کچھ بھی نفع نہ دے سکوں گا سوائے اس کے کہ دنیامیں تمہاری رشتہ داری کو نبھاتا رہوں‘‘(مسلم) لہٰذا جو لوگ اس غلط فہمی یا خوش فہمی میں جیتے ہیں کہ قرابت اور تعلق کچھ کام آجائے گا انہیں اپنی اس سوچ کی اصلاح کرلینی چاہئے۔ قرآن نے تو کچھ اور ہی تصویر کھینچی ہے ’’یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِیْہٖ وَ اُمِّہٖ وَ اَبِیْہٖ وَ صَاحِبَتِہٖ وَبَنِیْہٖ لِکُلِّ امْرِیءٍ مِنْھُمْ یَؤْ مَءِذٍ شَأْنٌ یُغْنِیْہٖ‘‘(عبس:34۔37)’’اس روز آدمی اپنے بھائی اور اپنی ماں اور اپنے باپ اور اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے بھاگے گا ان میں سے ہر شخص پر اس دن ایسا وقت آپڑے گا کہ اسے اپنے سوا کسی کا ہوش نہ ہوگا ‘‘۔
(2) ایک اہم اور فطری سوال جو اس واقعہ کے تناظر میں اٹھتا ہے کہ آخر کیا اسباب تھے کہ نوح علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبر کے گھر میں پرورش و پرداخت کے باوجود بیٹا نافرمان رہا اور اسے ایمان و عمل صالح کی توفیق نصیب نہیں ہوئی۔ اس معاملہ کی تہہ میں اتریں تو معلوم ہوگا کہ اصلاً اس کے دو اسباب تھے، ایک کافر ماں کی آغوش اور دوسرے بری صحبت۔ فردی کا بیان ہے کہ نوح علیہ السلام کی بیوی کافر تھی ، خائن تھی اور اسی وجہ سے نجات پانے والوں میں شامل نہیں تھی۔ ظاہر ہے کہ جو خود ایمان سے محروم ہو، بے عمل ہو اس کی آغوش میں پلنے والا بچہ صالح کیسے ہوسکتاہے ؟ اسی لئے رسول اللہﷺ نے بیوی کے انتخاب کے وقت اس کی دین داری کو ترجیح دینے کی ہدایت فرمائی ہے’’فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّیْنِ‘‘اور نیک عورت کو دنیا کا گراں مایہ سرمایہ قرار دیا ہے ۔’’خَیْرُ مَتَاعِ الدُّنْیَا اَلْمَرْأَۃُ الصَّالِحَۃُ‘‘ لہٰذا جو لوگ بھی چاہتے ہیں کہ ان کی اولاد صالح بنے انہیں بیوی کے انتخاب میں چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ انہیں صالح اور دیندار عورت کو ترجیح دینا ہوگا ورنہ ان کا خواب کبھی پورا نہیں ہوسکتا۔
جہاں تک دوسرے سبب بری صحبت کا معاملہ ہے تو ظاہر ہے کہ جب وہ باپ کے ساتھ نہیں تھا اہل ایمان کے ساتھ نہیں تھا تو یقیناًکافر وں اور مشرکوں کے ساتھ ہی اس کے دن رات گزرتے ہوں گے۔ اس صورت میں ان کے برے اثرات سے بچنا کیسے ممکن تھا؟ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔وہ بھی شرک و کفر میں پختہ ہوگیا اور ڈوبتے وقت بھی باپ کی فہمائش پر کان نہیں دھرا۔
اسے معلوم ہوتا ہے کہ بری صحبت زہر ہلاہل سے کم نہیں۔اس کا نقصان کسی نہ کسی صورت میں ضرور پہنچتا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہﷺ نے سمجھاتے ہوئے فرمایا ’’نیک ساتھی اور برے ساتھی کی مثال خوشبو بیچنے والے اور بھٹی دھونکنے والے کی سی ہے۔ خوشبو بیچنے والا تمہیں تحفہ میں خوشبو دے گا یا تو اس سے خوشبو خرید لوگے یاکم از کم تمہیں اس سے بہترین خوشبو آئے گی ۔ جبکہ بھٹی میں پھونکیں مارنے والا یا تو تمہارے کپڑے جلا دے گا یا تمہیں بدترین بو آئے گی‘‘(مسلم)
اسی بات کو فارسی شاعر نے بڑے خوبصورت انداز میں یوں بیان کیاہے:
صحبت صالح ترا صالح کند صحبت طالح ترا طالح کند
نیک کی صحبت تمہیں نیک بنادے گی برے کی صحبت تمہیں برا بنادے گی۔
اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اپنی اولاد کے ساتھیوں اور ان کی صحبتوں پر بھی نظر رکھنی چاہئے ورنہ اگر وہ بری صحبت میں پھنس گئے تو اپنی دین و دنیا سب تباہ کربیٹھیں گے جیسا کہ نوح علیہ السلام کے بیٹے کا انجام ہوا۔
(3) اولاد کی محبت میں بشریت کے تقاضے کے تحت بسا اوقات انسان ایسا قدم اٹھالیتا ہے جو مومن کے شایان شان نہیں جیسا کہ نوح علیہ السلام نے بیٹے کے لئے غلو سفارش کرڈالی۔ روزمرہ کی زندگی میں اس طرح کی لغزشوں کے مظاہرے ہمیشہ مشاہدے میں آتے ہیں۔ ایساہونا انسانی فطرت سے بعید نہیں۔ لیکن خرابی اس وقت پیدا ہوتی ہے جبکہ جان بوجھ کر ایسا کیا جائے یا غلطی کا احساس ہو جانے کے باوجود اس پر مصر رہا جائے یا غلطی پر توجہ دلانے کے بعد اس کی بے جا تاویلیں کی جائیں۔ یہ طرز عمل بندگی رب اور ایمانی حرارت کے خلاف ہے۔ اس طرح کے مواقع پر کمال عبدیت یہ ہے کہ جیسے ہی احساس ہو یا توجہ دلادی جائے فوراً حق کو مان لیا جائے اور مغفرت طلب کی جائے خواہ اولاد سے ہاتھ دھونا پڑے یا اس کے مفادات خطر ے میں پڑ جائیں۔ جیسا کہ نوح علیہ السلام نے کیا۔ جیسے ہی اللہ تعالیٰ نے متنبہ فرمایا فوراً درخواست واپس لے لی۔ مغفرت کے طلبگار ہوئے اور بیٹے سے کوئی سرور باقی نہ رہا۔ کیاآج اس طرح کی لغزشوں کا شکار ہونے والے والدین اس طرز عمل کا ثبوت پیش کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں؟ نوح علیہ السلام کا اسوہ حسنہ کتنے والدین اپنانے کو تیار ہیں؟
ایسا نہیں کہ نوح علیہ السلام نے اپنے بیٹے کی اصلاح کے لئے کوئی کوشش نہیں کی تھی۔ ڈوبتے ڈوبتے تک سمجھایا تھا کہ کافروں کا ساتھ چھوڑ کر ایمان لے آؤ اور ہمارے ساتھ کشتی میں سوار ہو جاؤ لیکن وہ بگاڑ کی اس حد کو پہنچ چکا تھا کہ اسے توفیق نہیں ملی گویا کہ اس کے اندر قبول حق کی کوئی رمق باقی نہیں رہ گئی تھی، اسی لئے فرمایا گیا ’’اِنَّہٗ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ‘‘ وہ تو ایک بگڑا ہوا کام ہے ۔ جس طرح بدن کا کوئی حصہ سڑ جائے اور لاکھ علاج و معالجہ کے باوجود ٹھیک نہ ہو بلکہ بدن کے دوسرے حصوں کو متاثر کرنا شروع کردے تو ایسے حصے کو الگ کردینا ہی بہتر ہوتا ہے۔ خواہی نخواہی الگ کردیا جاتاہے۔ اس کو صرف اس لئے باقی نہیں رکھا جاتا کہ وہ میرے قیمتی جسم کاایک حصہ ہے اسی طرح نوح علیہ السلام کا بیٹا تھا جس کے اندر قبول حق کی رمق باقی نہیں رہ گئی تھی۔ ساری کوشش کے باوجود اس کے سدھرنے کا امکان نہیں تھا بلکہ بری طرح بگڑ چکا تھا۔ اسی لئے فرمایا گیا کہ اب اسے اپنے گھر والوں میں سے نہ سمجھو۔ اس پر تم نے جتنی محنت کی سب ضائع گئی۔ اسے اب تمہارے گھر والوں کے ساتھ رہنے کا حق نہیں۔ اسے الگ کردینا ہی بہتر ہے۔ اسی لئے کہ آج اچھے اور برے الگ الگ کئے جارہے ہیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ آخر لمحہ تک اولاد کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے اور جب معاملہ آخری حد کو پہنچ جائے تو اسے بے تعلق بھی کیا جاسکتا ہے۔ اس سے لاتعلقی برتی جاسکتی ہے۔ خصوصاً جب کہ معاملہ دین و ایمان کا ہو اور ساری فہمائش کے باوجود وہ کفرو شرک سے دست بردار ہونے کے لئے تیار نہ ہورہاہو۔

تبصرے بند ہیں۔