بدل رہے ہیں زمانہ کو ہم اشاروں سے

ہلال احمد

اقتدار اور مصیبت ہمیشہ نہیں رہتے ہیں، مصیبت زائل ہوجاتی ہے اور اقتدار کسی دوسرے کے ہاتھ میں منتقل ہوکررہتی ہے،زمین نے کتنے حکمرانوں کو سمولیا آسمان شاہد ہے۔اس لیے دودن کے اقتدار اورچار دن کی مقبولیت پر زیادہ مغرور نہیں ہوناچاہیے۔ کائنات کا یہ اصول ہے عروج اورترقی اسی کو ملتی ہے جو کاوش ومحنت کرتاہے لیکن اسی عروج وترقی کے ایام میں اگروہ اپنے سے کمتر کے درمیان حدفاصل قائم کرلے اور جبراًظلم کا مرتکب ہوتو سمجھ لینا چاہیے کہ غروب کے دن آچکے ہیں کیونکہ شمع بجھنے سے پہلے پھڑپھڑاتی ضرورہے۔ اب دیکھئے ناکہ کس طرح مرکزی حکومت اور اس کے کارندے جمہوریت کے چوتھے ستون کو اپنی مٹھی میں بندکرنے پر تلے ہوئے ہیں، آئے دن دیانتدار،غیرجانبدار اور انصاف پسند صحافیوں کی آواز چھینی جارہی ہے۔ صحافیوں کو پریشان کیا جارہاہے، انہیں اپنی صحافتی ذمہ داری نبھانے نہیں دیاجارہاہے، ابھی حال ہی میں یہ خبرآئی کہ کچھ چنندہ صحافیوں کو ٹارگیٹ کیاجارہاہے حالانکہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اگر ایک صحافی حکومت کی بات کو عوام تک پہنچاتا ہے تواس کی یہ بھی ذمہ داری ہوتی ہے کہ عوام کی آواز کو حکومت تک پہنچائے، یکطرفہ عملداری سے کسی کا بھلا نہیں ہونے والا ہے۔ لفظ جمہوریت خود اپنے اندر آزادی کامعنی رکھتی ہے، جمہوری ملک میں اس اہم ستون پر اگرنشتر بازی کی جائے تو پھر کہیں ناکہیں عوام اور حکومت کے مابین خلا پیداہوجاتاہے۔

 مرکزی حکومت کے اقتدار میں آئے ہوئے چارسال سے زائدکا عرصہ گزرچکاہے جلنے اور سنورنے کے لیے اتنا وقت کافی ہوتاہے، اب عوام کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے مطالبات کریں، حکومت سے سوال کریں، اس کے کیے گئے وعدوں کی عدم تکمیل پر اپنی تشویش کا اظہارکریں اور جمہوری طرز احتجاج کے ذریعہ انصاف کی گہار لگائیں جس میں سب سے اہم ذریعہ یہی صحافت اور میڈیا ہی ہے۔ اب اگر اس پر قدغن لگایاجائے یا صحافیوں کے منہ میں اپنی زبان ڈالی جائے یہ بہتر طرزحکمرانی نہیں بلکہ آمریت کی نشانی ہے۔ وہ قوم جو بے انصافی اور بددیانتی کے خلاف لڑنے کی ہمت نہیں رکھتی وہ دیانت اور انصاف کی مستحق نہیں رہتی ہے۔اس لیے صحافتی ذمہ داری نبھارہے انگلیوں پر گنے جانے والے چندصحافیوں کو حق بات کہنے دیا جائے تاکہ عوام اور حکومت کے درمیان ربط قائم رہے۔ ورنہ دیکھئے نا کہ کس طرح میڈیاپرکارپوریٹ گھرانے کنڈلی مارکر بیٹھ گئے ہیں اب یہاں کام کرنے والے صحافی حضرات آزاد نہیں ہیں بلکہ ان کو وہی کچھ کہنااور بولنا پڑتا ہے جو ان کی پالیسی سے معارض نہ ہوتے ہوں دوسرے لفظوں میں یہ کہاجائے کہ جو ان کے آقا بلواتے ہوں۔ کیا ہی سچ کہاتھا مارکس نے کہ’ پریس کی پہلی اور اصلی آزادی یہ ہے کہ وہ اپنے کو تجارت یا کاروبار نہ ہونے دے‘۔درحقیقت تجارت میں مطمح نظر نفع ہوتا ہے، اب بھلاکون بے وقوف ہوگاکہ اپناپاؤں خسارے میں ڈالے،یہی سب آج ہمارے میڈیا میں ہورہاہے، ٹی وی چینلوں پر نظرڈالیں تو دماغ کی دہی بننا طے ہے، بس وہی ماکول لقمے پر مشتمل موضوعات گردش کرتے ہیں جس میں دوفرقوں کے مسائل سلجھانے کے بجائے الجھائے جارہے ہوں یا محبتوں کی گنگا بہانے کے بجائے نفرتوں کے بیج بوئے جاتے ہوں۔

تفرقہ اندازی اور مذہبی استحصال یہ دوایسے موضوع جس کے زینہ پر قدم رکھنے سے اقتدار کی کرسی بہت قریب ہوجاتی ہے،یہی وجہ تھی ہٹلرنے اپنی قوم کے اندر مخالف مذہب کے تئیں نفرت کو بھردیاتھااور پھر جوکچھ ہوا دنیا جانتی ہے۔ فرقہ واریت اورمذہبی استحصال یہ بہت ہی کارآمداورآزمودہ نسخے ہیں۔ خیر صحافت کے بارے میں کہاجاتاہے کہ یہ دودھاری تلوار ہے اگر اس کے دستے کومضبوطی سے تھام لیاجائے تو پھر زمام اقتدار بآسانی حاصل ہوسکتی ہے،کیونکہ یہ جس کوچاہے اوج ثریا پربراجمان کردے اورجس کی چاہے کردار کشی کرکے سماج کی نظروں میں گرادے۔یہ سب کچھ کارپوریٹ گھرانوں کے زیرتحت ہونے کی وجہ سے ہورہاہے۔ اخبار ’’پرتاپ‘‘ کے مدیر مہاشہ کرشن کا شمار اردو کے کامیاب صحافیوں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے فرنگی حکومت کے خلاف اپنے اخبار کو استعمال کیا۔ اس اخبار کی خبریں بڑی ولولہ انگیز ہوتی تھیں۔ وہ صحافت سے متعلق اپنے نظریے کو یوں پیش کرتے ہیں :’’اخبار نویس، خبر فروش یا ایک عام دوکاندار کی طرح نہیں ہوتا ہے اس کا خبریں بیچنے کا رنگ یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک کاز کے لئے اپنی زندگی وقف کردیتا ہے۔ اس پر جبر و استبداد کے خلاف آواز بلند کرنے کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اسے ہمیشہ مقہور و مجبور کی ترجمانی کرنی چاہئے اور ضرورت پڑنے پر اسے اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ اس کا فرض ہے کہ وہ عوام کی تکلیفیں بیان کرے اور ان تکلیفوں کی نمائندگی کرے اور اگر حکومت ان پر توجہ نہ دے تو حکومت کے خلاف جدوجہد کا بگل بجادے۔‘‘

میڈیاکی ذمہ داری ہے کہ وہ سچائی کوپیش کرے،میڈیاسماج کا آئینہ ہے جس طرح آئینہ جھوٹ نہیں بولتا اسی طرح میڈیا کو بھی سچائی سامنے لانے میں کوئی تردد نہیں کرناچاہیے، صحافتی اصول ہمیشہ پیش نگاہ ہونی چاہیے۔ لیکن ہندوستانی میڈیا اس کے برعکس کام کررہاہے، میڈیافروخت ہوچکاہے، عوام کی باتوں کو خواص تک پہنچانے کے بجائے حکومت کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملارہاہے، حالانکہ ایسانہیں ہوناچاہیے سب کی اپنی اپنی ذمہ داریاں متعین ہیں، ایک ٹی وی اینکرہونے کے ناطے جہاں اینکر حکومت کی پالیسوں کی تشہیر کرتے ہیں وہیں یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ وقت بوقت سماج کو دھیان میں رکھ کر حکومت کی ان پالیسیوں پر جو عوام مخالف ثابت ہورہی ہیں ان پربحث کرے۔حال ہی میں ایک انٹرویومیں فلم ملک کے ڈائریکٹراور پروڈیوسرانوبھوسنہانے بہت ہی بہترین جواب دیاہے:’’انہوں نے کہااگرآج آپ اچھے جرنلسٹوں کی ایک فہرست بنائیں گے توتین چار نام سب سے پہلے آئیں گے اوریہ ایسے لوگ ہیں جو بے خوف ہیں، صحافت کاکام ہی بے خوفی کاہے،میں نے ایک دن جرنلسٹوں کے بارے میں کچھ سخت قسم کے الفاظ ٹویٹرپراستعمال کردیئے جس پر میرے کچھ صحافی دوستوں کے فون آگئے، میں نے ان سے کہاکہ اگرآپ سچ نہیں بول پارہے ہوتوکچھ اور کرو…ریسٹورینٹ کھول لو،سیلون کھول لو،فیشن اسٹورکھول لو …کس نے کہاتھاکہ جرنلسٹ بنو! کس نے کہاتھاکہ فلم میکربنو!  اگرتم میں اپنے من کی بات کہنے کی ہمت نہیں ہے توبہت سارے کام ایسے ہیں جہاں اپنے من کی بات کہنے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے‘‘۔

میڈیاخود میں آزاد ہے اور اس کی آزادی کا مطلب ہے کہ وہ جمہوری اقدار کی حفاظت کرے، حکومت کی آنکھ میں آنکھیں ڈال کرسوال کرے، چاپلوسی کرنے کے لیے بہت سے کام ہیں جس کے ذریعہ چاپلوسی کی جاسکتی ہے،بس یہاں اپنی ذمہ داری اوراپنے اصول واقدارکی حفاظت کرنی چاہیے، تبھی جمہوریت کا یہ چوتھاستون قائم رہ سکے گا ورنہ منہدم ہونے میں وقت تو لگے گا لیکن یہ منہدم ہوتے ہوتے اپنے ساتھ پورے ملک کو بھی لے ڈوبے گا۔

دراصل حکومتیں نے میڈیا پر اپناتسلط قائم رکھنے کے لیے مذموم قدم بڑھاتی رہتی ہیں اوربکاؤ میڈیانے ان کاساتھ بھی دیتاہے لیکن وہیں کچھ ایسے ایمانداراور صحافتی اصولوں کے پاسداراینکر بھی ہیں جنہوں نے صحافت کی لاج رکھی اورصحافتی اصولوں سے سمجھوتہ نہیں کیااوراپنی خودی پر قائم وبرقرار رہے،ہندوستانی میڈیا گھرانوں میں آج کل وہی دیکھنے کو مل رہا کہ جوچندایک صحافی سچائی پرقائم ہیں انہیں ستایاجارہاہے، چوردروازوں سے ان پر حملے کیے جارہے ہیں کسی کو جبراًتعطیل پر بھیج دیاجارہاہے اور کسی نیوزاینکر کو نیوز نہیں پڑھنے دیاجارہاہے یا پر سیٹیلائیٹ کی مدداس کے پروگرام کو معطل کرکے، روک روک کر یا بلیک اسکرین کرکے دکھایاجارہاہے جبکہ اسی وقت دوسرے نیوزچینلوں کی خبریں فراٹے سے چل رہی ہوتی ہیں، مجبوراًانہیں مستعفی ہونا پڑرہاہے۔ہمارے سامنے پونی پرسون واجپئی، ملنڈکھنڈیکراور ابھیشارشرماکی مثال موجود ہے جنہیں گزشتہ دنوں اپنی نوکری چھوڑنی پڑی۔ ملنڈکھنڈیکر نے اے بی پی نیوز سے استعفیٰ دے دیا ہے اور پونی پرسون واجپئی کے بارے میں بھی اسی طرح کی خبریں گردش کررہی ہیں، اور ابھیشار شرما کو کچھ دنوں کے لیے چھٹی پر بھیج دیاگیاہے۔میڈیاپر اس طرح کادباؤ ایک طرح سے آمرانہ روش دکھائی دے رہی ہے جو ملک کے لیے تشویشناک امر ہے،اورمستقبل کے بارے میں جوتشویش ہوتی ہے وہ خوف نہیں ہوتاہے۔لیکن ایک بات یاد رہے کہ ہواچراغ کی لو کو بجھاتودیتی ہے مگرکیایہ سچ نہیں کہ انگیٹھی کے شعلوں کو بھڑکابھی دیتی ہے۔آج سوشل میڈیا کادور ہے کیاضروری ہے نیوز اینکر صرف اپنے اسٹوڈیوہی سے اپنی بات عوام تک پہنچائیں گے !!  کیاایسا نہیں ہوسکتاہے کہ اپنی بات اپنے پرسنل چینل یا ویب پورٹل کے ذریعہ لوگوں تک پہنچادیں، زبان ناصحیح قلم کے ذریعہ لوگوں تک پہنچائیں۔ آواز دبائی جاسکتی ہے لیکن کسی کے منہ میں اپنی زبان نہیں ڈالی جاسکتی ہے اوریہ حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں ہے۔

فضانہیں ہے ابھی کھل کے بات کرنے کی

بدل رہے ہیں زمانہ کو ہم اشاروں سے

ایک جمہوری ملک میں رہنے کے ناطے سب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ حکومت سے سوال کریں اور میڈیاکی آزادی سے متعلق اپنے احتجاج درج کرائیں، حاشیہ پر لائے جارہے دیانتدار صحافیوں کاساتھ دیں، ساتھی ہی اپوزیشن جماعت کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس پر آواز اٹھائے، اپوزیشن میڈیا کی اہمیت کو عوام سے زیادہ سمجھتی ہے۔ حکومت میں بیٹھے کارندے آج کے اس دور کا ایمرجنسی سے موازنہ کرکے اپنی خفت مٹانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن انہیں یہ جانناچاہیے کہ کسی کے کرتوت کو اجاگر کرکے اپنی ناکامی نہیں مٹائی جاسکتی ہے،انہیں اپنی ذمہ داری کو سمجھنا چاہیے اور پھر ہرکسی کو اپنے میدان میں اپناکام کرنے دیناچاہیے تاکہ ملک کا چوتھا ستون آزاد ہواور جمہوریت کی روح پر ضرب نہ لگے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔