بسم اللہ خان جن کی پہچان بنی شہنائی

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

شہنائی کا خیال آتے ہی ذہن میں بسم اللہ خان کا عکس ابھرتا ہے۔ یہ مقام انہیں سخت محنت اور برسوں کے ریاض سے حاصل ہوا۔ انہوں نے جب اپنے کیریئر کی شروعات کی اس وقت گانے بجانے کے کام کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔ شہنائی مندروں راجا، رجواڑوں کے مین گیٹ اور شادی بیاہ میں بجائی جاتی تھی۔ شہنائی بجانے والے فنکاروں کو گھر کے آنگن یا اوٹلے کے آگے آنے کی اجازت نہیں تھی۔ اس لئے خاں صاحب کی والدہ اپنے بچے کو شہنائی بجانے والے کے طور پر کبھی نہیں دیکھنا چاہتی تھیں۔  وہ خان صاحب کے والد سے کہتی تھیں کہ’’ کیوں آپ اس بچے کو اس ہلکے کام میں جھونک رہے ہیں۔ ‘‘ جبکہ بسم اللہ خان کے والد، دادا، پر دادا بھوجپور راجہ کے دربار میں موسیقی کار تھے۔ وہ ڈمراؤ پلیس میں درباری راگ بجیا جاکرتے تھے۔ آپ کے والد ڈمراؤ ریاست کے مہاراجہ کیشوپرساد سنگھ کے دربار میں شہنائی بجایا کرتے تھے۔ یہ آج صوبہ بہار کا حصہ ہے۔

بسم اللہ خان چھ سال کی عمر میں اپنے والد کے ساتھ بنارس آئے۔ یہا ں انہوں نے اپنے ماموں علی بخش ولایتی کو شہنائی بجاتے دیکھا۔ وہ کاشی وشوناتھ مندر میں شہنائی بجیا کرتے تھے اور وہیں ریاض بھی کرتے تھے۔ بسم اللہ ان کے ساتھ ہوتے، ایک دن انہوں نے ماموں سے پوچھ لیا’’مجھے شہنائی بجانا کب آئے گا‘‘ ماموں نے جواب دیا جب سیکھوگے، بسم اللہ کا اگلا سوال تھا’ کب سے سیکھیں،  جواب ملا،آج سے،اور اس طرح تعلیم شروع ہوگئی۔ علی بخش صاحب جو بجاتے، وہ اسے دوہرانے کی کوشش کرتے۔ شہنائی سے عجیب عجیب آواز آتی تھی۔ بسم اللہ مایوس ہوتے، توانکے ماموں ان کا حوصلہ بڑھاتے۔ آدھے گھنٹے سے شروع ہوکر ریاض کا وقت بڑھتا گیا۔ دن میں چھ گھنٹہ ریاض ہونے لگا، دھیرے دھیرے سرپکے ہونے لگے اور اعتماد برھنے لگا۔ منگلا گوری اور پکا محل بنارس میں ریاض کرتے ہوئے وہ جوان ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ گنگا کنارے بیٹھ کر وہ گھنٹوں شہنائی بجاتے۔ گنگا کی تیز ہلکی لہریں ان کے قریب تک آتیں پھر دور چلی جاتیں۔  ایسا لگتا مانو وہ ان کی ہر دھن پر داد دے رہی ہوں اور گنگا کی جانب سے فرمائش آرہی ہو کہ اور بجاؤ، خوب بجاؤ، بجاتے رہو۔ بسم اللہ خان کو کنگا کو شہنائی سنانا اچھا لگتا تھا۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ بسم اللہ خان کے سر گنگا کی لہروں سے مل کر صبح بنارس کی فضا کو موسیقی کے رنگ سے شرابور کردیتے تھے۔

خان صاحب کی پہلی پبلک پرفارمنس کہاں ہوئی تھی، اسے لے کر الگ الگ رائے ہے۔ بنارس سے باہر پہلی پرفارمنس کلکتہ میں بتائی جاتی ہے۔ جہاں آل انڈیا میوزک کانفرنس1937میں انہوں نے شہنائی بجائی تھی۔ لیکن ایک پرفارمنس ہے جس نے بسم اللہ خان کی زندگی کی راہ طے کی۔ یہ 1930 کے آس پاس کی بات ہے۔ ماموں علی بخش ولایتی کو الٰہ آباد جانا تھا، بسم اللہ ضد کرنے لگے تو ماموں انہیں ساتھ لے گئے۔ وہاں موسیقی کی تقریب میں علی بخش صاحب نے شہنائی بجانی شروع کی، وہ راگ کیدار بجارہے تھے۔ بیچ میں انہوں نے بسم اللہ کی طرف شارہ کہ وہ بھی بجائیں۔  بسم اللہ نے بالکل ویسے ہی بجانا شروع کیا۔ انہیں سر اور نوٹس کے باوجود انداز الگ تھا۔ استاد فیاض خاں جو سنگیت کی دنیا کا بڑا نام تھا، ان کے منھ سے بے ساختہ واہ واہ نکلا۔یہیں سے طے ہوگیاکہ بسم اللہ خاں موسیقی کا بڑا نام بنیں گے۔

شہنائی لوک سنگیت کا حصہ مانی جاتی تھی۔ اس لئے روایتی وتہذیبی مواقع پر اسے رسماً بجانے کا رواج تھا۔ بسم اللہ خان نے بجری، چیتی اور جھولا، جیسی لوک دھنوں میں باجے کو اپنی عبادت اور ریاض سے خوب سنوارا اور کلاسیکل موسیقی میں شہنائی کو عزت کا مقام دلایا۔ انہوں نے پیچیدہ موسیقی کو تشکیل، جسے تب تک شہنائی کے دائرے سے باہر مانا جاتا تھا، میں توسیع کر اپنے ٹیلنٹ کا مظاہرہ کیا اور جلد ہی انہیں اس فن کے ساتھ ایسے جوڑا جانے لگا جیسا کسی دوسرے فنکار کے ساتھ نہیں ہوا۔ شہنائی کے اور وہ شہنائی کے ساتھ جڑ گئے۔ انہیں ملک میں زبردست مقبولیت حاصل ہوئی۔ اسی کے چلتے بسم اللہ خان کو 1947 میں آزادی کی پہلی شام کو شہنائی کے ذریعہ آزادی کی خوشی بانٹنے کا موقع ملا۔ ایک طرف لال قلعے پر بھارت کا ترنگا پھہرا رہاتھا۔ وہیں دوسری طرف بسم اللہ خان کی شہنائی آزادی کا پیغام سنا رہی تھی۔ اس موقع پر ان کی دھن انتہائی پراثر تھی۔تب سے لگ بھگ ہر سال 15 اگت کو وزیراعظم کے ملک سے خطاب کے بعد بسم اللہ خان کی شہنائی گونجنے کی روایت بن گئی۔ انہوں نے 26 جنوری1950 کو بھی یوم جمہوریہ کی شام کو لال قلعہ پر راگ کافی پیش کیا تھا۔

استاد کی شہنائی کی گونج نے دیش اور دنیا کے الگ الگ حصوں کے لوگوں کو متاثر کیا۔ انہوں نے اپنی ز.دگی میں ایران، عراق، افغانستان، جاپان، ہانگ کانگ، کناڈا، مغربی افریقہ، امریکہ، سابق سویت روس اوردنیابھر کے تمام ممالک کی راجدھانیوں میں اپنی شہنائی کی جادوئی دھنیں بکھیریں،  ان کی شہنائی کے جادو سے فلمی دنیا بھی اچھوتی نہیں رہی۔ انہوں نے کنڑ فلم’’ سنادی اپننا‘‘ میں راج کمار کے کردار کیلئے شہنائی بجائی۔ 1959میں آئی فلم ’’گونج اٹھی شہنائی‘‘ میں راجندر کمار کے لئے شہنائی کی دھن دی۔ ستیہ جیت رے کی فلم’’ جلسہ گھر‘‘ کیلئے شہنائی کی دھنیں چھیڑیں۔  1967 کی فلم’’ دی گریجویٹ‘‘کے پوسٹر میں استاد بسم اللہ خان کے ساتھ سات موسیقی کاروں کو دکھایا گیا تھا۔ آخری بار انہوں نے آشوتوش گوریکرکی ہندی فلم’’سودیش‘‘ کے گیت ’یہ جو دیش ہے تیرا‘‘ میں شہنائی کی مدھرتان بکھیری تھی۔ انہیں فلموں کا ماحول پسند نہیں آیا۔ جس کی وجہ سے وہ زیادہ دیر تک فلمی دنیا سے جڑے نہیں رہ سکے۔

موسیقی میں جگل بندی کیلئے بسم اللہ خان کو یاد کیا جاتا ہے۔ انہوں نے استاد ولایت خان کے ستار اور پنڈت وی جی جوگ کے وائلن کے ساتھ اپنی شہنائی کے سر جوڑ کر موسیقی کی تاریخ میں سروں کی نئی تاریخ رقم کردی۔ خاں صاحب کی جگل بندی کے ایل پی ریکارڈس نے فروخت کے ساتھ ریکارڈ توڑ ڈالے۔ بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ بسم اللہ خاں ن کے انہیں جگل بندی کے ایلیمس کے آنے کے بعد جگل بندی کا دور شروع ہوا۔ خاں صاحب کی لائیو پرفارمنس۔ میسٹروچائس(فروری1994) میگھ ملہار۔ وولیم 4(ستمبر 1994) کوئن ایلیزابیتھ ہال کا لائیو شو (ستمبر2000) لندن میں لائیو پرفارمنس۔ وولیم(2،ستمبر2000)کے ایلبم بھی خوب مقبول ہوئے۔

صوفیانہ مست مولاانداز، مستی، ٹھسک اور وہ رس جوان کی شہنائی سے ٹپکتا تھا۔ وہ انہیں بنارس کی مٹی اور تہذیب سے ملا۔ ایسی تہذیب جہاں خدا اور بھگوان الگ نہیں دکھتے۔ تبھی تو وہ مندر ہمیشہ سے بسم اللہ صاحب کیلئے تعلیم کا مرکز جیسا رہا جہاں ان کے ماموں اور استاد علی بخش ولایتی بھی ریاض کرتے تھے۔ استاد بسم اللہ خان ویسے تو شیعہ مسلمان تھے لیکن وہ تمام مذاہب کی عزت کرتے تھے۔ ان کے نزدیک موسیقی، سر اور نماز کے علاوہ سارے انعام واکرام بے معنی تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ موسیقی کی کوئی ذات پات نہیں ہے۔ بھلے ہی یہ دنیا ختم ہوجائے گی لیکن سنگیت پھر بھی زندہ رہے گا۔ موسیقی ایسا خوبصورت احساس ہے جو انسان کو رب سے قریب کردیتا ہے۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ صرف موسیقی ہی ہے جو اس ملک کی وراثت اور تہذیب کو ایک روپ دینے کی طاقت رکھتی ہے۔ برسوں پہلے کچھ شدت پسندوں نے بسم اللہ خان کے شہنائی بجانے پر اعتراض کیا۔ انہوں نے آنکھیں بند کیں اور شہنائی پر اللہ ہو کی دھن بجانی شروع کردی۔کچھ دیر بعد انہوں نے مولویوں سے پوچھا’’میں اللہ کو پکار رہاہوں،  میں اس کی کھوج کررہا ہوں،  کیا میرا یہ تجسس حرام ہے۔‘‘ ان کی بات سن کر سب بے زبان ہوگئے۔ وہ ہندو مسلم یکجہتی کا جیتا جاگتا نمونہ تھے۔ وہ اپنی موسیقی سے لوگوں میں امن، اتحاد اور پیار پھیلانے کیلئے مشہور تھے۔ استاد بسم اللہ خان کو ملے اعزاز وانعامات پر نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ بہت کم عمری میں ہی انہیں نوازا جانے لگا تھا۔ محض 14 سال کی عمر میں استاد کو آل انڈیا میوزک کانفرنس الٰہ آباد میں بیسٹ پرفامر کا ایوارڈ 1930میں دیا گیا۔1937 کی آل انڈیا میوزک کانفرنس کلکتہ میں انہیں تین میڈل ملے۔ 1956 سنگیت ناٹک اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ 1961میں پدم شری اور 1968پدم بھوشن سے نوازے گئے۔1969 میں انہیں ایشیائی میوزک کانفرنس میں ’’روسٹم انعام ‘‘دیاگیا۔1980میں پدم وبھوشن ملا۔ سنگیت ناٹک اکیڈمی نے 1994 میں استاد کو اسکالر شپ جاری کی۔ حکومت ایران نے 1992 میں تلار موسیقی انعام ان کی خدمت میں پیش کیا۔مدھیہ پردیش حکومت نے ریاست کا سب سے بڑا اعزاز تان سین ایوارڈ خان صاحب کو دینے کا شرف حاصل کیا۔ حکومت ہند نے 2001 میں ملک کے سب سے بڑے اعزاز بھارت رتن سے انہیں نوازا۔ وہ ملک کے تیسرے ایسے موسیقی کار تھے جن کی بھارت رتن دے کر عزت افزائی کی گئی۔ بنارس ہندویونیورسٹی اور شانتی نکیتن نے استادبسم اللہ خان کوڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگریوں سے نوازا۔

21؍مارچ1916کو بسم اللہ خان کی ولادت پیغمبر خاں اور مٹھن بائی کے یہاں ڈمراؤ بہار کے ٹھٹھری بازار کے ایک کرایہ کے مکان میں ہوئی تھی۔ شروع میں ان کا نام قمرالدین تھا۔ وہ اپنے ماں باپ کی دوسری اولاد تھے۔ ان کے بڑے بھائی کا نام شمس الدین تھا۔ دادا رسول بخش کو جب پوتے کے پیدا ہونے کی خبر ملی تو انہوں نے کہا’’ بسم اللہ‘‘ جس کا مطلب ہے اچھی شروعات۔ آگے چل کر وہ بسم اللہ خان کے نام سے مشہور ہوئے۔ ان کے خاندان کے لوگ درباری راگ بجانے کے ماہر تھے جو بہار کے بھوجپور ریاست میں اپنی موسیقی کا ہنر دکھانے کیلئے اثر جایا کرتے تھے۔ والدہ کے نہ چاہنے پر بھی ان کے والد اور ماموں بسم اللہ خان کو شہنائی وادک بنانا چاہتے تھے۔ اس فن میں انہوں نے کمال حاصل کیا اور 70 سالوں تک اپنی شہنائی کے ساتھ انہوں نے موسیقی کی دنیا پر راج کیا۔ ان کی آخری دنوں میں انڈیا گیٹ پر شہنائی بجانے کی خواہش تھی جو پوری نہ ہوسکی۔ ہر بنارسی کی طرح وہ بھی آخری سانس بنارس میں ہی لینا چاہتے تھے۔17 اگست2006 کو وہ بیمار بیمار پڑے۔ انہیں بنارس کے ہیریٹج اسپتال میں بھرتی کرایاگیا۔ حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے 90 سال کی عمر میں 21؍اگست 2006 کو وہ اس دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے۔

انتقال کے وقت انہوں نے پانچ بیٹیاں،  تین بیٹے اور ایک گود لی ہوئی بیٹی چھوڑی۔ ان کے زیادہ تر شاگرد ہندو تھے۔ پہلی خاتون شہنائی وادک باگیشوری دیوی تھی۔ موسیقی کے ذریعہ ملک کو اتحاد کے دھاگے میں پرونے کی خواہش رکھنے والے استاد بسم اللہ خان کی روح کورب سے جوڑنے والی شہنائی کی دھنیں ان کے ساتھ ہی خاموش ہوگئیں۔ لیکن ان کی شہنائی کی گونج ہمیشہ لوگوں کے کانوں میں گونجتی رہے گی۔خان صاحب کے انتقال پر ان کے ہم عصر پنڈت جس راج نے کہا’’ وہ ایک ایسے فرشتے تھے جو زمین پر بار بار جنم نہیں لیتے ہیں اور جب جنم لیتے ہیں تو اپنی امٹ چھاپ چھوڑجاتے ہیں ‘‘ ہری پرساد چورسیا کا کہنا تھاکہ’’ میرا ماننا ہے کہ ان کا انتقال نہیں ہوسکتا کیوں کہ وہ ہماری روح میں اس قدر رچے بسے ہوئے ہیں کہ ان کو الگ کرنا ناممکن ہے‘‘۔ ان کے جانے پر حکومت نے ’’قومی غم‘‘ کا اعلان کیا اوران کی یاد میں ڈاک ٹکٹ جاری کیاگیا۔ بہار سرکار نے ان کی یاد میں میوزیم بنانے اور ڈمراؤ میں ان کا اسٹیچو لگانے کا فیصلہ کیا تھا۔ وہ اپنے کام کو عبادت کی طرح کرتے اور شہنائی کو اپنی بیگم کی طرح چاہتے تھے۔ آخری وقت میں یہی رات کا سہارا تھی۔ اس لئے ان کی شہنائی کو بھی ان کے ساتھ ہی دفن کیاگیا۔ بھلے ہی آج بسم اللہ خان ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن ان کی شہنائی کی گونج اور امن ویکجہتی کی بنیاد پر ملک کو متحد رکھنے کا خواب ہمیشہ ہماری یادوں میں محفوظ رہے گا۔

تبصرے بند ہیں۔