کامیابی کا راز قابلیت ہے نہ کہ دولت 

احساس نایاب

تعلیم کی دنیا میں آج گریٹس، پرسینٹیج، ڈسپلین کے نام پہ ایسی ریس لگی ہوئی ہے کہ ہر مان باپ چاہتے ہین انکے بچے ہمیشہ ٹاپر کہلائیں اور اس سوچ کے چلتے 96 پرسینٹ سے کم کہنا مانو ایک گالی کی طرح ہے آخر سماج میں اپنے آس پڑوس رشتے دار دوست احباب میں عزت کا سوال جو ہوتا ہے جسکی وجہ سے جدھر دیکھو ہر کوئی اپنی ناک بچانے کے چکر مین یا کئی والدین اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کی چاہت میں بڑی سے بڑی قربانیان دینے کے لئے بھی تیار ہیں اور والدین کے اس جذبے کی جتنی قدر کی جائے کم ہے۔

لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ والدین کی سوچ انکی پریشانی , بچون کے لئے انکی اس فکر کا بھرپور فائدہ چند تعلیمی ادارے اٹھارہے ہیں جو عالیشان عمارتین , اے سی رومس اور کیمپس کی خوبصورتی دکھاتے ہوئے والدین کو بچوں کے بہتر مستقبل کی آس دلاکر فیز اور ڈونیشن کے نام پر ایک موٹی رقم وصول کرتے ہوئے اپنی تِجوریاں بھر رہے ہیں , دراصل آجکل ایجوکیشن کو بھی بزنس بنایا ہوا ہے اور یہ ایک ایسا بزنس ہے جس میں نقصان کا خدشہ ہی نہین رہتا کیونکہ یہ بزنس والدین کے ایموشنس سے جڑا ہوا ہے جہان ہر مان باپ اپنے بچون کو لیکر کسی بھی قسم کا کامپرامائز نہین کرنا چاہتے ,, یہاں تک کے کئی غریب مان باپ بھی بچون کے خاطر قرضہ لیکر یا گھر بار بیچ باچ کر کسی بھی طرح  پیسوں کا انتظام کرتے ہیں بھلے انکی جیب انکے حالات انہین اسکی اجازت دے یا نہ دے لیکن والدین کو یہ ہرگز گوارہ نہیں رہتا کہ ان کے بچے کسی بھی لحاظ میں کسی سے کم ہون مان باپ تو بچون کی محبت، بہتر مستقبل کی چاہ مین اس قدر اندھے ہوچکے ہیں کہ آگے چل کر انکے معصوم نادان بچون کو کن کن حالات سے جوجنا پڑتا ہے اسکے متعلق سوچ ہی نہیں پارہے۔

  اگر والدین کا بس چلتا تو وہ اپنے بچون کی قسمت بھی خود ہی لکھنے کی کوشش کرتے، جو ایک طرح سے دیکھین تو یہ بھی ایک قسم کا خدائی دعوے کی طرح لگتا ہے جس میں بے پناہ محبت کی وجہ سے پیسون کے بل پہ یا زور زبردستی بچون کی خواہش انکی صلاحیت کو سمجھے بنا اپنے ادھورے خوابون کو پورا کرنے کی ذمیداری ان نازک کندھون پہ لادھ دی جاتی ہے اور ان بچون کی ذہنی جسمانی طاقت کو نظر انداز کرتے ہوئے انہیں ڈرا دھمکا کر یا مار پیٹ کر پڑھائی کا اس قدر بوجھ ڈالا جاتا ہے جسکی وجہ سے امتحان، امتحان کی طرح نہں بلکہ جنگ کی طرح لگنے لگتا ہے اور ان دنوں مان باپ کے ساتھ گھر کے باقی تمام افراد کے چہرے پر بھی جسطرح 12 بجنے لگتے ہیں اس پریشان حال منظر کو دیکھ کر بچے امتحان دینے سے پہلے ہی گھبراجاتے ہیں  اپنی ہمت کھونے لگتے ہیں یہاں تک کے اسکول جانے سے بھی کتراتے ہیں۔

جو مستقبل کی فکر کے چلتے ہم اپنے بچون کو ایک طرح سے مینٹلی ہراسمینٹ کررہے ہیں , انکے کل کو بہتر بنانے کی چاہ مین انکے آج اور کل دونون کو خطرے میں ڈال رہے ہیں کیونکہ ہمارے اسطرح کے روئیہ سے بچہ اپنا کونفڈنس کھونے لگتا ہے شاید ہوسکتا ہے اس بات سے کئی لوگ متفق نہیں ہونگے لیکن غور کریں جس طرح سے سکے کے دو پہلو ہوتے ہیں اسی طرح سے زندگی کے ہر میدان میں  بھی دو پہلو ہوتے ہیں اور ان دونون پہلوؤن سے واقف ہونا بیحد ضروری ہے۔

 ہم یہ نہیں کہتے کہ مان باپ کا اپنے بچون کے لئے خواب دیکھنا غلط ہے ان سے امیدین جوڑنا غلط ہے یا انکے مستقبل کے لئے جدوجہد کرنا غلط ہے۔ بلکہ اپنے خواب جبراً بچون پہ تھوپنا غلط ہے  کیونکہ ہمین سکے کے دونون پہلو کی طرح اپنی چاہت کے ساتھ بچوں کی خواہش انکی قابلیت اور اپنے گھریلو حالات ان سبھی کو نظرئہ میں رکھ کر سمجھداری سے بہتر قدم اٹھانا ضروری ہے تاکہ آگے چل کر مان باپ اور بچون کے درمیان اختلافات نہ پیدا ہوں۔ کیونکہ آج کے ننھے پھولون کو کل ہمارے آنگن کا مظبوط پیڑ بننا ہے جس کے نرم سائے میں ہمارے بڑھاپے کے ساتھ آنے والی نئی نسل پروان چڑھیگی , اس لئے اپنے بچون کے ساتھ ہمشہ دوستی والا رشتہ قائم کریں تاکہ ایک دوسرے کو بہتر سمجھ سکین کیونکہ 17 , 18 سالہ عمر کے اس موڑ پہ اکثر کئی حادثات درپیش آتے ہیں اور کئی ایسے واقعات ہماری آنکھون سے گذرچکے ہیں  جہان تعلیم جیسی نعمت بھی والدین اور بچون کے بیچ زحمت بن چکی ہے۔

 جب بچون کو اسکول کالجس  میں کئی قسم کی ذہنی اذئیتون سے دوچار ہونا پڑتا ہے , اپنی ذہنی کمزوری کی وجہ سے یا گھریلو تنگی کی وجہ سے رشتے دارون اور ساتھیون کے آگے شرمندہ ہوتے ہوئے تنظئیہ لب ولہجے برداشت کرنے پڑتے ہین اور یہ وقت بچون کے لئے بہت نازک ہے اس وقت بچون کے لئے سب سے زیادہ ضروری والدین کا ساتھ ہوتا ہے اور والدین کو بھی چاہئیے کہ اس وقت صبر اختیار کر سمجھداری سے اپنے بچون کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انکی طاقت بنے ورنہ بچے احساس کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس احساس کمتری والے جراثیم کو بڑھاوا دینے کے لئے اور بھی چند ایسے وجوہات پیش آتے ہین جو بچون کو دھیرے دھیرے باغی بنادیتی ہین , دراصل یہ عمر ہی ایسی ہوتی ہے جہان بچے صحیح، غلط کے بیچ کا فرق سمجھ نہیں پاتے اور سائنس سے بھی یہ ثابت ہوچکی ہے کہ ہارمونس کے بدلاؤ کی وجہ سے بھی بچون کا روئیہ بدل جاتا ہے اور اس وقت کئی بچے ظاہری دنیا کو ہی حقیقت سمجھ لیتے ہین اور گذرتے وقت کے ساتھ اپنے ساتھیون کا دیکھا دیکھی انکے خواہشات بڑھنے لگتے ہیں اور بچے وہ ہر چیز خود کے لئے حاصل کرنا چاہتے ہیں جو وہ اپنے آس پاس دیکھتے ہیں چاہے وہ انکے لئے بہتر ہو یا نہ ہو اور پہلے پہل تو بچون کی فرمائیشین چھوٹی ہوتی ہین  تو والدین انہیں محبت اور جوش میں پوری کردیتے ہیں لیکن دیکھتے ہی دیکھتے بچون کی فرمائشین آسمان چھونے لگتی ہیں اور اس میں غلطی بچون سے زیادہ والدین کی ہوتی ہے کیونکہ اب بھی مان باپ کی یہی خواہش رہتی ہے کہ انکے بچے کسی سے کم نہ ہون اور جو مالدار ہین وہ تو اپنے بچون کی فرمائشین پوری کرنے مین ایک حد تک کامیاب ہوجاتے ہین لیکن اوسطً گھرانے کے مان باپ کی ماہانہ آمدنی اتنی نہین ہوتی کہ وہ اپنے بچون کی ہر فرمائش کو پوری کرسکیں۔

یہاں سے شروع ہوتی ہے والدین اور بچون کے بیچ ان بن ٹکرار اور یہ ٹکرار وقت کے ساتھ بغاوت کی شکل اختیار کرلیتی ہے جسکی وجہ سے بچے نافرمانی پہ اتر آتے ہیں، بدزبانی کرنے لگتے ہین اپنے مان باپ کی تُلنہ دوسروں کے مان باپ سے کرنے لگتے ہیں اور ساتھی دوستوں کے آگے اپنی ایمیج کو برقرار رکھنے کے خاطر چھوٹ، چوری، نشہ جیسے غلط کام شروع کرنے لگتے ہین یہان تک کے فرمائشیں پوری نہ کرنے کی وجہ سے بچے والدین کو ہی نکمے فیلئیور سمجھنے لگتے ہین اور اپنے دوستوں کے آگے مان باپ کہہ کر مخاطب کروانا بھی گوارہ نہں سمجھتے یا کچھ سینسٹئیو بچے ذہنی تناؤ میں مبطلعہ ہوکر چپی سادھ لیتے ہیں اور اپنا غصہ اپنے رویئہ سے ظاہر کرنے لگتے ہیں جیسے اچانک  خاموش رہنا کسی سے میل جول نہ کرنا لوگون کے آگے آنے سے کترانا چھوٹی چھوٹی باتون پہ گھبرا جانا یا چڑ چڑے ہوجانا ایسے بچے اپنے دل کا حال کسی سے شئر نہین کرتے نہ ٹیچرس سے نہ والدین سے نہ ہی دوستون سے اور ایک دن ایسا آتا ہے کہ بچہ پوری طرح سے اپنی خوداعتمادی کھو بیٹھتا ہے اور زندگی سے دور بھاگنے کی کوشش کرتے ہوئے ایسا کچھ کر بیٹھتا ہے جو ہماری سوچ و گمان سے بھی بہت دور ہے، جو آئے دن ہم ٹی وی، اخبارون میں دیکھتے سنتے ہیں کہ کہیں فلاں بچے نے پھانسی لگالی یا زہر کھالیا اور یاد رکھین ایسے حادثہ کبھی اچانک نہین ہوتے بلکہ کئی دنوں کا  ڈر، اذئیت، تکلیف اور گھٹن ہوتی ہے جسکی وجہ سے بچے اس طرح کے غلط اقدامات اٹھاتے ہیں اور اس میں بچون سے زیادہ والدین کی غلطی ہے جو اپنے گھریلو حالات سے واقف ہوتے ہوئے بھی بنا سوچے سمجھے اسطرح کی ناسمجھی کربیٹھتے ہیں جسکا ہرجانہ معصوم بچون کو بگڑتا دیکھ کر یا بچون کو کھو کر چکانا پڑتا ہے  اسلئے والدین کو چاہئیے کہ اپنی چادر کے مطابق ماحول کو اپنائین دیکھا دیکھی سنا سنی سے فیصلا نہ کریں۔

  کیون کہ قابل بچے کہین بھی جائیں اپنی قابلیت نہیں کھوتے یہ عالیشان عمارتیں، خوبصورت کیمپس یا زیادہ فیس اور ڈونیشن دینے سے بچے کامیاب نہین ہوتے بلکہ والدین کی محبت ٹیچرس کی شفقت , اچھے دوستون کا ساتھ بچوں کے لئے بہت معئنے رکھتا ہے کیونکہ بچے گیلی مٹی کی طرح ہوتے ہیں جسے کسی بھی شکل میں ڈھالنے کا ہنر صرف والدین کے ہاتھوں میں ہے نہ کہ دولت اور عالشان عمارتون کے۔

تبصرے بند ہیں۔