بی جے پی کے ’تحفظ گاؤ‘ کے منصوبے سے ہندو اتحاد کو خطرہ؟

عبدالعزیز

        برون یونیورسٹی کے پروفیسر، صحافی اور مصنف مسٹر آشوتوش ورشنی کا انگریزی روزنامہ ’انڈین ایکسپریس‘ کے  23 اگست کے شمارے میں Return of the cow. Cow protection, paradoxically, poses a threat to the BJP’s project of Hindu unity.  (گائے کی واپسی۔ متناقض طور پر بی جے پی کے گئو تحفظ سے ہندو اتحاد کو خطرہ) کے عنوان سے ایک مضمون شائع ہوا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ ’’میں نے ایسے لوگوں سے ملاقات کی جو جانوروں کے رکھوالے کہلاتے ہیں ان سے یہ جاننے کیلئے کہ سڑکوں پر کون سے جانور زیادہ مارے مارے پھرتے ہیں۔ اپنی واقفیت کے مطابق میں نے سوچا کہ ان کا جواب ہوگا ’’کتے‘‘ مگر انھوں نے گائے کا نام لیا۔

        ان کا کہنا تھا کہ گائے کو جو لوگ پالتے پوستے ہیں جب وہ دودھ دینا بند کر دیتی ہے تو پھر اسے اپنے گھر سے باہر کر دیتے ہیں۔ وہ سڑکوں اور گزرگاہوں پر ماری ماری پھرتی ہے۔ کوڑے کرکٹ اور پلاسٹک سے اپنے پیٹ کو کسی طرح بھرتی ہے۔ اسے کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا‘‘۔ انھوں نے آگے لکھا ہے کہ اس کو یاد دلانے کی بات اس لئے پیش آئی کہ اس وقت گائے کا تحفظ سیاسی قومی دھارا بن چکا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے گائے کے ان محافظوں کو کھری کھوٹی سنائی ہے جنھوں نے 2014ء میں ان کو ووٹ دے کر جتانے کی کوشش کی تھی۔ ان کے بارے میں کہا ہے کہ وہ دن میں گائے کے محافظ ہوتے ہیں اور رات میں ٹھگ۔

        نریندر مودی کے علم میں یہ بات ہے کہ جو لوگ گائے کے تحفظ کے نام پر کاروبار کرتے ہیں وہ دھوکہ باز ہیں۔ ممکن ہے کچھ مخلص ہوں مگر اکثریت دھوکے بازوں کی ہے جو لوگ مخلص ہیں ان کو مذہبی عقیدہ مجبور کرتا ہے مگر اکثریت دنیوی مفاد کیلئے اس کام کو کرتی ہے۔ اشو توش کا کہنا ہے کہ گائے کے تحفظ کا مسئلہ پرانا ہے۔ گاندھی جی نے بھی 1920-22میں مولانا شوکت علی اور مولانا محمد علی جوہر سے بھی معاہدہ کیا تھا کہ گائے کا ذبیحہ نہ ہو تاکہ ہندو مسلمان مل جل کر برطانوی راج سے مقابلہ کریں اور خلافت تحریک کا بھی ہندو بھائی ساتھ دیں۔

        جہاں تک نریندر مودی کا معاملہ ہے وہ مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق کے قائل نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دادری میں جب محمد اخلاق کا بہیمانہ قتل ہوا یا جھار کھنڈ میں دو مسلم نوجوانوں کو قتل کرکے ان کی لاشوں کو درخت کی ڈالی سے باندھ کر لٹکا دیا گیا تو نریندر مودی خاموش رہے۔

        نریندر مودی کی پریشانی اس وقت بڑھی جب دلتوں پر گائے کے نام نہاد محافظوں نے حملے شروع کر دیئے۔ پنجاب میں 2014ء میں دلتوں نے گائے کے چمڑوں کی تجارت سے 20.500 کروڑ روپئے حاصل کئے تھے۔ مودی کی سمجھ میں یہ حقیقت آگئی ہے کہ اگر گائے کے نام نہاد رکھوالوں نے دلتوں کو ناراض کر دیا تو اس کا اثر پورے ملک کے دلتوں پر پڑے گا۔ 2014ء میں نریندر مودی کو دلتوں نے کانگریس سے زیادہ ووٹ دیئے تھے۔ دلتوں نے بی جے پی کو 24فیصد ووٹ دیئے جبکہ کانگریس ک 18.5 فیصد ووٹ دیئے۔ منڈل کمیشن کی مہم جو 1990ء میں شروع ہوئی اس کے بعد دلتوں کی بڑی تعداد بی جے پی سے ناراض تھی۔ بڑی مشکل سے 2014ء میں بی جے پی ان کی ناراضگی کم کرنے میں کامیاب ہو گئی۔

        بڑی ذات کے لوگ بی جے پی سے فطری طور پر قریب ہیں جنھوں نے 54فیصد ووٹ بی جے پی کو دیئے تھے مگر صرف بڑی ذاتوں کے ووٹ سے بی جے پی کا بھلا ہونے والا نہیں ہے۔ پورے ملک میں بڑی ذات کی تعداد 16/18 فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ دلتوں کی تعداد 16.8 فیصد ہے جو بڑی ذات کے قریب قریب ہے۔ لیکن دلت گائے کے تعلق سے کاروبار میں پائے جاتے ہیں جوملک بھر میں پھیلا ہوا ہے۔ اگر انھیں کاروبار سے الگ کیا گیا تو بی جے پی کے تحفظ گاؤ کا منصوبہ ہندو اتحاد کیلئے بہت بڑا خطرہ ثابت ہوگا۔

        اس مضمون کی روشنی میں مسلمانوں کو جو سبق ملتا ہے وہ یہ ہے کہ حکمت اور مصلحت سے دلتوں کا ساتھ دینے کی کوشش کریں اور دلتوں کی مظلومیت کو کم کرنے میں ہاتھ بٹائیں۔ اس سے دو مظلوم بھائی اپنے شرپسند دشمن کو کمزور کرسکتے ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ فسادات اور جھگڑے کے وقت بڑی ذات دلتوں کو اکساکر مسلمانوں کے خلاف کھڑا کر دیتے ہیں اور پیچھے سے وہ آگ میں تیل ڈالتے ہیں۔ اگر دلت بڑی ذاتوں کی سازش سے واقف ہوگئے تو پھروہ مسلمانوں سے لڑنے بھڑنے کیلئے تیار نہیں ہوں گے۔ دلتوں سے مسلمانوں کا اتحاد ضروری ہوگیا ہے مگر وہ امن و انسانیت کی بنیاد پر ہو تاکہ ہندوؤں میں جو انتہا نہیں پسند ہیں انصاف پسندہیں وہ بھی امن و انسانیت کے نام پر ملک کی تعمیر و ترقی میں ہاتھ بٹائیں اور ملک تباہی و بربادی سے بچ جائے۔ مسلمانوں میں عوام و خواص نے دلتوں کی مظلومیت پر جو بہت پہلے سے نظر رکھنا تھا وہ اپنی کمزوری اور کوتاہی کی وجہ سے نہیں رکھ سکے لیکن اب مسلمانوں کو کمزوری اور کوتاہی سے ہر گز کام نہیں لینا چاہئے۔ دلتوں کے کام آنا چاہئے۔ مسلمانوں کا یہ دینی فریضہ ہے کہ ظالم کی سرکوبی کریں، جس قدر استطاعت وطاقت ہے اور مظلوم کی مدد کریں۔ ایک حدیث کے مطابق ظالم کی بھی یہی مدد ہے کہ اسے ظلم سے روک دیا جائے کیونکہ ظلم کرنے والا ایک نہ ایک دن تباہی اور بربادی سے دو چار ہوتا ہے پھر اسے کوئی بھی تباہی و بربادی سے بچا نہیں پاتا۔ تاریخ سے ہر ایک کو یہی سبق ملتا ہے۔ بدقسمتی سے ظالم طاقت اور قوت کے نشہ میں تاریخ سے یہ سبق لینے سے قاصر رہتا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔