آہ! رازؔ بالاپوری

وسیم فرحتؔ (علیگ)

        علاقہ ء برار کے عالم گیر شہرت یافتہ شاعر قبلہ غلام حسین رازؔ بالاپوری ۲۱؍جون کی شب انتقال کرگئے۔ ضعف گرچہ عارضہ نہ سمجھاجائے تو خون کے دبائو کی معمولی شکایت وجہء رحلت بنی۔

        ۱۹۲۱؁ کو جنمے راز ؔصاحب کا تعلق اس نسل سے ہے جو یا تو ترقی پسندی کے موافق ہوگئے یا پھر خالص داغؔ دہلوی کے مقلد۔ لیکن رازؔ صاحب کا معاملہ ان دونوں سے قدرے مختلف رہا۔ میرا عقیدہ ہے کہ علاقہء برار سے اٹھنے والے دو ہی شاعر ایسے ہیں جنھوں نے غزل کے مزاج کو بدلا۔ اول رازؔ صاحب، دوم خلیل فرحتؔ مرحوم۔ والدِ مرحوم خلیل فرحتؔ کارنجوی گو کہ رازؔ صاحب سے دو چار برس عمر میں خرد تھے تاہم یہ خردی بزرگی ان دونوں کی ساٹھ سالہ دوستی میں کبھی مخل ثابت نہ ہوئی۔ رازؔ صاحب سے دو برس قبل کی ملاقات مجھے آج بھی یاد آتی ہے کہ فرحتؔ مرحوم کا نام سن کر رازؔ صاحب رونے لگے تھے۔ ایسی دوستی اب کہیں دیکھنے کو نہیں ملتی۔ زمانے کی قدریں بدل گئی ہیں، دوستی رشتہ داریاں ضرورتوں کی مرہون ہوگئی ہیں۔ ایسے عالم ِ بد حواسی میں ایک نہایت معمر شخص کا اپنے دوست کا نام سن کر رونا میرے لیے سخت تعجب کی بات تھی۔ رازؔ صاحب کے شریف النفس اور حلیم الطبع ہونے کی یہ ایک زندہ دلیل ہے۔

        رازؔ صاحب کی شاعری میں آپ جابجا محسوس کریں گے کہ مفلوک الحال ہندوستان کے روتے بسورتے رنگِ غزل پرموصوف نے ضرب کاری کی۔ اپنے لیے ایک منفرد طرزِ سخن ایجاد کیا۔ میرزا داغؔ دہلوی کو گزرے ابھی زیادہ وقت نہیں ہوا تھا۔ اور چونکہ ریاستِ حیدرآباد برار سے متصل تھی، لہٰذا داغؔ کی حیدرآباد قیام پذیری کے طفیل براری شعراء کے یہاں داغـ ؔ رنگ صاف جھلکتاہے۔ اب اس تیز بہائو کے پانی کو کاٹنا کس قدر مشکل امر تھا، اس کا اندازہ لگایا جاسکتاہے۔ میرا ایمان ہے کہ رازؔ صاحب اس کارِ مشکل کو بہ امتیاز مکمل کر گئے۔ شعر ملاحظہ فرمائیں۔

        ؎      بات تک ہو نہ سکی گردشِ دوراں سے مری

                میں بھی عجلت میں تھاجب اس سے ملاقات ہوئی

اس شعر میں لفظ’بھی‘ کس قدر مزے دار او رمعنی خیز ہے، قارئین خیال کرسکتے ہیں۔ اس ایک لفظ نے گردش ِ دوراں کو ’ہیچ‘ ثابت کردیا ہے۔ گردشِ دوراں کی ستم ظریفیوں کا رونا تو اردو ادب میں ہزار جگہ دکھائی دیتا ہے لیکن اسے تحقیری لفظوں سے یاد کرنا اور اپنے پختہ عوامل ِ زیست کو پختہ تر ثابت کرنا، یہ انوکھا پن رازؔ صاحب سے پہلے براری شعراء کے یہاں مفقود ہے۔

        ؎      رسوا کرے گی یہ جو نمی چشمِ تر میں ہے

                پی جائو اشک بات ابھی گھر کی گھر میں ہے

قافیہ میں محاورے کو یوں نظم کیا کہ طبیعت جھوم اٹھے۔ شعری وجدان اور زبان سے کماحقہ واقفیت کے بغیر اس قسم کی ناز برداریاں ممکن نہیں۔ مضطر ؔخیر آبادی کا شعر ملاحظہ فرمائیں۔

        ؎      مرے گناہ زیادہ ہے یا تری رحمت

                مرے کریم بتادے حساب کرکے مجھے

یا پھر یاورؔ رائے پوری کا یہ شعر،

        ؎      یاورؔ مرے گناہ کہیں بدگماں نہ ہوں

                رحمت نے کتنی دیر لگادی حساب میں

اب ان دونوں شعروں کے تناظر میں آپ حضرت ِرازؔ کا یہ شعر ملاحظہ کریں،

        ؎      تری عطائوں کا یارب حساب کرتا ہوں

                میں مشتِ خاک بھلا میری حاجتیں کتنی

مذکورہ بالا دونوں شعرروزِ حساب اور اس متعلقہ خوب صورت شوخی کی بہترین مثال ہیں، لیکن آپ غور کریں کہ یہی شوخی پیش مرگ راز صاحب نے کس انداز میں بیان کردی ہے۔ مضطرؔ اور یاورؔ کے یہاں لفظ ’رحمت‘ رازؔ صاحب کے یہاں ’عطا‘ کے لباس میں آیا ہے لیکن اب آپ اس ’عطا‘ کو تجاہلِ عارفانہ میں سمجھیں تو شعر اور مزے دار ہوجائے گا۔ فرحتؔ کارنجوی مرحوم کا شعر دیکھیں۔

        ؎      جب آسماں کے دست ِ کرم سے ملی نجات

                ہم ڈھونڈتے رہے کہ جوانی کدھر گئی

یہاں ’ کرم‘وہی لطف دے رہا ہے جو رازؔ صاحب نے ’عطا‘ میں چھپا رکھاہے۔ رازؔ صاحب کا ایک اور شعر ملاحظہ فرمائیں۔

        ؎      یقیں کو تجھ سے زیادہ سمجھتے ہیں واعظ

                ہزار بارجو وہم و گماں سے آئے ہیں

’یقین‘ کے بہت بڑے تصور کو رازؔ صاحب نے کچھ اس ڈھب سے برتا ہے کہ ’گمان‘سبقت لے گیا۔ واعظ کے نزدیک روزِ ازل سے صرف ’یقین‘ ہے، جب کہ شاعر ’وہم وگمان‘ کی ہزار راہیں بھٹکتا ہوا ’یقین‘ تک پہنچا ہے۔ وہ جو ہمارا آفاقی اصول ہے کہ ’دن کی اہمیت رات کے وجود سے ہے‘، اب اس کلیے پر آپ یہاں ’گمان‘ کو رکھیے۔ اور محسوس کیجیے کہ محض اس ’گمان‘ کی سرگردانی سے شاعر موصوف حضرت ِ واعظ سے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ یہی ایک اچھے اور پختہ کار شاعر کی علامت ہے کہ اس کا شعر معنی کا دبیز جامہ پہنے ہوئے ہو۔ اتھلے اتھلے معنی سے شعر کانوں کو تو بھلا لگ سکتا ہے تاہم جاودانی نہیں پا سکتا۔

        ایک طویل بحر کے دو اشعار ملاحظہ فرمائیں۔

        ؎      میں نے پوچھا کہ آخر تردد ہے کیا کھل کے الفت کا اقرار کرتے ہوئے

                مسکرا کر وہ بولے کہ ڈرسا لگے، اچھے بچھے کو بیمار کرتے ہوئے

                ان کا ردِ عمل اک تو واضح نہ تھا دوسرے ہم کو پہلے سے عادت نہ تھی

                کیا کہیں منزلیں کتنی دشوار تھیں اپنے مطلب کا اظہار کرتے ہوئے

ہم نے اساتذہ کے یہاں بھی ایک بنیادی خامی بڑی شدت سے محسوس کی ہے کہ طویل بحری غزلوں میں بھرتی کے الفاظ بہ کثرت مل جاتے ہیں۔ اب جب ہم رازؔ صاحب کی مذکورہ غزل کا مطالعہ کرتے ہیں تو یقین جانیے کہ کوئی ایک بھی لفظ اضافی یا غیر ضروری محسوس نہیں ہوتا۔ اول الذکر شعر میں حسن و عشق کا محاکاتی منظر نامہ وجدانی کیفیت کا موجب ٹھہرتا ہے۔ ناطقؔ گلائوٹھی کا شعر سامنے رکھیے،

        ؎      کیا جو رک رک کے عرض ِ مطلب، تو مسکرا کر وہ بولے مجھ سے

                سبق ابھی ہے تمہارا کچا، سنارہے ہو  اٹک اٹک کر

اس کے بعد رازؔ صاحب کے دونوں شعروں سے محظوظ ہویئے کہ دونوں ہی شعروں سے کیسی استادانہ شان جھلکتی ہے۔ یہ استادی یونہی نہیں حاصل ہوئی بلکہ دو تہائی صدی کی کڑی محنت کا ثمرہ ہے۔

        غالبؔ نے کیا خوب کہا تھا،

        ؎      آن راز کہ در سینہ نہانست نہ وعظ است

                بردار توان گفت و بہ منبر نتوان گفت

        رازؔ صاحب کی شاعری غالبؔ کے متذکرہ شعر کی ترجمان ہے۔ ان کی رحلت علاقہء برار کے لیے ایک ناقابل ِ تلافی نقصان ہے۔ خدا مرحوم کو کروٹ کروٹ سکون بخشے۔

٭٭٭

تبصرے بند ہیں۔