امن و انسانیت مہم-کاش دیگر ملی جماعتیں بھی شامل ہوتیں!

 عالم نقوی

     جماعت اسلامی ہند کی ۱توار  21 اگست سے شروع ہونے والی امن و انسانیت کے فروغ کی خاطر ملک گیر سطح پر پندرہ روزہ مہم بلا شبہ وقت کی اہم ضرورت ہے لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ دیگر ملی جماعتیں بھی اس میں برضا و رغبت شامل ہوتیں اور مشترکہ ملک و ملت بچاؤ تحریک سے زندگی اور اتحاد کا پیغام دیتیں۔ مسلم مجلس مشاورت اور جمیتہ علمائے ہند کے دونوں بازوؤں کے لیے تو یہ کام نسبتاً آسان تھا کہ دونوں ملک گیر سطح پر اثر رکھنے اور ملت کو متائثر کرسکنے کی قوت و صلاحیت رکھنے والی جماعتیں ہیں۔ اس وقت تو اشدضرورت اس کی ہے کہ ملت کے تمام  مختلف ا لخیال اور مختلف ا لرائے لوگ بھی سر جوڑ کر بیٹھیں اور باہم مشورے سے طے کریں کہ ملک و ملت کو درپیش اس سنگین صورت حال کا مقابلہ کس طرح کیا جائے۔ ملت کی تعلیمی، سیاسی، اخلاقی پستی و بد حالی ہی کیا کم تھی کہ اب بقا و تحفظ کے مسائل اس پر مستزاد ہو گئے ہیں جو ظاہر ہے کہ ترجیحی بنیاد پر سب سے پہلے حل کیے جانے چاہیئں۔

یہ حقیقت ہے کہ برادران وطن کی اکثریت امن  پسند ہے اور بھائی چارے پر یقین رکھتی ہے اور اسی طرح مل جل کر سکون سے رہنا چاہتی ہے  جس طرح صدیوں سے رہتی آئی ہے۔ جو لوگ محض وقتی سیاسی  فائدے حاصل کرنے کے لیے اقلیتوں اور کمزور طبقوں کو الگ تھلگ کر کے فرقہ وارانہ پو لرائزیشن کرنا چاہتے ہیں وہ صرف وقتی اقتدار کی طاقت  انتظامیہ اور سیکیورٹی فورسز کے ایک مخصوص حلقے کی جانبداری  اور میڈیا پرقارونی تسلط کی وجہ سے اپنے  اکثریت میں ہونے کا بھرم  پیدا کیے ہوئے ہیں ورنہ فی ا لواقع وہ نہایت  ڈرے سہمے ہوئے مٹھی بھر لوگ ہیں !

سمجھنے اور سب کو سمجھانے کی باتیں یہ ہیں کہ اقتدار کسی کا مستقل نہیں ہوتااور اور ظالم بہادر نہیں بزدل ہوتے ہیں۔ امیر جماعت کا یہ بیان محض دعوی نہیں حقیقت ہے کہ ملک کا بڑا طبقہ امن و انسانیت کی بحالی اور قیام ہی کا خواہاں ہے ضرورت صرف اس کی ہے کہ اہل وطن کے خوابیدہ ضمیر کو بیدار کر دیا جائے اور معاشرے کی سوچ میں تبدیلی لائی جائے کہ تعصب خواہ  ذات پات کا ہو یا فرقہ واریت کاوہ ترقی اور وکاس کا دشمن ہے دوست نہیں !اور یہ کہ سب کے ساتھ ہی میں سب کا وکاس ہے !سب کو ساتھ لیے بغیر سب کے وکاس کا تصور مضحکہ خیز ہی نہیں دھوکہ بھی ہے اور محض کھوکھلی نعرے بازی سے کچھ لوگوں کو کچھ دن تو بے وقوف بنایا جا سکتا ہے سارے لوگوں کو ہمیشہ خواب غفلت  میں نہیں رکھا جا سکتا !

 جماعت کا یہ فیصلہ بھی درست اور لائق تقلید و ستائش ہے کہ وہ برادران وطن کے غیر فرقہ پرست، امن پسند اور انسانیت دوست  اہل فکر و نظر اور دانشوروں کوساتھ لے کر چلے گی اور پورے ملک میں ہر سطح پر برادران وطن کے عملی تعاون سے امن و انسانیت کے چراغ روشن کرے گی۔ اس سلسلے کی پہلی افتتاحی میٹنگ اتوار کو راجدھانی دلی کے مشہور انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر میں منعقد ہوگی جس میں جسٹس (R) راجندر سچر، پروفیسر رام پنیانی، حقوق انسانی کارکن سندیپ پانڈے اور شری جگل کشور شاستری بہ نفس نفیس شریک ہوں گے۔ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے قیام کی قابل قدر اور بے لوث خدمات  کے لیے جماعت کی جانب سے اِن سبھی مایہء ناز شخصیات کو۔ سدبھاؤنا ایوارڈ۔ دیا جائے گا۔ 3ستمبر 2016 کواس ملک گیر مہم کے اختتام سے ایک روز قبل کانسٹی ٹیوشن کلب آف انڈیا دلی میں ایک کل ہند میڈیا سمپوزیم ہوگا جس میں۔ سماجی تانے بانے کو بنائے رکھنے میں ذرائع ابلاغ کے رول۔ پرتبادلہء خیال ہوگا۔

وطن عزیز کے تمام باشندوں میں انسانی بنیادوں پر تعلقات صدیوں سے قائم ہیں۔ پچھلے ڈیڑھ سو برسوں کے دوران منظم سامراجی سازشوں کے نتیجے میں جو کسی قدر منفی حالات پیدا ہوئے ہیں ان کو بدلنا اتنا مشکل نہیں جتنا بظاہر نظر آتا ہے۔ اس میں اگر قصور سامراج کے دلالوں اور مٹھی بھر نسل پرستوں کا ہے تو ہمارا بھی ہے۔ آج بھی اگر اس طرح کی مہم ملت کی تمام تنظیموں اور اداروں کی جانب سے اجتماعی اور انفرادی طور پر مسلسل چلائی جاتی رہے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ اس کے مثبت اور حوصلہ افزا نتائج بر آمد نہ ہوں۔ انسانی تکریم ایک آفاقی اصول ہے کوئی ملک، کوئی مذہب، کوئی گروہ انسانی کھلم کھلا اس کا انکار کرنے کی جرئت نہیں کر سکتا اسی طرح قانون کی حکمرانی کا تصور بھی کوئی نیا نہیں۔ پوری دنیا  اسے غیر مشروط طور پر تسلیم کرتی ہے۔ اب اگر کسی گروہ خاص یا کسی مخصوص سماج میں قانون اپنے ہاتھوں میں لینے کا عمل زور پکڑ رہاہے تو اس کی جڑیں سماج میں نہیں نظام انصاف قائم کرنے والی ایجنسیوں اور حکومتوں کی نااہلی اور بد دیانتی میں ڈھونڈنا ہوں گی اورسلطانی جمہور کے دعویدار موجودہ زمانے میں سماج کو اُس کے اِس فرض کا اِحساس دلانا ہی ہوگا کہ وہ قانون کا احترام نہ کرنے اور انصاف کے قیام سے مجرمانہ غفلت برتنے والوں کو کرسی اقتدار تک پہنچنے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کریکہ اسی میں سماجی امن و سلامتی کا راز پنہاں ہے لوک شاہی اور جن ستا کے اس زمانے میں انسان دشمن اور عوام دشمن قانون سازی کے خلاف عوامی بیداری بھی لازمی ہے۔ اسی طرح عوام اگر اپنے حقوق و فرائض سے کما حقہ آگاہ ہوں اور وہ ان کا بر وقت اور صحیح استعمال کرنا جانتے ہوں تو سماج دشمن عناصر اور ان کی پشت پناہی کرنے والے کبھی اس طرح کھل کھیل نہیں سکیں گے جس طرح وہ ابھی ہماری  بے خبری اور بے حسی کے باعث ملک اور عوام کو اپنے آتنکی شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں ! ہماری دعائیں اور تمام تر نیک خواہشات اس مہم کے ساتھ ہیں لیکن ہمیں یقین ہے کہ اس مہم کو مستقل شکل دینے کی ضرورت ہے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ملی  تنظیمیں، ادارے اور جماعتیں اسطرح کی مہمات کو اس وقت تک مسلسل اور مستقل زندہ رکھیں جب تک کہ مطلوبہ نتائج ننگی آنکھوں سے بھی دکھائی نہ دینے لگ جائیں !

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔