تاج ہوا تاراج – صلح کی ہوائیں چلا دو تو مانیں
ابراہیم جمال بٹ
چند روز قبل مقامی ٹی وی پروگرام پربھارت کے کئی لیڈران نے کشمیر کی موجودہ صورت حال کے حوالے سے یہ بات دہراتے ہوئے کہا کہ ’’جموں وکشمیر کے لوگو ں کو ہڑتالوں، نعروں اور احتجاجی مظاہروں سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے، البتہ بات چیت وہ واحد ذریعہ ہے جس سے تمام مسائل کا حل نکل سکتا ہے‘‘۔ مزید انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’مذاکراتی سلسلہ جب بھی شروع ہوا تو بھارت نے اس کی پہل کی اور ناکام ہونے کی وجہ یا تو ہمسایہ ملک پاکستان رہا ،یا کشمیر میں حریت لیڈران ۔‘‘ ٹیلی ویژن مباحثے میں شریک گفتگو لیڈران نے بات چیت کو تمام مسائل کا حل بتایا اوراس میں دو رائے نہیں۔ البتہ مسئلہ کشمیر کی تو کے بارے میں ان کی آراء سے نہ صرف اختلاف کیا جا سکتا ہے بلکہ واضح طور ان کی اس مسئلہ کے تئیں غیر سنجیدگی سامنے آتی ہے۔ بار بار بات چیت کا ڈھنڈورہ پیٹنے والا بھارت ہمیشہ کشمیر کوبھارت کا اٹوٹ انگ کہے تو بات چیت کا مدعا کیا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ڈیڑھ سو مرتبہ مذاکرات کی میز پر آنے کے باوجود بھی مسئلہ وہیں کا وہیں لٹکا ہواہے۔ جب تمام مسائل کا حل بات چیت میں مضمر ہے تو پھر آج تک بات چیت کے باوجو د مسئلہ سلجھنے کے بجائے کیوں اُلجھتا ہی گیا؟ دراصل مذاکرات کی میز پر آنے کے لیے پہلے طرفین میں صحیح معنوں میں مسئلہ حل کرنے کی حقیقی خواہش ہونی چاہیے۔ تب ہی ممکن ہے کہ کوئی حل نکلآئے ۔ آج تک جتنی مرتبہ جموں کشمیر کے مسئلہ پر پاک بھارت اور کشمیر کے آزادی پسند لیڈروں کے درمیان بات چیت ہوئی ان میںسب سے بڑی خامی صرف اور صرف یہ رہی کہ بھارت نے کبھی بھی خلوص اور کھلے دل ودماغ سے اس پر بات نہیں کی۔ بلکہ ہر مرتبہ اپنی ہٹ دھرمی پر رہ کر جموں کشمیر کا مسئلہ آدھی صدی سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجودلٹک رہا ہے۔ گزشتہ 27 برسوں کے دوران بھی اگر دیکھا جائے تو کئی مرتبہ ریاست جموں کشمیر کے مزاحمتی لیڈر دلی سے مذاکرات کے لیے سامنے آئے لیکن حاصل کچھ بھی نہیں ۔ ایک طرف حکومت ہند نے حریت (ع) کو براہ ر است دوبار مذاکراتی میز پر لایامگر دوسری طرف مکالمہ آرائی کی ناکامی کے لئے بھی سرگرم رہی۔ جب کہ سید علی گیلانی کی ہمیشہ یہ شرط اول رہی کہ ریاست کی متنازعہ حیثیت جب تک تسلیم نہیں کی جاتی، تب تک نہ تو بات چیت کرنے کا کوئی معنی و مطلب ہے اور نہ ہی کوئی فائدہ۔ بھارت سرکار کی طرف سے آج تک جو بھی نامساعد حالات کے پیش نظرجموں وکشمیر کے دورے پر آیا، اس نے حسب معمول یہی بات دہرائی کہ مسائل کا حل بات چیت ہے، لیکن اس بات چیت کے لیے سب سے پہلے کیا کرنا ضروری تھا اس جانب نہ ہی آج تک کوئی توجہ دی گئی اور نہ ہی اس پر کسی حقیقت پسند اظہار خیال کرنے والوں کی سنی گئی ۔ا س لئے آج کی تاریخ میں حقیقت حال یہی ہے یہ مسئلہ حل ہوا اور نہ اسے حل ہونے کی کوئی راہ دکھائی دیتی ہے۔ بایں ہمہ اگر اب بھی بھارت سرکار اس جانب صحیح اپروچ استعمال کر کے صحیح معنوں میں ہمسایہ ملک پاکستان اور کشمیر کے آزادی پسند لیڈروں بات چیت میں پہل کرے تو مسئلے کا حل عین ممکن ہے لیکن بھارت کی موجودہ ہندو سرکار اس جانب کچھ زیادہ ہی حقائق تسلیم کر نے سے گریزاں ہے ۔ سچ یہ ہے کہ نتیجہ خیز مذاکراتی عمل کے لیے بھارت پہلے خود کو ذہنی اورنفسیاتی طور تیار ہو، نہ کی خالی بیان بازی سے کام چلانا چاہیے، تب جاکر دوطرفہ یا سہ فریقی بات چیت کے نتائج صحیح نکلنے کی امید کی جاسکتی ہے۔ ورنہ دنیا کی آنکھوں میںدھول جھونکنے کے لیے یا حالات کے کسی دبائو کو کم کرنے کے لیے وقتی طور پر بات چیت کا ڈھول بجانے سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ اُلجھتے ہی جاتے ہیں۔
جموں کشمیر پر بات چیت تب ہی نتیجہ خیز ہو سکتی ہے جب اس خطے کو اسب سے پہلے متنازعہ تسلیم کیا جائے گا۔ متنازعہ حیثیت تسلیم کر کے اس پربات کرنا اور پھر کوئی متفقہ حل نہ نکلنا ،ایساہو ہی نہیں سکتا ۔ ریاست کی متنازعہ حیثیت تسلیم کر کے حریت پسند لیڈرہی بات چیت کی میز پر نہ آئیں گے بلکہ متحدہ جہاد کونسل کے سربراہ سید صلاح الدین نے بارہا اس بات کا برملا اظہار کیا کہ ’’اگر بھارت سرکار خلوصِ نیت کے ساتھ جموں کشمیر کی ’’متنازعہ حیثیت‘‘ تسلیم کرے تو جہاد کونسل بات چیت کے لیے خیر مقدم کرے گی، متنازعہ حیثیت تسلیم کئے بغیر بات چیت کی میز پر آنا لاحاصل اورفضول عمل ہے‘‘۔ خانہ پُری کے طور پر مذاکراتی عمل کی باتیں کرنے سے صرف جموں وکشمیر ہی نہیں بلکہ پورا بھارت بدامنی کا شکار ہو رہا ہے۔ جیسا کہ مشاہدہ ہو رہا ہے کہ جموں کشمیر مسئلے نے دونوں ملکوں کو اپنے عوام کے مسائل سے غافل کردیا ہے ، ان کا دفاعی بجٹ اپنا حجم اور وزن اسی وجہ سے ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھا یا جا رہاہے، اس لئے اکثر وبیشتر ریاستیں اپنے آپ کو غیر ترقی یافتہ اور پسماندہ پا رہی ہیں۔ ایک چھوٹے سے خطے جموں وکشمیر میں بد امنی کی وجہ سے پورا بھارت دیس غیر محفوظ ہو ، یہ کہاں کی عقل مندی ہے۔ خواہ مخواہ کا قومی تفاخر اور گھمنڈ ملکوں کو تباہ حال کر کے رکھ دیتا ہے ۔ اتنی ترقی کے باوجود بھی نہ تو کوئی سرکاری تقریب محفوظ سمجھ کر منعقد کی جارہی ہے اور نہ ہی کسی ریاست کا دورہ کر کے اپنے آپ کو محفوظ تصور کیا جارہا ہے۔ ہر جگہ خوف و ہراس کا ماحول برپا ہے۔ نہ صرف جموں وکشمیر میں بلکہ پورے بھارت میں جب کبھی بھی بھارت کی مرکزی ہستی کا دورہ ہوتا ہے تو اکثر مقامات پر ہو کا عالم چھا جاتا ہے کیونکہ ایجنسیوں کو خد شہ ہوتا ہے کہیں کوئی ناخوشگوار واقعہ رونام نہ ہو ۔ جموں وکشمیر اس معالے میں زیادہ حسا س ماناجاتاہے کہ وی آئی پی سیکورٹی کے لیے وادیٔ کشمیر میں کرفیو جیسی صورت حال ہی پیدا کی جاتی بلکہ تمام مواصلاتی کمپنیوںکو موبائل اور انٹرنیٹ سروس منقطع رکھنے کے احکامات صادر کئے جاتے ہیں، جیسا کہ ا س وقت ہورہاہے ۔ حد یہ کہ سیاسی اور حکومتی ہستیوں کی آمد سے کئی ہفتوںقبل ہی بھارتی سرکار کی طرف سے سیکورٹی کا انتظام کے نام پرسار ے خطے کو محاصرے میں لیا جاتاہے ۔ا سی مناسبت سے ہر جگہ پورے دیس میںخوف کا ماحول ہے ، جس کی ایک اہم وجہ مسئلہ کشمیر بھی ہے۔ یہ بات طے ہے کہ جہاں خوف اور ڈرکا ماحول ہو گاوہاں ترقی اور طمانیت کا خواب دیکھنا سراب کے مانند ہے۔ بھارت دیس روز افزوں ترقی کی سیڑھیوں کو چڑھتا ہی جارہا ہے مگر ساتھ ہی ترقی کرتے اپنے پیروں پرکشمیر حل سے گریز پائی کر کے اپنی معاشی ترقی اور سیاسی استحکام پرکلہاڑی بھی مارتا جا رہا ہے۔ اس طرح کی غیر یقینی فضا میں نہ تو مستقل ترقی پرقائم رہا جاسکتاہے اور نہ ہی کوئی تعمیری کام کیا جاسکتا ہے۔ آج ہر باشعور محب وطن شخص مانتاہے کہ بھارت دیس کی ترقی اور امن کی پہلی سیڑھی کشمیر حلسے جاتا ہے۔
بھارت کو اپنے ہمسایہ ملک پاکستان کے ساتھ اکثر وبیشتر کشمیر میں حالات کی ناسازگاری کی وجہ سے تو تو میں میں رہتی ہے، جس وجہ سے یہ دو نوں ممالک آپس میں دست وگریباں رہتے ہیںاور اپنے اصل عوامی مسائل کو نظرانداز کر کے دن دوگنی رات چگنی باہمی نفرتوںکو مزید اضافہ دیتے جا تے ہیں۔ آج پھر پاک بھارت کے مابین یہی سلسلہ شد ومد سے چل رہا ہے۔ایک کے بعد ایک بیان اور ردِ بیان کا سلسلہ ایسا شروع ہوچکا ہے کہ الفاظ کی یہ جنگ کبھی کوئی صورت بھی اختیار کر سکتی ہے۔ اس صورت حال کے ابوجود بھارت میں اقتدار کی کرسیوں پر براجمان ٹولہ اپنی انانیت اور ووٹ بنک سیاست کو برقرار رکھنے کی خاطرلاپروائی سے جنگی ماحول تیار کر تے جارہے ہیں۔ اس سلسلۂ ناپسندیدہ کو جتنی زیادہ طوالت دی جائے اتنا ہی پوری دنیائے انسانیت کے لیے تباہی کی چتاؤنی بن جاتی ہے،کیوں کہ جنگ کی چاہے ابتدا ء کوئی بھی کرے ہو اس کی انتہا یہ تباہیاں ہی تباہیاںلاتا ہے۔ آج تک ان دونوں ممالک کا کئی جنگوں کا سامنا ہوا، مگر ان جنگوںسے انہوں نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ سابقہ جنگوں سے کتنا نقصان ہوا اس جانب سوچنے کی کسی کو ضرورت محسوس ہی نہیں ہو رہی ۔ اب اتنے برس ملک کو خوش حال بنانے کے لیے دونوں ممالک نے بہت کوششیں کیں ، لیکن یہ سب محنتیں جوہری ہتھیاروں کی موجودگی میں بد ترین بربادیوں میں بدل سکتی ہیں ۔ کشمیر میں فی الوقت نامساعد حالات کے چلتے آج پھر سے آرپار جنگی جنون کا ماحول بن رہا ہے اور خدا نہ کرے حالات کب کیا رُخ اختیار کر لیں اس بارے میں کچھ بھی وثوق سے نہیں کہا جاسکتا۔
اگر خدا نخواستہ چوتھی ہند پاک جنگ چھڑ گئی تو سابقہ جنگوں اور آج کے جنگ میں نمایاں فرق ہوگا۔ بندوقوں اور توپوں سے لڑنے والی جنگ کے مقابل آج جوہری قوت سے آنکھ جھپکتے ہی سب کچھ تباہ وبرباد ہوسکتا ہے۔ آج فوجی تعداد جنگ کا فیصلہ نہیں کرتی بلکہ سامانِ حرب وضرب فیصلہ کرتا ہے ،کل کی جنگ فوجی لڑا کرتے تھے ، آج الیکٹرانک سسٹم کا دور میں ایک بٹن دبایا لاکھوں ذی روح مٹی کا ڈھیر بن گئے۔
غرض فی الوقت جنگی صورت حال کو ہوا دینے کے بجائے اسے ٹھنڈا کرنے کی کوشش ہونی چاہیے لیکن بھارتی سرکار ایک طرف چین سے اُلجھی ہوئی ہے اور دوسری طرف پاکستان کو للکار تی رہتی ہے۔ کیا یہ دانش مندی ہے؟ چین برصغیر میں ایک بہت بڑی طاقت کا حامل ملک ہے، اس سے الجھنا بھارت کے ساتھ ساتھ برصغیر کے لیے بھی تباہی کا موجب ہے۔ اگر بھارت واسیوں کے سامنے یہ سوال رکھا جائے کہ کیا یہ ملک کے لئے جنگ وجدل کوئی سیاسی دانش مندی اور تدبرہے، تو ان کا جواب کیا ہوگا؟ شاید ان کا جواب بغیر تعصب، خود غرضی اور دشمنی کے یہ ہو گا کہ یہ غیر دانش مندانہ اور خود فریبی ہے،لیکن کیا کیجئے کہ فی الوقت یہی غیر دانشمندانہ سوچ دلی میں پنپ رہی ہے۔ اس کی تازہ مثال بھارت کے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کا سارک کانفرنس میں حالیہ تیز طرار بیان اور پاکستان کے وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان کا ترکی بہ ترکی جواب جس میںانہوں کہا کہ کشمیریوں کے خلاف فورسز کا تشدد کھلی دہشت گردی ہے اورآزادی کی جدوجہد اور دہشت گردی میں واضح فرق ہے۔ انہوں نے برحق کہا کہ چھ دہائیوں سے الزام برائے الزام کی روایت جاری ہے اور اس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ حل طلب معاملات کا تصفیہ اور تحفظات دور کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے اور وقت آگیا ہے کہ تمام معاملات کو بات چیت سے حل کیا جائے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان ہمسایہ ملک کے ساتھ مذاکرات کے لیے ہر وقت تیار ہے اور پرامن اور بامقصد تعلقات کا خواہاں ہے۔پاکستانی وزیرِ داخلہ نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے اور اس کی وجہ سے پاکستان نے سخت نقصان برداشت کیا ہے۔الفاظ کی جنگ کا طر یق کار اختیار کرنے سے دونوں ممالک میں تو تو، میں میں کا سلسلہ فوارًبند کیا جانا چاہیے کیوں کہ یہ دونوں ممالک میں کسی بھی ایک کے لیے فائدہ مند نہیں ہے بلکہ یہ دونوں ممالک کی تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔ لہٰذا اپنی ہٹ دھرمی اور انانیت چھوڑ کر اگر دونوں ممالک آپسی مسائل کو عموماً اور مسئلہ کشمیر کوخصوصاً حل کرنے کے لیے خلوصِ نیت کے ساتھ سامنے آتے ہیں تو یہ ان کی خوش حالی کا باعث ہوگا لیکن اس کے لئے ضرورت ہے فہم وتدبر کی ۔ اگر اس بار بھی اصل مسئلہ کو یوں ہی پس پشت چھوڑ دیا گیا تو وہ دن دور نہیں جب یہی مسئلہ دونوں ممالک کے ساتھ ساتھ پورے برصغیر کی تباہی وبربادی کا باعث بن جائے۔ خدا وہ لمحہ نہ دکھائے۔

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔