قیمتی باتیں

 عبدالعزیز

آدمی خود ہی اپنے آپ کو بڑی چیز خیال کرتا ہے

        حضرت علی ہجویریؒ عرف داتا گنج بخش ان معروف بزرگان دین میں سے ہیں جن سے ہندو پاک کی کثیر آبادی عقیدت رکھتی ہے۔ عراق کا ایک واقعہ اپنے متعلق بیان کرتے ہیں کہ ’’عراق میں اپنے قیام کے زمانے میں ایک دفعہ میں دنیا کمانے اور اسے خرچ کرنے میں بہت دلیر ہوگیا، جس کسی کو کوئی ضرورت پیش آتی وہ میری طرف رجوع کرتا اور میں نہ چاہتا کہ میرے دروازے سے کوئی خالی جائے۔ اس لئے اس کی ضرورت پوری کرنے کی کوشش کرتا۔ یہاں تک کہ میں بہت زیادہ مقروض اور اس صورت حال سے سخت پریشان ہوگیا۔ آخر وقت کے بزرگوں میں سے ایک بزرگ نے مجھے لکھا:

        ’’بیٹا! دیکھو؛ اس قسم کی مشغولیت میں کہیں خدا سے دور نہ ہوجاؤ۔ یہ مشغولیت ہوائے نفس ہے۔ اگر کسی کے دل کو اپنے سے بہتر پاؤ تو اس کی خاطر پریشانی اٹھاؤ۔ تمام مخلوق کے کفیل بننے کی کوشش نہ کرو، کیونکہ اپنے بندوں کیلئے خدا خود کافی ہے‘‘۔ فرماتے ہیں کہ اس نصیحت سے مجھے سکون قلب حاصل ہوا۔ اور میں نے یہ جانا کہ مخلوقات سے دور رہنا صحت و سلامتی کی راہ ہے۔ انسان کو چاہئے کہ وہ خود اپنی طرف نہ دیکھے تاکہ کوئی اور بھی اس کی طرف نہ دیکھے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ آدمی خود ہی اپنے آپ کو اہم اور بڑی چیز خیال کرتا ہے، ورنہ دنیا اسے کچھ بھی نہیں سمجھتی۔ وہ تو صرف اپنا کام اس سے نکالتی ہے‘‘۔

صحتِ نیت

        ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ اپنے کاموں کا آغاز خداوند تعالیٰ کے نام (یعنی بسم اللہ الرحمن الرحیم) سے اور ا س کی مدد و استعانت طلب کرتے ہوئے کرو، کیونکہ کاموں کی بھلائی کسب و تدبیر پر موقوف نہیں ہے بلکہ خدا کی قضا اور توفیق پر موقوف ہے، چنانچہ اللہ عزو جل نے اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے پیروؤں کو ارشاد فرمایا: فَاِذَا قَرَأْتَ الْقُراٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ (98:16) یعنی جب تم قرآن مجید کو پڑھو تو پہلے شیطان مردود کی دخل اندازیوں سے اللہ کی پناہ مانگو‘‘۔

        اور اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم اور اس کی سورتوں کا آغاز بسم اللہ الرحمن الرحیم سے فرمایا۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے پیروؤں کو بسم اللہ الرحمن الرحیم سے اپنے کاموں کو شروع کرنے کی تعلیم فرمائی۔ بندے کو اپنے کام میں خداوند تعالیٰ کی مدد اور توفیق اسی صورت میں حاصل ہوسکے گی جبکہ وہ اسے خدا کے نام اور اس سے مدد و رہنمائی طلب کرتا ہوا کرے گا۔

        اس کے علاوہ نیت کی درستی بھی ضروری شے ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اَلْاَعْمَالُ بِالنِّیَات یعنی اعمال کا انحصار نیتوں پر ہے۔ نیت کو کاموں میں اتنا بڑا دخل حاصل ہے کہ محض نیت کے اختلاف سے ایک کام ایک حکم سے دوسرے حکم میں داخل ہوجاتا ہے اور اس کی نوعیت اور نتائج سب بدل جاتے ہیں ؛ حالانکہ اس کی ظاہری شکل و صورت وہی رہتی ہے۔ مثلاً ایک مسافر کسی شہر میں مقیم ہونے کی نیت کئے بغیر عرصہ دراز تک بھی آکر ٹھہرا رہے تو وہ مقیم تصور نہیں ہوگا اور اس کا حکم مسافر ہی کا رہے گا، لیکن جب وہ اقامت کی نیت سے کسی شہر میں آئے تو باوجود اس کے کہ ظاہری عمل ایک سا ہوگا، وہ مقیم بن جائے گا اور اس پر مقیم کا حکم جاری ہوگا۔ اسی طرح وہ شخص جو روزے کی نیت کئے بغیر دن بھر بھوکا پیاسا رہے روزہ دار تصور نہیں ہوگا اور نہ اس کے بھوکا پیاسا رہنے پر اسے کوئی اجر و ثواب ملے گا، لیکن اگر وہ روزے کی نیت کے ساتھ بھوکا رہے تو اس طرح بھوکا رہنے پر اسے قربِ خداوندی حاصل ہوگا۔

        اگر کام شروع کرتے وقت انسان کا ارادہ صحیح نیت پر ہو لیکن اس کے بعد اس عمل میں کوئی خلل واقع ہوجائے جس کی وجہ سے وہ اسے پایۂ تکمیل کو نہ پہنچا پائے تو معذور متصور ہوگا اور اس کا اجراء سے مل جائے گا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نیت المؤن خیر من عملہ یعنی مومن اس کے عمل سے برتر ہے۔ نیت آدمی کے عمل کے بغیر بھی نفع بخش ہوسکتی ہے، لیکن کوئی عمل بغیر صحیح نیت کے اسے نفع نہیں دیتا۔ نیز نیت میں جس قدر اخلاص ہوگا، اس عمل کا اجر و ثواب بڑھتا چلا جائے گا۔

        صحت نیت کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کے پیش نظر صرف خداوند تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کا حصول ہو، کوئی نفسانی غرض اس میں شامل نہ ہو۔ یاد رکھو کہ ہر وقت کام جس میں آدمی کے پیش نظر حق تعالیٰ کی خوشنودی نہ وہ اغراضِ نفسانی کے تحت ہوتا ہے اور جس کام میں نفسانی غرض شامل ہوجاتی ہے اس میں سے برکت اٹھ جاتی ہے اور آدمی کا دل راہ راست سے منحرف ہوجاتا ہے۔ نفسانیت دوزخ کی کنجی ہے کیونکہ نفس کی لذات و مرغوبات کے پیچھے ہی آدمی جہنم کی راہ اختیار کرتا ہے۔ اسکے برعکس جنت کی کنجی یہ ہے کہ آدمی اپنے نفس کو حق تعالیٰ کی رضا کی راہ پر گامزن کرے اور اسے اس کی خواہشات کی راہ سے روکے۔ چنانچہ اللہ عزو جل نے فرمایا: ’’یعنی جس شخص نے خداوند تعالیٰ سے سرکشی اختیار کی اور دنیا کی زندگی کو (آخرت کی نعمتوں اور خدا کی رضا پر) ترجیح دی تو ایسے شخص کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ اور جو اپنے رب کے سامنے پیش ہونے سے ڈرا اور (اس خوف سے) اس نے نفس کو اس کی خواہشات سے روکا، اس کا ٹھکانا جنت ہے‘‘ (41-37:79)۔

        پس جو کام آدمی کرے اس میں اسے دیکھنا چاہئے کہ اس کے سامنے خداوند تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کا حصول ہے یا اس کی محرک اس کی کوئی نفسانی خواہش ہے۔ اگر دوسری صورت ہو تو وہ اس کام سے رک جائے یا جس حد تک اس میں نفسانی خواہش کو دخل ہو اس سے اپنی نیت اور ارادے کو پاک کرے۔

تبصرے بند ہیں۔