اردو ناول کی گم ہوتی دنیا (2/2)

مشرف عالم ذوقی

شفق (کابوس اوربادل)

شفق کا شمار اردو کے صف اول کے افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ اردو ناولوں پر جب بھی گفتگو کے دروازے کھلتے ہیں تو شفق کانام ضرور آتا ہے۔ شفق کو سب سے زیادہ مقبولیت کانچ کے بازیگر سے ملی۔ اس کے بعد شفق نے دو ناول لکھے۔ بادل اورکابوس۔ کابوس کو بادل کاایکسٹینشن کہا جاسکتا ہے۔ کابوس کے بہانے شفق دراصل اپنے عہد کا رزمیہ لکھ رہے تھے۔

عہد حاضر کے دس بڑے ناول نگاروں کاتذکرہ ہو تو شفق کانام ضرور لیا جائے گا۔ ایک زمانہ تھا جب اردو میں ناول غائب ہوچکا تھا۔ 1980کے آس پاس شفق نے کانچ کا بازیگر لکھا۔ اور اردو جدیدناول کی دنیا میں ہنگامہ مچ گیا۔ شفق کے اس ناول کاآنا کسی دھماکے سے کم نہیں تھا۔ اس ناول کے ذریعہ نہ صرف اردو ناولوں پر از سرنو گفتگو کے دروازے کھلے بلکہ اس ناول نے ان لوگوں کو بھی چونکا یا جو ایک عرصے سے اردو کی خدمات انجام دہے رہے تھے۔ اردو کے چار بڑے ستونوں میں سے ایک عصمت چغتائی نے لکھا—

شفق تمہارے پاس الفاظ کابڑا بھر پور خزانہ ہے— الفاظ میں شعلگی ہے— اس قلم کی بے حرمتی ہوگی اوراگر تم اس وقت اگلا قدم نہیں اٹھائو گے— خوفزدہ انسان پلٹ کر پھن مارسکتا ہے— یہ نظام ٹوٹ رہا ہے— اس سے پہلے کہ پیوند لگانے والے آگے بڑھیں پلٹ کر اس دشمن کی کلائی مروڑ دو— ایسے ہی وقت میں ہمیشہ بیرونی طاقتوں نے فائدہ اٹھایا ہے۔ کیا ہندستانی خوداعتمادی سے آنے والے وقت کی پیشین گوئی نہیں کر سکیں گے—؟ گیلے کپڑے کوصرف، ایک حدتک نچوڑا جاسکتا ہے پھر اس کے چیتھڑے اڑجاتے ہیں — فرد ایک اژدہا ہوتا ہے اس میں کروڑوں گونگے انسانوں کی زبان شکنی ہوتی ہے۔

عصمت چغتائی

 شفق نے عام طور پرسماجی رشتوں اور عالمی دہشت پسندی سے وابستہ واقعات وحادثات کواپنی کہانیوں اور ناول کاموضوع بنایا ہے۔ لیکن ان ناولوں میں انسانیت کاپیغام نمایاں طور پر نظرآتا ہے—

کابوس اور بادل شفق کے ایسے ناول ہیں جو فرقہ واریت کی مدہم روشنی میں محبت کی الکھ جگاتے ہیں۔

شموئل احمد (ندی)

اچھے ناول کبھی کبھی جنم لیتے ہیں — ندی جیسا اچھا اور بڑا ناول اردو ادب میں ایک قابل قدر اضافے کی حیثیت رکھتا ہے۔ عورت اور مرد کے مابین تعلق پر ایک دو نہیں ہزارہا کہانیاں قلمبند کی جاچکی ہیں، ہر دور میں، ہرزبان میں، جنس کے رشتہ کے وسیع پس منظر میں کچھ نہ کچھ ہمیشہ لکھاجاتا رہا ہے۔ اورہربار جب اس رشتے کی کوئی نئی گرہ سامنے آتی ہے تو عقل حیران رہ جاتی ہے کہ یا خدا اس جسم میں کیسے کیسے راز دفن ہیں — کیسی کیسی ان بجھ پہیلیاں —

کبھی ندی کو غور سے دیکھیے اورمحسوس کیجئے۔ روانی سے بہتی ہوئی ندی کی موسیقی پر کان دھریے— شموئل نے ندی کا سہارا لے کر عورت کی تہہ دار معنویت اور نفسیاتی پیچیدگیوں کو اظہار کی زبان دی ہے— اور محض کامیاب ہی نہیں ہوئے ہیں بلکہ اردو کو ایک نہ بولنے والا شاہکار دے کر حیرت زدہ بھی کر گئے ہیں۔

 116 صفحات پر مشتمل ناول دراصل طویل مختصر کہا نی ہے۔ ندی میں کردار کم سے کم ہیں — ایک عورت ہے۔ ندی کی طرح رعنائیاں، شوخیاں، سرمستی اورفطرت میں بہائو ہے۔ ایک مرد ہے جو اصولوں کا پابند ہے۔ وہ زندگی کو اصولوں کی پابندیوں میں دیکھتا ہے اور بندھے ٹکے فارمولوں پر جینے کا خواہش مند ہے… اور خاموشی سے گنگناتی ہوئی ندی ہے جسے شموئل نے زندگی کی علامت کے طور پر استعمال کیا ہے۔ کہانی پہلے صفحے سے ہی ایک بے حد حسین غزل یا کسی مغنیہ کے سحر آفریں کلام کی طرح شروع ہوتی ہے— چند مثالیں دیکھیے۔

 ’’عجیب گائودی شخص ہے… بار بار گھڑی دیکھتا ہے۔ آنے سے قبل فیصلہ کرلیتا ہے کہ کتنی دیر بیٹھے گا… بات کرنے کا اس کے پاس کوئی موضوع نہیں۔ موسم کا لطف اٹھانے سے بھی قاصر ہے۔ کتابوں سے دل چسپی نہیں … جس کو بارش سے دلچسپی نہیں …‘‘

 ’’اصول، ترتیب، عقیدہ… یہ سب آدمی کو داخلیت میں باندھتے ہیں ‘‘۔

’’کتنی عجلت میں ہے وہ جیسے وارڈ روب میں کچھ ڈھونڈرہا ہو۔ اس کا عمل میکانکی ہے۔ اور وہ کچھ بھی تو محسوس نہیں کررہی ہے۔ نہ رینگتی چونٹیوں کا جال نہ مندمند چنگاریاں سی… نہ سانس کے زیر وبم میں فرق… تب اس کو لگا وہ آہستہ آہستہ ندی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اب اترے گی کہ اترے گی…‘‘

’’کتنا کنڈیشنڈ ہے وہ… پالتوکے کتے کی طرح… صرف گھنٹی کی آواز پہچانتا ہے… بھوک کی شدت نہیں …‘‘

اصول، قاعدہ، ضابطگی، بندش… لڑکی کا اپنا ایک رومانی سنسار ہے، تصور کی حسین وادیاں ہیں، جہاں حسین گل بوٹے کھلے ہیں۔ اورجن پر سررکھ کر وہ کوئی دل کش سا خواب بننا چاہتی ہے۔ شموئل نے بار بار احساس کرایا ہے کہ کوئی ضروری نہیں ہے، رومان کی ان سر پھری وادیوں میں سیر کرتی عورت ذاتی زندگی میں اتنی پریکٹیکل نہ ہو جس قدر اسے ہونا چاہئے— اس لڑکی میں وہ تمام تر خوبیاں ہیں۔ ہزار صفات کے باوجود اسے کبھی کبھی بکھرائو بھی پسند ہے۔ بے اصولی بھی۔ کچھ نیا کر گزرنے کی للک بھی۔ اوروہ جب اس کی زندگی میں آتا ہے تووہ اصول، عقیدے کی چہار دیواری میں قید ہونے لگتی ہے اورمحسوس کرتی ہے… جتناوہ کھل کر جینا چاہتی تھی، اب اتنی ہی بندھن کی زندگی جی رہی ہے۔ لیکن کیا یہ ایڈجسٹمنٹ ہے؟ نہیں یہ موت کا عمل ہے— وہ آہستہ آہستہ مررہی ہے۔ وہ ا پنی داخلیت میں مررہی ہے۔ اس کے اندر پڑی پڑی کوئی چیز مرجھانے لگی ہے۔ وہ اپنے ہی گھر میں قید ہے اوریہ گھر نہیں ریمانڈ ہوم ہے۔

 عورت کی ذہنی جسمانی آزادی کو ایک بڑے وسیع کینوس پر جو کوڈاور استعارہ شموئل نے فراہم کیا ہے۔ اس کی تعریف کرنی ہوگی— کتاب شروع سے آخر تک پیچیدہ ہوتے ہوئے بھی ندی کوتیز تند موجوں کی طرح بہالے جاتی ہے— جو نفسیاتی پیچیدگیاں اورمحض دوکردار کے توسط سے جنم لینے والے Events شموئل نے اس ناولٹ میں جمع کیے ہیں، ان کے انداز شاعرانہ ہوتے ہوئے بھی اپنی جامعیت میں ایک جہانِ کشادگی لیے ہوئے ہیں …لیکن افسوس، ندی میں جو خوبیاں تھیں۔ وہ ان کے دوسرے ناول میں پیدا نہیں ہوسکیں۔

نام کتاب:آخر داستان گو(مصنف:مظہر الزماں خاں )

مظہر الزماں خاں کا شمار جدید افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ نئی الف لیلیٰ کے قصے کچھ اتنے گنجلک ہیں کہ قارئین کو متوجہ کرنے کی کوشش میں مکمل طور پرکا میاب نہیں ہوسکے۔ داستان گوئی کی روایت یا چلن نے اردو کو کیسے کیسے نایاب شہ پارے دیے۔ الف لیلیٰ (قدیم) کے دائمی حسن میں اتنی کشش تھی کہ اس نے سارے عالم میں اپنا لوہا منوالیا۔ مظہر الزماں خاں نے اپنے مخصوص انداز میں اس جدید الف لیلیٰ کو آج کی تہذیب سے ملانے کی کوشش تو کی ہے مگر یہیں پرایک سوال پیداہوتا ہے کہ ایسے بڑے فنکار زندگی کی حقیقت سے آنکھیں چرانے کی کوشش کیوں کرتے ہیں۔ مظہرالزماں خاں کی حیثیت میرے نزدیک بڑے بھائی کی ہے۔ مجھے اس بات کا شدیداحساس ہے کہ مظہرالزماں خاں نے ابھی بھی اپنی ادبی شخصیت کی پرتیں چھپا کر رکھی ہیں — وہ برسوں سے جدیدیت کے جس خول میں گرفتار تھے، اس میں آج بھی نظر بند ہیں۔ جبکہ وہ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ جدیدیت اب گزرے زمانے کا قصہ ہے۔ بہرکیف، میں بڑے بھائی کی واپسی کا منتظر ہوں۔

غضنفر۔ (پانی، مم، کہانی انکل، دویہ بانی، شوراب وغیرہ)

غضنفر نے ان دس پندرہ برسوں میں سات یا آٹھ ناول تحریر کیے۔ غضنفر کے ناول پانی نے اپنے موضوع اورفکر کے لحاظ سے ناقدین کو چونکا یا اور اس کے بعد سے ہی ناول نگار غضنفر نے کہانیوں سے الگ اپنا نیا سفر شروع کیا۔ دویہ بانی اورشوراب تک آتے آتے غضنفر اس حقیقت نگاری کو سلام کرچکے تھے جہاں فکر اپنے بادبان کھولتی ہے اورناول کرداروں، واقعات کے ساتھ ایک بڑی دنیا آباد کرتا ہے۔ یہاں قارئین کے لیے کوئی چیلنج نہیں ہے۔

ابھی حال میں پلیتہ، لے سانس بھی آہستہ کے ساتھ ساتھ غضنفر کا ناول مانجھی بھی منظر عام پر آیا ہے۔ پچھلے 20 برسوں کے ناول کے منظرنامے پر غور کیا جائے تو غضنفر ایک کامیاب ناول نگار کے طور پر ہمارے سامنے آئے ہیں۔ گنگا، جمنا، سرسوتی ندیوں کے بہانے غضنفر نے اس ہندستانی معاشرے کو قریب سے جاننے کی کوشش کی ہے، جس کو نمایاں طور پر پیش کرنا سب کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہ کون نہیں جانتا کہ آج ان ندیوں کے بہانے ماحولیاتی خطرے کارونا رویا جارہا ہے— اسی ماحولیاتی آلودگی سے ہمارا معاشرہ بھی دوچار ہے۔ محبت اور بھائی چارے کی پرانی رسم ماضی کا قصہ بن چکی ہے۔ اور ایسے نازک موضوع پر دہشت اوروحشت کی گفتگو سے الگ غضنفر نے ایک ایسی راہ کو اختیار کرلیا ہے جو ان کے وسیع مطالعہ ومشاہدے کی گواہی دیتی ہے۔ قدرت نے انسان کی معصومیت چھین لی اور پرندوں کے لیے ندی کے کنارے تنگ کردیے۔ مانجھی بیچ منجدھارہے اور اس سوچ میں گم کہ راستہ کیسے ملے گا۔ سادگی سے پر غضنفر کا یہی اسلوب ہے جو ان کے دوسرے ناولوں کا بھی خاصہ ہے اورغضب یہ کہ اس سادگی میں ہزاروں فلسفے پوشیدہ ہیں۔

 عبدالصمد (دو گز زمین، خوابوں کاسویرا، مہاتما)—دوگززمین اور مہاتماپر بہت زیادہ لکھاجاچکا ہے۔ عبدالصمد ادب سے سیاست تک کاسفر طے کرچکے ہیں۔ ان کے ناولوں میں جو سیاسی پختہ شعور دیکھنے کو ملتا ہے، وہ انہی کاحصہ ہے۔ دوگززمین اورخوابوں کاسویرا میں تقسیم اورہجرت کی کہانیاں، آج کے تناظر میں کچھ ایسا فکری ڈیسکورس پیدا کرتی ہیں جن پر مسلسل گفتگو کے دروازے کھلتے رہے۔ عبدالصمد کا مخصوص بیانیہ ان کی پہچان ہے۔ اس بیانیہ پرعبدالصمد کو دوسروں سے کہیں زیادہ عبور حاصل ہے۔

 حسین الحق: (بولو مت چپ رہو، فرات) جدت اور حقیقت نگاری کے امتزاج سے ناول بننے کے فن میں ماہر حسین الحق تہذیب اورمشرقی اقدار کے مابین راستہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک طرف تصوف کا دامن دوسری جانب جدید علوم سے آشنائی، لیکن ایک ادیب اورناول نگار کی سطح پر حسین سماجی حقیقت نگاری کو علامتیں بناکر زندگی کے ایسے عکاس بن جاتے ہیں کہ ان کی رواں دواں نثر کو پڑھتے ہوئے قاری ششدر رہ جاتا ہے۔

پیغام آفاقی (پلیتہ)

600 صفحات پر پھیلی یہ دنیا جو سزائے کالا پانی کے پس منظر سے جب آج کی دنیا کا تعاقب کرتی ہے تو احساس ہوتا ہے کہ کہیں کچھ بھی بدلانہیں ہے۔ ایک چھوٹے سے گلوبل گائوں میں داخل ہونے کے باوجود یہ دنیا شر، فساد اور جنگوں کی بھوکی دنیا اب تک بنی ہوئی ہے۔ نظام وہی ہے۔ انصاف کی عمارت وہی — شاید اسی لیے پیغام آفاقی نے بہت سوجھ بوجھ کے ساتھ اس ناول کو بارودی سرنگوں کے نام منسوب کیا ہے— پلیتہ کی کہانی نو جوان خالد سہیل کی پراسرار موت سے شروع ہوتی ہے۔ مو ت کے بعد خالد سہیل کی کچھ تحریریں اس کے کمرے سے پائی گئیں اور یہ خیال کیاجارہا تھا کہ ان تحریروں میں کچھ ایسی باتیں ضرور ہوں گی— جس کی وجہ سے نئی کتاب، کی پیدائش کے ساتھ ہی اس کی موت ہوگئی تھی۔ غور کیا جائے تو خالد سہیل کا کردارمحسن حامد کے شہرہ آفاق ناول The Reluctant Fudamentalist کے کردار چنگیز سے بالکل الگ نہیں ہے—چنگیز جسے امریکہ جیسے ملک میں اپنے لیے ایک بڑی کمپنی کی کرسی تلاش کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ چنگیز جسے اپنے مسلمان ہونے پر فخر تھا۔ جو داڑھی رکھتاتھا— لیکن 11؍9 کے حادثے کے بعد اس کی شخصیت نہ صرف آفس والوں کی نظر میں مشکوک ہوگئی بلکہ اسے نوکری سے بے دخل بھی ہونا پرا۔ مذہب، دہشت گردی اوربنیادپرستی سے پیداشدہ سوالوں میں ہمیں امریکہ کا ایسامسخ شدہ چہرہ دکھائی دیتا ہے جہاں خوف ہے، ڈپریشن ہے— اوراسی لیے امریکہ ہر بار چنگیز جیسے ذہین نوجوانوں سے خطرہ محسوس کرتا ہے— پلیتہ میں خالد سہیل کی شکل میں یہی سلگتی ہوئی آگ ہمیں قدم قدم پر دکھائی دیتی ہے۔

یعقوب یاور(دل بُن)

’دل بن‘  یعقوب یاور کا تمدن سندھ کے پس منظر میں ایک نیم تاریخی ناول ہے۔ دنیائے ادب میں ایسے ادبی ناولوں کی مثال کم نہیں جن کے موضوعات تواریخ کے خستہ اور بوسیدہ صفحوں سے اٹھائے گئے تھے اورایسے شہہ پاروں کی ادبی قدروقیمت بھی متعین کی گئی تھی۔ لیکن ایسے شہہ پاروں کو نیم تاریخی ناول کے لیبل کے ساتھ پیش نہیں کیاگیا تھا… اس لیے ان کی ادبی افادیت مسلم رہی… تواریخی ناولوں کو عام طور پر ادب میں شمار نہیں کیا جاتا۔ یعقوب یاور سے یہیں غلطی ہوگئی۔ اتنے خوبصورت، بامعنی اور مشکل موضوع پر لکھے جانے والے ناول کو تاریخ کہہ کر انہوں نے خود ہی اس کی اہمیت کم کرنے کی کوشش کی ہے۔

جہاں تک مجھے یاد آتا ہے، اسی موضوع پر(شاید) موہن جوداڑو ہڑپا تہذیب کو بنیاد بنا کر مستنصر حسین تارڑ نے ایک ناول لکھا تھا… بہائو… تارڑ نے اس عہد کو اس قدر فنکاری کے ساتھ پیش کیا تھا کہ ایک حادثہ؍ واقعہ نے ہمیں اسی عہد میں پہنچا دیا تھا۔ اس وقت مجھے خیال آیا تھا کہ اس طرح کے موضوع پر کوئی ناول اپنے یہاں ہندوستان میں کیوں نہیں لکھا گیا۔

تیرتھ رام فیروز پوری اور مظہر الحق علوی کے بعد مغربی ادب کے تراجم کی باگ ڈور یعقوب یاور نے بھی سنبھالی ہے۔ اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ یقینا وہ ایک بڑا کارنامہ انجام دے رہے ہیں۔ یعقوب یاور کو ان تراجم سے کئی فائدے ہوئے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ ناول لکھنے کے فن سے واقف ہیں۔ جزئیات نگاری، کردار نگاری اور واقعہ کو پیش کرنے کا ہنر انہیں آتا ہے۔ آج اردو ادب میں جن زیادہ تر ناولوں کے ڈھول پیٹے جارہے ہیں۔ وہاں سب سے بڑا مسئلہ Readability کارہا ہے۔ ناول کا کرافٹ کیا ہے، ہمارے زیادہ تر ناول نگار اس سے واقف نہیں … یعقوب کمال فنکاری سے یہ مشکل مرحلے طے کرگئے ہیں۔

کہانی کا بنیادی نقطہ جبر واستحصال کی وہی علامتیں ہیں جن سے ہمارے عہد کے ہر طبقہ کی عورتیں آج بھی گزررہی ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں واقعہ تین ہزار سال قبل مسیح سے پندرہ سوسال قبل کے درمیان سے اٹھایا گیا ہے۔ یہ کہانی عظیم دیوانئی کی ہے جو اس ظلم شب کے خلاف اپنے ضمیر اور وجود کی آواز پر اٹھ کھڑی ہوئی اور…

’’یہ ہتیا میں نے کی ہے‘‘ دیوانئی نے مختصر سا جواب دیا۔ مہاویر حیران تھے ایک معمولی داسی نگر ماتا سے ایسی باتیں کیسے کرسکتی ہے لیکن دیوانئی جرم کا اعتراف کررہی تھی۔ ‘‘

اس طرح دیوانئی اس قدیم تمدن میں ظلم وجبر کے خلاف روشنی کی علامت بن کر ابھری۔ دیو پتروں نے اسے سزا تو سنائی مگر اس نے وجود کی آزادی کے ساتھ جینے کا سندر سچا راستہ سب کو سمجھا دیا…

ناول میں تمدن سندھ سے متعلق کئی خوبصورت تواریخی پس منظر بھی ہیں جن سے گزرنا خوشگوار حیرت سے دوچار ہونا ہے۔ مجموعی طور پر ناولوں کی بھیڑ میں یہ ناول ایک خوبصورت با معنی الکھ جگانے میں کامیاب رہا ہے۔

جتیندر بلو(وشواس گھات)

جتیندر بلو نے اس سے قبل بھی کامیاب ناول تحریر کیے ہیں۔ ’’پرائی دھرتی اپنے لوگ‘‘ اور ’’مہانگر‘‘ کا کچھ زیادہ تذکرہ بھلے نہ ہوا ہو، لیکن ناول کی تکنیک، ماجرا سازی اور اسلوب کی سطح پر یہ دونوں ناول بھی کافی اہم ہیں اور اب انسانی نفسیات اور ہجرت کے مسئلہ پر مبنی اس تیسرے ناول نے اچانک آگے بڑھ کر ہمیں چونکادیا ہے۔ غور کیا جائے تو ناول تہذیبی اور صارفی معاشرے کی دین ہے۔ نئی نئی تکنالوجی کی دریافت اور ’’پھیلتے بازار‘‘میں رشتے، تعلقات اپنی اہمیت ختم کرچکے ہیں۔ انسان مشین کا ایک بیکار کل پرزہ ثابت ہوچکا ہے… گلیمر کی چکا چوند اور دولت کمانے کی ہوس نے ’’وشواس گھات‘‘ کا باریک تانا بانا تیار کیا ہے… دیو کی اڑنا چاہتا ہے…اڑان سب کے حصے میں نہیں آتی۔ وہ بھی دیو کی جیسے لوگوں کے لیے، جس کے ہاتھ پائوں اور کان کافی بڑے ہیں۔ ایک پری میچیور بچہ۔ جو وقت سے قبل ہی اس دنیا میں آگیا…

’’وشواس گھات‘‘ میں یہ پری میچیور بچہ صارفی معاشرے کی ایک ایسی علامت بن گیا ہے، جسے Ignore کرکے ہم ناول کی، اصلی تھیم کی جڑ تک نہیں پہنچ سکتے… دو بڑی بڑی جنگوں کے بعد تیسری جنگ عظیم کی مسلسل تیاریوں نے اس بچے کو جنم دیا ہے… یہ وقت سے پہلے جنمے بچے، تیزی سے بڑھتے کنڈوم کلچر میں سب کچھ جان چکے ہیں اور ایک لمبی اڑان ہی ان کی زندگی کا مقصد ہے… لیکن Richard Baugh کے مشہور ناول Jonathan Seagullکی طرح یہ بچے اپنی اڑان پہچانتے ہیں۔ لیکن جو لوگ پری میچور نہیں ہیں یا قبل از وقت پیدا نہیں ہوئے وہ اصول اور ضابطے کی دیوار پہلے سے ہی توڑ چکے ہیں اور یہاں مجھے بار بار دوستوفسکی کے ایڈیٹ کی یادآتی ہے۔ شاید دوستو فسکی کا ایڈیٹ بھی پری میچیور تھا۔ تبھی تو زندگی کی خوبصورتی اور دلکشی پر یقین رکھتا تھا۔

دیو کی اعلی تعلیم کے لیے باہر چلا گیا۔ واپس آیا تو اس کے حصے کی زمین پر بڑے بھائی اور بھاوج کی مہر لگ چکی تھی۔ وہ محض Puppet بن کر نہیں جی سکتا تھا۔ نتیجہ یہ کہ کسی کا بھی احسان اٹھائے بغیر، نندنی کے ساتھ وہ واپس انگلینڈ لوٹ جاتا ہے۔ یہاں اپنی جگہ بناتا ہے۔ نندنی کی پیٹنگس میں دلچسپی تھی اور یہ دلچسپی اور اڑنے کی خواہش اس قدر زور پکڑتی ہے کہ نندنی کسی دوسرے مرد کے ساتھ ہم بستر ہونے میں بھی شرم محسوس نہیں کرتی… اور پھر ایک دن ٹیبل لینڈ پر اس کی ہتیا کردی جاتی ہے۔ دیو کی جیون مرتیو کے سچ، اور جھوٹ سے آتم منتھن کرتا ہوا یکایک گہری سوچ میں ڈوب جاتا ہے۔

کہانی میں زبردست Readability ہے جو منٹو، اپندر ناتھ اشک، ممتاز مفتی جیسے ادیبوں کی تحریروں کی یاد دلاتی ہے۔ ناول کے لیے ان دنوں فضا سازگار ہے اور یہ ایک مردہ ہوتی زبان کے لیے نیک شگون بھی۔

جن زیادہ تر ناولوں پر ادھر پچھلے کچھ ایک برس میں گفتگو کے دروازے کھلے ہیں، ان کے مقابلے، فکر اور فن دونوں کی سطح پر بلو کا یہ ناول زیادہ بلند ہے… اہم بات یہ ہے کہ اس میں کہیں جذباتی پن نہیں ہے۔ چچھلی گفتگو نہیں ہے زبردستی کے ٹھونسے گئے فلسفے نہیں ہیں … ایک غیر ملک میں رہنے والا آدمی پورے معاشرے میں تیزی سے پھیلتے صارفی کلچر کو نہ صرف دیکھ رہا ہے، بلکہ اپنی تحریر میں نشانہ بھی بنارہا ہے۔

احمد صغیر (جنگ جاری ہے۔ دروازہ ابھی بند ہے)

احمد صغیر کے دو ناول منظرعام پر آئے۔ جنگ جاری ہے اور دروازہ ابھی بندہے۔ ان دونوں ناولوں میں ٹوٹتے بنتے انسانی، اخلاقی اقدار اورآج کے مسائل کو دیکھا جاسکتا ہے۔ مجھے احساس ہے کہ احمد صغیر کے ناولوں پرابھی گفتگو کے دروازے کم کم کھلے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بہار سے باہر کے نقاد علاقائی تعصب کاشکار ہوکر موضوع اور اسلوب سے الگ زبان کا قصہ لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اوربغیر مطالعہ کے کسی کی تخلیقی فکر کا مذاق اڑانے سے آسان کام کوئی دوسرا نہیں — صغیر نے دونوں ناولوں میں محنت کی ہے اور ایک ایسے نظام کی حقیقت شعاری میں کامیاب ہوئے ہیں جہاں دہشت پسندی ہے، سلگتا ہوا گجرات ہے اور سہمے ہوئے لوگ ہیں۔ شاید اسی لیے پروفیسر قمر رئیس کو کہنا پڑا تھا۔

’احمد صغیر ہمارے عہد کے ایسے جیالے اور باضمیر قلمکار ہیں جو کسی سمجھوتے میں یقین نہیں رکھتے۔ ‘

نورالحسنین (ایوانوں کے خوابیدہ چراغ)

نورالحسنین نے اہنکار سے ناول نگاری کا آغاز کیا۔ ایوانوں کا خوابیدہ چراغ کے ذریعہ وہ اہم ناول نگاروں کی صف میں شامل ہوچکے ہیں۔ ایوانوں کے خوابیدہ چراغ میں تاریخ کو گواہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ کہانی 1857 کے غدر سے شروع ہوتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ غدر کے واقعات کو مورخین نے توڑ مروڑ کے پیش کیا ہے۔ کیونکہ یہ بھی کہاجاتا ہے کہ انگریزوں نے غدر کے دوران لکھی گئی کتابوں کو نذر آتش کردیا۔ نورالحسنین نے غدر کے واقعات میں محبت کی چاشنی ملادی اور واقعات کے رنگ بکھیر دیئے۔ یہ ایک اہم تاریخی ناول ہے۔ اپنے تخیل کی مدد سے نورالحسنین نے غدر کے واقعات کو محسوسات کی زبان دے کر ادب میں تبدیل کردیا ہے۔

رحمان عباس (ایک ممنوعہ محبت کی کہانی)

رحمن عباس کے ناول ایک ممنوعہ محبت کی کہانی کی دنیا پلیتہ سے مختلف ہے۔ رحمن کی نثر میں ترقی پسند اور جدیدیت کا خوبصورت امتزاج دیکھنے کو ملتا ہے۔ رحمن نے اپنے پہلے ناول سے ہی اردو دنیا کو چونکا یاتھا مگر برا ہو ادب میں بنیاد پرستی کو ہوا دینے والوں کا، کہ یہ ناول نہ صرف متنازع ہوا بلکہ رحمن عباس کو وہ صعوبتیں بھی برداشت کرنی پڑیں جس نے آگے چل کر رحمن کو یہ ناول لکھنے پر مجبور کیا۔ رحمن عباس مسلم گھرانوں کے ثقافتی، خانگی اورتہذیبی رویوں سے ناراض نظرآتے ہیں اوراس کی وجہ صاف ہے، اس معاشرے میں تبدیلی وترقی کی مدھم رفتار۔ زیادہ ترمسلم گھرانے آج بھی پندرہویں صدی میں زندگی گزاررہے ہیں۔ ان کے پاس ان کی اپنی سہولت کے حساب سے ایک شرعی زندگی ہے۔ جس میں مذہب کے علاوہ نئی دنیا کی کوئی روشنی ان کے جہاں کو منور نہیں کرتی۔ پہلے ناول کے تحفہ کے طورپر مذہب اوربنیاد پرستی کے خطرناک رجحان کی سیر کرنے والے رحمن نے اسی لیے یہاں محبت کی ایسی کہانی پیش کی ہے، جہاں مسلمانوں سے متعلق، نئی دنیا اورفکر وآگہی کے کتنے ہی سوال سراٹھاتے نظرآتے ہیں۔

اس کے علاوہ جوگندرپال (نادید، خواب رو، پارپرے)ظفر پیامی(فرار)، انورعظیم (جھلستے جنگل)، انور خاں (پھول جیسے لوگ)، یعقوب یاور(دل من)، سلیم شہزاد(دشتِ آدم)، صلاح الدین پرویز(نمرتا)، شاہد اختر (شہر میں سمندر)، تسنیم فاطمہ( ایک اورکوسی)، سید محمد اشرف (نمبردار کا نیلا) شموئل احمد (ندی، مہاماری)، آچاریہ شوکت خلیل(اگر تم لوٹ آتے ) ساجدہ زیدی(مٹی کا مرمر)نند کشور وکرم(یادوں کے کھنڈر، انیسواں ادھیائے) ثروت خاں ( اندھیرا اپگ) عشرت ظفر (آخری درویش)ترنم ریاض (مورتی، برف آشنا پرندے، حبیب حق (جسے میر کہتے ہیں صاحبو) ڈاکٹر محمد حسن (سوانحی ناول غم دل وحشت دل) اقبال مجید( نمک) احمد صغیر (جنگ جاری ہے) کوثر مظہری (آنکھ جو کچھ سوچتی ہے) محمد علیم(میرے نالہ کی گمشدہ آواز) شمس الرحمن فاروقی(کئی چاند تھے سرآسماں )، خالد جاوید(موت کی کتاب)، ایک طویل فہرست ہے جس پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

فاروقی صاحب اور خالد جاوید کے ناولوں پر گفتگو کے دفتر نہیں بلکہ’’ بنگلے‘‘ کھل چکے ہیں۔ میرے لیے یہ خوشی کا مقام ہے کہ جدیدیت کے پلیٹ فارم سے آنے والے ناولوں کو تحریک کی شکل میں قارئین تک پہنچائے جانے کا کام جاری ہے۔ اور اس سلسلے میں جدیدیت کی تحریک کو فروغ دینے والے رسائل بھی خاطرخواہ اپنی ذمہ داریوں کو اداکرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اور یہ کوئی بری بات نہیں ہے۔ اس سے ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ آنے والے وقتوں میں اردو ناول پر مکالموں کی ایک صحت مند فضا پیدا ہوگی۔

یہاں اپنے موقف کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں۔ اقبال نے کہاتھا۔

سمندر سے ملے پیا سے کو شبنم

بخیلی ہے یہ رزاقی نہیں ہے

قاری کو پیاسا تصور کریں تو ناول کے تعلق سے اس کی رسائی صرف شبنم تک ہوتی رہی ہے۔ ناول تو ایک سمندر ہے۔ مگر المیہ یہ کہ ناولوں پر کام کرنے والے ناقدین ان چند دو ناولوں کو ہی خاطر میں لاتے رہے جن پر پہلے سے ہی دفتر کے دفتر کھل چکے تھے۔ سن 2011 تک آتے آتے صرف فہرست سازی رہ گئی تھی اور ایسے میں اچھے بڑے اوربرے ناولوں کا تجزیہ کیسے ممکن تھا۔ ناقدین کا رونا یہ کہ جو کتابیں آسانی سے انہیں دسیتاب ہوں یا مصنف اپنی کتاب خود ان تک پہنچانے کا سامان کرتے تو ٹھیک۔ ورنہ بیشتر ناول نہ مطالعہ کا حصہ بنتے ہیں اور نہ ان پر کبھی بھولے سے کوئی تحریر سامنے آتی ہے۔ زمانہ قبل قرۃ العین حیدر کے ناول آگ کادریا کاموازنہ ڈاکٹر احسن فاروقی کے ناول سنگم سے کیا گیا۔ لیکن اب سنگم بھی دستیاب نہیں۔ دوناولوں کے موازنہ سے کوئی ناول بڑا یا چھوٹا نہیں ہوتا لیکن سیاسی وسماجی اورتاریخی سطح پر ناول کے مختلف پہلو سامنے آجاتے ہیں۔ ہندستان کی ہی بات کریں تو کئی ناول آئے اور گم ہوگئے۔ عشرت ظفر کا ناول تلاش بسیار کے باوجود کہیں نہیں ملے گا۔ ناول کا معاملہ کہانیوں سے مختلف ہے— ناول ایک عہد کا ترجمان ہوتے ہیں جن پر تاریخ کی گونج بھی صاف صاف سنائی دیتی ہے۔ اس لیے ہندو پاک، دونوں ملکوں کی جانب سے یہ کوشش تیز ہونی چاہئے کہ ان ناولوں کے تجدید اشاعت پر زور دیا جائے جواب ناپید ہوچکے ہیں یا بمشکل جنہیں حاصل کیا جاسکتا ہے۔

کچھ نئے ناول

دیکھتے ہی دیکھتے ایک نئی صدی کے گیارہ سال گزر گئے۔ ان گیارہ برسوں میں ہندستانی اردو ادب میں کئی نئے موڑ آئے۔ صدی کی شروعات میں ایسا لگ رہا تھا کہ اردو ادب کا زوال نزدیک ہے۔ نئی نسل کا آنا رک گیاتھا۔ اچھے رسائل جو مدت سے اپنی چمک بکھیر رہے تھے، اچانک بند ہوگئے۔ شب خون جیسے رسالہ نے بھی دم توڑ دیا۔ اردو ادیب خاموشی سے یہ سارا تماشا دیکھ رہا تھا۔

لیکن سن 2007 تک آتے آتے یہ پورا منظر نامہ تبدیل ہوچکا تھا— اچانک ایک ساتھ کئی اچھے دستخط ہمارے سامنے آگئے۔ آجکل اردو نے افسانہ نمبر شائع کیا۔ مژگاں کلکتہ نے 1800 صفحات پر مشتمل اردو ادب پر مبنی ایک خاص نمبر شائع کیا جو بہت مقبول ہوا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ادیبوں کی نئی کہکشاں ہمارے سامنے تھی۔

خوش آئند بات یہ تھی کہ نئی نسل پورے جوش کے ساتھ کہانی اور ناول کی دنیا میں  قدم جمانے لگی تھی۔ ہندستان سے پاکستان تک اردو میں اچھے افسانوں اور ناول کی باڑھ آگئی تھی۔ پاکستان سے حامد سراج، حمید شاہد، مبین مرزا، اے خیام اور آصف فرخی جیسے لوگ اردو افسانے کی نئی تاریخ لکھ رہے تھے وہیں ہندستان میں نئی نسل اپنی چمک بکھیر رہی تھی۔ رضوان الحق، نیلوفر، سید جاوید حسن، تسنیم فاطمہ، احمد صغیر، صادق نواب سحر، رحمان عباس جیسے لکھنے والوں کا ایک کارواں سامنے آچکا تھا۔

سید جاوید حسن۔ سیاہ کاریڈور میں ایلین—( ناول)— اردو کی نئی نسل میں تیزی کے ساتھ ایک نام جڑ گیا ہے— سید جاوید حسن۔ جاوید نے فرقہ وارایت کو لیکر کئی خوبصورت کہانیاں لکھی ہیں۔ ہندی میں بھی تین کہانی کے مجموعے آچکے ہیں۔ بازگشت کے نام سے ایک کہانی کا مجموعہ اردو میں بھی شائع ہوچکا ہے۔ جاوید حسن کی خوبی یہ ہے کہ ان کی تخلیقات میں سماجی اور سیاسی سطح پر نئے ابعاد دیکھنے کو ملتے ہیں۔ جاوید ان فنکاروں میں سے ایک ہیں جو یوں تو تقسیم کے کافی بعد پیدا ہوئے لیکن جب ان کے اندر کی تڑپ جاگتی ہے تو وہ آج کے ہندستان اورفرقہ واریت کا ذکر کرتے ہوئے سیدھے تقسیم تک پہنچ جاتے ہیں — اپنے عہد کی گھٹن، خونی دنگے، بابری مسجد اور گودھراجیسے فسادات بار بار جاوید حسن کی کہانیوں کا حصہ بنتے رہے ہیں۔ ’ سیاہ کاریڈور میں ایلین، میں، جاوید حسن کی خوبی یہ ہے کہ یہاں 1984 اور اے نیمل فارم کا خالق جارج آرویل بھی ایک کردار ہے۔ پریم چند اور قرۃ العین حیدر بھی۔ اس طرح شیکسپیئر بھی ایک کردار ہے اور دلچسپ یہ کہ یہ سارے کردار ہندستان کی فرقہ واریت کو اپنی اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ سیاہ کاریڈور میں ایک ایلین چھپا ہوا ہے— جو ہندستان کے تقدس، بھائی چارہ، اتحاد کی دھجیاں بکھیر رہاہے۔ یہ پورا ناول ایک خوبصورت سیاسی منظرنامہ کو سامنے رکھتا ہے جہاں پاکستان بننا بھی ایک ناسور ہے— مسلم نوجوانوں کو لگتا ہے کہ آج بھی ان کی شناخت کی باتیں کرتے ہوئے ہر بار کہیں نہ کہیں سے ایک پاکستان نکل کر سامنے آجا تا ہے۔ دراصل جاوید حسن آج کی باتیں کرتے ہوئے فرقہ واریت کی جڑوں تک پہنچنا چاہتے ہیں جن سے آج مسلم نوجوان خوفزدہ ہے— اعظم گڑھ سے لے کر بٹلہ ہائوس اوربابری مسجد فیصلے تک وہ لگاتار ایک انجانے خوف کے درمیان زندگی بسر کررہا ہے۔

نیلوفر (آٹرم لین۔ ناول)

سن 2010 میں ناول نگاروں کے درمیان ایک نیا نام شامل ہوا—ڈاکٹر خوشنودہ نیلوفر۔ نیلوفر ابھی ابھی تعلیمی زندگی سے باہر نکلی ہیں۔ آٹرم لین، یہ وہ علاقہ ہے جہاں زیادہ تر دہلی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے نوجوان ٹھہرتے ہیں۔ مکھرجی نگر سے لے کر آس پاس کے زیادہ تر گھروں میں ان نوجوانوں کو پیئنگ گیسٹ کے طور پر رہنے کی اجازت مل جاتی ہے۔ لیکن کون محفوظ ہے—؟ یہاں ایک  ایجوکیشن مافیا ہے جس کی جڑیں بہت گہری ہیں۔

نیلوفر نے ایلیکزینڈر سولینسٹین کے مشہور ناول گلاگ آرکی پلاگو اور کینسر وارڈ کے طرز پر اس ناول کی بساط بچھائی ہے۔ یہاں الگ الگ لوگ، الگ الگ کمرے اور الگ الگ چہرے ہیں۔ یہاں وہ نوجوان بھی ہیں جو چھوٹے شہروں سے بڑے بننے کا خواب لیکر دہلی جیسے بڑے شہروں میں آجاتے ہیں۔ لیکن اچانک یہ خواب ٹوٹتا ہے۔ لڑکی ہونے کا احساس انہیں کہیں بھی محفوظ رہنے نہیں دیتا۔ یونیورسٹی میں بھی پی ایچ ڈی کی ڈگری دینے کے نام پرایجوکیشن مافیا ان کے ساتھ ’بھوگ سے سنبھوگ‘ تک کا ہر سفر طے کرنا چاہتا ہے۔ دیکھا جائے تو کچھ ایک برس میں ایسے کتنے ہی چہرے بے نقاب ہوکرہمارے سامنے آئے ہیں۔ نیلوفر کا یہ ناول اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ انہوں نے اس ایجوکیشن مافیا کو بہت قریب سے جانا ہے اور اس ناول کے بہانے اس کی جڑ تک پہنچنے کی کوشش کی ہے جہاں کچھ نوجوانوں کے ہاتھ میں سوائے خود کشی کے کچھ نہیں آتا۔

صادقہ نواب سحر۔ ’کہانی کوئی سنائو متاشا، (ناول)

پچھے دس برسوں میں صادقہ سحرنے تیزی سے اردو ادب میں اپنی جگہ بنائی ہے۔ شاعری سے کہانی تک ان کی کئی کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ ’کہانی کوئی سنائو متاشا‘ دراصل متاشا کے بکھرے خوابوں کی کہانی ہے۔ متاشا کی زندگی کا ہر حصہ ایک کہانی ہے۔ یہاں پھسلن ہی پھسلن ہے اور سنبھالنے والا کوئی نہیں۔

آج کے عہد میں جہاں ایک مہذب دنیا سانس لے رہی ہے —ایک لڑکی ہونے کا احساس آج بھی سیمون دبوارکے اس جملے کی سچائی کو ظاہر کرتا ہے۔ جہاں سیمون نے کہاتھا کہ عورت پیدانہیں ہوتی بنائی جاتی ہے۔ صادقہ نواب کی یہ کتاب پاکستان میں بھی شائع ہوئی ہے۔

شوفر/ ظفر عدیم

ظفر عدیم کو شاعری کرتے ہوئے ایک لمبا عرصہ گزر چکا ہے— ظفرعدیم ان لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے اپنی شاعری کے ذریعہ ایک معیار قائم کیا ہے— لیکن برا ہو نقادوں کا کہ ظفر عدیم کی شاعری ہمیشہ سے نظر انداز کی جاتی رہی ہے۔ ظفر عدیم نوجوانی میں انجو نام کا ناول تخلیق کرچکے ہیں۔ 2007 میں ظفر عدیم ایک نیا ناول لے کر آئے —شوفر—ایک شوفر کی معرفت دراصل یہ ناول ایک پورے نظام کی مضحکہ خیزی کی علامت بن جاتا ہے۔ ظفر عدیم کے یہاں محبت بھی ایک علامت ہے جو کنزیومر ورلڈ اور کساد بازاری کے اس دور میں گم ہوتی جارہی ہے۔ ایک تہذیب آچکی ہے۔ اور محبت اپنا مفہوم کھو چکی ہے۔

قومی اور بین اقوامی مسائل کو لے کر عالمی اوروسیع تر تناظر میں ناول لکھے جانے کی شروعات ہوچکی ے۔ معاصر ناول نگار فنکارانہ چابکدستی اور بڑے وژن کو لے کر زندگی اورعہد کے مختلف النوع گوشوں پر سیاسی وسماجی بصیرت کے ساتھ قلم کی ذمہ داریاں اداکررہے ہیں — کچھ پرانے ناولوں کی جانب اشارہ کرنے کا موقف یہ تھا کہ ایسے بہت سے قلمکار جنہوں نے لکھنے کا حق تو ادا کیا مگر کبھی سنجیدگی سے ان کے ناولوں کو سامنے لانے کی ذمہ داری محسوس نہیں کی گئی۔ اس لیے رضیہ فصیح احمد سے رشیدہ رضویہ تک از سر نو گفتگو کے دروازے کھلنے چاہئیں۔ ان سطور کے لکھے جانے کا مقصد یہ بھی ہے کہ ناقدین نے قارئین کو یوں بھی گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے کہ اردو معاشرہ اور ناستلجیاتی موضوعات کے علاوہ اردو ناولوں نے کبھی عالمی نظام کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی— یہ اردو ناولوں پر سراسر غلط الزام ہے۔ پچھلے پچاس برسوں کے ناولوں کاتجزیہ کیجئے تو ایسے کتنے ہی نام ہیں جن کی کتابیں مغرب کی کتابوں پر بھاری پڑیں گی۔ مستنصر حسین تارڑ افغان کے پس منظر میں سلگتے ہوئے مسائل کی عکاسی کرتے ہیں تو انیس ناگی قلعہ جنگی اور کیمپ میں عالمی دہشت گردی کے درمیان پناہ کے راستے تلاش کرتے ہیں۔ شوکت صدیقی جانگلوس کے بہانے دیہی مافیا کو بے نقاب کرتے ہیں تو طوفان کی آہٹ میں مصطفی کریم پلاسی کی جنگ اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی آمد کے ساتھ سراج الدولہ کے شکست کی کہانی کو آج کی صدی اور کشمکش سے ملانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اقبال مجید کسی دن اور نمک میں انسانی شکست و ریخت کا المیہ بیان کرتے ہیں تو پیغام آفاقی پلیتہ کے بہانے عالمی سطح پر گونجتی ہوئی ایک عام مسلمان کی چیخ کو ناول کا حوالہ بناتے ہیں۔ غرض ہندستان سے پاکستان تک موضوعات کی کمی نہیں ہے۔ رشیدہ رضویہ تاریخ وسیاست کے منظرنامہ کے ساتھ حکمرانوں اورجنگوں کے درمیان عام انسانوں کی تباہ کاریوں اور بربادیوں کی کہانیاں سناتی ہیں تو تسنیم فاطمہ اوراحمد صغیر کے ناول سیلاب اورگجرات دنگوں کی عبرت ناک داستان کو سامنے رکھتے ہیں۔ معاصر ناول نگار عوام الناس پر سیاست وسماج کے گہرے اثرات کو نہ صرف اپنے مشاہدہ کی آنکھ دیکھ رہا ہے بلکہ ذمہ داری اورکرب کے ساتھ انہیں صفحہ قرطاس پر بکھیر رہا ہے۔ ضرورت ایسے ناقدین کی ہے جو سامنے آئیں اور142سال کے طویل سفر میں ذمہ داری کے ساتھ بکھرے ہوئے ناول کے اوراق کو جمع کریں اور ادب میں اپنی ذمہ داری کو انجام دیں۔ مجموعی طور پر دو ایک ناول نگاروں کو چھوڑ دیں تو اتنے سارے ناموں میں ابھی بھی انصاف

تبصرے بند ہیں۔