کشمیرکو نیک نام گورنر کے سپرد ہونا چاہیے

حفیظ نعمانی

            کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ امن کی تلاش میں ساتھیوں کے ساتھ دہلی آئے ہیں اور انھوں نے وزیر اعظم کے بجائے صدر محترم سے فریاد کی ہے کہ کشمیر میں تشدد کی پالیسی ختم کی جائے اور پاکستان سے کشمیر کے مسئلہ میں مذاکرات پر حکومت کو آمادہ کیا جائے، عمر عبداللہ کی حیثیت وہی ہے جو ملک میں پنڈت نہرو کے بعد راجیو گاندھی کی تھی جو نہرو کے نواسے تھے اور عمر عبداللہ شیخ عبداللہ کے پوتے ہیں، انھوں نے یہ کہہ کر کہ وہ ملک کی خارجہ پالیسی پر کوئی بات کرنے نہیں آئے ہیں، یہ وزیر اعظم اوروزیر خارجہ کے دائرۂ اختیارکی بات ہے، وہ صرف اس آگ کو سرد کرانے کے لیے آئے ہیں جو آتش چنار ہر اس جگہ پہنچ رہی ہے، جہاں چنار ہیں۔

            یہ حقیقت ہے کہ ۱۵؍ اگست کی وزیر اعظم کی تقریر کے بعد ملک اور کشمیر کی فضا میں چنگاریاں نظر آنے لگی ہیں، وزیر اعظم کے الفاظ اور ان کے لہجہ سے اندازہ ہورہا تھا کہ وزیر اعظم وہی نریندر بھائی مودی بن گئے ہیں جو کہا کرتے تھے کہ پاکستان کو پریم پتر لکھنا بند کرو۔ انھوں نے اپنی سیاسی زندگی کا بہت بڑا حصہ پاکستا ن کو نیست و نابود کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے گذارا ہے، کون نہیں جانتا کہ 1971ء میں جب اندراگاندھی نے پاکستان کا ایک ٹکڑا الگ کراکے اسے بنگلہ دیش بنوایا تھا تو نریندر بھائی مودی کا آر ایس ایس بھی اپنی خوشی کو نہ روک سکا تھا اور اس نے اندرا جی کو درگا ماں کاخطاب دے دیا تھا۔

            اور یہ تو چند روز پہلے ہی ہم لکھ چکے ہیں کہ ملک کی تقسیم صرف اس لیے کانگریس کے لیڈروں نے منظور کی تھی کہ انھوں نے گورنر جنرل مائونٹ بیٹن کی مدد سے پاکستان کو ایسا لنگڑا لولا بنادیا تھا کہ انہیں یقین تھا کہ جلد یا دیر پاکستان ہندوستان کی گود میں پناہ لینے پر مجبور ہوجائے گا۔ اب یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ پا کستان کی سرحد چین سے ایسی ملتی ہے کہ چین نے پاکستان کو ہمارے خلاف استعمال کرنے کا ایک ہتھیار بنالیا اور چین نے مسعود اظہر کو عالمی دہشت گردی کی فہرست میں شامل نہیں ہونے دیا جبکہ وہ کوئی سرکاری عہدیدار نہیں ہے۔

            وزیراعظم نے تقریر میں کہہ دیا کہ اب بات اس وقت ہوگی جب مقبوضہ کشمیر خالی ہوجائے گا، یہ وہی بات ہے جو پنڈت نہرو نے اس وقت کہی تھی جب رائے شماری کا وعدہ کیا تھا کہ پاکستان اپنے حصہ کے کشمیر سے اپنا قبضہ ہٹا لے، جس کے جواب میں پاکستان نے کہا تھا کہ پھر ہندوستان بھی کشمیر سے نکل جائے۔ اور یہیں پرآکر بات اٹک گئی اور نہ پاکستان نے خالی کیا اور نہ رائے شماری ہوئی۔ یہ بات تو پاکستان بہت دنوں سے کہہ رہا ہے کہ ہندوستان کی خفیہ ایجنسیاں بلوچستان میں بدامنی کو ہوا دے رہی ہیں اور ہندوستان برابر اس کی تردید کرتا رہا ہے لیکن ۱۵؍ اگست کو وزیر اعظم نے کہہ دیا کہ وہاں کے لوگ ہندوستان کے وزیر اعظم کو ’’یوم آزادی مبارک‘‘ کے پیغام بھیج رہے ہیں۔

            عمر عبداللہ صاحب بے شک چھ برس کشمیر کے وزیر اعلیٰ رہے ہیں لیکن کیا یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ وہ وزیر اعظم، وزیر داخلہ اور وزیر خارجہ کے بجائے صدر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں، جو صرف دعا دے سکتے ہیں اور وہ بھی یہی مشورہ دیں گے کہ وزیر اعظم سے بات کرنا چاہیے۔

            ہم سری نگر سے بہت دور ہونے کے باوجود بھی یہ محسوس کررہے ہیں کہ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی اس کی اہل نہیں ہیں کہ کشمیر جیسی ریاست کی وزیر اعلیٰ بنی رہیں جو وزیر اعلیٰ خود میدان میں اترنے کی ہمت نہ کرے اور اپنے ممبروں کو یہ حکم دے کہ وہ جا کر اپنے اپنے حلقے میں آگ بجھائیں وہ اس قابل کیسے ہوسکتا ہے۔ اس وقت میں صرف وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم کو سڑک پر آنا چاہیے، یہ بات عمر عبداللہ کی غلط نہیں ہے کہ پاکستان بے شک آگ میں پٹرول ڈال رہا ہے، لیکن آگ اس نے نہیں ہمارے آدمیوں نے لگائی ہے اور آگ جہاں گئی ہے اور جہاں جہاں پھیل رہی ہے وہاں صرف اور صرف کشمیری مسلمان ہیں جن کے دلوں میں آزادی سے پہلے بھی آگ بھری ہوئی تھی اور آزادی کے بعد بھی ان کا سابقہ آگ سے ہی پڑا۔

            پاکستان اب وہیں واپس آگیا ہے جہاں 65سے پہلے تھا، اس وقت ایوب خاں کو یہ غلط فہمی ہوئی تھی کہ چین نے 62ء میں ہندوستان کو اتنا کمزور کردیا تھا کہ اب ہم جیسے بھی اس سے وہ حصہ واپس لے سکتے ہیں جو پنجاب اور بنگال کے ہندوستان نے لے لیے تھے اور جب ایوب خاں نے شوق پورا کرنا چاہا تو روس کو دعا دیں کہ لاہور بچ گیا ورنہ وہ بھی آج سری نگر کی طرح ہندوستان کا ایک شہر ہوتا۔

            اب نواز شریف اور فوجی شریف جو کہہ رہے ہیں وہ صرف چین کے بل پر کہہ رہے ہیں اور ہندوستان میں حکومت یا فوج کیا سوچ رہی ہے یہ تو وہ جانے لیکن میڈیا کا یہ حال ہے کہ 16؍اگست سے ہر رات کو ایک پروگرام ضرور دکھایا جاتا ہے کہ ہندوستان کی بحری، برّی اور ہوائی طاقت کتنی ہے اور چین کی اس سے ہر چیز دوگنی، ہوسکتا ہے کہ یہ کام حکومت نے ان کے سپرد کردیا ہوا، جس کے ذریعہ وہ اپنی عوام کو یہ پیغام دینا چاہتا ہو کہ پاکستان کچھ بھی کرے ہم اس پر حملہ اس لیے نہیں کرسکتے کہ ہمارا سامنا صرف پاکستان سے نہیں چین سے بھی ہوگا۔ اور اس لیے ہوگا کہ چین لاکھ کوشش کے باوجود ہمارا دوست نہیں بن سکتا اور پاکستان کو اس نے گود لے لیا ہے۔ اب یا تو حکمت عملی کی غلطی ہے یا قسمت کا کھیل کہ 62ء کے بعد ہر حکومت نے چین سے تعلقات بہتر کرنا چا ہے، اوراپنے ملک کے سارے دروازے اس لیے کھولے کہ ہندوستان میں بیوی اور اولاد کے علاوہ ہرچیزچین کی فروخت ہورہی ہے اورپاکستان کو چھوٹا بھائی بنانے کے لیے قدم قدم پر اس کے سرپرہاتھ رکھ دیا مگر نہ جانے کہاں کیا کسر رہ گئی کہ نہ چین دوست بن سکا نہ پاکستان بھائی۔ اب اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے کہ کشمیر یوں کے دل جیت لیے جائیں اور کشمیر کی لگام وزیر اعظم اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے گورنر صاحب کو سامنے لائیں جن کی تعریف ہر کشمیری نے کی ہے اور عمر عبداللہ کو بھی ناکام وزیر اعلیٰ کہا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔