تقریب رسم رونمائی ’منظور الامین کے منتخب غنائیے‘

محسن خان

حیدرآباد دکن میں ہرہفتہ مختلف ادبی تنظیموں کی جانب سے اردو کے کئی ادبی پروگرامس  مختلف ہالس‘اردو گھروں اوردیگر تعلیمی اداروں میں پابندی سے منعقدہوتے ہیں۔ ایڈیٹر ہفتہ وار گواہ فاضل حسین پرویز نے ان حالات کودیکھتے ہوئے ایک عصری اور جدید ٹکنالوجی سے لیس ’’میڈیا پلس آڈیٹوریم ‘‘کاقیام عمل میں لایا ہے۔ جہاں ہرطرح کے ادبی پروگرامس منعقد کرنے کی سہولیات دستیاب ہیں۔ یہاں پائورپوائنٹ پرزنٹیشن کے ذریعہ خطاب کرنے والا سامعین کے سامنے بہترانداز میں اپنے خیالات کورکھ سکتا ہے۔ پراجکٹر کے ذریعہ ڈاکیومنٹری ‘ ڈیجیٹل سائونڈ سسٹم اوردیگر ادبی ویڈیوز بتانے کی سہولت بھی یہاں دستیاب ہے جوکہیں اورنظرنہیں آتی۔

 9مارچ 2019بروزہفتہ جہاں حیدرآباد میں پانچ بڑے ادبی پروگرامس ‘مشاعرے ‘اجلاس اورایک سیاسی جلسہ بھی تھا اس کے باوجود میڈیا پلس آڈیٹوریم میں ڈاکٹر محمد شجاعت علی راشد ؔکی جانب سے مرتب کردہ کتاب ’’ساز اورآواز‘منظورالاامین کے منتخب غنائیے‘‘ کا رسم اجراء اور دوسراپروفیسر منظورالامین یادگاروتوسیعی لیکچر میں لوگوں نے اچھی تعداد میں شرکت کی۔ ڈاکٹرمحمدشجاعت علی راشد قریب چالیس سال سے صحافت کے ذریعہ اردوکی خدمت انجام دے رہیں۔ وہ ایک اچھے قلمکار ہیں جن کی اب تک قریب دس کتابیں منظرعام پرآچکی ہیں۔ جن لوگوں نے اپنے دورمیں ریڈیو کوسنا ہوگا ان کویہ کتاب ضرورپڑھنی چاہیے۔ اس کتاب کے پڑھنے سے اندازہ ہوگا کہ کس طرح مختلف آوازوں ‘موسیقی اور تاثرات کے ذریعہ جادوجگایاجاتاتھا۔ منظورالامین نے الیکٹرانک میڈیا اورریڈیو میں کافی خدمات انجام دی ہیں ان کا ذکرکیئے بغیر صحافت کی تاریخ مکمل نہیں کہلائی جاسکتی۔ ملک اوربیرون ملک کے کئی ایک انگریزی اخبارات ورسائل میں آپ کی نگارشات شائع ہوچکی ہیں۔ غنائیہ کواوپیرا بھی کہاجاتا ہے یہ نغمہ‘شعراور موسیقی کے حسن امتزاج سے وجود میں آیاہے۔ یہ کتاب صحافت سے وابستہ ہرشخصیت کوپڑھنی چاہیے خاص کر ریڈیو اور ٹیلی ویژن میں کام کرنے والوں کے لیے یہ کتاب کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔

 یہ دوسرا منظورالامین توسیعی لیکچر تھا‘ اس سے قبل 5مارچ 2018کوپہلا توسیعی لیکچرمنعقدہواتھا جس میں پروفیسر مظفر شہ میری‘ پروفیسر فاطمہ بیگم پروین‘ پروفیسر ایس اے شکور نے شرکت کی تھی اس باربھی یہی شخصیات اسٹیج پرجلوہ افروز تھیں۔ اس مرتبہ پروفیسر سید فضل اللہ مکرم(سنٹرل یونی ورسٹی آف حیدرآباد)نے مہمان اعزازی کی حیثیت سے شرکت کی۔ پروفیسر محمد احمداللہ خان کو’’اکیسویں صدی اورمیڈیا کے چیلنس‘‘ عنوان کے تحت خصوصی خطاب کے لیے دعوت دی گئی تھی۔ شعیب رضا خان کی قرأت کلام پاک سے لیکچر کا آغاز ہوا۔ داعی محفل ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز (مدیر گواہ اردوویکلی) نے خطبہ استقبال پیش کرتے ہوئے کہاکہ آج کا پروگرام ہمارے لیے غم اورخوشی دونوں طرح کا ہے۔ غم اس بات کا ہے کہ منظورالامین صاحب ہمارے درمیان نہیں رہے لیکن خوشی اس بات کی بھی ہے کہ آج ہم ان کویاد کررہے ہیں اور انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کی خدمات سے دنیا کوواقف کروانے کے لیے ہم سب یہاں جمع ہوئے ہیں۔ انہوں نے موجودہ حالات میں میڈیا کی جانب سے تیار کردہ ماحول پرافسوس کااظہار کرتے ہوئے کہاکہ میڈیا کے اینکروں نے توملک کوجنگ میں جھونکنے کی پوری تیاری کرلی تھی۔ موجودہ حالات میں میڈیا کا رویہ بالکل نامناسب ہے۔ انہوں نے کہاکہ ایک بہتراستاد جس کومل جائے اس کی زندگی سنورجاتی ہے۔ فاطمہ پروین (سابق صدرشعبہ اردو‘جامعہ عثمانیہ) کی دعائوں کی بدولت آج میں یہ مقام تک پہنچ پایاہوں۔ ڈاکٹرحمیرہ سعید نے دانش اقبال کا پیش گفتار پیش کرتے ہوئے کہاکہ منظورالامین کارابط مہاتماگاندھی سے بھی رہا۔ منظورالامین نے دکن ریڈیو میں بہت ہی نمایاں خدمات انجام دیں جس کوکبھی فراموش نہیں کیاجاسکتا۔ انہوں نے کہاکہ یہ ہمارے لیے افسوس کی بات ہے کہ منظورالامین صاحب نے جس طرح محنت سے ریڈیو پرمختلف پروگرام پیش کیے اور تکنیک پیش کی وہ دکن ریڈیو کا سرمایہ ضائع ہوچکا ہے۔ ڈاکٹر غوثیہ بانو نے پروفیسر مجاور حسین رضوی کے پیام کوپڑھ کرسنایا اور ساتھ ہی کتاب پرتبصرہ کیا۔ ڈاکٹرسیدفضل اللہ مکرم جنہوں نے حال ہی میں حیدرآباد سنٹرل یونی ورسٹی میں اپنی خدمات شروع کی ہیں کہاکہ غنائیے لکھنا آسان کام نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ شاعری‘رقص وموسیقی سے ہندوستانیوں کا تعلق ہمیشہ سے رہا ہے۔ وہ دیوی دیوتائوں کو رقص وموسیقی کے ذریعہ خوش کرتے تھے اوریہ روایت آج بھی جنگل کے مختلف قبیلوں میں پائی جاتی ہے۔ انہوں نے اس موقع پر کتاب میں موجود’’اندھے چراغ‘‘ غنائیے پرتفصیلی روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہاکہ کلاس روم میں آج ڈراموں کوپریکٹیکل طریقہ سے سمجھانے کے بجائے صرف سبق کی طرح رٹایاجارہا ہے۔ منظورالامین نے کتاب میں غنائیے کے ساتھ ساتھ غنائیے کا تفصیلی تعارف اورکرداروں کوبھی پیش کیا ہے جس سے قاری آسانی سے تمام معلومات حاصل کرسکے گا اور اسے سمجھنے میں آسانی ہوگی۔

پروفیسر ایس اے شکور ڈائرکٹرسکریٹری تلنگانہ اسٹیٹ اردواکیڈیمی نے کہاکہ آج شہرمیں اتنے سارے جلسے ہونے کے باوجود بھی آپ لوگوں کی یہاں موجودگی یہ ثابت کرتی ہے کہ منظورالامین کولوگ کتنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ جوقوم اپنی تاریخ اور بزرگوں کوبھول جاتی ہے وہ کبھی ترقی نہیں کرسکتی۔ شجاعت علی راشد خوش قسمت ہیں کہ انہیں منظورالامین کے ساتھ ریڈیو میں کام کرنے کاموقع ملا۔ انہوں نے کہاکہ ریڈیو ہرطرح کے لوگوں کے لیے تھا چاہے وہ حجام ‘ٹیلی ‘موچی یاکوئی بھی ناخواندہ شخص ہووہ تمام ریڈیو سنتے تھے ان کومدنظررکھتے ہوئے ڈرامے‘پروگرام اوردیگرادبی چیزیں ترتیب دی جاتی تھی جس میں منظورالامین بہت کامیاب رہے۔ انہوں نے کہاکہ ریڈیو کے دور میں حالات اچھے تھے لیکن آج ٹی وی پرکرائم کے پروگرامزاوردیگربے ہودہ پروگرامز سے ماحول خراب ہورہا ہے۔ انہوں نے اس موقع پر میڈیا پلس کے ذمہ دارو ں اور شجاعت علی راشد کومبارک باد پیش کی کہ وہ اس طرح کے توسیعی لیکچر کے ذریعہ سماج کوایک اچھا پیغام دینے کی کوشش کررہے ہیں اورمنظورالامین کویاد کررہے ہیں۔ پروفیسر شہ میری وائس چانسلر عبدالحق اردویونی ورسٹی کرنول نے کہاکہ منظورالامین نے اپنے غنائیوں میں شاعری کابہت اچھے طریقے سے استعمال کیاہے۔ منظورالامین کے غنائیوں میں موجود زندگی کے جذبات واحساسات کوبیان کیا۔ انہوں نے کہاکہ موجودہ دورمیں غنائیے لکھنے والے انگلیوں پرگنے جاسکتے ہیں اوریہ ہمارے لیے فخر کی بات ہے کہ ایک دکن کے سپوت نے اس پرعبورحاصل کرتے ہوئے اس صنف میں مقام بنایاہے۔ ڈاکٹرمحمدشجاعت علی راشدؔ(مرتب:ساز اورآواز‘منظورالامین کے منتخب غنائیے) نے ہفتہ وار گواہ کاشکریہ ادا کیااورکہاکہ فاضل حسین پرویز نے اس دوسرے توسیعی لیکچر کے انعقاد میں اہم رول ادا کیاہے۔ انہوں نے کہاکہ گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی توسیعی لیکچر کامیاب رہا۔ انہوں نے کہاکہ اگلے سال سے ہماری کوشش رہے گی کہ ہرسال تین ایوارڈ ادب ‘صحافت اورسماجی خدمات کرنے والوں کوپیش کیے جائیں۔

ما ہرقانون پروفیسر محمداحمداللہ خان( سابق ڈین فیکلٹی آف لاء۔ عثمانیہ یونیورسٹی) نے ’’اکیسویں صدی اورمیڈیا کے لیے چیلنجس‘‘ کے موضوع پر لیکچر دیتے ہوئے کہاکہ صحافت میں اخلاقیات پربہت زوردیاجاتاتھا اورکوئی بھی خبرشائع کرنے سے قبل اس کی مکمل تصدیق کرلی جاتی تھی تاکہ معاشرے پراس کاغلط اثرنہ ہو لیکن آج کے اس مسابقتی اور ٹی آر پی کی دوڑ نے صحافت کا ماحول بالکل خراب کردیاہے۔ جس سے صحافت کوبہت ہی نقصان ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا کا غلط اثر نوجوانوں پرسب سے زیادہ پڑ رہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ آج کی نسل اخبارخرید کرپڑھنے یا ٹی وی دیکھنے کے بجائے فون پرہی ان چیزوں کودیکھ رہی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ صحافتی زبان بھی بگڑچکی ہے اور غلط تلفظ استعمال کیاجارہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ آج کے دورمیں ہرکوئی صحافی بننے جارہا ہے۔

آخر میں صدارتی خطاب کرتے ہوئے پروفیسرفاطمہ پروین بیگم(سابق صدر شعبہ اردو‘جامعہ عثمانیہ) نے کہاکہ کتابیں بہت ساری منظرعام پرآتی ہیں لیکن جوکتابیں خلوص سے تیار کی جاتی ہیں وہ ہمیشہ پڑھنے کے قابل رہتی ہیں اورایسی ہی ایک کتاب کوشجاعت علی راشدؔ نے مرتب کرکے ہم کوپیش کیا ہے جس سے ہم کومنظورالامین صاحب نے کس محنت وجستجو سے صحافتی خدمات انجام دی ہیں اس کوسمجھنے میں مدد ملی ہے۔ انہوں نے کہاکہ شجاعت علی راشد اور منظورالامین سالوں قریب رہے اورآج بھی شجاعت علی راشد ان لیکچررس کے ذریعہ ان کویاد کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ڈاکٹرفضل اللہ مکرم نے کتاب پرجامع تبصرہ پیش کیاہے۔ فاطمہ پروین نے کہاکہ میڈیا کبھی اخلاق ‘کردار اورمعاشرہ کا رہبرتھا ‘ناممکن کوممکن بنانے والاتھا لیکن آج کے دورمیں اس نے اپنی روش بدل دی ہے۔ سمیہ تمکین نے پروگرام کی نظامت کے فرائض انجام دیئے۔ کنوینر سیدخالد شہباز (سی ای اومیڈیا پلس) نے ہدیہ تشکر پیش کرتے ہوئے کہاکہ صحافتی اداروں کوچاہیے کہ وہ اپنی روش بدلیں اور حقیقی موضوعات پرکام کریں اور گمراہ کن خبریں نہ پھیلائیں۔ انہوں نے اس موقع پرموجودہ صحافتی حالات پر یہ شعرپڑھا کہ :

وہ جھوٹ بول رہاتھا بڑے سلیقے سے

میں اعتبار نہ کرتا تواورکیا کرتا

آخر میں ڈاکٹرعبدالرشید جنید کے دعائیہ کلمات پرتقریب کااختتام عمل میں آیا۔ اس تقریب میں ڈاکٹرجعفرحسین قریشی(لندن) ‘باقرمرزا‘ صداقت حسین‘ قاری صدیق حسین‘ خالد محی الدین‘جعفرامیر رضوی(نیوکلیرسائنسداں وماہرلسانیات)‘ڈاکٹرمختاراحمدفردین‘ محمد ریاض‘  محمدآصف علی‘ ڈاکٹرجہانگیراحساس‘محمدہلال اعظمی‘ محمدسراج‘دردانہ مسکان اور دیگرموجود تھے۔

تبصرے بند ہیں۔