جس بات کا ڈر تھا وہی ہوا: ووٹوں کی تقسیم سے آئی بی جے پی اکثریت میں

علی اشہد اعظمی

اتر پردیش کے اسمبلی انتخاب کے بعد نتائج حیرت انگیز رہے الٹی ہوگئ ساری آنکڑے بی جے پی نے ماری اکثریت سے بازی، بی جے پی کی بھاری جیت سے بی ایس پی سپریمو مایاوتی نے یہ الزام لگایا ہے کہ ای وی ایم مشین میں گڑبڑی کی وجہ سے ایسے نتائج آئے ہیں اور مایاوتی نے پھر سے الیکشن کی مانگ کر دی جبکہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ہے ای وی ایم مشین میں گڑبڑی یا چھیڑ چھاڑ اتنا آسان نہیں ہے در اصل ووٹوں کا بٹوارہ اس قدر ہوا جس کو ہم اور آپ سوچ بھی نہیں سکتے اکھیلیش یادو نے ترقیاتی کام کیا تھا اسی کسی سے اتحاد کی ضرورت نہیں تھی لیکن پتا نہیں کیا ضرورت آن پڑی کی اکھیلیش نے کانگریس کا ہاتھ تھاما میرے حساب سے یہی سب سے بڑی بھول تھی.

یہ بات شروع سے میرے ذہن میں تھی لیکن اتحاد کی وجہ سے میں اپنی کسی بھی تحریر میں واضح نہیں کیا کانگریس اور سماجوادی کے ملاپ سے نقصان یہ ہوا کہ جو کٹّر ہندوتواوادی تھے مطلب یادو انھوں نے کانگریس سے ناراضگی کے تحت یکطرفہ بی جے پی کو ووٹ کیا اور ٹھیک اسی طرح مایاوتی نے بھی جانے انجانے میں میں غلطی کر ڈالی اعظم گڑھ سے لکھنؤ تک چرچے میں رہنے والے مولانا عامر رشادی صاحب سے آخری وقت میں بنا شرط حمایت لینا اسے مھنگا پڑ گیا اس سے نقصان یہ ہوا کہ جو کٹر ہندوتواوادی تھے اور ان کے ساتھ ساتھ دلتوں نے بی جے پی کو کھل کر ووٹ دیا اور مسلمان ووٹ سماج وادی اور بہوجن سماج میں تقسیم ہو گیا بھاجپا کو تو براہمن، یادو اور ہریجن کا یکطرفہ ووٹ مل گیا لیک مسلم آپسی انتشار کی وجہ سے دو حصوں میں تقسیم ہوگیا اور ووٹوں کا ڈویژن اس طرح ہوا کہ بی جے پی نے بازی مار لی کچھ لوگ بہار الیکشن کو اتر پردیش الیکشن سے جوڑ رہے ہیں جبکہ دونوں انتخابات بلکل الگ تھے بہار اسمبلی انتخابات میں دو بڑی طاقتیں لالو پرساد یادو اور نتیش کمار نے سوچ سمجھ کر اتحاد کیا اور اور دو سیکولر طاقتوں سے ایک کمیونل طاقت کو مات دے دی وہاں بھی کانگریس تھی لیکن وہ بریانی میں تیج پتا کی طرح تھی کانگریس کے ساتھ آنے سے تھوڑا مضبوطی تو ملی لیکن نہ ہونے سے کچھ خاص اثر بھی نہیں پڑتا،

جبکہ اتر پردیش اسمبلی انتخاب اس کے بلکل الگ تھا یہاں دو بڑی سیکولر طاقتیں ایک دوسرے کے مقابل تھیں جیسے سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی، دونوں نے اپنی ضد میں الگ الگ اتحاد کیا جو کہ بلک الٹا ثابت ہوا، کانگریس اور علماء کونسل کی حمایت نے کٹر پنتھی ہندوؤں کو متحد کردیا اگر بہار کے طرز پر اتحاد ہوا ہوتا تو بی جے پی ہرگز نہیں آتی تو اس طرح ووٹوں کی تقسیم (Division) اس سے ہوئی کی پورا ہندوستان دنگ رہ گیا.

اگر اسمبلی حلقہ کے نظر سے دیکھیں تو مسلمانوں نے مایاوتی سے زیادہ اکھیلیش یادو پر بھروسہ کیا ہے مایاوتی کے صرف 6 امیدوار ہی جیت پائے اور جبکہ سماجوادی پارٹی کے کل 18 امیدواروں نے جیت حاصل کی، گوپال پور اسمبلی حلقہ سے موجودہ ممبر اسمبلی وسیم احمد کو ٹکٹ نہ دینے سے لوگوں نے یہ قیاس لگایا تھا کہ بہوجن سماج پارٹی کے امیدوار کملا پرساد یادو یکطرفہ جیت جائیں گے لیکن تصویر پوری الٹ گئی اور کملا پرساد یادو تیسرے مقام پر آئے اور ٹھیک اسی طرح مبارکباد اسمبلی حلقہ سے شاہ عالم عرف گڈو جمالی صاحب کی جاگیر سمجھی جانے والی اسمبلی حلقہ سے سماجوادی امیدوار اکھیلیش یادو نے بھر پور ٹکر دی صرف 700 ووٹوں کا ہی فرق رہا ساری وجوہات کی بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اتر پردیش میں اس بار جاتی کے طرز پر نہیں مذہب کے طرز پر ووٹ ہوا ہے.

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔