جمہوری سیکولر ہندوستان، مسلم پرسنل لا اور حقوق نسواں

وقار احمد ندوی

ہم سب کا ملک ہندوستان جمہوریت اور سیکولرزم کی اساس پر قائم اور متحد ہے. عوامی رائے یعنی ووٹ کے ذریعہ منتخب نمائندگان ایوان زیریں (لوک سبھا) میں قانون سازی کے عمل کا حصہ بنتے ہیں. قانون مذکورہ ایوان سے منظور ہوکر ایوان بالا (راجیہ سبھا) میں غور وفکر اور  منظوری کے لیے پیش کیا جاتا ہے. جب یہ دونوں ایوان کسی قانون کو منظور کر لیتے ہیں تو حتمی توثیق کے لیے صدر جمہوریہ کے پاس بھیجا جاتا ہے. صدر کسی بھی قانون کو نظر ثانی کے لیے دو بار پارلیمنٹ کے پاس واپس بھیج سکتا ہے اور تیسری بار لا محالہ اسے قانون کی توثیق کرنی ہی ہوتی ہے. یہ تینوں ہی ایوان زیریں، ایوان بالا اور صدر قانون سازی کے لیے مجاز ہیں.ان تینوں کے مجموعہ کو وسیع معنوں میں پارلیمنٹ کہتے ہیں اور اسی نظام حکومت کو پارلیمانی جمہوری نظام کہا جاتا ہے. جمہوری نظام میں کسی فرد کی رائے آخری نہیں مانی تی. ایوان زیریں کو نسبتا زیادہ اہمیت حاصل ہے کیوں کہ وہ براہ راست عوام کے منتخب نمائندوں پر مشتمل ہوتی ہے. اس نظام میں اقتدار کا ارتکاز کسی ایک شخص یا ادارہ کے پاس نہیں ہوتا نیز ہر ادارہ کے حدود متعین ہوتے ہیں جن سے وہ تجاوز نہیں کر سکتا، اسی وجہ سے کسی طالع آزما کے لیے ممکن نہیں ہے کہ اس نظام کے تحت اقتدار پر ڈکٹیٹر بن کر قابض ہو جائے اور من مانی کرے.
رہی ملک کے سیکولر ہونے کی بات؛ تو حقیقت یہ ہے کہ ہمارا ملک سیکولرزم کی درست تشریح کے مطابق سیکولر نہیں ہے. کسی ملک کے سیکولر ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس ملک کے تمام شہری کے لیے اپنے مذہبی افکار واعتقادات کی تبلیغ وترویج اور ان پر عمل کی مکمل آزادی حاصل ہو، حکومت نہ اس کی سرپرستی وکفالت کرتی ہو نہ ہی اس پر کسی طرح کی پابندی عائد کرتی ہو تا آں کہ وہ ملک کے قانون سے متصادم نہ ہو. سیکولر حکومتوں کے دستور میں کسی مذہب کے پرسنل لا کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی بلکہ ایک عام قانون ہوتا ہے جو تمام شہریوں پر یکساں منطبق ہوتا ہے.  ہمارے ملک کی صورت حال مختلف ہے. ہندوستان زمینی حقیقت کے اعتبار سے ایک مذہبی ملک ہے. دہریت یا لا مذہبیت کے لیے اس سرزمین پر کوئی جگہ نہیں ہے. یہی وجہ ہے کہ امبیڈکر جیسے روشن خیال نے بھی اگر اپنی ذات برادری کے لوگوں کو خاص لوگوں کے مذہبی جبر سے آزادی دلانی چاہی تو مذہب کا سرے سے انکار کرنے کی بجائے دوسرے مذہب کو اختیار کرنا ہی مناسب خیال کیا، اسی طرح باوجود اس کے کہ نہرو کسی بھی ایک مذہب میں مکمل ایمان نہیں رکھتے تھے مذہبی معاملات میں کبھی دخل اندازی کی غلطی نہیں کی بلکہ تمام مذاہب کی مشترک اور منفرد خوبیوں کا اعتراف کیا. یہی وہ حقائق تھے جن کی بنیاد پر ہمارے قائدین نے ملک کا آئین تیار کرتے وقت جہاں ایک شخص کی شخصی آزادی کا خیا رکھا وہیں تمام مذاہب کے لوگوں کے لیے ان کے اپنے مذہب پر عمل کی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے مذہبی قوانین کو آئینی تحفظ عطا کیا. اسی پر بس نہیں ہماری حکومتوں نے مذہبی معاملات کی سرپرستی اور کفالت کو بھی اپنی ذمہ داریوں میں شامل کیا. یہی وجہ ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں مسلمانوں کے دینی مدارس اور ہندووں کے سنسکرت اسکول حکومت کے ذریعہ قائم کردہ اور منظور شدہ بورڈ کے تحت چلتے ہیں اور حکومتیں ان کے اساتذہ کو ماہانہ معقول تنخواہ دیتی ہیں. اسی طرح بہت سی مسجدوں، مندروں، گرودواروں اور درگاہوں کا نظم ونسق بھی حکومت کی زیر سرپرستی و کفالت ہے. ان تمام باتوں کے پیش نظر ہمارے ملک کے سیکولرزم کو مذہبی سیکولرزم کہنا زیادہ صحیح ہوگا. اسی قسم کا آئین اور حکومتی طرز عمل ہندوستان کے لیے ضروری بھی ہے.
ملک کی جمہوریت اور سیکولرزم کسی ایک مذہبی اکائی کے لیے نہیں بلکہ تمام ہندوستانیوں کے لیے یکساں ضروری اور مفید ہے. ان دونوں کے ختم ہونے کی صورت میں بھی اگر کوئی سیاسی پنڈت یہ سوچتا ہو کہ ہندوستان موجودہ حالت میں باقی رہ جائے گا تو اسے دیوانے کے خواب سے زیادہ اہمیت نہیں دی جا سکتی.
جمہوری پارلیمانی نظام کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ مذہب دوست سیکولر آئین کا احترام کیا جائے اور  اس کی حفاظت کی جائے. جمہوریت اور سیکولرزم دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہیں. غیر جمہوری حاکم کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ جمہوریت ہوتی ہے اور غیر سیکولر حاکم کی راہ کا سب بھاری پتھر آئین ہوتا ہے. لہذا اگر کوئی ڈکٹیٹر آئے گا تو وہ سب سے پہلے آئین پر شب خون مارے گا جو سیکولرزم کی ضمانت ہے اور اگر کوئی مذہبی شدت پسند آئے گا تو جمہوریت کا خون کر دے گا. ہمارے ملک کو اگر چہ فی الحال مذکورہ دونوں خطرات میں سے کوئی بھی خطرہ درپیش نہیں ہے اس کے باوجود جمہوری پارلیمانی نظام کے درخت کو ہرا بھرا رکھنے کے لیے  سیکولرزم کی آبیاری تسلسل کے ساتھ جاری رہنی چاہیے.
حالیہ دنوں تین طلاق کا مسئلہ ذرائع ابلاغ کی سرخیوں میں ہے، جسے مسلم پرسنل لا میں شامل ہونے کی وجہ سے آئینی تحفظ حاصل ہے. مسئلہ یہ ہے کہ بعض لوگوں کے خیال میں تین طلاق مرد و زن کے درمیان مساوات کے منافی اور مسلم پرسنل لا سماجی ہم آہنگی کا مخالف ہے. اگر اسے ختم کر کے پورے ملک میں تمام طبقات کے لیے یکساں سول کوڈ نافذ کیا جائے تو مسلم خواتین کے حقوق بھی محفوظ ہو جائیں گے اور ہندوستانی سماج ہم آہنگ ہو کر ایک دھاگے میں مختلف رنگ کے موتیوں کی طرح خوبصورت ہار کی شکل اختیار کر لے گا. جب کہ دوسری طرف مذہبی اکائیاں خاص طور سے مسلمان اسے اپنی مذہبی تعلیمات کے خلاف اور  آئینی حقوق سے محروم کیا جانا سمجھتے ہیں اور ایسا سمجھنا درست بھی ہے. ہندوستانی حکومت اور سپریم کورٹ کو یہ سمجھنا چاہیے کہ مسلمانوں کے پرسنل لا کو لے کر کبھی ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان فساد نہیں ہوا. اس کے ہونے اور نہ ہونے سے قومی ہم آہنگی پر کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے. اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یکساں سول کوڈ نافذ ہونے کی صورت میں مسلمان قشقہ کھینچیں گے، سیندور لگائیں گے، منگل سوتر پہنائیں گے، آگ کے گرد سات پھیرے لیں گے، بھائی بہن وراثت میں برابر حق دار ہوں گے اور باپ کی زندگی میں ہی بچے جائداد میں باپ کے برابر حصہ دار ہوں گے تو یہ خیال خام ہے. مسلمان اسے کبھی قبول نہیں کریں گے اور اگر ان تمام باتوں سے پرے حکومت کوئی ایسے قوانین متعارف کروانا چاہتی ہے جو اکبر کے دین الہی طرح تمام مذاہب کے قوانین کا معجون ہو ہندو بھی اسے قبول نہیں کریں گے. ہندو مذہبی قوانین کو آئین کی شکل میں دیگر اقلیات پر تھوپنے سے سماجی ہم آہنگی کے بر خلاف سماجی بے چینی پیدا ہوگی اور ملک افراتفری کا شکار ہو جائے گا. فی الحال مسلمانوں کے پرسنل لا سے ہندو یا کسی بھی دوسری مذہبی اکائی کو کوئی تکلیف نہیں ہے. حقیقت یہ ہے کہ مسلم پرسنل لا سمیت تمام دیگر مذاہب کے پرسنل لا ملک میں جمہوریت اور سیکولرزم کی ضمانت ہیں. وہ منحوس دن ہوگا جب یہ ختم ہو جائیں گے اور ہندوستان اپنی روحانیت و معنویت کھو دے گا.
حقوق نسواں کے تعلق سے ایک سے زیادہ شادی کا معاملہ بھی بحث کا موضوع ہے. طلاق کے علاوہ عورتوں کی حق تلفی عموما ایک سے زیادہ شادی کی صورت میں بھی ہوتی ہے. ہندوستان میں ایک سے زیادہ شادی کا معاملہ صرف مسلمانوں تک محدود نہیں ہے. عزت مآب رام ولاس پاسوان اور دھرمیندر جیسے ہزاروں مہا پروش ہندووں اور سکھوں میں بھی ہیں جنہوں نے ایک سے زائد شادیاں کی ہیں. حکومت اور قانون و آئین سے قطع نظر موضوعی حیثیت سے اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے. ایک سے زیادہ شادی سے صرف عورتوں کی ہی حق تلفی نہیں ہوتی بلکہ بچے بھی باپ کی شفقت وعنایت سے محروم ہو جاتے ہیں. اس حوالے سے مسلم علماء اور عوام کو ذمہ داری قبول کرنی چاہیے. بیواؤں کے سیاق میں ایک سے زیادہ شادیوں کا ذکر ہے اور عدل وانصاف کے نہ ہونے کی صورت میں منع بھی کر دیا گیا ہے. ہمارے معاشرے میں دو بیویوں کے درمیان شوہری انصاف ” لاکھ کہیں کہ ہے، نہیں ہے”. عموما پہلی بیوی کو معلقہ بنا کر رکھ چھوڑا جاتا ہے اور اس کے بچے باپ کے ہوتے ہوئے یتیموں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہو تے ہیں. قرآن نے حسب ضرورت ایک سے زیادہ شادی کی صرف اجازت دی ہے اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی ہے. اسے کوئی قابل تعریف اور لائق ثواب عمل قرار نہیں دیا ہے بلکہ عدل وانصاف کے نہ ہونے کی صورت میں ممانعت وارد ہے. لہذا مسلم معاشرے کے غیر ذمہ دارانہ رویے اور اسلام کے خلاف منفی تشہیر کو اس عمل سے تقویت ملنے کے پیش نظر علماء اور مسلم معاشرے کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ دوسری شادی کا شوق فرمانے والوں کی حوصلہ شکنی کریں اور اگر بیوی بچوں سے بھرا پریوار ہو تو نکاح خوانی سے گریز کا طریقہ بھی اختیار کیا جا سکتا ہے، بالخصوص ایسی صورت میں جب دوسری شادی کرنے والا کنواری لڑکی سے شادی کر رہا ہو. قاضیانوں، باراتوں اور ولیموں کا لطف لینے کے لیے ماشاء اللہ  پہلی شادی کے مستحقین حضرات کی کمی نہیں ہے.
مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ حکومت، لا کمیشن یا سپریم کورٹ کے کسی اقدام پر چراغ پا  ہو کر آسمان سر پر اٹھانے سے پیشتر کچھ اپنی اصلاح کا بھی خیال کریں. غیر شرعی طریقوں سے طلاق کے اختیار کا بے جا استعمال نہ صرف یہ کہ خواتین کے ساتھ ظلم کے زمرے میں آتا ہے بلکہ اس سے اسلام بھی بدنام ہوتا ہے لہذا مسلم پرسنل لا اور مسئلہ طلاق پر نظر ثانی ضرور ہونی چاہیے. ہمارے معاشرے میں آئے دن ایسا ہوتا رہتا ہے کہ ایک حنفی اپنی بیوی کو تین طلاق دیتا ہے اور حلالہ کے خوف سے سلفی مفتی سے فتوی لے کر رجوع کر لیتا ہے. اگر واقعی تین طلاق ہی مسلم پرسنل لا ہے تو سلفی طریقئہ طلاق کو کس پرسنل لا میں شمار کیا جائے گا. جب کہ قرآن نے دو ہی بار طلاق دینے کی بات کہی ہے (الطلاق مرتان فإمساك بمعروف أو تسريح بإحسان – دو طلاق دی جائے، اس کے بعد خوش اسلوبی کے ساتھ روک لیا جائے یا بھلے طریقہ سے چھوڑ دیا جائے – سورہ بقرہ)  تیسری طلاق کی نوبت ہی نہیں آنی چاہیے. اس سے بھی بد تر صورت حال تب درپیش ہوتی ہے جب کوئی حلالہ کرتا کرواتا ہے. تین طلاق بیک وقت دے کر غلطی مرد کرتا ہے اور سزا عورت کو بھگتنی ہڑتی ہے کہ وہ غیر مرد کے ساتھ جعلی نکاح کرکے ہم بستر ہو پھر اس سے طلاق لے اور عدت گزار کر سابق شوہر کے نکاح میں واپس آئے. یہ عورت کے ساتھ نہ صرف ظلم ہے بلکہ اللہ کی طرف سے دیے گئے حق کا غصب کیا جانا بھی ہے. اللہ نے عورت کو پہلے شوہر سے طلاق کے  بعد مکمل اختیار دیا ہے کہ وہ اپنی پسند سے جس کے ساتھ چاہے شادی کرے اور زندگی گزارے، لیکن مسلمانوں نے اس سے وہ حق چھین لیا اور حلالہ جیسی حرام رسم ایجاد کروا کر عورت کو اس سے گزرنے پر مجبور کیا. اگر پہلی شادی خانہ آبادی کے لیے تھی تو اسی عورت کا دوسرا نکاح چند دنوں کی خانہ بربادی کے لیے کیوں کر درست یو سکتا ہے؟ اگر یہی کام شیعہ متعہ کے نام پر جائز سمجھ کر کرتے ہیں تو ان پر لعنت کیوں بھیجی جاتی ہے اور وہی غلیظ کام سنیوں کے لیے محض نام بدل دینے کی وجہ سے باعث خیر وبرکت کیوں کر قرار دیا جاتا ہے؟ کون ایسا باپ یا بھائی ہے جو اپنی بیٹی یا بہن کے لیے اس غلیظ کام کو پسند کرتا ہو؟ اگر یہ قبیح عمل ہم جیسے انسانوں کے لیے خوشگوار نہیں ہو سکتا تو اللہ کے نزدیک کیسے مقبول ومحبوب ہو سکتا ہے؟ یہ حیلئہ شرعی کیا ہے؟ ایسا تو نہیں کہ نعوذ باللہ ہم خدا جو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں؟ بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ حلالہ کے ذریعہ بسے بسائے خاندان کو برباد ہونے سے بچایا جاتا ہے. سبحان اللہ، گویا سب سے بڑے رحم کرنے والے خدا نے کوئی کسر چھوڑ دی تھی جسے ہم جیسے مولوی پورا کر رہے ہیں. خدا کا خوف ہو تو ایسی باتیں زبان ہر نہیں آسکتیں. طلاق کے سلسلے قرآن نے جتنی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی تاکید کی ہے اگر ان کے مطابق عمل کیا جاتا تو یا طلاق کی نوبت نہیں آتی یا طلاق ہو جانے کی صورت میں پہلے شوہر کے نکاح میں واپس جانے کا سوال ہی نہیں اٹھتا، چہ جائیکہ حلالہ کی نوبت آئے. حاصل یہ ہے کہ مسائل کی نوعیت اور بورڈ میں افرادی تسلط وغلبے کے پیش نظر مسلم پرسنل لا بورڈ محض حنفی دیوبندی پرسنل لا بورڈ معلوم ہوتا ہے. بورڈ صرف حکومت کو آئینہ نہ دکھائے بلکہ مسلمانوں کو بھی دکھانے کا کام کرے اور فرصت ملے تو کبھی خود بھی دیکھ لیا کرے کہ اس سے اصلاح حال میں مدد ملے گی.
مسلمان یہ اندیشہ اپنے دل ودماغ سے نکال دیں کہ دنیا کی کوئی حکومت ان کے عائلی قوانین کو منسوخ کر سکتی ہے. مسلمانوں کا آئین قرآن وسنت میں محفوظ، مفتیوں اور قاضیوں کے پاس معتبر اور مسلم سماج میں معمول ومقبول ہے. ہندوستانی حکومت یا سپریم کورٹ جس چیز کو بدلنے کی طاقت رکھتی ہے وہ ہندوستانی آئین ہے. حالانکہ ملک کے آئین کی موجودگی میں اس کا کوئی امکان نہیں ہے تاہم اگر ممکن مان بھی لیں تو حکومت زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتی ہے کہ ملک کے آئین سے مسلم پرسنل لا نکال کر اس کی جگہ نیا قانون لے آئے. اس سے مسلمانوں کی اسلامی شناخت پر بہت بڑا فرق پڑنے والا نہیں ہے. مسلمانوں کے نکاح، طلاق اور وراثت وغیرہ کے مقدمات آج بھی عدالتوں میں کم کم ہی جاتے ہیں جب کہ مسلم پرسنل موجود ہے اور کل بھی کم ہی جائیں گے جب مسلم پرسنل لا نہیں رہے گا. مسلمانوں کے دارلافتاء اور دارالقضاء سدا بہار ہیں. جس مسلمان کو مذہب پیارا ہے وہ آج بھی مفتی کے پاس جاتا ہے اور کل بھی جائے گا اور جسے مذہبی قانون منظور نہیں وہ آج بھی عدالت کی پناہ لیتا ہے اور کل بھی لے گا. دنیا میں بے شمار ممالک ایسے ہیں جہاں مسلم پرسنل لا آئین وقانون کا حصہ نہیں ہیں وہاں بہت بڑی تعداد میں مسلمان آباد ہیں اور اپنے مذہبی تشخص کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں. عدالتیں محلوں اور گاؤں کی گلیوں میں قانون کی ٹوکریاں لے کر نہیں پھرا کرتیں ہیں.  مذہب پر عمل کروانا یا نہ کروانا حکومتوں کا کام نہیں ہے، یہ انسان کے ذاتی جذبے اور مذہب کے لیے اس کے اخلاص پر منحصر ہے.
مسلمان اگر سمجھتے ہیں کہ یکساں سول کوڈ اور مسلم پرسنل لا کے پردے میں حکومت ملک کے آئین کو بدلنے اور مذہبی احترام پر مبنی سیکولرزم کو ختم کرنے کی طرف قدم بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے تو مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ جذباتی ہونے کی بجائے ہوش سے کام لیں. اپنی تحریک کو مذہبی نہ بنا کر سماجی سیاسی تحریک کی شکل دیں. موجودہ مسئلہ کو ملک کے مستقبل سے وابستہ ثابت کریں. اپنے اونٹ کی فکر کریں کعبے کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے اپنے ہاتھوں میں لے رکھا ہے.

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔