نومولود کے کان میں اذان واقامت کہنا

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ابوعبدالبرعبدالحي السلفی

نومولودسے متعلق بہت سارے احکام میں سے ایک اہم مسئلہ زیرنظر موضوع بھی ہے، اس مختصربحث میں اس مسئلہ سے متعلق روایات کاعلمی وتحقیقی جائزہ لیاگیا ہے ۔چونکہ نو مولود کے کان میں اذان واقامت کہنے کاتعلق عبادت سے ہے جوتوقیفی ہے ،لہذاایک مسلمان کایہ فرض بنتاہے کہ ایسی عبادت اس وقت تک نہ بجالائے جب تک رسول اللہﷺ سے کوئی صحیح نص ثابت نہ ہوجائے .
قارئین کرام! بچے کی پیدائش کے فوراًبعددائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت یاصرف اس کے کانوں میں اذان کہنا مرفوع وصحیح احادیث سے ثابت نہیں ہے کیوں کہ اس باب میں جو تین احادیث اور عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا اثر بیان کیا جاتا ہے وہ ضعیف یا موضوع ہیں جس کی تفصیل درج ذیل ہے :
پہلی حدیث:عن أبی رافع رضی اللہ عنہ قال رأیت رسول اللہﷺأذن فی أذن الحسن بن علی رضی اللہ عنہما حین ولدتہ فاطمۃ ۔رضی اللہ عنہا۔بالصلاۃ،،
ابو رافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :میں نے رسول اللہ ﷺ کو حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے کان میں نماز والی اذان دیتے ہوئے دیکھا ہے جب وہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر پیدا ہوئے تھے .
اس حدیث کو امام ابو داؤدؒ (1)اور امام ترمذی ؒ نے اپنے سنن(2)میں اورامام بیھقی ؒ نے الکبری(3)اور شعب الایمان (4) میں،اور امام احمدؒ (5) وحاکمؒ (6) نے :سفیان الثوری عن عاصم بن عبیداللہ عن عبیداللہ بن ابی رافع ۔۔۔،،کے طریق سے روایت کیاہے.
اس روایت کی سند میں عاصم بن عبیداللہ راوی ہیں جس کے ضعف پر تقریبا تمام محدثین متفق ہیں ،امام حاکم ؒ نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے امام ذہبی ؒ نے ان کاتعاقب کرتے ہوئے فرمایا:عاصم ضعیف راوی ہیں۔ امام ترمذیؒ فرماتے ہیں :ھذا حدیث حسن صحیح .حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں :ومدارہ علی عاصم بن عبیداللہ وھو ضعیف ‘‘(7).اس روایت کا دارو مدار عاصم بن عبیداللہ پر ہے اور وہ ضعیف راوی ہیں .اور امام ابن عیینہ ؒ وابن مدینی ؒ واحمدبن حنبلؒ وابن معینؒ وغیرھم نے ان کی تضعیف کی ہے (8)علامہ البانی ؒ نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے.(9)
تنبیہ :علامہ البانی ؒ نے پہلے اس روایت کوحسن قرار دیا تھا لیکن پھر بعد میں اس سے رجوع کرلیا اور اسے ضعیف قرار دے دیا .(دیکھئے :سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ :(6121) واضح ہوکہ اکثر علماء کرام نے ابن عباس رضی اللہ عنہماکی حدیث کوابورافع کی حدیث کی تقویت میں پیش کیا ہے جب کہ محدثین کے نزدیک یہ مسلمہ اصول ہے کہ ضعف شدید اور موضوع روایت دوسری روایت کے لئے شاہد نہیں بن سکتی بلکہ اس سے اس کاضعف اوربڑھ جاتاہے ،اور نہ ہی اس سے استدلال کرنا درست ہو سکتا ہے .
امام طبرانی ؒ نے الکبیر (10)اورہیثمی ؒ نے مجمع الزوائد(11) میں ’’حماد بن شعیب عن عاصم بن عبیداللہ عن علی بن الحسین عن ابی رافع ،، کے طریق سے اس زیادتی کے ساتھ روایت کیاہے :أذن فی أذن الحسن والحسین۔۔۔،،
اس سند میں بھی حماد بن شعیب الحمانی الکوفی ضعیف راوی ہیں ،ابن معین ؒ اورالنسائی ؒ نے ضعیف کہا ہے اور ابوحاتم ؒ فرماتے ہیں :لیس بالقوی(12) .امام ہیثمی نے فرمایا: وھو ضعیف جداً.
دوسری حدیث:عن ابن عباس أن النبی ﷺأذن فی أذن الحسن بن علی یوم ولدفأذن فی أذنہ الیمنی وأقام فی أذنہ الیسریٰ،،
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے حسن بن علی کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہا.
اس حدیث کو امام بیھقی ؒ نے شعب الایمان (13)میں :عن محمد بن یونس عن الحسن بن عمروبن سیف السدوسی نا القاسم بن المطیب عن منصور بن صفیۃعن أبی معبدعن ابن عباس۔۔۔،،روایت کیاہے .
امام بیہقی ؒ فرماتے ہیں: ’’اس کی سند میں ضعف ہے ‘‘اس کی سند میں دو راوی ہیں :
1۔محمد بن یونس بن موسی القرشی الشامی البصری الکدیمیجس کے متعلق امام ابن عدی ؒ فرماتے ہیں :قداتھم الکدیمی بالوضع،،یہ روایت گڑھنے کے الزام میں متہم ہے .امام ابن حبان ؒ فرماتے ہیں :اس راوی نے ہزار سے زیادہ روایات گڑھی .اسی طرح موسیٰ بن ہارون اورقاسم بن المطرز ؒ نے بھی اس کی تکذیب کیاہے ،اور امام دارقطنی ؒ نے بھی اسے روایت گڑھنے کی تہمت دیا ہے (14)حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں:ضعیف ہے (15)
2۔حسن بن عمروبن سیف السدوسی العبدی ہیں .جنہیں حافظ ابن حجر ؒ نے متروک کہا ہے ،ابن ابی حاتم ؒ نے متروک الحدیث کہاہے(16)امام ذھبی ؒ نے میزان الاعتدال (17)میں فرمایاکہ:ابن المدینی ؒ نے ان کوجھوٹاگرداناہے ،امام بخاری ؒ نے انہیں کذاب کہا ہے .
*اسی طرح قاسم بن المطیب العجلی البصری کے بارے میں حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں : فیہ لین(18) ،علامہ البانی ؒ فرماتے ہیں :یہ روایت موضوع ہے .(19)
تیسری حدیث :عن حسین بن علی ۔رضی اللہ عنہما۔قال :قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:من ولد لہ مولود فأذن فی أذنہ الیمنی وأقام فی أذنہ الیسریٰ لم تضرہ أم الصبیان،،
حسین بن علی رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:جس کے ہاں کوئی بچہ پیدا ہوا ہواوروہ اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں میں اقامت کہے تواسے ام صبیان (20)کی بیماری نقصان نہیں پہنچائے گی .
اس حدیث کو ابویعلی ؒ نے اپنی مسند کے اندر(21)اور ابن السنیؒ نے عمل الیوم واللیلۃ کے اندر(22)’’یحیٰ بن العلاء الرازی عن مروان بن سالم عن طلحۃ بن عبیداللہ العقیلی عن الحسین بن علی ۔۔۔،،کی سند سے روایت کیا ہے.
اس کی سند میں دو راوی ہیں :
1۔یحیٰ بن العلاء البجلی الرازی ،اس کے بارے میں امام احمد ؒ فرماتے ہیں :کذاب یضع الحدیث ، اور امام دارقطنی ؒ نے متروک کہا ہے (23)اورحافظ بوصیری نے ان کے ضعف کی وجہ سے اس روایت کو ضعیف کہا ہے (24)نیز اس روایت کوامام بیہقی نے بھی ضعیف کہا ہے
2۔مروان بن سالم الغفاری،اس کے بارے میں امام بخاری ؒ ومسلم ؒ اور ابوحاتم الرازی ؒ نے منکرالحدیث کہا ہے ،امام دارقطنیؒ نے متروک کہا ہے اور ابو عروبہ الحرانی نے فرمایا:’’یضع الحدیث ‘‘(25)علامہ البانی ؒ فرماتے ہیں :یہ دونوں حدیث وضع کیا کرتے تھے (26)البانی ؒ نے اسے موضوع قرار دیاہے (27)امام ہیثمی نے کہا کہ اسے ابو یعلی نے روایت کیا ہے اور اس کی سند میں مروان بن سالم غفاری راوی متروک ہے (28)
*آپؒ مزید فرماتے ہیں :اس حدیث کا موضوع ہونا بہت سارے محدثین پر مخفی رہ گیا مثلاًشیخ مبارکپوریؒ ،امام نووی ؒ ،ابن تیمیہؒ ،ابن قیم ؒ ،حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ وغیرہم .(29)
* اور عبدالرزاق ؒ نے اپنی مصنف (30)میں’’ ابن ابی یحیٰ عن عبداللہ بن ابی بکر ۔۔۔‘‘کے طریق سے یہ روایت نقل کیا ہے کہ:عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے گھر میں جب بھی کوئی بچہ پیدا ہوتاتو اس کو اس کے کپڑے وغیرہ سمیت لے کرآپ اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہتے تھے اور اسی وقت اس کانام بھی رکھ دیتے تھے .اس سند میں بھی بہت زیادہ ضعف ہے اس لئے کہ ابن ابی یحیٰ جن کا نام ابراہیم بن محمد بن ابی یحیٰ الاسلمی ہے وہ کذاب ،رافضی جھمی،قدری اوراحادیث گڑھنے والاتھا.تمام ائمہ حدیث اس کے حدیث کے چھوڑنے پر متفق ہیں (31)اور حافظ ابن حجر ؒ نے اسے متروک کہا ہے (32)
بارالٰہا سے دعاء ہے کہ اللہ رب العالمین ہم تمام مسلمانوں کوصحیح احادیث رسول ﷺ پرعمل کرنے کی توفیق دے ۔ آمین یارب العالمین

تبصرے بند ہیں۔