سرجیکل اسٹرائک ؛پاکستان کو مبارک

ڈاکٹر عابد الرحمن

بھارتی فوج کی طرف سے سرجیکل اسٹرئک بھلے ہی پاکستان کی خود مختاری کی خلاف ورزی ہو لیکن اس کے لئے انڈیا سے زیادہ پاکستان مبارکباد کا مستحق ہے۔ دہشت گردی پاکستان کی جان کو آگئی ہے اس نے ایک اچھے خاصے ملک کی مٹی پلید کر کے رکھ دی ہے ۔اب تو یہ اتنی آؤٹ آف کنٹرول ہو گئی ہے کہ کب کہاں کیا کردے گی کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔اس سے نہ صرف پورے پاکستانی عوام کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو شدید خطرہ لاحق ہوگیا ہے وہاں کی عوام کی زندگی مشکل ترین ہو گئی ہے بلکہ پاکستانی سرکاری اداروں ،قانون نافذ کرنے والے اداروں اور یہاں تک کہ فوج کی بھی ناک میں دم کر رکھا ہے ۔عوام تواتنے غیر محفوظ ہو گئے ہیں کب کسی شادی بیاہ موت و سوگ کے اجتماع میں ،کسی مذہبی سیاسی یا سماجی جلوس ،یا کسی عوامی مقام پریہاں تک کہ کب کسی مسجد یا مدرسے میں دہشت گردانہ حملہ یا خود کش دھماکہ ہو جائیگا بتایا نہیں جا سکتا ۔اسی طرح کب کسی ملٹری بیس، ائر پورٹ یا سرحدی محافظوں کے قافلے نشانہ بنائے جائیں گے اس کی بھی گارنٹی نہیں ،یہی نہیں ماضی قریب میں تو دہشت گردوں نے اسکول کے ننھے بچوں کو بھی اپنی بر بریت کا نشانہ بنا یا تھا ، اب تک ایک اندازے کے مطابق دہشت گردی کی وجہ سے زاٗد از پچاس ہزار افراد ہلاک ہوگئے ہیں جن میں مرد عورتوں بوڑھوں اور بچوں سمیت سلامتی اہلکار بھی شامل ہیں،پاکستان دنیا کا چوتھا ملک ہے جو دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہے ۔ہمیں پاکستان کی معاشی حالت کا تو پوری طرح علم نہیں لیکن جہاں قانون کی حالت ابتر ہو ،امن و امان کا نام نہ ہو ،آئے دن بازاروں میں خود کش حملے ہوتے رہتے ہوں وہاں کی معیشت نقصان اٹھائے بغیر کیسے رہ سکتی ہے اس صورت حال میں ایسے ملک میں بیرونی سرمایہ کاری تو ہوتی نہیں الٹے اندرونی سرمایہ بھی بہت تیزی سے باہر کی جانب حرکت کرتا ہے کیونکہ سرمایہ کاری کے لئے امن و امان اور محفوظ جگہ ہی سب سے پہلے دیکھی جاتی ہے ۔دہشت گردی کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کو ایک اور نقصان یہ بھی ہورہا ہے کہ اس کی قومی معیشت اور قومی وسائل کا ایک حصہ دہشت گردی مخالف جنگ پر خرچ ہوا جارہا ہے ۔یعنی دہشت گردی کی وجہ سے پاکستان سیاسی سماجی اور معاشی طور سے بری طرح خسارے میں ہے۔ جس کی وجہ سے پورا پاکستان غیر یقینی صورت حال سے دوچار ہے وہاں حالات یہ ہیں کہ دہشت گردوں کے خلاف جانے والا کوئی بھی شخص واجب القتل اور کوئی بھی ادارہ تباہی کا حق دار ہوگیا ہے ۔ پاکستان میں ہو رہی دہشت گردی کی جڑیں سوویت یونین افغان جنگ میں پیوست ہیں ۔ اسی کی دہائی میں افغانستان کے بے دین حکمرانوں اور سوویت یونین سے لڑنے کے لئے جہاد کے نام پر ساری دنیا سے مجاہدین پاکستان کے قبائلی علاقوں بالخصوص افغان سرحدی علاقوں میں آکر جمع ہوئے اور واقعی انھوں نے جان جوکھوں میں ڈال کر دنیاکی بڑی طاقتوں میں ایک روس کو افغانستان سے کھدیڑ دیا ۔اس جنگ میں ان مجاہدین کو امریکہ نے پاکستان کے ذریعہ مدد دی تھی ۔کہاجا تا ہے کہ امریکہ نے ان لوگوں کو آزادی کے متوالے کہہ کے پاکستانی آئی ایس آئی کے ذریعہ تقریباً چالیس بلین ڈالر کیش اور ہتھیاروں کی صورت میں ان کو پہنچائے ۔ امریکہ ان لوگوں کے ذریعہ روس کو نیچا دکھانا چاہتا تھا اور وہ اس میں کامیاب بھی ہوا لیکن جنگ کے خاتمے کے بعد ان مجاہدین کو نہتا نہیں کیا گیا اور نہ ہی ان کی تنظیمیں ختم کی گئیں بلکہ پاکستان نے ان کو دوبارہ از سرے نو منظم کر کے بھارت کے خلاف استعمال کیا ۔کہا جاتا ہے کہ پاکستان نے ان سے کارگل جنگ سمیت کئی اہم کام لئے ۔اس دوران پاکستانی سرکاروں ،انتظامیہ اور سیاسی پارٹیوں کے بہت سے لوگ ان کے حامی ہوگئے یا اپنے اثر و رسوخ کے ذریعہ ان لوگوں نے پورے انتظا میہ ، فوج ، پولس اور سیاسی پارٹیوں میں اپنے حامیوں کو بھرتی کر وایا ،جس کی وجہ سے عوام کے بڑے حصہ تک ان کی رسائی ہو گئی ،ان تنظیموں نے اسکولیں کھولیں ،مدارس شروع کئے ،یتیم خانے قائم کئے اور حادثاتی و ناگہانی صورتوں میں امدادی کام بھی کئے اس طرح ان کو اپنے نظریات بلا روک ٹوک عوم تک پہنچانے کا موقع ملتا رہا وہ لوگوں کو اپنے سانچے میں ڈھالتے رہے دوسری طرف وہ پاکستان کے لئے کشمیر میں غیر اعلان شدہ ،غیر سرکاری (unofficial ( جنگ بھی لڑتے رہے ۔ابتداءً میں تو افغان سرحدی علاقوں میں ہی ان کی پکڑ مضبوط تھی لیکن اس کے بعد رفتہ رفتہ یہ پاکستان کے دوسرے علاقوں میں بھی پھیل گئے ۔انہوں نے ملک کے ہر خاص و عام میں مذہب کے انتہا پسندانہ نظریات کو فروغ دیا ،انہوں نے ہر بچہ کے اندر کشمیر میں جہاد کرنے ،مجاہد بننے اور شہید ہو نے کی خواہش پیدا کی ،انہوں نے بچوں کے والدین کے دماغوں میں یہ بھر دیا کہ اگر ان کے بچے کشمیر کے جہاد میں شہید ہو گئے تو وہ ان کے لئے جنت میں داخلے کا سا مان ہوں گے ان لوگوں نے ہر غیر مسلم کو دشمن بنا کر پیش کیا اور اس کو واجب القتل گردانا چاہے وہ سات سمندر پار رہتا ہو یا خود پاکستان کا شہری ہو۔انہوں نے عوام کے ہر طبقہ میں مذہبی انتہا پسندی کا ایک غیر لچکدار جال بن کر رکھ دیا ۔۹/۱۱ سے پہلے تک یہ سب کچھ ایکدم آرام سے چلتا رہا اور پاکستان کے عوام اس کا شاذ و نادر ہی اس کا شکار ہوئے۔ لیکن اس کے بعد خاص طور سے دہشت گردی مخالف جنگ کے تحت افغانستان پر امریکی حملے کے بعدیہ لوگ پہلے امریکہ کے خلاف اور پھر امریکہ کی مدد کرنے کے عوض پاکستانی حکومت کے خلاف محاذ آراء ہو گئے یعنی اسی کے خلاف اپنا پھن پھیلا کر کھڑے ہوگئے جس نے انہیں پال پوس کر بڑا کیا۔ اس دہشت گردی نے نہ صرف پاکستانی عوام کو غیر محفوظ اور سرکار کو غیر مستحکم اور مجموعی طور پاکستان کو ’ناکام ریاست‘ تک پہنچا دیا بلکہ ساری دنیا میں اسے دہشت گردی کے مرکز پھیلاؤ کے طور پر بھی بدنام کر دیا ہے ۔خاص طور سے نزدیکی پڑوسیوں میں تو اس کی ساکھ انتہائی مجروح ہو گئی ہے ابھی جس طرح سارک ممالک میں سے انڈیا ،بنگلہ دیش ،بھوٹان اور افغانستان نے سارک کانفرنس کے لئے اسلام آباد جانے سے انکار کردیا وہ اپنے پڑوسیوں میں پاکستان کے الگ تھلگ پڑ جانے کی تازہ ترین مثال ہے ۔انڈیا کی بات چھوڑ دیجئے کہ انڈیا اور پاکستان دونوں دیرینہ اور روایتی حریف ہیں اور دونوں کے درمیان کشمیر کی صورت میں کبھی نہ حل ہونے والا مسئلہ بھی موجود ہے اور دونوں ممالک کی اکثریت کا مذہب بھی مختلف ہے لیکن افغانستان؟ افغانستان اور پاکستان تو ہم مذہب ہیں اور پھر دونوں کے درمیان کوئی سرحدی مسئلہ بھی نہیں لیکن اس نے بھی پاکستان پر دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہ فراہم کر نے کا الزام لگا کر سارک کانفرنس کا بائیکاٹ کیایعنی پاکستان کا اصل مسئلہ دہشت گردی ہی ہے۔ اور اگر اسے حل نہیں کیا گیا تو پاکستان پوری دنیا میں الگ تھلگ پڑ سکتا ہے ۔پاکستان کو بھی اس کا ادراک ہے کہ پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشنس بھی کئے ہیں۔ ۲۰۰۹ میں پاک افواج نے اسی ہزار جوانوں کے ذریعہ تحریک طالبان پاکستان کے خلاف سوات میں آپریشن کیا تھا اسی طرح ابھی فی الحال پاک فوج کا ایک اورپریشن بنام ’ ضرب عضب‘ شمالی وزیرستان میں ۲۰۱۴ سے تا حال جاری ہے ،لیکن پاکستان کی پالسی منافقت پر مبنی ہے وہ ان دہشت گردوں کے خلاف فوجی کارروائی کرتا ہے جو اس کے لئے مسئلہ بن گئے ہیں لیکن جن کو وہ اپنے لئے استعمال کرتا ہے یا جو اس کی ایما پر اس کے حریفوں خاص طور سے انڈیا کے خلاف دہشت گردی کرتے ہیں ان کے خلاف وہ کوئی کارروائی نہیں کرتا بلکہ ابھی بھی انہیں محفوظ پناہ گاہیں اور سہولتیں فراہم کرتا ہے۔اور دراصل اسی دوغلی پالسی نے پاکستان کی مٹی پلید کر کے رکھ دی ہے اور پاکستان کی اسی پالسی نے مسئلہ کشمیر کو بھی مزید الجھا کر رکھ دیا ہے ۔ اور اسی پالسی نے امریکہ کو اپنی ’دہشت گردی مخالف جنگ ‘ کو پاکستان کے اندر تک لے آنے کا جواز فراہم کیا ہے جس نے پاکستان کو مزید بر باد کیا۔اس کے علاوہ دہشت گردی اور پاکستان کے اسے ختم نہ کر پانے (پا اسکی پرورش کر نے ) کی وجہ سے جوہری ہتھیاروں کی حفاظت کے تئیں بھی پاکستان کٹگھرے میں کھڑا کیا جاتا رہا ہے اور کوئی اور نہیں بلکہ پاکستان کااپنا دوست اور دہشت گردی مخالف جنگ میں پاکستان کو سب سے اہم اور بڑا اتحادی قرار دینے والے امریکہ کی خفیہ ایجنسیاں وقفہ وقفہ سے بار بار اپنی رپورٹس میں یہ انکشاف کرتی ہیں کہ ’پاکستانی نیوکلیائی ہتھیار غیر محفوظ ہیں اور انکے دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے کا خدشہ ہے ‘ یعنی دہشت گردی نے پاکستان کے نیوکلیائی ہتھیاروں کو نہ صرف غیر محفوظ کردیا ہے بلکہ دوسروں کو ان پر نظر رکھنے کا جواز بھی فراہم کردیا ہے ۔ ایسے میں ضروری ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے تئیں اپنی دورخی پالسی ترک کر کے اس کے خلاف سخت اور یکساں اقدامات کرے ،انڈین سرجیکل اسٹرائک کے بعدایسی خبریں آئی ہیں کہ پاک حکومت اور بر سر اقتدار پارٹی کے ممبران کے دہشت گردی کے خلاف سخت اقدامات کا عندیہ دیا ہے لیکن اس ضمن میں پاک فوج اور سرکاروں پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ۔پاک فوج اور سرکار بھلے ہی دہشت گردی کے خلاف بیان بازی کریں لیکن ریکارڈ بتاتا ہے کہ انہوں نے اپنی بیان بازی کو کبھی عملی جامہ پہنانے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی اور ویسے بھی منتشر غیر منظم اور محدود وسائل والے دہشت گردوں کا سیاسی اور عسکری طور پر ایک قائم شدہ طاقت کے ذریعہ ختم نہ ہو پانا اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ طاقت ہی ایسا نہ چاہے ۔ اب یہ پاکستانی عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف آگے آئیں کیونکہ سب سے زیادہ نقصان انہی کا انہی کے بچے اور کمائی پوت دہشت گردیہ میں مارے جاتے ہیں اور اس سے انہی کے گھر اجڑ تے ہیں ،حکومت اور عہدیدار وں کا کچھ نہیں جاتا ۔ انڈین سرجیکل اسٹرائک کے بعداس ضمن میں پاک مقبوضہ کشمیر سے ایک خوش آئندخبر یہ آئی ہے کہ وہاں کے کئی علاقوں کے لوگوں نے سڑکوں پر نکل کر دہشت گردی اور وہاں چلنے والے دہشت گردی کے کیمپس کے خلاف احتجاج کیا ۔اسی طرح پاکستان کی تمام عوام کو بھی دہشت گردی کے خلاف آگے آکر اپنی حکومت کو اس کے خلاف عملی کارروائی کر نے کے لئے دباؤ بنانا چاہئے ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔