جی ایس ٹی معاملہ پر جموں وکشمیردو پھاڑ!

الطاف حسین جنجوعہ

جی ایس ٹی کو لاگو کرنے کے معاملہ پر جموں وکشمیر ریاست دو حصوں میں تقسیم نظر آرہی ہے۔ ایک طرف جہاں وادی کشمیر میں نیشنل کانفرنس،تاجر تنظیمیں ،اعلیحدگی /حریت پسند خیمہ کے ساتھ ساتھ عام آدمی اس کے حق میں نہیں تو وہیں صوبہ جموں میں کانگریس، پینتھرز پارٹی ودیگر جموں نشین سیاسی جماعتوں کے علاوہ تاجر تنظیمیں اور سول سوسائٹی جی ایس ٹی کا من وعن سے لاگو کرنے پرزور دے رہی ہیں ۔

وادی میں تمام موجودہ مخلوط حکومت کے اس لئے خلاف ہیں کہ جی ایس ٹی موجودہ صورت میں قابل قبول نہیں ، اس سے دفعہ370کو خطرہ ہے، تو وہیں جموں صوبہ میں اس کو قانون کو من وعن سے نہ عملانے پر حکومت کے خلاف احتجاج ہورہے ہیں ۔ جی ایس ٹی قضیہ دونوں حکمراں جماعتوں کے لئے گلے کی ہڈی بن گیاہے۔ اگر جی ایس ٹی کا اطلاق جموں وکشمیر میں ترمیمات ، جن کا نیشنل کانفرنس ودیگر وادی کی تاجر تنظیمیں مطالبہ کر رہی ہیں ، کے بغیر ہوا ، تو پی ڈی پی کو سیاسی طور کافی نقصان ہوگا اور یہ سیاسی مبصرین کے مطابق پارٹی کے لئے ’تابوت میں آخری کیل‘ثابت ہوگا تو وہیں اگر جی ایس ٹی کو من وعن نہ لاگو کیاگیا تو جموں میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو تاجر برادری سے کافی غم وغصہ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یکم جولائی، جب بیک وقت ملک بھر میں ، ماسوائے جموں وکشمیر ریاست ، جی ایس ٹی قانون نافذ ہوا، کے بعد سے جموں میں متعدد تجارتی، سیاسی تنظیموں کی طرف سے اس کے فوری اطلاق کے حق میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔

 کانگریس پارٹی نے مخلوط سرکار پر جموں وکشمیرر یاست کو ملک سے الگ تھلگ کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہاکہ جی ایس ٹی کا عدم اطلاق بھارتیہ جنتا پارٹی کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے اور وہ اعلیحدگی پسندوں کے دباؤ میں آگئی ہے۔ گذشتہ دنوں پارٹی ریاستی نائب صدر شام لال شرما کی صدارت میں منعقدہ ہنگامی اجلاس میں بھارتیہ جنتا پارٹی اور پی ڈی پی مخلوط حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ جموں وکشمیر نیشنل پینتھرز پارٹی ریاستی صدر بلونت سنگھ منکوٹیا نے بھاجپا پر الزام عائد کیا ہے کہ اس نے ہوس اقتدار کی خاطر مکمل طور اپنے اہم معاملات کو سرینڈر کر دیا ہے۔ منکوٹیا کا کہنا ہے کہ جموں کو اعلیحدہ ریاست بنایاجائے ، یہاں نیشنلسٹ لوگ رہتے ہیں ، جوکہ جی ایس ٹی ’ایک ملک ایک قانون‘ کے حق میں ہیں ۔ منکوٹیا کا الزام ہے کہ جی ایس ٹی کی عدم اطلاق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ لیڈران کشمیر مرکوز ذہنیت رکھتے ہیں ۔ ان کے مطابق جموں کو اعلیحدہ ریاست بنانا ہی اس کا قابل عمل حل ہے۔

اودھم پور سے آزاد ایم ایل اے پون گپتا جوکہ ایک سال تک بھاجپا کوٹہ سے وزیر مملکت برائے خزانہ  تھے، نے بھی ایکساتھ جموں وکشمیر میں جی ایس ٹی لاگو نہ کرنے پر ریاستی مخلوط سرکار کو تنقیدکانشانہ بنایا۔ ایک پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے کہاکہ اگر جی ایس ٹی جموں وکشمیر میں لاگو نہیں کیاجاتاہے ، تو ریاست کے ڈیلروں کو ان پٹ ٹیکس کریڈٹ نہیں ملے گا۔ ان کے مطابق جی ایس ٹی ملک میں ایک اہم غیر مستقیم ٹیکس ریفارم ہے، اس سے محصولیاتی نظام آسان اور شفاف ہوگا ۔اس کے عدم اطلاق سے ریاست کو بھاری اقتصادی خسارہ اٹھانا پڑے گا۔ جی ایس ٹی کی عمل آوری کے مطالبہ کے حق گذشتہ روز بھارتیہ جنتا پارٹی کے دفتر سامنے چیمبرز آف ٹریڈرز، فیڈریشن آف انڈسٹریز اور بڑی برہمناں انڈسٹریل ایسو سی ایشن نے احتجاجی مظاہرہ کیا ۔ انہوں نے بھاجپا لیڈران پر زور دیاکہ وہ 4جولائی کو شروع ہورہے خصوصی اجلاس میں جی ایس ٹی کے حق میں سخت موقف اختیار کریں ، اگر ایسا نہ ہوا تو جموں کے تاجر بھاجپا کے خلاف سراپا احتجاج ہوں گے۔

ڈوگرہ برہمن پرتی نندی سبھا نے بھی جی ایس کے عدم اطلاق پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے وزیر اعظم ہند پرزور دیا ہے کہ بغیر کسی تاخیر کے جی ایس ٹی جموں وکشمیر میں لاگو کرنے کے لئے تمام موزوں اقدام اٹھائے جائیں ۔ ایک ہنگامی اجلاس میں سبھا لیڈران نے کہاکہ اشیاء ضروریہ کی عدم سپلائی سے ریاست میں بحرانی صورتحال پیدا ہونے جارہی ہے۔ یکایک سبھی ضروری چیزوں کی قیمتیں آسمان چھونی لگی ہیں ۔ دریں اثناء پیر کے روز جموں میں چیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹری کی ایک ہنگامی میٹنگ منعقد ہوئی جس میں درجنوں مارکیٹ، ٹریڈ اور انڈسٹریل تنظیموں کے عہدادران نے شرکت کی۔ چیمبر نے جی ایس ٹی کولاگو کرنے کے لئے خصوصی اجلاس طلب کرنے پر سرکار کے فیصلہ کا خیر مقدم کیا ۔

 میٹنگ میں یہ فیصلہ لیاگیاکہ اسمبلی اجلاس کو باریک بینی سے دیکھاجائے گا اور ان سیاستدانوں نے نشاندہی کی جائے گی جنہوں نے ریاست میں اقتصادی بحران لایا جس سے لاکھوں تاجروں اور صنعتکاروں کی روزی روٹی کو لات لگی۔ چیمبر نے متفقہ طور فیصلہ لیاکہ جو بھی سیاستدان چاہئے وہ کسی بھی پارٹی سے ہو، اگرجی ایس ٹی کی مخالفت کرے گا تو اس کو غیر حقیقی اور بلاجواز موقف کے لئے بخشا نہیں جائے گا۔4جولائی سے جی ایس ٹی کے اطلاق کے لئے خصوصی اجلاس شروع ہورہا ہے، جس پر سبھی کی نگاہیں ہیں  اور اس جواب کے متلاشی ہیں کہ اجلاس کے بعدبعد ریاست کا سیاسی، اقتصادی منظرنامہ کون سارخ اختیار کرے گا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔