جمہوریۂ مسلم دشمن ہجومِ ہند

ندیم عبدالقدیر

  جمہوریۂ ہند ’’جمہوریۂ مسلم دشمن ہجومِ ہند‘ ‘  میں بدلتا جارہا ہے۔ جہاں سیکولرزم کی حیثیت ایک تکلف کے سوا کچھ نہیں ہے اور مذہبی آزادی وہ کاغذی زیور ہے جو کاغذات تک ہی محدود ہے۔ حقیقت میں ملک ایک آتش کدہ بن چکا ہے جس کا ایندھن مسلمان بنتے جارہے ہیں۔ ملک میں ہندو ووٹ بینک کی حرارت کو قائم رکھنے کیلئے اس کا دہکتے رہنا انتہائی ضروری ہوگیا ہے۔ الاؤ کے ارد گرد انتہا پسند تانڈو کررہے ہیں اور ہندو عظمت کے ترانے گارہےہیں۔

مسلمانوں کی قسمت کی کالی رات اور بھی کالی ہوگئی ہے۔ تیرگی بڑھتی جارہی ہے اور صبح نو کا کوئی اشارہ بھی قریب نہیں ہے۔

’جمہوریہ مسلم دشمن ہجومِ ہند‘  ایک ایسا ہجوم  ہےجسے سرکاری پشت پناہی حاصل ہے اور جو کسی قانون، ضابطے ،  پولس یا عدالت کا پابند نہیں ہے۔ سیاسی سسٹم اس ہجوم کے پیچھے کھڑا ہے اور پولس اس کی کنیز ہے۔ ہجوم ایک کے بعد ایک مسلمانوں کو نشانہ بناتا جارہا ہے تاکہ ہندو عظمت برقرار رہے۔
یہ ہجوم بلا وجہ نہیں ہے۔  اسے بہت محنت سے تیار کیا گیا ہے۔ اس کے پیچھے کافی مشقت صرف ہوئی ہے۔  ہجوم کو اکسانے اور ان کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا کرنے کیلئے ان کے پاس  ساڑھے تین ہزار سال پرانی روایت کا حوالہ موجود ہے۔ اس میں 600؍سال مسلمانوں کی غلامی کا طعنہ ،  ہندو راشٹرکی عظمت کے خواب اور نسلی برتری کی غیرت کے اجزائے ترکیبی شامل ہیں۔

ہجوم کسی بھی طرح کے خوف ، فکر یا ڈر سے آزادہے۔یہ ہجوم طاقتور ہونے کے ساتھ ساتھ چالاکی بھی رکھتا ہے اور ہمیشہ ایسے مسلمانوں کو ہدف بناتا ہے جو پلٹ کر حملہ نہیں کرسکتے۔ جن کی کمزوری حتمی ہو،جوحملہ کے وقت کسی بھی صورت میں مزاحمت کرنے کی طاقت سے محروم ہوں اور لقمۂ تر ثابت ہوں۔ ویسے بھی کمزوروں پر اپنی طاقت آزمانے کی ہم ہندوستانیوں کی روایت ساڑھے تین ہزار سال پرانی ہے۔

ہم  سنگھ پریوار کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں اور کہتے ہیں سنگھ پریوار نے گزشتہ سو سال میں ملک کا ماحول خراب کیا ہےجبکہ حقیقت یہ ہے کہ ماحول کبھی اچھا تھا ہی نہیں۔ دشمنی ، نفرت، کینہ اور فتنہ کی یہ ذہنیت ہزاروں سال پرانی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ نئے دور میں ہم اسے سنگھ پریوار کے نام سے جانتے ہیں۔ خود کو اعلیٰ و ارفع سمجھنے کا نشہ، دوسروں کو زک پہچانے کا شوق  ،  سماج میں انتشار پھیلانے کی عادت اور اپنے سوا تمام لوگوں کو اپنی رعایا سمجھنے کا تصور ساڑھے تین ہزار سال پہلے آرین اپنے ساتھ لائے تھے۔

برتری کا یہی وہ نظریہ ہے جو دلتوں کو تین ہزار سال سے غلام بنا کر رکھا ہے۔ یہی وہ ذہنیت ہے جس کے تحت دلت لڑکی کو بے لباس کرکے پورے گاؤں میں گھمانا عین دھرم سمجھا جاتا ہے۔ یہی وہ سوچ ہے جس نے کسی وقت اس ملک میں اکثریت میں رہے بودھ دھرم کو ملک سے باہر نکال دیا اور آج صورتحال یہ ہے کہ بودھ دھرم کے ماننے والے دیگر ممالک میں تو اکثریت میں ہیں لیکن جس سرزمین پر گوتم بدھ پیدا ہوئے وہیں یہ مذہب یتیم ہوگیا۔ جین دھرم کے ساتھ بھی انہوں نے اسی طرح کا سلوک کیا۔ یہ وہ ذہنیت ہے جو اپنے سوا کسی کو برداشت نہیں کرتی۔ یہ دوسروں کو صرف غلام بنا کر رکھنے پر یقین رکھتی ہے اور اس کی ساڑھے تین ہزار سال کی تاریخ بھی یہی بتاتی ہے۔

 گائے کی تقدیس کا معاملہ عقید ت کا معاملہ نہیں بلکہ مسلمانوں کے خلاف سب سے مضبوط اور خطرناک ہتھیار ہے۔ یہ مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کے دلوں میں نفرت پیدا کرنے اور ان کے جذبات کو بھڑکانے کا مؤثر پینترا ہے۔ سابق سرسنگھ چالک گولولکر نے ہندوستان کے معروف ’ملک مین‘ کورین سے کہا تھا کہ میں گائے کے ذریعے صرف ہندوؤں کو ورغلانے کا کام کرنا چاہتا ہوں ، آپ میرا ساتھ دیں۔ گولولکر کے ذریعے شروع کئے گئے فتنہ نے آج پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔

انڈیا اسپینڈ نے حال ہی میں ایک سروے کیا جس میں یہ بتایا گیا کہ ملک میں ہجوم کے ذریعے کئے جانے والے قتل میں 86 ؍فیصدواقعات کسی نہ کسی طور سے گائے سے تعلق رکھتےہیں۔ 2010 سے 2017 تک ہوئے قتل میں 97؍فیصد قتل مودی حکومت کے آنے کے بعد ہوئے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیاکہ 2010سے لے کر 2017 تک ایسے 63؍معاملات کا اندراج ہوا جس میں 28؍لوگوں کی موت ہوگئی۔ ان 28؍لوگوں میں سے 24؍مسلمان تھے اوران معاملات میں  52؍فیصد معاملات صرف اور صرف افواہ کی بنیاد پر وقوع پذیر ہوئے۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ 2017کا سال ہجوم کے ذریعے قتل کرنے کے واقعات کا اب تک سب سے برا سال رہا ہے۔ اس میں اب تک 20؍معاملات سامنےآئے ہیں جن میں گئورکشکوں نے حملے کئے ہیں۔ ان حملوں کو ’گئو آتنک واد‘ کا نام بھی دیا جانے لگا ہے۔

فی الحال ہمارے آئین میں بھیڑکے ذریعے قتل کئے جانے کے معاملات سے نمٹنے کیلئے کوئی قانون نہیں ہے۔ جس کا فائدہ بھیڑ کو ہورہا ہے۔

ہریانہ کے حافظ جنید کے قتل کے بعد وزیر اعظم مودی کو کچھ توفیق نصیب ہوئی۔پتہ نہیں یہ گاندھی جی کے آشرم کی فضاؤں کا اثر تھا یا سیاسی حالات کا تقاضا، سابرمتی آشرم میں وزیر اعظم مودی نے گئورکشا کے نام پر انسانی قتل کی مذمت کی۔ یہ اور بات ہے کہ ان کے اس مذمتی بیان کے چند گھنٹوں بعد ہی جھارکھنڈ میں علیم الدین انصاری کو گئورکشکوں کی بھیڑ نے بالکل اسی طرح بے رحمی سے قتل کردیا جو اس کا طریقہ کاررہا ہے ، جس سے مسلمانوں کو یہ پیغام مل گیا کہ مودی کے بیان کو گئورکشکوں نے کتنی سنجیدگی سے لیا ہے۔ ان کے خلاف بھی پولس اورسسٹم حسبِ روایت کوئی کارروائی نہیں کرے گا۔

مودی کے دل کی کسک بھی محض زبانی ہی تھی اور گئورکشکوں کو دئیے جانے والا مشورہ بھی لفظی خانہ پری کے سوا کچھ نہیں تھا۔ اگر وزیر اعظم واقعی دن بدن بڑھتی قتل پر آمادہ اس بھیڑ پر لگا م کسنے کے تئیں ایماندار ہوتے تو ان کے خلاف عملی کارروائی کرنے کا حکم دیتے۔ مودی نے بھی ہمدردی کا جو بیان دیا وہ اس احتجاج کے دباؤ میں دیا جو ’ناٹ ان مائی نیم ‘ کے عنوان سے صبا دیوان نامی سماجی کارکن نے شروع کررکھا ہے۔

مسلمانوں کے پے در پے قتل سے تنگ آکر اور ملک میں اوجِ کمال کو چھوتی فرقہ پرستی کے مدنظر صبا دیوان نے آن لائن ’ناٹ ان مائی نیم‘ کی مہم شروع کی جس کا مقصد اس بھیڑ کے تشدد کے خلاف آواز اٹھانا اور مذہب کے نام پر نفرت کی سیاست اور قتل و خون کا بازار گرم رکھنے کے خلاف احتجاج کرنا تھا۔ اس مہم کے تحت دہلی کے جنتر منتر پر بھی مظاہرہ ہوا۔ مایوسی کی چلچلاتی دھوپ میں تپتی زمین پر یہ احتجاج کسی سائے دار درخت کی طرح لگتے ہیں۔ جن سے   یہ امید بندھتی ہے کہ سماج اب بھی ایسے لوگ ہیں جو اس ناانصافی اور قتل و غارت کے خلاف ہیں اور جو ان کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت رکھتے ہیں۔ جومسلمانوں کے ساتھ ہونے والی اس ناانصافی سے اتفاق نہیں رکھتے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔