حجاب کی فرضیت پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

                دین کے کچھ احکام منصوص ہیں ، یعنی ان کا ذکر قرآن مجید اور صحیح احادیث میں صراحت سے اور تاکیدی اسلوب میں کیا گیا ہے، جب کہ بعض دوسرے احکام صریح نہیں ہیں۔ مفسرین، محدثین اور فقہاء نے مختلف قواعد و ضوابط کی روشنی میں ان کا استنباط کیا ہے۔ جو احکام منصوص ہیں ان میں پوری امت میں کسی کو اختلاف نہیں ہے۔ تمام مسلمان ان کو مانتے ہیں ، چاہے ایمان کی کم زوری اور نفس کے غلبے کی وجہ سے ان پر عمل پیرانہ ہوں۔ جو احکام منصوص نہیں ہیں اور ان کا فقہاء نے استنباط کیا ہے، ان میں بسا اوقات ان کے درمیان اختلافات پائے جاتے ہیں۔ یہ اختلافات حق اور باطل یا صحیح اور غلط کی نوعیت کے نہیں ہیں ، بلکہ ان کی حیثیت صرف افضل اور غیر افضل یا بہتر اور کم تر کی ہوتی ہے۔

                مثال کے طور پر مسلمانوں پر روزانہ پانچ وقت کی نمازیں فرض ہیں۔ اس میں پوری امت کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ فرض نمازوں میں فجر کی دو رکعتیں ، مغرب کی تین رکعتیں اور ظہر، عصر اور عشاء کی چار رکعتیں ہیں۔ اس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے۔ ظہر اور عصر کی با جماعت نمازوں میں امام قرأت سرّی طور پر اور فجر کی دو رکعت اور مغرب و عشاء کی ابتدائی دو رکعتوں میں جہری طور پر کرتا ہے۔ اس میں بھی ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے، البتہ با جماعت نمازوں میں مقتدی سورۂ فاتحہ پڑھیں گے یا خاموش رہیں گے، اس میں اختلاف ہے۔ کوئی فقیہ امام کی قرأت کو مقتدیوں کے لیے کافی سمجھتا ہے، دوسرا سب کے لیے اس کی قرأت کو لازم قرار دیتا ہے۔

                ایک دوسری مثال طلاق کی ہے۔ پوری امت کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو طلاق دے تو وہ واقع ہوجائے گی۔ اختلاف اس میں ہے کہ اگر کوئی شخص ایک مجلس میں ایک سے زائد طلاق دے تو کتنی طلاقیں واقع ہوں گی؟ چاروں اماموں (ابو حنیفہ، مالک، شافعی اور احمد رحمہم اللہ)کے نزدیک آدمی جتنی طلاقیں دے گا، اتنی واقع ہوجائیں گی۔ اگر کوئی شخص ایک ساتھ تین طلاق دے دے تو تینوں ہوجائیں گی اور بیوی سے رشتہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گا۔ جب کہ اہلِ حدیث مسلک کے مطابق اگر کوئی شخص ایک مجلس میں ایک سے زیادہ طلاقیں دے تو ایک ہی طلاق واقع ہوگی اور عدت کے اندر اسے رجوع کا حق حاصل رہے گا اور عدّت گزرنے کے بعد بھی دونوں کا نکاح جائز ہوگا۔

                اس تفصیل کی روشنی میں حجاب کے مسئلے کو بہ خوبی سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ حجاب کے سلسلے میں مسلم علماء کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض حجاب کو ضروری قرار دیتے ہیں ، جب کہ دوسرے علماء اس کو اختیاری اور غیر لازمی سمجھتے ہیں۔ اس لیے دونوں آراء میں سے کسی کو بھی اختیار کیا جا سکتا ہے۔ یہ غلط فہمی اسلام کے تصورِ حجاب کو صحیح طریقے سے نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔ حجاب کے کچھ احکام قطعی اور صریح ہیں۔ ان کی فرضیت پر پوری امت کا اتفاق ہے، ان میں کسی کا اختلاف نہیں ہے، جب کہ اس کی صرف ایک شق پر علماء کے درمیان اختلاف ہے۔ اس اختلاف کو اسی حد تک رکھنا چاہیے اور اس کی آڑ میں پورے مسئلۂ حجاب کو اختلافی کہہ کر غیر لازمی اور اختیاری قرار دینا درست نہیں ہے۔

                اسلام سماج کی پاکیزگی قائم رکھنے کے لیے مسلمان مردوں اور عورتوں کے درمیان اختلاط کو سخت ناپسند کرتا ہے۔ وہ انھیں اپنے جسم کے ان تمام حصوں کو چھپانے کا حکم دیتا ہے، جن میں صنفی کشش پائی جاتی ہے۔ اس نے مردوں اور عورتوں ، دونوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور نظر کے فتنے سے محفوظ رہیں۔ (النور:۳۰۔ ۳۱) دوسروں کے گھروں میں اجازت لے کر داخل ہوں۔ (النور:۲۷)اس نے خاص طور پرعورتوں کو حکم دیا ہے کہ وہ گھر سے باہر نکلیں تو اپنے اوپر چادر کے پلّو لٹکا لیا کریں۔ (الاحزاب:۵۹) تاکہ ان کا پورا جسم چھپ جائے۔ ان کی چال ایسی ہو کہ پازیب کی جھنکار دوسروں کو ان کی طرف متوجہ نہ کرے۔ (النور: ۳۱) وہ اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کا آنچل ڈالے رہیں۔ (النور:۳۱) وہ اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں ، سوائے اس کے جو خود ظاہر ہوجائے۔ (النور: ۳۱) قرآن مجید کے ان احکام پر تمام مسلم علماء کا اتفاق ہے۔ ان میں سے کسی جز پر بھی ان کے درمیان اختلاف نہیں ہے۔ سب مسلمان ان احکام کو لازمی اور واجبی سمجھتے ہیں ، خواہ ان پر عمل کے سلسلے میں وہ کوتاہ ہوں۔

                حجاب کے سلسلے میں ان احکام قرآنی میں سے صرف ایک جزئیہ پر مسلم علماء کے درمیان اختلاف ہے، وہ یہ کہ قرآن کے حکم ’عورتیں اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں ، سوائے اس کے جو خود بہ خود ظاہر ہوجائے‘ سے کیا مراد ہے؟ یہ اختلاف صحابہ و تابعین کے زمانے میں بھی تھا، جو آج تک چلا آرہا ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ اس سے مراد ہاتھ (کلائیوں تک) اور چہرہ ہے کہ اسے چھپانا ضروری نہیں اور بعض کے نزدیک اس سے مراد ظاہری کپڑے ہیں کہ ان کا چھپانا ممکن نہیں ، ان کے نزدیک مسلمان عورت کا اجنبی مردوں سے اپنا ہاتھ اور چہرہ چھپانا بھی ضروری ہے۔

                اس تفصیل سے واضح ہوجاتا ہے کہ حجاب کو ایک اختلافی مسئلہ بنا کر پیش کرنا درست نہیں۔ حجاب کے بارے میں قرآن مجید میں جتنے احکام ہیں ، سب پر پوری امت کا اتفاق ہے، صرف چہرہ اور ہاتھ کے بارے میں دو رائیں ہیں ، ان میں سے کسی پر عمل کیا جا سکتا ہے، لیکن حجاب کے بارے میں باقی تمام احکام قرآنی لازمی اور غیر اختیاری ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔